جنید جمشید خدا رحمت کند ایں عاشقاں۔۔۔۔۔

پی ٹی وی اور ریڈیو سے یہ ملی نغمہ دن میں کئی کئی بار نشر ہوتا تھا۔

پاپ سنگر روحیل حیات اور نصرت حسن نے ان کی صلاحیت کو پرکھا اور انہیں وائٹل سائنز گروپ میں لے گئے۔ فوٹو : فائل

KARACHI:
1987 میں جب ان کا البم وائٹل سائنز ون (Vital Signs 1) ریلیز ہوا تو راتوں رات ان کا نام ملک بھر کی فضاؤں میں گونجنے لگا اور چند ہی دنوں میں نثار ناسک کا لکھا ہوا ملی نغمہ ''دل دل پاکستان'' ان کی مدھر آواز میں بچے بچے کی زبان پر مچلنے لگا۔ یہ نغمہ شعیب منصور کے پی ٹی وی میوزک سٹوڈیو میں ریکارڈ کیا گیا تھا۔ پی ٹی وی اور ریڈیو سے یہ ملی نغمہ دن میں کئی کئی بار نشر ہوتا تھا۔

ان دنوں نجی چینل اور سی ڈیز ابھی مارکیٹ نہیں ہوئی تھیں، لوگ کیسٹیں خرید خرید کر گھروں میں، اپنی کاروں میں، مسافر بسوں میں اور کاروں میں یہ نغمہ سنا کرتے اور خود بھی گانے اور گنگنانے کی کوشش کیا کرتے۔ اس نغمے نے صرف جنید جمشید ہی کو شہرت نہیں دی بل کہ اس نے پاکستان کی راک میوزک صنعت کو بھی بے تحاشا فروغ دیا لیکن۔۔۔۔ جیسے موسیقی کی دنیا میں ان کی ''آمد'' حیرت انگیز تھی، اب اسی طرح اس سے ان کی ''رفت'' نے بھی دنیا کو حیران کر دیا۔ اچانک ان کی قلبِ ماہئیت ہوئی اور وہ گلیمر کی دنیا سے نکل گئے۔

پھر کچھ عرصے بعد لوگوں نے انہیں ایک خوب صورت ریش کے ساتھ قمیص شلوار میں ملبوس دیکھا۔ وہ سر ڈھانپنے لگے اور تسبیح بدست ہو گئے۔ یہ 2004 کا برس تھا۔ وہ ٹی وی پر نشیدیں پڑھنے لگے۔ 2005 میں ''جلوۂ جاناں'' کے نام سے ان کا البم ریلیز ہوا اور یہ سلسلہ ان کے البم ''نورالہدیٰ'' تک جاری رہا، جو 2013 میں جاری کیا گیا۔ پھر 7 دسمبر 2016 کو وہ ایک بار پھر اپنے مداحوں کو حیران کر گئے۔ وہ اور ان کی اہلیہ محترمہ اسی طیارے کے مسافر تھے، جو انہیں چترال سے لے کر چلا تھا۔ بظاہر ان کی منزل اسلام آباد تھی لیکن حقیقی منزلوں کا تعین کرنے والے نے ان کو اپنے پاس بلا لیا۔


جنید جمشید 3 ستمبر 1964 کو کراچی میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد جمشید اکبر پاک فضائیہ میں کرنل تھے۔ جنید دراصل ائیرفورس ہی میں پائلٹ بننا چاہتے تھے لیکن نظر کی کم زوری کی بناء پر کامیاب نہ ہو پائے۔ اس ناکامی کے بعد انہوں نے لاہور کی یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی میں داخلہ لے کر بیچلر آف سائنس کی ڈگری مکینیکل انجینئرنگ میں حاصل کی تاہم ایئرفورس میں سویلین کنٹریکٹر کے طور پر کام کرنے لگے اور اسی دوران ایروناٹیکل انجینئرنگ میں بھی داخل ہوئے۔

یونیورسٹی کے زمانے میں وہ کیمپس کے پروگراموں میں گایا بھی کرتے تھے کہ 1983 میں پاپ سنگر روحیل حیات اور نصرت حسن نے ان کی صلاحیت کو پرکھا اور انہیں وائٹل سائنز گروپ میں لے گئے۔ جنید ایک بار مالی پریشانیوں کا شکار بھی ہوئے۔ اس موقع پر شعیب منصور ان کی مدد کو پہنچے اور انہیں ٹی وی شو گلز اینڈ کائز Gulls & Guys میں رول دیا۔ 2007 میں ان کا وہ انٹرویو ایک میگزین میں شائع ہوا، جس میں انہوں نے موسیقی کو حرام قرار دیتے ہوئے اس سے کنارہ کشی کا اعلان کیا اور کہا کہ اب وہ داڑھی رکھیں گے اور متشرع زندگی گزاریں گے۔ ان کے اس فیصلے نے ایک بار پھر لوگوں کو حیران کر دیا کہ وہ ''مذہبی دانشور'' کہلانے لگے اور انہوں نے دین کی تبلیغ شروع کر دی۔

شعیب منصور نے فلم ''خدا کے لیے'' کا سکرپٹ لکھا تو اس میں جنید کو لیڈنگ رول کی پیشکش کی۔ یہ سکرپٹ انہوں نے جنید جمشید ہی کے کردار سے متاثر ہو کر لکھا تھا تاہم جنید وعدے کے باوجود اس فلم میں کام نہ کر سکے۔ بعد میں انہوں نے ایک بوتیک بھی شروع کی جس کی شاخیں پاکستان کے متعدد شہروں میں کامیابی سے چل رہی ہیں۔ اس بوتیک کا نام انہوں نے 'J' رکھا ہے۔

یاد رہے کہ جنید جمشید کا نام دنیا کے 500 بااثر ترین مسلم افراد میں شامل ہے۔ انہیں ان کی کارکردگی پر صدر پاکستان کی طرف سے تمغۂ امتیاز بھی پیش کیا گیا تھا۔ وہ آج ہم میں نہیں رہے لیکن ان کی آواز ہمارے درمیان موجود ہے، جو اہل ذوق کی سماعتوں کو تادیر مہکاتی رہے گی۔ خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را۔
Load Next Story