بلاول سے ملاقات سندھ کارڈ اور نواز شریف

28 سالہ نوجوان کو کسی پل بھی اکیلا نہیں چھوڑنا چاہیے ورنہ یہ اپنے اور پارٹی دونوں کیلیے خطرناک ثابت ہوسکتا ہے

عمران خان اپنی پے درپے سیاسی اور ’’عائلی‘‘ ناکامیوں کے سبب وہ پہلے والی کشش کھو بیٹھے ہیں۔ فوٹو : فائل

MIRAMSHAH/PESHAWAR/ISLAMABAD:
اس میں شک نہیں کہ بلاول بھٹو زرداری دن میں خواب دیکھ رہا ہے اور بڑے تواتر کے ساتھ دیکھتا چلا جا رہا ہے مگر ہم نے اس کی باتوں میں خطرے کی ایک موہوم سی گھنٹی بھی سنی ہے۔ گزشتہ شب ایک دلچسپ مقابلے کے بعد ہمیں محسوس ہوا کہ اگر کبھی اپنا ٹی وی شو اردو کی بجائے انگریزی میں کرنا پڑا تو کاسٹنگ کرتے وقت ہم پہلی گزارش بلاول سے ہی کریں گے کہ اگر آپ کو آکسفورڈ کا پڑھا ہوا انگریزی میڈیم ہنی البیلا دیکھنا ہو تو اس نوجوان سے ضرور ملیں یہ آپ کی طبیعت خوش کردے گا۔ یہ ہنر اس کے نانا میں توخیر کُوٹ کُوٹ کر بھرا تھا مگر بی بی شہید بھی اعلیٰ پائے کی ویلایتی جُگت کرنے میں خاصی ماہر تھیں۔

ہم نے اس مختصر سی ملاقات میں بلاول کے اندر ذہانت کی رمک بھی دیکھی ہے اور مطالعے کی بھی مگر ایک پریشان کن بات بڑی شدت کے ساتھ یہ بھی محسوس کی ہے کہ اس 28 سالہ نوجوان کو کسی پل بھی اکیلا نہیں چھوڑنا چاہیے ورنہ یہ اپنے اور پارٹی دونوں کیلیے خطرناک ثابت ہوسکتا ہے جس طرح ہنی البیلا ، ناصر چنیوٹی اور الطاف حسین کو زیادہ دیر اکیلا نہیں چھوڑا جاسکتا بالکل اسی طرح بلاول کو بھی سیاست کے سن بلوغت تک پہنچنے سے پہلے اکیلے نہیں چھوڑا جاسکتا۔ چنانچہ اسے ہمہ وقت قمر زمان کائرہ اور شیری رحمن جیسے ہینڈلرز کی ضرورت ہے۔ گو کہ اس کے والد محترم کی خواہش تو شاید یہ ہو کہ بیٹے کی سیاسی و اقتصادی نگہداشت رحمن ملک، شرجیل میمن اور ڈاکٹر عاصم کو کرنی چاہیے مگر بلاول کا اپنا میلان شاید دوسری جانب ہے۔

نوجوان کا سیاسی لائحہ عمل خاصا واضح ہے یعنی اب نواز شریف کے ساتھ براہ راست تصادم کی پالیسی اپنائی جاسکتی ہے اور گزشتہ 2 ہفتوں کی سیاسی بیان بازی سے اس خیال کو مزید تقویت ملتی ہے۔ یہ بلاول کی خوش بختی ہے کہ اسے کائرہ جیسا سیاسی اتالیق عین اس وقت نصیب ہوا جب اسے اس کی اشد ضرورت تھی۔ اس لحاظ سے اگلے 3 ہفتے بہت اہم ہیں کہ اگر نواز شریف نے بلاول کے 4 مطالبات ماننے میں مزید لیت ولعل کی تو پھر واقعی دمادم مست قلندر ہوسکتا ہے۔ سیاسی علما کی اکثریت کا خیال ہے کہ پیپلزپارٹی مجموعی طور پر جس زبوں حالی کا شکار دکھائی دیتی ہے اس کے پیش نظر بلاول بھٹو زرداری نواز لیگ کیلیے محض اتنے ہی خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں جتنا کہ قبلہ شیخ رشید صاحب سلمہ! تاہم ہماری ذاتی سوچ قدرے مختلف ہے۔


عمران خان اپنی پے درپے سیاسی اور ''عائلی'' ناکامیوں کے سبب وہ پہلے والی کشش کھو بیٹھے ہیں۔ اس لیے بلاول اپنی پاٹ دار آواز کے ساتھ ٹی وی کیمروں کے آگے بیٹھ کر نواز لیگ کی خوب خبرگیری کرسکتا ہے اور ہمارے اپنے اندازے کے مطابق وہ یہ نیک کام27 دسمبر سے شروع کرنے والا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہوگا کہ کیا نواز شریف پاناما کی بھینٹ چڑھتے ہیں یا ہر صورت یہ معاملہ بھی ہضم کر جائیں گے۔

موصوف اور ان کے خاندان کی قوت ہاضمہ ہے تو قابل رشک اور کسی طرح بھی آصف علی زرداری سے کم نہیں مگر اس مرتبہ آپ پھنسے خوب ہیں۔ چنانچہ عدالت سے مقدمہ جیتیں یا ہاریں ہر دو صورتوں میں رسوائی اور جگ ہنسائی آپ کا مقدر نظر آتی ہے۔ ایسے میں آپ کو چومکھی لڑنے کیلیے تیار رہنا پڑے گا۔ ایک طرف سے عمران خان اپنی بچی کُچھی توانائی کے ساتھ حملہ آور ہو گا۔ دوسری طرف سے بلاول، تیسری طرف سے ماڈل ٹائون کیس اور چوتھی طرف سے اسٹیبلشمنٹ جس کے ساتھ آپ نے ایک سے زائد پنگے لے رکھے ہیں۔ آپ یقین کیجیے، اگر آپ اب بھی بچ نکلے تو پھر اس کے پیچھے آپ کے مقدر ہیں، مودی نہیں کہ اس کی بارڈر پار حرکتیں آپ کو وقتی سنبھالا تو دے سکتی ہیں بچا ہر گز نہیں سکتیں۔

جہاں تک اسٹیبلشمنٹ کا تعلق ہے، تو وہ پیپلزپارٹی کے حوالے سے تو ہتھ ہولا رکھنے پر مجبور ہوسکتی ہے، آپ کے حوالے سے بالکل نہیں۔ پیپلزپارٹی کا معاملہ آپ سے مختلف اس لیے ہے کہ سندھ کارڈ جتنا موثر آج ہے شاید پہلے کبھی نہ تھا۔ اسٹیبلشمنٹ اگر چاہے بھی تو آپ کے ہوتے ہوئے زرداری کی کرپشن پر ہاتھ نہیں ڈال سکتی اور خود فوج تن تنہا یہ سب کرنے سے تو بالکل ہی قاصر ہے کہ بعض شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ بھارتی خفیہ ایجنسی کی حتی الوسع کوشش ہے کہ فوج جھلاہٹ کا مظاہرہ کرتے ہوئے براہ راست ایکشن کے ذریعے ہمارے ہاں مثبت سول حکومتوں کو فارغ کرکے سندھ اور بلوچستان کے کرپٹ اور سازشی عناصر کو آزادی کیلئے اقوام متحدہ کا دروازہ کھٹکھٹانے کا جواز مل سکے۔

اس عمل کا سب سے بڑا نقصان سی پیک کو ہوسکتا ہے، تاہم فوج کے تھنک ٹینک نے ایکشن نہ لیکر جہاں بھارتی امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے وہاں کچھ دیر کیلیے زرداری، ڈاکٹر عاصم، ایان علی اور ان سے ملتی جلتی دیگر مخلوق کو بھی سکھی کردیا ہے لیکن یاد رکھنے کی بات یہ کہ کچھ دیر کا مطلب کچھ دیر ہی ہے۔ آپ سب بھاگ تو سکتے ہیں مگر چھپ واقعی نہیں سکتے۔
البتہ اس ساری صورتحال کا نواز شریف کو بظاہر کوئی فائدہ ہوتا دکھائی نہیں دیتا کیونکہ یہ سہولت فقط سندھ کارڈ والوں کو میسر ہے، آپ کو نہیں ہیں جی ؟؟
Load Next Story