پاکستانی لیڈروں کے خواص

پاکستان کے قیام کو 70برس گزرگئے، مگراب تک ہم ایک قوم نہ بن سکے

anisbaqar@hotmail.com

پاکستان کے قیام کو 70برس گزرگئے، مگراب تک ہم ایک قوم نہ بن سکے۔اس میں دخل یہاں کے سیاستدانوں کا ہے، ابتدا کے چند لیڈروں نے پاکستان کو مضبوط کرنے اور اس کی بنیادوں کو مستحکم کرنے میں گزارے۔ بلکہ یہ کہیے کہ وزیراعظم فیروزخان نون تک یہ صورت رہی، جنھوں نے گوادر خرید کر پاکستان کو انمول تحفہ دیا، جس سے پاکستان کی مقروض معیشت کو سنبھلنے کا موقع ملے گا۔ امریکا نے اپنے ڈالرکی زنجیروں سے پاکستان کو دو ارب ڈالر میں جکڑ رکھا ہے جب کہ گھما پھرا کے ایک ارب کی واپسی ہوجاتی ہے۔

محض ایک ارب کی امداد اور قرضوں کی کھیپ پاکستان کا مقدر بنی۔ یہ عوامی جمہوریہ چین کی حکمت عملی تھی کہ رفتہ رفتہ پاکستان کی معیشت کو سہارا ملنے لگا۔ جوں جوں امریکا کے اتحادی کمزور ہوتے گئے، پاکستان کے قدم مضبوط ہوتے گئے اور اب ایک وقت آگیا کہ چین کے سہارے روس نے بھی پاکستان کے ساتھ فوجی مشقیں شروع کردیں اور روس سے فوجی سازوسامان کی خرید شروع ہوگئی۔

تاریخ میں پہلی بار روسی ہیلی کاپٹر پاکستان کی فوجی زینت بنے مگر تعجب ہے کہ یہ عمل پاکستان کی عسکری قیادت کی جانب سے کیا گیا۔ افسوس کا مقام ہے کہ پاکستان کی خریداری پر امریکا کا رویہ غیر کاروباری رہا وہ خریداری کے بعد اسپیئر پارٹس پر عملدرآمد کرنے میں سیاست کو بیچ میں لاتا ہے جیساکہ ایف سولہ F-16 کے ساتھ کیا جاتا رہا۔ مگر پاکستان کے سیاسی لیڈروں کا جھکاؤ ہمیشہ امریکا کی جانب رہا۔ مشرق وسطیٰ کی حالیہ روس امریکا کی پراکسی وار جو شام میں لڑی جاتی رہی ایک وقت درمیان میں ایسا بھی آیا کہ پاکستان سے جانباز جانے کو تھے مگر عالمی دباؤ اور عسکری حکمت عملی کی وجہ سے پاکستان ترکی بننے سے محفوظ رہا۔ جیساکہ ترک صدر کو روس جانا پڑا۔ حلب کے 85 فیصد علاقے پر شامی فوج کا قبضہ ہوچکا ہے اوراب آخری ڈیل امریکا اور روس کی ہونے کو ہے، کیونکہ امریکا چاہتا ہے کہ سعودی عرب کے حمایت یافتہ حلب سے جان بچا کر نکل جائیں۔

پاکستان کے سیاسی لیڈر بھی مجموعی طور پر اسی خیال کے ہیں لیکن کھل کر پاکستان نے اپنا موقف دنیا میں پیش نہیں کیا اور نہ ہی یمن کی جنگ میں نہ پاکستانی عسکری قوت نے اور نہ ہی سیاسی قوت نے کھل کر سعودی اتحاد کی حمایت کی لیکن حلب کی جنگ کا خاتمہ ہونے کے ساتھ ہی یمن کا محاذ گرم ہوجائے گا اور حزب اللہ اور ایران اس محاذ پر سرگرم ہوجائیں گے یہاں بھی سیاسی نمایندوں کو عسکری دانشور بچائیں گے کیونکہ پاکستان کے سیاسی لیڈر اپنی اصل فیلڈ پر توجہ نہیں دیتے بلکہ سیاست ان کے لیے زر کثیر کمانے کا ذریعہ ہے۔ ان کا سارے کا سارا دھیان اپنی کاروباری مصروفیات پر توجہ دینا ہے جب کہ عالمی منظر نامے میں بعض اوقات ایسے مواقعے آجاتے ہیں کہ انسان کو ایک گھڑی کی فرصت نہیں ہوتی۔


ایک زمانہ تھا جب سوویت یونین سرد جنگ کے نرغے میں تھا۔ خصوصاً 60 کی دہائی کی بات ہے کہ سوسولوف وہاں کے سیاسی دانشور تھے اور امریکا میں ہنری کسنجر تھے سیاسی پالیسی کو ترتیب دینے کے لیے حکمران ان کے بغیر کوئی قدم نہیں اٹھاتے تھے مگر افسوس پاکستان میں سیاسی مشاورت کا عمل موجود نہیں۔ یہاں ظاہری ملکی تعلقات کو دیکھ کر عمل کیا جاتا ہے اس کی مثال بھارت اور پاکستان کے تعلقات ہیں باوجود اس کے کہ بھارت اور پاکستان کے سیاسی تعلقات اچھے نہیں۔ پھر بھی پاکستان نے ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں شرکت کی اور پاکستان کے لیڈروں نے اس پر سرتاج عزیز کی شرکت کو درست قرار نہیں دیا جب کہ روسی سیاسی سفارتکار جیمز کابلوف نے اس کی تعریف کی کہ سفارتکاری کے تحت پاکستان کے عمل کو دنیا میں عزت کی نظر سے دیکھا گیا کہ پاکستان امن کو اہمیت دیتا ہے۔

لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں سفارتکاری کے عمل پر غوروفکر سے کام نہیں لیا جاتا اور نہ اب پاکستان میں سیاسی عمل کو اہمیت دی جاتی ہے ایک زمانہ تھا کہ اسٹوڈنٹس موومنٹ ہوا کرتی تھی اور بہت سے لوگ اسی دور سے سیاسی عمل سے منسلک ہوجاتے تھے۔ شیخ رشید احمد، پیپلز پارٹی کے وقار مہدی اور شہلا رضا صاحبہ بھی تعلیمی دور سے سیاسی عمل سے منسلک رہی ہیں اور ہر شخص اپنی استعداد کے مطابق سیاست کر رہا ہے مگر کسی کی عیب جوئی نہیں، ملکی قیادت پر جو لوگ قابض ہیں وہ اپنی صلاحیت کی بنیاد پر نہیں بلکہ اپنے باپ دادا کی امارت کی بنیاد پر سیاست کر رہے ہیں اور ان کا ہاتھ پکڑ کر لیڈری کا تاج پہنا دیا گیا ہے اور ان کے پیچھے زیادہ تجربہ کار لوگ ان کی لیڈرشپ کے تحت چل رہے ہیں۔ پاکستان کے زیادہ تر لیڈر بغیر کسی ایجنڈے اور مقصد کے سیاست کے میدان میں کود پڑے ہیں اور خود کو مستقبل کا وزیر اعظم بننے کا نعرہ لگا رہے ہیں یہ ایک الگ بات ہے کہ وزیر اعظم پاکستان ایک مقدمے میں پھنسے ہوئے ہیں۔ اب اس کا کیا انجام ہوتا ہے کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔

البتہ الیکشن کا وقت قریب تر ہے۔ اس لیے لیڈران اپنی اہمیت پر زور دے رہے ہیں۔ مگر کوئی پارٹی عوامی مطالبات پر توجہ نہیں دے رہی ہے کیا ان لیڈروں کو یہ معلوم نہیں ایک معمولی عام آدمی کی ماہانہ تنخواہ 12-14 ہزار ہے اور پہلی جماعت کے ایک مناسب اسکول کی ماہانہ فیس اس سے زیادہ ہے، کیا پاکستانی لیڈروں کو اپنی پارٹی منظم کرتے وقت یہ یاد رہا کہ عام طور پر بڑے شہروں میں 55 فیصد لوگ کرایہ دار ہیں اور زمین اس قدر مہنگی ہوچکی ہے جو عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہے گویا اس کی نسلیں کرائے پر رہیں گی۔ کیا کسی لیڈر کو یہ خیال آیا کہ وہ غریب عوام کو کرایہ کے ظلم سے بچا لے، پڑوسی ملک ایران کے سابق صدر احمدی نژاد نے پورے تہران کے کرایہ داروں کو صاحب مکان بنادیا۔ انھوں نے 25 سے 30 سال کے قرض پر فلیٹس دے دیے۔

یہاں بھی ذوالفقارعلی بھٹو کو خیال آیا تھا مگر وہ نعرہ ہی رہ گیا۔ مگر اب وہاں یوم تاسیس پر بھٹو کے نعرے نہ گونجے ہاریوں کی آواز نہ اٹھی پبلک کی وہ آواز نہ اٹھی جو کسی ہاری کی آواز ہوتی۔ یہی دوسری پارٹیوں کی بھی آواز ہے کسی پارٹی نے اپنے منشور کی تشہیر نہ کی بس ہر پارٹی کا نعرہ یہی ہے اقتدار کا حقدار میں ہوں میری وجہ سے ملک خوشحال ہوگا۔ مگر خوشحالی کے لیے لیڈر کوکیا کرنا ہوگا؟ یہ تو اس کو خود بھی معلوم نہیں۔
Load Next Story