اذان کے خلاف اسرائیلی فیصلہ
سات آٹھ عشروں سے ارضِ فلسطین اور اہلِ فلسطین پر قابض اسرائیلی یہودیوں کے مظالم مسلسل جاری ہیں
ویسے تو گزشتہ سات آٹھ عشروں سے ارضِ فلسطین اور اہلِ فلسطین پر قابض اسرائیلی یہودیوں کے مظالم مسلسل جاری ہیں لیکن اسرائیلی حکومت کا یہ تازہ ظلم سب سے سواہے۔اسرائیلی کابینہ نے مقبوضہ فلسطین اور تمام اسرائیلی علاقوں کی تمام مساجد میں لاؤڈ سپیکرپر اذان دینے پر پابندیاں لگانے کا اعلان کیا ہے۔ اِس بِل کو قانون بنانے کے لیے اسرائیلی پارلیمنٹ، کنیسٹ، میں جَلد ہی پیش کیا جانے والا ہے۔
منظوری کی صورت میں اس پابندی کا اطلاق بیت المقدس کی تمام مساجد پر بھی ہوگا۔ ممتاز اسرائیلی اخبا ر '' ہارٹز '' نے بتایا ہے کہ اسرائیل کی مشہور شدت پسند( اور مسلم دشمن )پارٹی habayit hayehudiکے ایک رکنِ پارلیمنٹ moti yogevنے یہ بِل پیش کیا تھا۔ ''لیکوڈ '' پارٹی کے کئی لوگ بھی اس کی حمائیت میں کھڑے ہو گئے۔ دلیل دی گئی کہ اذانوں کے ''شور ''سے یہودی زندگیاں ''منفی '' طور پر متاثر ہو رہی ہیں۔اسرائیلی وزیر اعظم ، نیتن یاہوبھی اذان مخالف اِس ''دلیل ''کی حمائیت کرتے ہوئے سامنے آئے ہیں۔
تمام اسرائیلی مسلمان تنظیموں نے بجا طور پر اس اقدام کے خلاف ردِ عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسے کسی طور برداشت نہیں کیا جائے گا۔ فلسطینی صدر جناب محمود عباس کے ترجمان ، نبیل ابو رودینا، نے درست کہا ہے کہ غیر قانونی یہودی بستیوں کو قانونی شکل دینے اور اذان پر پابندی لگانے جیسے اسرائیلی منصوبوں سے علاقے میں مزید تباہی پھیلے گی۔
اُنہوں نے اس عزم کا بھی اظہار کیا کہ اسرائیل کے اس ظالمانہ منصوبے کے انسداد کے لیے فلسطین عالمی برادری کی مدد بھی لے گا۔ سوال مگر یہ ہے کہ عالمی برادری نے پہلے کہاںفلسطین کو مدد فراہم کی ہے ْاسرائیل کی دست درازیوں کو کب اور کتنا روکا ہے ؟ چنانچہ اسرائیل میں بروئے کار فلسطینی مسلمانوں کے ایک تھنک ٹینک کی رکن، نسرین حداد یحییٰ، نے سُود و زیاں کی پروا ہ نہ کرتے ہوئے اذان پر پابندیاں عائد کرنے کے اس فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ...''اصل مقصد شور کم کرنا نہیں بلکہ شور پیدا کرنا ہے جس سے تمام یہودیوں اور عربوں کے درمیان تعلقات قائم کرنے کی کوششیں بھی منفی طور پر متاثر ہوں گی۔''
اسرائیلی انگریزی اخبار''یروشلم پوسٹ '' نے پیشگوئی کرتے ہوئے لکھا ہے ؛ '' فلسطین اتھارٹی میں وقف اور مذہبی امور کے وزیر، یوسف ایدیس، کا یہ بیان نظر انداز کرنا حماقت ہوگی کہ اذان پر پابندی عائد کرنے سے اسرائیل کے اندر ایک نئی جنگ کا آغاز ہوگا۔'' ایک معروف اسرائیلی تھنک ٹینک، ازرائیل ڈیموکریسی انسٹیٹیوٹ، نے بھی اسرائیلی سرکار کے اس فیصلے کی مخالفت کی ہے۔ اسرائیل نے یہ فیصلہ کرکے دراصل مذہبی آزاد ی سلب کرنے کی جسارت کی ہے۔ اسرائیل کی اٹھارہ فیصد مسلمان آبادی اس پابندی کو کبھی برداشت نہیں کرے گی۔ بیت المقدس کے مشرقی علاقے میں بسنے والی قدیمی مسلمان بستیوں اور محلّوں نے اس کے خلاف بغاوت کرنے کا اعلان بھی کیا ہے۔
اِسے بے حسی اور غیرتِ ایمانی کے منافی اقدام ہی کہا جائے گا کہ اسرائیل کے اس غاصبانہ فیصلے کے بعد بھی اسلامی ممالک کی تنظیم، او آئی سی، کی طرف سے کوئی احتجاج کیا گیا ہے نہ اس کے خلاف کوئی اجتماعی آواز ہی بلند کی گئی ہے۔ جس روز ( 15نومبر 2016ء)اسرائیل میں یہ اعلان کیا گیا کہ وہ اپنے( قابض) علاقوں میں بروئے کار تمام مساجد میں لاؤڈ سپیکرو ں پر اذان دینے پر پابندیاں عاید کر رہا ہے، اُسی روز موریطانیہ میں ''القدس سے وفاداری کا عہد ''نامی سہ روزہ کانفرنس کا اختتام ہوا تھالیکن حیرت خیز بات یہ ہے کہ اسرایئل کے اس ظالمانہ فیصلے کے خلاف کوئی آواز بلند ہوئی نہ واضح الفاظ میں اس کی مذمت کی گئی۔ موریطانیہ ، افریقہ کا ممتاز اسلامی ملک ہے۔
اس کے دارالحکومت، نواکشوط، میں ''القدس سے وفاداری کا عہد ''کے زیرِ عنوان کا نفرنس کا انعقاد ہوا جس میں سینیگال، مالی، العاج، بورکینا فاسو، ٹوگو، بنین، گنی بساؤ، گنی کوناکری، نائیجیریا، کیمرون اور گیمبیا کے وفود نے شرکت کی۔ ''فلسطین نیشنل فورم ''کے چیئرمین محمد محمود ولدات نے موریطانیہ اور دیگر وفود کا فلسطین، فلسطینی عوام اور بیت المقدس کے تحفظ کے لیے اپنی حمائیت و اعانت کا شکریہ ادا کیا۔ کانفرنس کے اختتام پر متفقہ اعلامئے میں جہاںیہ اعلان کیا گیا کہ فلسطین کی آزادی اور بیت المقدس کو آزاد فلسطینی ریاست کا دارالحکومت بنانے کی مساعی کو تیز تر کیا جائے گا ، وہاں اسرائیل میں سپیکر پر اذان دینے کی ممانعت کی مذمت میں سرے سے کوئی بات ہی نہ کی گئی۔ شک کا فائدہ دیتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ ممکن ہے جاری کردہ مذکورہ اعلامیئے کے بعد اسرائیل کی طرف سے یہ اعلان سامنے آیا ہو لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ اس کے بعد بھی اس حوالے سے کوئی مذمتی بیان یا اعلان منصہ شہود پر نہ آسکا ۔
یہ فیصلہ واضح طور پر شعائرِ اسلام پر صہیونی نسل پرستوں کا سنگین حملہ ہے۔ اسرائیل کی ہمیشہ یہ کوشش اور خواہش رہی ہے کہ لاؤڈ سپیکر پر اذان کو ممنوع قرار دیا جائے لیکن اس خواہش کوکھل کر قانون بنانے کی کبھی جرات نہ ہو سکی تھی۔ اس سلسلے کی پہلی باقاعدہ کوشش پانچ سال قبل، 2011ء میں ، سامنے آئی تھی لیکن اسے زیادہ پزیرائی نہ مل سکی ۔ برطانوی اخبار ''ٹیلی گراف '' نے لکھا ہے کہ پانچ سال پہلے حالات قطعی مختلف تھے۔دو سال قبل، اکتوبر 2014ء میں بھی ایسی ہی مذموم کوشش پھر کی گئی تھی ۔
اُس وقت بھی اسرائیلی پارلیمنٹ میں موجود ایک کٹر اور شدت پسند یہودی اور قوم پرستوں کی پارٹی (yisrael beiteinu)کے رکن ، رابرٹ ایلا توف، نے اس پابندی کا بِل پیش کیا تھا۔ رابرٹ ایلا توف کو اس شیطانی اور مفسدانہ کام میں اسرائیلی وزیرِ خارجہ، لبرمین، کی زبردست حمائیت حاصل تھی لیکن وہ اس جنونی کوشش میں کامیاب نہ ہو سکے تھے۔اس کا مطلب ہے کہ اسرائیلی یہودیوں کے قلب و ذہن میں اذان کے خلاف خبثِ باطن کی کھچڑی برسوں سے پکتی چلی آ رہی ہے جسے اب باقاعدہ ظہور میں لایا گیا ہے۔ حیرانی کی بات کہ یہودیوں نے مذہبی آزادیوں کے نام پر ہی فلسطین پر قبضہ جما کر اسرائیل بنایا تھا اور اب وہی مقتدر اسرائیلی یہودی ، مسلمانوں کی مذہبی آزادیوں پر حملہ آور ہو رہے ہیں۔ نہائیت ڈھٹائی سے ان اسرائیلی یہودیوںنے کہا ہے : '' مذہبی آزادی کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ کسی کو ( اشارہ مسلمانوں کی طرف ہے) یہ اجازت بھی مل گئی ہے کہ بِلا وجہ کان پھاڑنے والا شور مچا کر لوگوںکی نیندیں حرام کی جائیں۔'' تف ہے ان ملعونوں پر۔
اسرائیلی وزیر اعظم ، بنجمن نیتن یاہو، نے اذان پر پابندی لگانے کے حوالے سے زیرِ لب کہا ہے :'' ٹھیک ہے مذہبی آزادیاں بھی بہت اہم ہیں لیکن اسرائیلی عوام کے انسانی حقوق کو فوقیت حاصل ہے۔'' اسرائیل کے اندر کہیں کہیں یہودی با ضمیروں کی طرف سے ایسی آوازیں بھی اُٹھی ہیں جو اذان پر پابندی عائد کرنے کے اس فیصلے کی مخالفت کر رہی ہیں۔ مثال کے طور پر ayaman odeh پارٹی۔ اس کے تمام وابستگان نے بھی کہا ہے: ''اذان کی آواز کو خاموش کرانے کا اسرائیلی کابینہ کا فیصلہ مسلمانوں کے بنیادی انسانی اور مذہبی حقوق پر فی الواقعہ ڈاکہ ہے۔
مقصد یہ ثابت کرنا ہے کہ مساجد اسرائیلی عوام کے لیے مسائل کا مرکز ومحور بن گئی ہیں۔ یہ انتہائی نا مناسب ہے۔''معروف اسرائیلی کالم نگار اور ایڈیٹر، شلومی ایلڈار، بھی اس ریاستی فیصلے کی سخت مخالفت کر رہے ہیں۔ اسرائیلی حکام اس فیصلے کے خلاف احتجاجات کو یہ کہہ کر مدہم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اذان دینے پر ہر گز پابندی عائد نہیں کی جا رہی ہے ، صرف لاؤڈ سپیکر پر اذان دینے کے خلاف قانون سازی کی جا رہی ہے، آخری فیصلہ ابھی اسرائیلی پارلیمنٹ کو کرنا ہے۔
منظوری کی صورت میں اس پابندی کا اطلاق بیت المقدس کی تمام مساجد پر بھی ہوگا۔ ممتاز اسرائیلی اخبا ر '' ہارٹز '' نے بتایا ہے کہ اسرائیل کی مشہور شدت پسند( اور مسلم دشمن )پارٹی habayit hayehudiکے ایک رکنِ پارلیمنٹ moti yogevنے یہ بِل پیش کیا تھا۔ ''لیکوڈ '' پارٹی کے کئی لوگ بھی اس کی حمائیت میں کھڑے ہو گئے۔ دلیل دی گئی کہ اذانوں کے ''شور ''سے یہودی زندگیاں ''منفی '' طور پر متاثر ہو رہی ہیں۔اسرائیلی وزیر اعظم ، نیتن یاہوبھی اذان مخالف اِس ''دلیل ''کی حمائیت کرتے ہوئے سامنے آئے ہیں۔
تمام اسرائیلی مسلمان تنظیموں نے بجا طور پر اس اقدام کے خلاف ردِ عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسے کسی طور برداشت نہیں کیا جائے گا۔ فلسطینی صدر جناب محمود عباس کے ترجمان ، نبیل ابو رودینا، نے درست کہا ہے کہ غیر قانونی یہودی بستیوں کو قانونی شکل دینے اور اذان پر پابندی لگانے جیسے اسرائیلی منصوبوں سے علاقے میں مزید تباہی پھیلے گی۔
اُنہوں نے اس عزم کا بھی اظہار کیا کہ اسرائیل کے اس ظالمانہ منصوبے کے انسداد کے لیے فلسطین عالمی برادری کی مدد بھی لے گا۔ سوال مگر یہ ہے کہ عالمی برادری نے پہلے کہاںفلسطین کو مدد فراہم کی ہے ْاسرائیل کی دست درازیوں کو کب اور کتنا روکا ہے ؟ چنانچہ اسرائیل میں بروئے کار فلسطینی مسلمانوں کے ایک تھنک ٹینک کی رکن، نسرین حداد یحییٰ، نے سُود و زیاں کی پروا ہ نہ کرتے ہوئے اذان پر پابندیاں عائد کرنے کے اس فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ...''اصل مقصد شور کم کرنا نہیں بلکہ شور پیدا کرنا ہے جس سے تمام یہودیوں اور عربوں کے درمیان تعلقات قائم کرنے کی کوششیں بھی منفی طور پر متاثر ہوں گی۔''
اسرائیلی انگریزی اخبار''یروشلم پوسٹ '' نے پیشگوئی کرتے ہوئے لکھا ہے ؛ '' فلسطین اتھارٹی میں وقف اور مذہبی امور کے وزیر، یوسف ایدیس، کا یہ بیان نظر انداز کرنا حماقت ہوگی کہ اذان پر پابندی عائد کرنے سے اسرائیل کے اندر ایک نئی جنگ کا آغاز ہوگا۔'' ایک معروف اسرائیلی تھنک ٹینک، ازرائیل ڈیموکریسی انسٹیٹیوٹ، نے بھی اسرائیلی سرکار کے اس فیصلے کی مخالفت کی ہے۔ اسرائیل نے یہ فیصلہ کرکے دراصل مذہبی آزاد ی سلب کرنے کی جسارت کی ہے۔ اسرائیل کی اٹھارہ فیصد مسلمان آبادی اس پابندی کو کبھی برداشت نہیں کرے گی۔ بیت المقدس کے مشرقی علاقے میں بسنے والی قدیمی مسلمان بستیوں اور محلّوں نے اس کے خلاف بغاوت کرنے کا اعلان بھی کیا ہے۔
اِسے بے حسی اور غیرتِ ایمانی کے منافی اقدام ہی کہا جائے گا کہ اسرائیل کے اس غاصبانہ فیصلے کے بعد بھی اسلامی ممالک کی تنظیم، او آئی سی، کی طرف سے کوئی احتجاج کیا گیا ہے نہ اس کے خلاف کوئی اجتماعی آواز ہی بلند کی گئی ہے۔ جس روز ( 15نومبر 2016ء)اسرائیل میں یہ اعلان کیا گیا کہ وہ اپنے( قابض) علاقوں میں بروئے کار تمام مساجد میں لاؤڈ سپیکرو ں پر اذان دینے پر پابندیاں عاید کر رہا ہے، اُسی روز موریطانیہ میں ''القدس سے وفاداری کا عہد ''نامی سہ روزہ کانفرنس کا اختتام ہوا تھالیکن حیرت خیز بات یہ ہے کہ اسرایئل کے اس ظالمانہ فیصلے کے خلاف کوئی آواز بلند ہوئی نہ واضح الفاظ میں اس کی مذمت کی گئی۔ موریطانیہ ، افریقہ کا ممتاز اسلامی ملک ہے۔
اس کے دارالحکومت، نواکشوط، میں ''القدس سے وفاداری کا عہد ''کے زیرِ عنوان کا نفرنس کا انعقاد ہوا جس میں سینیگال، مالی، العاج، بورکینا فاسو، ٹوگو، بنین، گنی بساؤ، گنی کوناکری، نائیجیریا، کیمرون اور گیمبیا کے وفود نے شرکت کی۔ ''فلسطین نیشنل فورم ''کے چیئرمین محمد محمود ولدات نے موریطانیہ اور دیگر وفود کا فلسطین، فلسطینی عوام اور بیت المقدس کے تحفظ کے لیے اپنی حمائیت و اعانت کا شکریہ ادا کیا۔ کانفرنس کے اختتام پر متفقہ اعلامئے میں جہاںیہ اعلان کیا گیا کہ فلسطین کی آزادی اور بیت المقدس کو آزاد فلسطینی ریاست کا دارالحکومت بنانے کی مساعی کو تیز تر کیا جائے گا ، وہاں اسرائیل میں سپیکر پر اذان دینے کی ممانعت کی مذمت میں سرے سے کوئی بات ہی نہ کی گئی۔ شک کا فائدہ دیتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ ممکن ہے جاری کردہ مذکورہ اعلامیئے کے بعد اسرائیل کی طرف سے یہ اعلان سامنے آیا ہو لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ اس کے بعد بھی اس حوالے سے کوئی مذمتی بیان یا اعلان منصہ شہود پر نہ آسکا ۔
یہ فیصلہ واضح طور پر شعائرِ اسلام پر صہیونی نسل پرستوں کا سنگین حملہ ہے۔ اسرائیل کی ہمیشہ یہ کوشش اور خواہش رہی ہے کہ لاؤڈ سپیکر پر اذان کو ممنوع قرار دیا جائے لیکن اس خواہش کوکھل کر قانون بنانے کی کبھی جرات نہ ہو سکی تھی۔ اس سلسلے کی پہلی باقاعدہ کوشش پانچ سال قبل، 2011ء میں ، سامنے آئی تھی لیکن اسے زیادہ پزیرائی نہ مل سکی ۔ برطانوی اخبار ''ٹیلی گراف '' نے لکھا ہے کہ پانچ سال پہلے حالات قطعی مختلف تھے۔دو سال قبل، اکتوبر 2014ء میں بھی ایسی ہی مذموم کوشش پھر کی گئی تھی ۔
اُس وقت بھی اسرائیلی پارلیمنٹ میں موجود ایک کٹر اور شدت پسند یہودی اور قوم پرستوں کی پارٹی (yisrael beiteinu)کے رکن ، رابرٹ ایلا توف، نے اس پابندی کا بِل پیش کیا تھا۔ رابرٹ ایلا توف کو اس شیطانی اور مفسدانہ کام میں اسرائیلی وزیرِ خارجہ، لبرمین، کی زبردست حمائیت حاصل تھی لیکن وہ اس جنونی کوشش میں کامیاب نہ ہو سکے تھے۔اس کا مطلب ہے کہ اسرائیلی یہودیوں کے قلب و ذہن میں اذان کے خلاف خبثِ باطن کی کھچڑی برسوں سے پکتی چلی آ رہی ہے جسے اب باقاعدہ ظہور میں لایا گیا ہے۔ حیرانی کی بات کہ یہودیوں نے مذہبی آزادیوں کے نام پر ہی فلسطین پر قبضہ جما کر اسرائیل بنایا تھا اور اب وہی مقتدر اسرائیلی یہودی ، مسلمانوں کی مذہبی آزادیوں پر حملہ آور ہو رہے ہیں۔ نہائیت ڈھٹائی سے ان اسرائیلی یہودیوںنے کہا ہے : '' مذہبی آزادی کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ کسی کو ( اشارہ مسلمانوں کی طرف ہے) یہ اجازت بھی مل گئی ہے کہ بِلا وجہ کان پھاڑنے والا شور مچا کر لوگوںکی نیندیں حرام کی جائیں۔'' تف ہے ان ملعونوں پر۔
اسرائیلی وزیر اعظم ، بنجمن نیتن یاہو، نے اذان پر پابندی لگانے کے حوالے سے زیرِ لب کہا ہے :'' ٹھیک ہے مذہبی آزادیاں بھی بہت اہم ہیں لیکن اسرائیلی عوام کے انسانی حقوق کو فوقیت حاصل ہے۔'' اسرائیل کے اندر کہیں کہیں یہودی با ضمیروں کی طرف سے ایسی آوازیں بھی اُٹھی ہیں جو اذان پر پابندی عائد کرنے کے اس فیصلے کی مخالفت کر رہی ہیں۔ مثال کے طور پر ayaman odeh پارٹی۔ اس کے تمام وابستگان نے بھی کہا ہے: ''اذان کی آواز کو خاموش کرانے کا اسرائیلی کابینہ کا فیصلہ مسلمانوں کے بنیادی انسانی اور مذہبی حقوق پر فی الواقعہ ڈاکہ ہے۔
مقصد یہ ثابت کرنا ہے کہ مساجد اسرائیلی عوام کے لیے مسائل کا مرکز ومحور بن گئی ہیں۔ یہ انتہائی نا مناسب ہے۔''معروف اسرائیلی کالم نگار اور ایڈیٹر، شلومی ایلڈار، بھی اس ریاستی فیصلے کی سخت مخالفت کر رہے ہیں۔ اسرائیلی حکام اس فیصلے کے خلاف احتجاجات کو یہ کہہ کر مدہم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اذان دینے پر ہر گز پابندی عائد نہیں کی جا رہی ہے ، صرف لاؤڈ سپیکر پر اذان دینے کے خلاف قانون سازی کی جا رہی ہے، آخری فیصلہ ابھی اسرائیلی پارلیمنٹ کو کرنا ہے۔