عوامی خدمت اور پرتعیش حکمرانی

صدرمملکت کا عہدہ آئینی ہے اور صدرکی زیادہ سرکاری مصروفیات بھی نہیں ہیں

لاہور:
صدر پاکستان سے لے کر ہر ضلع کے ڈپٹی کمشنرکو سرکاری طور پر جو رہائش گاہیں فراہم کی گئی ہیں جنھیں دیکھ کر غیر ممالک میں تو یہ تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کہ پاکستان میں ہر ضلع سے ملک پر حکمرانی کرنے والے سیاستدان اور بیوروکریٹس عوام کے ٹیکسوں پر جو شاہانہ زندگی گزار رہے ہیں اس کا تصور تو دنیا کی سپرپاور امریکا اور ماضی میں کئی ملکوں پر حکمرانی کرنے والے انگلینڈ میں بھی نہیں کیا جاسکتا جو پاکستان کی طرح ہر جگہ کشکول پھیلانے والے ممالک نہیں بلکہ کشکول میں خیرات ڈالنے والے بڑے مہذب اور ترقیاتی یافتہ ملک ہیں۔

جن کے حکمران عوام کی خدمت کے نام پر عوام پر بادشاہوں جیسی حکمرانی نہیں کرتے۔ آزادی سے قبل جب ہندوستان پر انگریز حکمران تھے تو انھوں نے اپنے اور اپنے انگریز افسروں کی رہائش کے لیے بڑے بڑے بنگلے نما محل بنوا رکھے تھے جہاں ان کی حفاظت کے لیے بااعتماد عملہ مامور ہوتا تھا۔ بھارت کے علاوہ پاکستان کے بڑے شہروں لاہور، کراچی، پشاور،کوئٹہ میں گورنر ہاؤسز اور اسلام آباد میں ایوان صدر اور وزیر اعظم ہاؤس کا نیا محل دیکھ لیں جو انگریز دور میں نہیں بلکہ سیاسی دور میں تعمیر ہوا جس پر اربوں روپے خرچ ہوئے۔ اسلام آباد میں ملک کے دو بڑے حکمرانوں صدرمملکت اور وزیراعظم کی سرکاری رہائش گاہوں پر ماہانہ کروڑوں روپے خرچہ ہوتا ہے۔

صدرمملکت کا عہدہ آئینی ہے اور صدرکی زیادہ سرکاری مصروفیات بھی نہیں ہیں مگر انھیں رہنے کے لیے بہت بڑا محل جو ایوان صدرکہلاتا ہے دیا گیا ہے جس کے مقابلے میں امریکا کا ایوان صدر وائٹ ہاؤس کچھ بھی نہیں ہے۔ ہمارے سابق انگریز حاکم برطانیہ کے وزیراعظم کی رہائش گاہ کا موازنہ وزیراعظم پاکستان کی رہائش گاہ سے کرلیا جائے تو پاکستانی وزیراعظم کے مقابلے میں ڈاؤننگ اسٹریٹ میں ہی برطانوی وزیر اعظم کی رہائش گاہ بھی شرما جائے اور اپنے سابق غلام ملک کے حکمرانوں پر حیرت کرے جو ملک کی آنے والی نسلوں کو بھی غیر ملکی قرضے لے کر مقروض کیے بیٹھے ہیں اورخود بادشاہوں کی طرح شاہی محلوں میں رہتے ہیں۔

انگریز حکومت میں ہندوستان میں سیاست پر پابندی کے باعث سیاستدانوں کی اہمیت تھی نہ وہ اقتدار میں تھے اور برطانوی راج میں انگریز افسر ہی حکمران ہوتے تھے اور اضلاع کے سربراہ کلیکٹر کہلاتے تھے جنھوں نے اپنے علاقوں میں نہ صرف امن برقرار رکھا بلکہ عوام کو سہولیات بھی فراہم کیں جس کی وجہ سے آج بھی پاکستان میں انھیں ان کے اچھے کاموں کی وجہ سے یاد کیا جاتا ہے اور اپنے ملک کی حالت دیکھ کر بزرگ انگریزدورکی تعریفیں کرتے ہیں۔ برطانوی افسروں کی رہائش و دفاتر کے لیے برطانوی حکومت نے بڑی بڑی اور وسیع جگہیں بنائی تھیں جہاں انگریز افسر ٹھاٹ باٹ سے رہتے تھے اور ہم پر حکمرانی کیا کرتے تھے۔

قیام پاکستان کے بعد پاکستانی افسروں نے بھی خود کو عوام کا خادم سمجھنے کی بجائے انگریز افسروں کی طرح خود کو عوام کا حاکم سمجھنا شروع کردیا تھا اور جن بڑے افسروں کو انگریز افسروں کی چھوڑی گئی رہائش گاہیں اور دفاتر مل گئے تھے انھوں نے خود کو سیاستدانوں اور عوام سے برتر سمجھنا شروع کردیا تھا ۔ محل نما بنگلوں نے ان کے دماغ خراب کردیے تھے اور وہ عوام سے دور ہوگئے تھے۔ ملک میں آبادی بڑھنے کے بعد ڈویژنوں اور اضلاع میں اضافہ ہوا تو وہاں کے بڑے افسروں کو انگریز دور جیسے محل اور دفتر تو نہ ملے پھر بھی انھیں وسیع گھر، دفاتر، عملہ فراہم کیا جانے لگا۔ بیوروکریسی کے بڑوں کے ٹھاٹ باٹ سے سیاستدان بھی متاثر ہوئے اور وزیروں کو بھی بڑے بڑے گھر اور پرتعیش دفاتر کا چسکا پڑگیا اور وہ بھی زیادہ سے زیادہ سرکاری مراعات اور گاڑیوں کے عادی ہوتے گئے۔ اسلام آباد میں کہنے کو وفاقی وزیروں کے لیے منسٹر کالونی بنی ہوئی ہے جس کے محل نما گھروں میں وزرا شان و شوکت، رعب ودبدبے سے رہتے ہیں۔


صرف پنجاب میں سرکاری افسروں کے گھروں کا رقبہ 2,600 کنال ہے۔کمشنر سرگودھا کا سرکاری گھر ایک سو چارکنال ہے جو سب سے بڑی رہائشی جگہ ہے جس کی حفاظت پر 33 سرکاری ملازم تعینات ہیں۔ ایس ایس پی ساہیوال 98 کنال، ڈی سی او میانوالی 95 کنال، ڈی سی او فیصل آباد 92 کنال کے گھروں میں رہتے ہیں۔ پنجاب کے ساتھ ڈی آئی جی پولیس اور 32 ایس ایس پیز 860 کنال کے رقبے میں بنے ہوئے وسیع گھروں میں رہائش پذیر ہیں جب کہ لاہور میں گورنر ہاؤس کا رقبہ امریکی صدرکی رہائش گاہ وائٹ ہاؤس سے کہیں زیادہ ہے۔

راقم کی 1982 میں مظفر آباد میں صدر آزاد کشمیر بریگیڈیئر (ر) محمد حیات خان اور 1987 میں کوئٹہ میں وزیر اعلیٰ بلوچستان جام صاحب لسبیلہ غلام قادر سے ان کے چھوٹے دفاتر میں ملاقات ہوئی تھی اور دونوں کے سرکاری دفاتر آج کے کسی بھی ڈپٹی کمشنر کے دفاتر سے سادہ تھے۔ راقم نے کراچی میں سندھ کے عدلیہ سے ریٹائر دو گورنروں اور کوئٹہ میں اس وقت کے گورنر بلوچستان ریٹائر جنرل محمد موسیٰ سے ملاقاتوں میں سندھ اور بلوچستان کے وسیع خوبصورت اور شاندار گورنر ہاؤسز میں صحافیوں کے وفود کے ہمراہ ملاقات کی تھی اور پہلی بار وہاں رہنے والے گورنروں کے ٹھاٹ باٹ دیکھے تھے۔ بلوچستان کا گورنر ہاؤس پھر بھی پنجاب اور سندھ کے گورنر ہاؤسز سے چھوٹا تھا۔

اسلام آباد میں نئے بنے ہوئے وزیر اعظم ہاؤس کی خوبصورت و وسیع اور محل نما شاندار عمارت کو دیکھ کر کوئی غیر ملکی کیسے مانے گا کہ یہ اس وزیر اعظم کی سرکاری رہائش گاہ ہے جس کی قوم کی آنے والی نسلیں بھی غیر ملکی قرضوں کی مقروض اور غریب قوم کے منتخب وزرائے اعظم کے یہ ٹھاٹ باٹ ہیں۔ محل نما دفاتر میں رہنے والے صدور اور وزرائے اعظم کو ان سرکاری محلوں میں اپنے اقتدار تک رہنا ہوتا ہے مگر وہ وہاں رہنے کے دوران حاصل مراعات کے علاوہ مزید پرتعیش زندگی کے لیے کروڑوں روپے اس طرح خرچ کرا دیتے ہیں جیسے وہ وہاں مستقل رہنے آئے ہوں۔

سابق صدور اور وزرائے اعظم کی اپنے آبائی شہروں کے علاوہ دیگر بڑے شہروں میں اپنی نجی رہائش گاہیں ہوتی ہیں مگر اقتدار میں آکر انھوں نے اپنی نجی جگہوں کو مزید خوبصورت اور محفوظ بنوانے کے لیے جمہوری ادوار میں اربوں روپے سرکاری طور پر خرچ کرادیے ہیں جب کہ سرکاری طور پر ان نجی گھروں پر بڑی بڑی رقمیں خرچ کرانے کا کوئی بھی قانونی و اخلاقی جواز نہیں بنتا کیونکہ وہ سرکاری عمارتیں نہیں ہیں۔سندھ میں بلاول ہاؤس کی حفاظت کے لیے سندھ حکومت نے اہم سڑک بند کرکے دیوار کھڑی کرا دی تھی جو اقتدار چھوڑے جانے کے بعد اب بھی قائم ہے جس پر پی ٹی آئی کے احتجاج پر سڑک تو کھل گئی تھی مگر عدالت عالیہ سندھ کے حکم کے باوجود دیوار ختم نہیں ہوئی اور بلند و طویل دیوار کی تعمیر پر لاکھوں روپے سرکاری خرچ ہوئے تھے۔

سابق اور موجودہ وزیر اعظم اور سابق صدر آصف علی زرداری کی نجی رہائش گاہوں کی مرمت و آرائش پر عوام سے ٹیکسوں کی مد میں لیے گئے کروڑوں روپے خرچ کرائے گئے ہیں۔ بیورو کریٹس کی بڑی اور شاندار رہائش گاہوں نے سیاسی حکمرانوں کو سرکاری مال پر عیش کرنے کی ترغیب دی تو وہ کیوں پیچھے رہتے انھوں نے عارضی اقتدار میں مستقل رہنے والے سرکاری اعلیٰ افسروں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے اور اپنے عیش کے لیے عوام کے کروڑوں روپے اپنی ذاتی جگہوں پر خرچ کرا دیے۔
Load Next Story