اسوۂ حسنہعالمگیر اور دائمی نمونہ

انھوں نے بغور آپ کی زندگی کو دیکھا، پرکھا، جانچا اور تولا پھر آپؐ پر ایمان لائے


[email protected]

ISLAMABAD: ایک انسانی سیرت جو بنی آدم کے لیے نمونہ اور مثال کا کام دے اس میں چار شرائط کا پایا جانا لازمی ہے۔

(1) تاریخیت :۔ یعنی انسانِ کامل وہ ہے جس کی شہادت اور گواہی تاریخ خود پیش کرے۔ اس کی زندگی ایک افسانہ نہ ہو بلکہ ایک حقیقت ہے۔ اس کو تاریخی ہونے کا شرف حاصل ہو۔اس کی زندگی اورسیرت تواترکے ساتھ تاریخی اسناد کے معیار پر پوری اترے اور اس کا جھٹلایا جانا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہو۔

(2) کاملیت :۔ یعنی انسانِ کامل وہ ہے جس کی زندگی کے تمام حالات اور واقعات پیدائش سے لے کر موت تک نگاہوں کیسامنے ہوں،کوئی واقعہ نگاہوں سے اوجھل، صیغہ راز اور لا علمی کی تاریکی میں ڈوبا ہوا نہ ہو۔

(3) جامعیت:۔ یعنی انسانِ کامل وہ ہے جو انسانی زندگی کی مختلف حالتوں،کیفیتوں اور حیثیتوں کے لیے انسان کو جس قدر ہدایت، رہنمائی اور روشنی کی ضرورت ہے وہ سب اس کی زندگی میں مثال کے طور پر موجود ہو۔

(4) عملیت:۔ یعنی انسانِ کامل وہ ہے جو اپنے قول کا قابلِ عمل ہونا ثابت کرکے دکھائے۔اس کے ایک ہاتھ میں قول اوردوسرے ہاتھ میں عمل ہو۔ وہ صرف تصورات کا بادشاہ نہ ہو۔ نرا قولی نہ ہو بلکہ عملی انسان ہو۔ کیوںکہ باتیں تو ہر شخص ہر وقت بنانا جان سکتا ہے۔البتہ جو چیز ہر شخص ہر وقت پیش نہیں کرسکتا وہ قول کے مطابق عمل ہے۔ اس انسان کے خوشنما الفاظ کے پیچھے حسن عمل کا کوئی خوشنما نمونہ بھی ہو۔اس کی باتیں صرف کانوں کو ہی بھلی اور سہانی نہ لگتی ہوں بلکہ عملی زندگی سے بھی ان کا تعلق اور رشتہ ہو۔

جس انسانی سیرت کا عملی پہلو نہ ہو وہ دیوار پر ماردینے اور ردی کی ٹوکری میں پھینک دینے کے قابل ہے۔ اس کو 'معیاری زندگی' قابل تقلید، مثالی نمونہ' کا خطاب نہیں دیا جاسکتا۔انبیا کرام علیہم السلام اور دیگر بانیان مذاہب میں صرف ''تاریخی'' ہونے کی شان حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کو حاصل ہے۔ حضور اکرمؐ کی سیرت مبارکہ کا سب سے مستند اور صحیح ترین حصہ وہ ہے جس کا ماخذ خود قرآن مجید ہے۔ جس کے اعجاز کے سامنے کفار کی گردنیں بھی عاجزی سے جھک گئی تھیں، حضور اکرمؐ کی حیاتِ طیبہ کے تمام ضروری اجزا قبل از نبوت کی زندگی یتیمی، غریبی، تلاشِ حق، نبوت، اعلان و تبلیغ، معراج،کفارکی دشمنی، ہجرت، لڑائیاں اور اخلاقِ حمیدہ اس میں موجود ہیں۔

اس سے زیادہ معتبر تاریخی سیرت دنیا کے پردے پر کوئی موجود نہیں ہے۔ دوسرا ماخذ کتبِ احادیث، مغازی، کتبِ دلائل اورکتبِ شمائل ہیں۔ شمع رسالتؐ کے تقریباً پانچ لاکھ پروانوں کے مقدس گروہ (محدثین) نے جس طرح رسول پاکؐ کی حیات طیبہ کی حفاظت کی، وہ ساری دنیا کے لیے حیرت کا مقام ہے۔ مشہور جرمن ڈاکٹر اسپرنگ کا قول ہے ''نہ کوئی قوم دنیا میں ایسی گزری نہ آج موجود ہے جس نے مسلمانوں کی طرح اسماالرجال کے عظیم الشان فن ایجاد کیا ہو جس کی بدولت آج پانچ لاکھ افراد حیاتِ محمدؐ کا حال بیان کررہے ہیں'' حیاتِ محمدؐ پر ہر زمانے میں ہر ملک میں، ہر زبان میں جو کتابیں لکھی گئیں ان کا شمار نہیں۔ ایک شمع ہے اور ان گنت پروانوں کا ہجوم، غیر مسلموں نے آپؐ کی سیرت لکھ کر فخر محسوس کیا۔

چنانچہ مارگولس کے الفاظ میں ''نبی محمدؐ کے سوانح نگاروں کا ایک طویل سلسلہ ہے جس کا ختم ہونا ناممکن ہے لیکن اس میں جگہ پانا بھی باعثِ عزت ہے'' جان ڈیون پورٹ کے الفاظ میں ''اس میں کچھ شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ تمام مصلحین اور فاتحین میں ایک بھی ایسا نہیں ہے جس کے حالات زندگی جناب محمدؐ کے حالات زندگی سے زیادہ مفصل اور سچے ہوں'' اس طرح ''تاریخی'' کہلانے کا امتیاز صرف ذات گرامی محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کو ہی حاصل ہے۔

کوئی زندگی خواہ کسی قدر تاریخی ہو جب تک کامل نہ ہو انسانوں کے لیے نمونہ اور مثال نہیں بن سکتیں،کاملیت سے مراد ہے کہ اس کی زندگی کے تمام حالات اور واقعات ہمارے سامنے موجود ہوں اس معیار پر کوئی بانیٔ مذہب سوائے محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے پورا نہیں اترتا، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ آپؐ خاتم الانبیا ہیں۔

آپﷺ کی شخصی زندگی کے حالات، اخلاق و عادات، اعمال اورکارنامے روز روشن کی طرح تاریخ کے صفحات میں عیاں ہیں، آپ کی زندگی کا ہر لمحہ آپؐ کے زمانے کے لوگوں کے سامنے تھا اور اب تاریخ عالم کے سامنے ہے۔

پیدائش سے لے کر قفس عنصری سے طائر روح کے پرواز کرجانے تک کے تمام واقعات تاریخ میں مذکور، معلوم اور محفوظ ہیں۔آپ کی ہر حالت سے اہل تاریخ بخوبی واقف ہیں۔ دشمن بھی آپ کی زلفوں کے اسیر تھے،آپ کی کاملیت کی دلیل یہ ہے کہ دشمنوں نے آپؐ کو امین کے خطاب سے نوازا۔آپؐ پر جو ایمان لائے وہ ایک آزاد، غیور اور جذبہ حریت سے سرشار قوم کے افراد تھے ان کی لغت زندگی میں لفظ اطاعت تک نہ تھا۔ جنھوں نے تجارتی غرض سے دنیا جہاں کی خاک چھانی تھی، جن کے بال دھوپ میں سفید نہیں ہوئے تھے ایسی قوم کے افراد کو دھوکہ دینا آسان کھیل نہیں۔

انھوں نے بغور آپ کی زندگی کو دیکھا، پرکھا، جانچا اور تولا پھر آپؐ پر ایمان لائے، آپؐ کی ذات سے محبت اور وفا کا حق ادا کیا۔ آپؐ کے احکام کی اطاعت کی آپؐ کی ایک ایک ادا کا اتباع کیا۔آپؐ کے شیدائی اور جانثار بن گئے۔ کسی نے دامن نبیؐ مرتے دم تک نہیں چھوڑا کسی نے آخری دم تک وفاداری تبدیل نہیں کی۔ یہ آپ کی کاملیت کی ناقابل تردید دلیل ہے۔ آپؐ کی زندگی کے تمام واقعات مربوط حالت میں موجود ہیں، کوئی خلا نہیں، کوئی کڑی گم نہیں کوئی واقعہ زیر پردہ نہیں ،آپؐ کی زندگی کے مکمل واقعات تاریخ کی اسکرین پر چلتی پھرتی تصویروں کی مانند دیکھے جاسکتے ہیں۔

پیغمبر اسلام کی سیرت طیبہ انسانوں کے ہر طبقے اور صنف کے لیے نمونے اور مثالیں رکھتا ہے۔ بچہ جوان بوڑھا، یتیم، غریب، امیر، بادشاہ، رعایا، سپہ سالار، منتظم، استاد ، شاگرد، فاتح، جج، تاجر، باپ، شوہر، مزدور، غرض ہر طبقۂ انسانی کے لیے آپؐ کی سیرت پاک میں نصیحت اور سبق موجود ہے۔ انسان کی ہر فطری حالت اور جذباتی کیفیت کے لیے آپؐ کی سیرت میں متوازن اخلاقی رویہ موجود ہے، آپ کی سیرت مقدسہ میں نوح ؑ اور ابراہیم ؑ، موسیٰ ؑ، سلیمان ؑ اور داؤدؑ، ایوب ؑ اور یونس ؑ، یوسفؑ علیہم السلام کی زندگیوں کی جھلک اور ان کی سیرتوں کا نچوڑ، عطر اور جوہر موجود ہے۔

حضرت موسیٰ ؑ قانون لے کر آئے، حضرت داؤدؑ دعا اور مناجات لے کر آئے اور حضرت عیسیٰ ؑ زہد و اخلاق لے کر مگر محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم قانون بھی لائے، دعا و مناجات بھی اور زہد واخلاق بھی ان سب کی کتابی شکل قرآن مجید اور عملی شکل سیرت النبی صلی اﷲ علیہ وسلم ہے، آپ کی ذات انسانی کمالات اور صفات حسنہ کا کامل نمونہ تھی، آفتاب رسالت کی روشنی اور حرارت سے ہر طبقہ انسانی اپنی اپنی صلاحیت، اہلیت اور ظرف کے لحاظ سے فیض یاب ہوسکتا ہے۔

قرآن مجید دنیا کے تمام انسانوں کو دعوت عام دیتا ہے کہ اس کامل، جامع، عملی اور تاریخی انسان کی سیرت کی پیروی کرکے سلیم العقل ہونے کا ثبوت دیں کیوںکہ یہ روشنی کا ایک ایسا مینارہ ہے جو صراط مستقیم کا پتا دیتا ہے،انسانیت کی سعادت، فلاح اورہدایت کا ضمن اورکفیل ہے۔ ارشاد ربانی ہے:

ترجمہ:''بے شک تمہارے لیے اﷲ کے رسولؐ کی زندگی ایک بہترین مثال، نمونہ ہے۔'' (سورۃ الاحزاب)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں