رسولِ کریم ﷺ پیغمبرِ انقلاب
قدیم و جدید دنیا کے انقلابات کے مقابلے میں انقلاب محمدیؐ واحد انقلاب ہے
چھے صدیاں بیت چکیں اور دور عیسوی گزر چکا تھا۔ انسانیت نور نبوت اور فیضان رسالت سے ناآشنا ہوچکی تھی۔ ہر سمت جہالت اور ضلالت کے بادل برس رہے تھے۔ کفر و شرک کی برسات سے چاروں طرف تاریکی چھا چکی ہے۔ فکر و خیال، علم و اعمال کے سوتے خشک ہی نہیں، نابود ہوچکے تھے۔ لفظوں کی گرم بازاری جاری اورعقول پر پردے پڑے ہوئے تھے۔
انسانیت خود ساختہ اصنام پرستی میں مشغول تھی۔ پھر یکایک اندھیرے کی اوٹ میں ہلکورے لیتی ملگجی روشنی دکھائی دیتی ہے۔ فاران کی بے آب و گیاہ، خشک و چٹیل پہاڑوں کی اوٹ سے آفتاب عالم تاب طلوع ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ اور پھر ظلمتوں نے رخت سفر باندھا اور بت کدوں میں خاک اڑنے لگی۔ آتش کدے سرد اور توحید کے نغمے بلند ہونے لگے۔ نفرت و کدورت خزاں رسیدہ اور محبت و اخوت کے گل کھلنے اور کلیاں مسکرانے لگیں۔
چمنستان انسانیت کی قسمت جگمگا اٹھی۔ فکر و خیال کے جھرنے بہنے اور علم و اعمال کے چشمے ابل پڑے۔ کفر و ضلالت کی تاریکیوں کے تمام پردے چاک ہوگئے اور کائنات کا ہر ذرہ جھوم جھوم کر ''صل علیٰ محمدؐ'' کا ورد کرنے لگا۔ قمریوں نے مرحبا کے گیت گائے اور ملائک مسکرائے۔ محرومیوں کے در بند اور رحمت کے بادل چھا گئے۔ کرہ عالم کا ہر گوشہ، نور نبوت کی بے پایاں نورانیت سے بقعہ نور بن کے چمک اٹھا۔
قدیم و جدید دنیا بھر کے انقلابات کے مقابلے میں انقلاب محمدیؐ واحد انقلاب ہے، جو اپنے دامن میں بشر کا لہو نہیں، انسانیت کی آبرو لے کر آیا۔ انقلاب مصطفویؐ برپا ہونے سے کشتوں کے پشتے اور موت کی تاریکی نہیں چھائی، بل کہ گلے سڑے معاشرے میں حیات افروز رجحانات نے فروغ پایا۔ معاشرے میں امن، عدل و انصاف، اخوت وہم دردی، پیار و محبت، ایثار و قربانی، اطاعت اور روحانیت کی گھٹا چھا گئی۔
سرکار دوعالم ﷺ کی تعلیمات ساری کائنات کے لیے باعث ہدایت ہیں۔ زندگی کا کوئی پہلو بھی ایسا نہیں ہے، جس کے متعلق آپؐ کی روشن تعلیمات سے راہ نمائی نہ ملتی ہو۔ آج انسانی حقوق کے لیے احتجاج کیے جاتے ہیں، قراردادیں پاس ہوتی ہیں، جن پر عمل درآمد نہیں ہوتا۔ مگر سرکار دوعالمؐ نے صدیوں قبل انسانوں کے باہمی حقوق واضح طور پر بیان فرما دیے۔ آج استحصال زدہ مزدوروں کے حقوق کے لیے تحریکیں برپا ہیں، لیکن محبوب خداؐ نے سیکڑوں سال قبل مزدور کو پسینہ خشک ہونے سے قبل اس کا حق دینے کا حکم ارشاد فرمایا۔ آج ترقی یافتہ اقوام بھی سال بھر میں ایک دن والدین کے لیے ''فادر اور مدرڈے'' کے نام سے مناتی ہیں، آپؐ نے ماں کے قدموں تلے جنت رکھ دی۔
والدین کی طرف محبت کی نگاہ سے دیکھنے پر مقبول حج اور عمرے کے اجر کی نوید سنائی۔ آج مظلوم اور بے کس خواتین کے حقوق کے متعلق ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے، پھر بھی ان کا استحصال جاری ہے۔ آپؐ کی آمد کے صدقے سب سے زیادہ عزت عورتوں کو ملی۔ سرور دوجہاں ﷺ نے ذخیرہ اندوزی سے منع فرمایا، آج عالمی ساہوکار اس پر عمل کرلیں تو کبھی خوراک کا عالمی بحران پیدا نہ ہو۔ آج شہری منصوبہ بندی کا حل نئے شہر آباد کرنے میں بتایا جاتا ہے، یہ حل سب سے پہلے آپؐ نے پیش فرمایا۔ سرور کونینؐ نے شہر کے درمیان '' سوق مدینہ'' کے نام سے مارکیٹ کی بنیاد رکھی۔ ترقی یافتہ اقوام تو آج اس نکتے پر پہنچی ہیں کہ جس شہر کے درمیان مارکیٹ نہ ہو، وہ ترقی نہیں کرسکتا۔ آج عالمی مالیاتی بحران پیدا ہو رہے ہیں۔
ماہرین معاشیات اب یہ تسلیم کررہے ہیں اس کا سبب سود اور سٹہ ہے۔ آپؐ نے تو کئی صدیاں قبل بتادیا تھا کہ سود اور سٹے سے فائدہ اور نفع نہیں، نقصان ہوتا ہے۔ آج ماحولیاتی آلودگی نے دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے ۔ فضائی آلودگی کی وجہ سے مختلف گیسیں جمع ہو کر غلاف کی شکل اختیار کرچکی ہیں، کرہ ارض کا درجہ حرارت دن بدن بڑھ رہا ہے، کروڑہا انسان اس آلودگی کی وجہ سے موت کا شکار اور اس سے زیادہ موت و زندگی کی کش مکش میں مبتلا ہیں۔ اربہا انسان پینے کے صاف پانی جیسی نعمت سے محروم ہیں۔ اور اب دنیا شجرکاری کی مہم کی جانب راغب ہوئی ہے۔
آپؐ نے تو صدیوں قبل صحابہ کرامؓ کو شجرکاری کی ترغیب ہی نہیں دی بل کہ جنگ میں فتح شدہ علاقے کے درختوں کو بھی کاٹنے اور آگ لگانے سے منع فرمایا اور ٹھہرے اور بہتے ہوئے پانی میں گندگی پھیلانے سے بچنے کی تلقین فرمائی۔ آج دنیا برداشت، عدم برداشت کی بحث میں الجھی ہوئی ہے، آپؐ نے تو غصہ برداشت کرنے کی تلقین ہی نہیں فرمائی ، غصہ برداشت کرنے والے کو جنت کی بشارت سنائی۔ آپؐ نے مدینہ کے مختلف قبائل کو جمع فرما کے52دفعات پر مشتمل ''میثاق مدینہ'' نامی معاہدہ کیا۔ آج خانہ جنگی کا حل معاہدے اور مذاکرات کو سمجھا جاتا ہے۔ مدینہ میں مسجد نبویؐ میں کھلی کچہری لگتی، مظلوموں کو بلامعاوضہ انصاف فراہم کیا جاتا، اس لیے کہ جب تک عوام فوری انصاف کے لیے تڑپتے رہیں گے معاشرے میں بدامنی اور قتل و غارت کبھی ختم نہیں ہوسکتی۔
عبداﷲ کے نورنظر کی سیرت تو پڑھ کے دیکھیے، جنہیں سونے کے پہاڑوں کی پیش کش کی گئی، مگر اس نے ایک دن کھانا کھا کر شکر کرنے اور دوسرے دن فاقے سے رہ کر صبر کرنے کو ترجیح دی اور کچے مکان میں کھجور کی چھال سے بنے ہوئے بستر پر سونے کو پسند فرمایا۔ آج ہم دوسروں کے بجھے ہوئے چراغوں سے روشنی لینے کی کوشش کرتے ہیں مگر آپؐ کی آفاقی اورعالم گیر ہدایات سے راہ نمائی لینے کے بجائے، زبانی کلامی محبت کے دعوؤں پر اکتفا کرتے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ آپ ﷺ کے بتائے ہوئے روشن طریقوں اور اصولوں کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھالنے کی کوشش کریں۔ اسی میں ہماری کام یابی و کام رانی کا راز مضمر ہے۔
انسانیت خود ساختہ اصنام پرستی میں مشغول تھی۔ پھر یکایک اندھیرے کی اوٹ میں ہلکورے لیتی ملگجی روشنی دکھائی دیتی ہے۔ فاران کی بے آب و گیاہ، خشک و چٹیل پہاڑوں کی اوٹ سے آفتاب عالم تاب طلوع ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ اور پھر ظلمتوں نے رخت سفر باندھا اور بت کدوں میں خاک اڑنے لگی۔ آتش کدے سرد اور توحید کے نغمے بلند ہونے لگے۔ نفرت و کدورت خزاں رسیدہ اور محبت و اخوت کے گل کھلنے اور کلیاں مسکرانے لگیں۔
چمنستان انسانیت کی قسمت جگمگا اٹھی۔ فکر و خیال کے جھرنے بہنے اور علم و اعمال کے چشمے ابل پڑے۔ کفر و ضلالت کی تاریکیوں کے تمام پردے چاک ہوگئے اور کائنات کا ہر ذرہ جھوم جھوم کر ''صل علیٰ محمدؐ'' کا ورد کرنے لگا۔ قمریوں نے مرحبا کے گیت گائے اور ملائک مسکرائے۔ محرومیوں کے در بند اور رحمت کے بادل چھا گئے۔ کرہ عالم کا ہر گوشہ، نور نبوت کی بے پایاں نورانیت سے بقعہ نور بن کے چمک اٹھا۔
قدیم و جدید دنیا بھر کے انقلابات کے مقابلے میں انقلاب محمدیؐ واحد انقلاب ہے، جو اپنے دامن میں بشر کا لہو نہیں، انسانیت کی آبرو لے کر آیا۔ انقلاب مصطفویؐ برپا ہونے سے کشتوں کے پشتے اور موت کی تاریکی نہیں چھائی، بل کہ گلے سڑے معاشرے میں حیات افروز رجحانات نے فروغ پایا۔ معاشرے میں امن، عدل و انصاف، اخوت وہم دردی، پیار و محبت، ایثار و قربانی، اطاعت اور روحانیت کی گھٹا چھا گئی۔
سرکار دوعالم ﷺ کی تعلیمات ساری کائنات کے لیے باعث ہدایت ہیں۔ زندگی کا کوئی پہلو بھی ایسا نہیں ہے، جس کے متعلق آپؐ کی روشن تعلیمات سے راہ نمائی نہ ملتی ہو۔ آج انسانی حقوق کے لیے احتجاج کیے جاتے ہیں، قراردادیں پاس ہوتی ہیں، جن پر عمل درآمد نہیں ہوتا۔ مگر سرکار دوعالمؐ نے صدیوں قبل انسانوں کے باہمی حقوق واضح طور پر بیان فرما دیے۔ آج استحصال زدہ مزدوروں کے حقوق کے لیے تحریکیں برپا ہیں، لیکن محبوب خداؐ نے سیکڑوں سال قبل مزدور کو پسینہ خشک ہونے سے قبل اس کا حق دینے کا حکم ارشاد فرمایا۔ آج ترقی یافتہ اقوام بھی سال بھر میں ایک دن والدین کے لیے ''فادر اور مدرڈے'' کے نام سے مناتی ہیں، آپؐ نے ماں کے قدموں تلے جنت رکھ دی۔
والدین کی طرف محبت کی نگاہ سے دیکھنے پر مقبول حج اور عمرے کے اجر کی نوید سنائی۔ آج مظلوم اور بے کس خواتین کے حقوق کے متعلق ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے، پھر بھی ان کا استحصال جاری ہے۔ آپؐ کی آمد کے صدقے سب سے زیادہ عزت عورتوں کو ملی۔ سرور دوجہاں ﷺ نے ذخیرہ اندوزی سے منع فرمایا، آج عالمی ساہوکار اس پر عمل کرلیں تو کبھی خوراک کا عالمی بحران پیدا نہ ہو۔ آج شہری منصوبہ بندی کا حل نئے شہر آباد کرنے میں بتایا جاتا ہے، یہ حل سب سے پہلے آپؐ نے پیش فرمایا۔ سرور کونینؐ نے شہر کے درمیان '' سوق مدینہ'' کے نام سے مارکیٹ کی بنیاد رکھی۔ ترقی یافتہ اقوام تو آج اس نکتے پر پہنچی ہیں کہ جس شہر کے درمیان مارکیٹ نہ ہو، وہ ترقی نہیں کرسکتا۔ آج عالمی مالیاتی بحران پیدا ہو رہے ہیں۔
ماہرین معاشیات اب یہ تسلیم کررہے ہیں اس کا سبب سود اور سٹہ ہے۔ آپؐ نے تو کئی صدیاں قبل بتادیا تھا کہ سود اور سٹے سے فائدہ اور نفع نہیں، نقصان ہوتا ہے۔ آج ماحولیاتی آلودگی نے دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے ۔ فضائی آلودگی کی وجہ سے مختلف گیسیں جمع ہو کر غلاف کی شکل اختیار کرچکی ہیں، کرہ ارض کا درجہ حرارت دن بدن بڑھ رہا ہے، کروڑہا انسان اس آلودگی کی وجہ سے موت کا شکار اور اس سے زیادہ موت و زندگی کی کش مکش میں مبتلا ہیں۔ اربہا انسان پینے کے صاف پانی جیسی نعمت سے محروم ہیں۔ اور اب دنیا شجرکاری کی مہم کی جانب راغب ہوئی ہے۔
آپؐ نے تو صدیوں قبل صحابہ کرامؓ کو شجرکاری کی ترغیب ہی نہیں دی بل کہ جنگ میں فتح شدہ علاقے کے درختوں کو بھی کاٹنے اور آگ لگانے سے منع فرمایا اور ٹھہرے اور بہتے ہوئے پانی میں گندگی پھیلانے سے بچنے کی تلقین فرمائی۔ آج دنیا برداشت، عدم برداشت کی بحث میں الجھی ہوئی ہے، آپؐ نے تو غصہ برداشت کرنے کی تلقین ہی نہیں فرمائی ، غصہ برداشت کرنے والے کو جنت کی بشارت سنائی۔ آپؐ نے مدینہ کے مختلف قبائل کو جمع فرما کے52دفعات پر مشتمل ''میثاق مدینہ'' نامی معاہدہ کیا۔ آج خانہ جنگی کا حل معاہدے اور مذاکرات کو سمجھا جاتا ہے۔ مدینہ میں مسجد نبویؐ میں کھلی کچہری لگتی، مظلوموں کو بلامعاوضہ انصاف فراہم کیا جاتا، اس لیے کہ جب تک عوام فوری انصاف کے لیے تڑپتے رہیں گے معاشرے میں بدامنی اور قتل و غارت کبھی ختم نہیں ہوسکتی۔
عبداﷲ کے نورنظر کی سیرت تو پڑھ کے دیکھیے، جنہیں سونے کے پہاڑوں کی پیش کش کی گئی، مگر اس نے ایک دن کھانا کھا کر شکر کرنے اور دوسرے دن فاقے سے رہ کر صبر کرنے کو ترجیح دی اور کچے مکان میں کھجور کی چھال سے بنے ہوئے بستر پر سونے کو پسند فرمایا۔ آج ہم دوسروں کے بجھے ہوئے چراغوں سے روشنی لینے کی کوشش کرتے ہیں مگر آپؐ کی آفاقی اورعالم گیر ہدایات سے راہ نمائی لینے کے بجائے، زبانی کلامی محبت کے دعوؤں پر اکتفا کرتے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ آپ ﷺ کے بتائے ہوئے روشن طریقوں اور اصولوں کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھالنے کی کوشش کریں۔ اسی میں ہماری کام یابی و کام رانی کا راز مضمر ہے۔