ادب نگری مختصر تاریخِ ادبیات
ادبی تاریخ نگاری ایک مشکل فن ہے جس فن کا آغاز بیسویں صدی میں ہوا
مسلمانانِ پاکستان و ہند
اردو ادب
(آغاز تا بیسویں صدی)
ادبی تاریخ نگاری ایک مشکل فن ہے جس فن کا آغاز بیسویں صدی میں ہوا۔ رام بابو سکسینہ کی تاریخ ادب اردو کا شمار ابتدائی تاریخوں میں ہوتا ہے۔ اب تک سب سے طویل تاریخ ڈاکٹر جمیل جالبی نے لکھی، جس کی چار جلدیں تاحال شایع ہوئی ہیں، جو انیسویں صدی تک کے اردو ادب کا احاطہ کرتی ہے۔
برسوں پہلے پنجاب یونیورسٹی نے مسلمانانِ پاک و ہند کی ثقافتی معاشرتی اور ادبی زندگی کا مبسوط جائزہ لینے کے لیے ایک تحقیقی منصوبے کا آغاز کیا تھا۔ اس منصوبے کے سربراہ نامور ادیب اور افسانہ نگار فیاض محمود تھے۔ یہ تحقیق تیرہ جلدوں پر محیط تھی اور اس میں فارسی اور اردو دونوں زبانوں کے ادب کا احاطہ کیا گیا تھا۔
آج کل پنجاب یونیورسٹی کے وائس پرنسپل ڈاکٹر مجاہد کامران ہیں۔ وہ اپنے بنیادی شعبے طبیعیات میں اپنے کام کے حوالے سے دنیابھر میں جانے جاتے ہیں تاہم اُن کا شعری و ادبی ذوق بھی نہایت عمدہ ہے، جس کا اندازہ اُن کی تحریر و تقریر میں رچی چاشنی ہوتا ہے۔ انہوں نے بعض اہم ملکی اور عالمی معاملات پر بھی قلم اٹھایا ہے، نائین الیون کے حوالے سے اُن کی تحقیقی کتاب حوالے کی چیز ہے۔ ان ہی نے پنجاب یونیورسٹی کے اس تحقیقی منصوبے کے تحت بیسویں صدی کے پورے ادب کا احاطہ کرنے کا سوچا اور اس کے لیے موزوں ترین فرد کا انتخاب کیا۔
ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا، ہمارے معاصر ادب کی نمایاں ترین شخصیت ہیں۔انہوں نے اردو ادب کے بڑے لکھنے والوں، جیسے اکبر الٰہ آبادی، علامہ محمد اقبال اور مجید امجد پر بہت عمدہ کام کیا ہے، بطورخاص مجید امجد پر اُن کا کام نہایت وقیع ہے بلکہ مجید امجد اور ان کا نام لازم و ملزوم ہو چکا ہے۔ اب انہوں نے پنجاب یونیورسٹی کے اس تحقیقی منصوبے کی ازسرنو ترتیب کرکے ایک اور اہم علمی و تحقیقی فریضہ سر انجام دیا ہے۔
''تاریخ مسلمانانِ پاکستان و ہند'' کی ترتیبِ نو کے لیے پہلے تو اردو ادب سے متعلقہ مواد کو چھے جلدوں میں مرتب کیا۔ جن اصحاب کی نگاہ سے یہ کام گزرا ہے، وہ یقیناً داد دیں گے۔بعض اصحاب نے ان جلدوں میںکچھ فروگذاشتوں کی طرف اشارے کیے تھے، خواجہ صاحب نے اغلاط کی درست نشان دہی کو نہ صرف قبول کیا بلکہ ''مختصر تاریخ ادبیات'' کے پیش لفظ میں اُن اصحاب کا شکریہ بھی ادا کیا ہے۔ مسلمانانِ پاکستان و ہند، اردو ادب، آغاز تا بیسویں صدی'' دراصل ان چھے جلدوں کا ملخص ہے لیکن ایسا نہیں کہ صرف ملخص ہے۔ کتاب کے ''پیش لفظ'' میں لکھتے ہیں:
''ملخص کے لفظ سے یہ خیال نہیں کرنا چاہیے کہ یہ چھ جلدی تاریخ کی باب در باب تلخیص ہے۔ ایسا کرنا مناسب نہیں تھا ورنہ پوری کتاب کا ربط و تسلسل بُری طرح متاثر ہوتا اور قاری کو باربار آگے پیچھے جانا پڑتا۔ چناںچہ چھ جلدوں کو ایک جلد میں بہتر طریقے سے ترتیب دینے اور منطقی ربط بڑھانے کے لیے کتاب کو اکتیس ابواب میں تقسیم کیا گیا اور ابواب کو اس طرح ترتیب دیا گیا ہے کہ اردو ادب کی مکمل تاریخ (آغاز سے بیسویں صدی کے اختتام تک) صاف شفاف انداز میں ایک بہتر سانچے میں ڈھل گئی ہے۔''
''پیش لفظ'' سے آگے بڑھیں تو کتاب کی فہرست، ان کے اُس دعویٰ کی تصدیق کرتی ہے۔ ''تاریخ ادبیات مسلمانانِ پاکستان و ہند'' کے تحقیقی منصوبے پر کام کا آغاز کیا جا رہا تھا، تو پیش نظر، یہ بات تھی کہ صرف ادبی تاریخ مرتب نہ کی جائے بلکہ پورے سیاسی، معاشرتی، تہذیبی اور ادبی منظر کو احاطۂ تحریر میں لایا جائے۔ اس طرز نے اِس علمی و ادبی کام کی وقعت میں اضافہ کیا تھا اور اس کی روح کو زیرِنظر اس تلخیص میں بھی ملحوظِ خاطر رکھا گیا ہے لہٰذا اس کی حیثیت، ادبی تاریخ سے کچھ زیادہ ہے۔
اس تحقیقی منصوبے کا اگر کسی کام سے موازانہ کیا جا سکتا تھا تو وہ شیخ محمد اکرام کا تحقیقی کام تھا، جو انگریزی اور اردو دونوں زبانوں میں ادارۂ ثقافت اسلامیہ لاہور سے تین جلدوں میں ''آبِ کوثر''، ''موجِ کوثر'' اور ''رودِ کوثر'' کے عنوانات سے شایع ہوا تھا، جو دراصل ہندوستان میں مسلمانوں کی ثقافتی تاریخ ہے، اس میں ادب کا حوالہ کچھ زیادہ نہیں ہے۔ اس کے برعکس اردو ادب میں جو تواریخ لکھی گئیں، اُن میں سے بیش تر صرف ادیبوں اور ادبی تخلیقات کو موضوع بناتی ہیں۔ زیرِ نظر کتاب میں ہمیں ان مختلف پہلوؤں کے درمیان ایک ایسا تحقیقی توازن دکھائی دیتا ہے، جو اس نوعیت کے کام کے لیے ضروری ہے۔
زیرِ نظر کتاب میں بات کا آغاز ''سیاسی، سماجی اور تہذیبی پس منظر ( ۷۱۲ء-۲۰۰۰ء) اور اردو زبان کی ابتدا کے چند معروف نظریات'' سے ہوا ہے۔ پہلے سترہ ابواب میں انیسویں صدی تک کے اردو ادب کا احاطہ کیا گیا ہے۔ یہ وہ حصہ ہے، جس کے بارے میں ہمیں معلومات اور تحقیقی مواد تو دوسری تواریخِ ادب میں بھی مل جاتاہے مگر اٹھارہواں باب، جس میں ''علامہ اقبال'' کے شعری اور تخلیقی کام کو زیرِبحث لایا گیا ہے، سے لے کر اکتیسویں باب یعنی چودہ ابواب کو بیسویں صدی میں تخلیق ہونے والے ادب کے لیے مختص کیا گیا ہے۔ بیسویں صدی کے ادب کا تذکرہ ہمیں اردو ادب کی تاریخ میںکم کم دکھائی دیتا ہے۔گیارہ سو صفحات کی اس کتاب کے صفحات بڑے سائز کے ہیں اور ٹائپ کمپوزنگ کا فونٹ بھی چھوٹا ہے۔ میرے نزدیک اردو ادب کی اب تک جو دو مختصر تواریخ ادب دستیاب تھیں، اُن سے یہ کتاب کیفیتی اور کمیتی اعتبار سے کہیں آگے ہے۔
ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد ۷۱۳ء میں ہوئی اور بیسویں صدی تک کا یہ تیرہ سو سال کا تہذیبی اور ادبی سفر ہے، جس کی روداد کو گیارہ سو صفحات میں سمیٹنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس میں ہر شخص اور ہر بات کا تذکرہ ممکن نہیں۔ یہ وہ مقام ہے، جہاں کام کرنے والے کو انتخاب اور چناؤ کے عمل سے گزرنا پڑتا ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں کام کرنے والے کے علمی ذوق اور ذہنی سطح کا اندازہ ہوتا ہے۔ زیرِنظر کتاب میں ہمیں دکھائی دیتا ہے کہ ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا نے اُس مواد کا انتخاب سلیقے سے کیا ہے۔ انہوں نے ہر دور میں جن لکھنے والوں کا انتخاب کیا ہے، اُن کے درمیان امتیازبھی کیا ہے کہ کسے کتنی جگہ دینی ہے۔ یہ ان کے اعلیٰ شعری و ادبی ذوق کی غمازی بھی ہے۔
علامہ محمد اقبال کے شعری سفر کو انہوں نے ''پابند نظم کا نقطۂ عروج'' سے موسوم کیا ہے۔ پھر انہوں نے ''پابند نظم کا پھیلاؤ'' میں معاصرین اقبال اور دیگر شاعروں کا تذکرہ کیا ہے۔''نظم میں نئے رجحانات'' کے زیرعنوان ترقی پسند شعرا، حلقۂ ارباب ذوق اور ناوابستہ شعرا کی ذیلی فصلیں قائم کی ہیں، غزل گوئی کے حوالے سے بیسویں صدی میں ہونے والی تبدیلیوں کی جانب مبسوط اشارے کیے۔ اردومیں افسانہ بیسویں صدی کی چیز ہے، زیرِنظر کتاب میں اس کا جائزہ بھی اچھے انداز میں لیا گیا ہے۔ اگرچہ اس باب میں چند ناموں کی کمی کا احساس ہوتا ہے لیکن ظاہر ہے کہ ادبی تاریخ نگاری کرتے ہوئے انتخاب اور امتیاز کے عمل کو اختیار کرنا پڑتا ہے اور اس عمل کو ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا نے خوبی سے اختیار کیا ہے۔
''مختصر تاریخ ادبیات'' کے حوالے سے ہم نے جو مختصر بات کی ہے، اس سے چند باتیں اخذ کی جاسکتی ہیں۔ ایک یہ کہ زیر نظر کتاب اپنے اندر اتنی تفصیلات ضرور رکھتی ہے، جو ادب کے قاری کی پیاس بجھا سکے۔ایک خوبی یہ بھی ہے کہ اس میں پروف کی اغلاط نہ ہونے کے برابر ہیں اور خاص طور پر اشعار کی صحت کا خاص خیال رکھا گیا ہے۔ مختلف موضوعات پر اختصار سے بات کرنے کے ساتھ ساتھ زیرِ بحث موضوع کے مختلف پہلوؤں کا احاطہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے، جو قابل ستائش ہے۔ یقیناً یہ کتاب اردو ادب میں قابل قدر اضافہ ہے۔
اردو ادب
(آغاز تا بیسویں صدی)
ادبی تاریخ نگاری ایک مشکل فن ہے جس فن کا آغاز بیسویں صدی میں ہوا۔ رام بابو سکسینہ کی تاریخ ادب اردو کا شمار ابتدائی تاریخوں میں ہوتا ہے۔ اب تک سب سے طویل تاریخ ڈاکٹر جمیل جالبی نے لکھی، جس کی چار جلدیں تاحال شایع ہوئی ہیں، جو انیسویں صدی تک کے اردو ادب کا احاطہ کرتی ہے۔
برسوں پہلے پنجاب یونیورسٹی نے مسلمانانِ پاک و ہند کی ثقافتی معاشرتی اور ادبی زندگی کا مبسوط جائزہ لینے کے لیے ایک تحقیقی منصوبے کا آغاز کیا تھا۔ اس منصوبے کے سربراہ نامور ادیب اور افسانہ نگار فیاض محمود تھے۔ یہ تحقیق تیرہ جلدوں پر محیط تھی اور اس میں فارسی اور اردو دونوں زبانوں کے ادب کا احاطہ کیا گیا تھا۔
آج کل پنجاب یونیورسٹی کے وائس پرنسپل ڈاکٹر مجاہد کامران ہیں۔ وہ اپنے بنیادی شعبے طبیعیات میں اپنے کام کے حوالے سے دنیابھر میں جانے جاتے ہیں تاہم اُن کا شعری و ادبی ذوق بھی نہایت عمدہ ہے، جس کا اندازہ اُن کی تحریر و تقریر میں رچی چاشنی ہوتا ہے۔ انہوں نے بعض اہم ملکی اور عالمی معاملات پر بھی قلم اٹھایا ہے، نائین الیون کے حوالے سے اُن کی تحقیقی کتاب حوالے کی چیز ہے۔ ان ہی نے پنجاب یونیورسٹی کے اس تحقیقی منصوبے کے تحت بیسویں صدی کے پورے ادب کا احاطہ کرنے کا سوچا اور اس کے لیے موزوں ترین فرد کا انتخاب کیا۔
ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا، ہمارے معاصر ادب کی نمایاں ترین شخصیت ہیں۔انہوں نے اردو ادب کے بڑے لکھنے والوں، جیسے اکبر الٰہ آبادی، علامہ محمد اقبال اور مجید امجد پر بہت عمدہ کام کیا ہے، بطورخاص مجید امجد پر اُن کا کام نہایت وقیع ہے بلکہ مجید امجد اور ان کا نام لازم و ملزوم ہو چکا ہے۔ اب انہوں نے پنجاب یونیورسٹی کے اس تحقیقی منصوبے کی ازسرنو ترتیب کرکے ایک اور اہم علمی و تحقیقی فریضہ سر انجام دیا ہے۔
''تاریخ مسلمانانِ پاکستان و ہند'' کی ترتیبِ نو کے لیے پہلے تو اردو ادب سے متعلقہ مواد کو چھے جلدوں میں مرتب کیا۔ جن اصحاب کی نگاہ سے یہ کام گزرا ہے، وہ یقیناً داد دیں گے۔بعض اصحاب نے ان جلدوں میںکچھ فروگذاشتوں کی طرف اشارے کیے تھے، خواجہ صاحب نے اغلاط کی درست نشان دہی کو نہ صرف قبول کیا بلکہ ''مختصر تاریخ ادبیات'' کے پیش لفظ میں اُن اصحاب کا شکریہ بھی ادا کیا ہے۔ مسلمانانِ پاکستان و ہند، اردو ادب، آغاز تا بیسویں صدی'' دراصل ان چھے جلدوں کا ملخص ہے لیکن ایسا نہیں کہ صرف ملخص ہے۔ کتاب کے ''پیش لفظ'' میں لکھتے ہیں:
''ملخص کے لفظ سے یہ خیال نہیں کرنا چاہیے کہ یہ چھ جلدی تاریخ کی باب در باب تلخیص ہے۔ ایسا کرنا مناسب نہیں تھا ورنہ پوری کتاب کا ربط و تسلسل بُری طرح متاثر ہوتا اور قاری کو باربار آگے پیچھے جانا پڑتا۔ چناںچہ چھ جلدوں کو ایک جلد میں بہتر طریقے سے ترتیب دینے اور منطقی ربط بڑھانے کے لیے کتاب کو اکتیس ابواب میں تقسیم کیا گیا اور ابواب کو اس طرح ترتیب دیا گیا ہے کہ اردو ادب کی مکمل تاریخ (آغاز سے بیسویں صدی کے اختتام تک) صاف شفاف انداز میں ایک بہتر سانچے میں ڈھل گئی ہے۔''
''پیش لفظ'' سے آگے بڑھیں تو کتاب کی فہرست، ان کے اُس دعویٰ کی تصدیق کرتی ہے۔ ''تاریخ ادبیات مسلمانانِ پاکستان و ہند'' کے تحقیقی منصوبے پر کام کا آغاز کیا جا رہا تھا، تو پیش نظر، یہ بات تھی کہ صرف ادبی تاریخ مرتب نہ کی جائے بلکہ پورے سیاسی، معاشرتی، تہذیبی اور ادبی منظر کو احاطۂ تحریر میں لایا جائے۔ اس طرز نے اِس علمی و ادبی کام کی وقعت میں اضافہ کیا تھا اور اس کی روح کو زیرِنظر اس تلخیص میں بھی ملحوظِ خاطر رکھا گیا ہے لہٰذا اس کی حیثیت، ادبی تاریخ سے کچھ زیادہ ہے۔
اس تحقیقی منصوبے کا اگر کسی کام سے موازانہ کیا جا سکتا تھا تو وہ شیخ محمد اکرام کا تحقیقی کام تھا، جو انگریزی اور اردو دونوں زبانوں میں ادارۂ ثقافت اسلامیہ لاہور سے تین جلدوں میں ''آبِ کوثر''، ''موجِ کوثر'' اور ''رودِ کوثر'' کے عنوانات سے شایع ہوا تھا، جو دراصل ہندوستان میں مسلمانوں کی ثقافتی تاریخ ہے، اس میں ادب کا حوالہ کچھ زیادہ نہیں ہے۔ اس کے برعکس اردو ادب میں جو تواریخ لکھی گئیں، اُن میں سے بیش تر صرف ادیبوں اور ادبی تخلیقات کو موضوع بناتی ہیں۔ زیرِ نظر کتاب میں ہمیں ان مختلف پہلوؤں کے درمیان ایک ایسا تحقیقی توازن دکھائی دیتا ہے، جو اس نوعیت کے کام کے لیے ضروری ہے۔
زیرِ نظر کتاب میں بات کا آغاز ''سیاسی، سماجی اور تہذیبی پس منظر ( ۷۱۲ء-۲۰۰۰ء) اور اردو زبان کی ابتدا کے چند معروف نظریات'' سے ہوا ہے۔ پہلے سترہ ابواب میں انیسویں صدی تک کے اردو ادب کا احاطہ کیا گیا ہے۔ یہ وہ حصہ ہے، جس کے بارے میں ہمیں معلومات اور تحقیقی مواد تو دوسری تواریخِ ادب میں بھی مل جاتاہے مگر اٹھارہواں باب، جس میں ''علامہ اقبال'' کے شعری اور تخلیقی کام کو زیرِبحث لایا گیا ہے، سے لے کر اکتیسویں باب یعنی چودہ ابواب کو بیسویں صدی میں تخلیق ہونے والے ادب کے لیے مختص کیا گیا ہے۔ بیسویں صدی کے ادب کا تذکرہ ہمیں اردو ادب کی تاریخ میںکم کم دکھائی دیتا ہے۔گیارہ سو صفحات کی اس کتاب کے صفحات بڑے سائز کے ہیں اور ٹائپ کمپوزنگ کا فونٹ بھی چھوٹا ہے۔ میرے نزدیک اردو ادب کی اب تک جو دو مختصر تواریخ ادب دستیاب تھیں، اُن سے یہ کتاب کیفیتی اور کمیتی اعتبار سے کہیں آگے ہے۔
ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد ۷۱۳ء میں ہوئی اور بیسویں صدی تک کا یہ تیرہ سو سال کا تہذیبی اور ادبی سفر ہے، جس کی روداد کو گیارہ سو صفحات میں سمیٹنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس میں ہر شخص اور ہر بات کا تذکرہ ممکن نہیں۔ یہ وہ مقام ہے، جہاں کام کرنے والے کو انتخاب اور چناؤ کے عمل سے گزرنا پڑتا ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں کام کرنے والے کے علمی ذوق اور ذہنی سطح کا اندازہ ہوتا ہے۔ زیرِنظر کتاب میں ہمیں دکھائی دیتا ہے کہ ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا نے اُس مواد کا انتخاب سلیقے سے کیا ہے۔ انہوں نے ہر دور میں جن لکھنے والوں کا انتخاب کیا ہے، اُن کے درمیان امتیازبھی کیا ہے کہ کسے کتنی جگہ دینی ہے۔ یہ ان کے اعلیٰ شعری و ادبی ذوق کی غمازی بھی ہے۔
علامہ محمد اقبال کے شعری سفر کو انہوں نے ''پابند نظم کا نقطۂ عروج'' سے موسوم کیا ہے۔ پھر انہوں نے ''پابند نظم کا پھیلاؤ'' میں معاصرین اقبال اور دیگر شاعروں کا تذکرہ کیا ہے۔''نظم میں نئے رجحانات'' کے زیرعنوان ترقی پسند شعرا، حلقۂ ارباب ذوق اور ناوابستہ شعرا کی ذیلی فصلیں قائم کی ہیں، غزل گوئی کے حوالے سے بیسویں صدی میں ہونے والی تبدیلیوں کی جانب مبسوط اشارے کیے۔ اردومیں افسانہ بیسویں صدی کی چیز ہے، زیرِنظر کتاب میں اس کا جائزہ بھی اچھے انداز میں لیا گیا ہے۔ اگرچہ اس باب میں چند ناموں کی کمی کا احساس ہوتا ہے لیکن ظاہر ہے کہ ادبی تاریخ نگاری کرتے ہوئے انتخاب اور امتیاز کے عمل کو اختیار کرنا پڑتا ہے اور اس عمل کو ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا نے خوبی سے اختیار کیا ہے۔
''مختصر تاریخ ادبیات'' کے حوالے سے ہم نے جو مختصر بات کی ہے، اس سے چند باتیں اخذ کی جاسکتی ہیں۔ ایک یہ کہ زیر نظر کتاب اپنے اندر اتنی تفصیلات ضرور رکھتی ہے، جو ادب کے قاری کی پیاس بجھا سکے۔ایک خوبی یہ بھی ہے کہ اس میں پروف کی اغلاط نہ ہونے کے برابر ہیں اور خاص طور پر اشعار کی صحت کا خاص خیال رکھا گیا ہے۔ مختلف موضوعات پر اختصار سے بات کرنے کے ساتھ ساتھ زیرِ بحث موضوع کے مختلف پہلوؤں کا احاطہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے، جو قابل ستائش ہے۔ یقیناً یہ کتاب اردو ادب میں قابل قدر اضافہ ہے۔