پہلی خاتون صدر بننے کے خواب دیکھنے والی ہیلری کلنٹن کو کرپشن نے غرق کر ڈالا

ماضی میں حکمران جوڑا جس لالچ اور اسرائیلی حکومت کیدبائو کا شکار ہوا تھا،اب وہ گلے کی ہڈی بن گیا…


سید عاصم محمود December 11, 2016
امریکی حکمران طبقے کی کرپٹ سرگرمیاں افشا کرتی ڈرامائی داستان۔ فوٹو : فائل

دنیا کی اکلوتی سپر پاور' امریکا کا حالیہ صدارتی الیکشن ہنگامہ خیز ثابت ہوا۔ ایک طرف''سٹیٹس کو'' کی پسندیدہ امیدوار، ڈیمو کریٹک ہیلری کلنٹن تھیں اور دوسری سمت امریکی قوم پسندوں اور نسل پرستوں کے چہیتے ڈونالڈ ٹرمپ جنہیں ری پبلکن پارٹی نے طوعاً و کرہاً قبول کیا۔

دوران انتخابی مہم دونوںنے ایک دوسرے کے خلاف حیران کن انکشافات کیے جن سے دنیا والوں پر عیاں ہوا کہ امریکی سیاست خاص حد تک اخلاقی گندگی میں لتھڑ چکی۔ انتخابی مہم کے ذریعے ڈونلڈ ٹرمپ عیاش الطبع ' خواتین کی توہین کرنے والے' مسلم مخالف' منہ پھٹ' دیوالیہ ہونے والی کمپنیوں کے مالک اور ناقابل اعتبار شخصیت قرار پائے۔

تعجب کہ پھر بھی قدامت پسند امریکیوں کی بڑی تعداد نے انہیں ووٹ دیا۔ ہیلری کلنٹن ایک بے پروا، لاابالی اورکرپٹ سیاست دان کے طور پر سامنے آئیں ۔ گویا انتخابی مہم نے دونوں ا میدواروں کا کچا چٹھا کھول ڈالاجو عام لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل تھا ۔چونکہ امریکیوں کی اکثریت ''سٹیٹس کو'' کے مخالف ٹرمپ کے ساتھ تھی، لہٰذا وہ نئے صدر بن گئے۔

الیکشن کے بعد ہیلری کلنٹن کے ساتھیوں نے جیمز کومی (James Comey) کو ڈیموکریٹک امیدوار کی شکست کا ذمے دار ٹھہرایا ۔ جیمز کومی اندرون امریکا جاسوسی و نگرانی کا کام کرنے والی امریکی خفیہ ایجنسی 'ایف بی آئی اے کا سربراہ ہے۔ اس کو ستمبر 2013ء میں صدر اوباما نے ایف بی آئی کا سربراہ بنایا ۔ گویا وہ ڈیمو کریٹک حکومت کا حصہ تھا۔ پھر کیا وجہ ہے کہ ڈیمو کریٹک رہنماؤں نے اسے اپنی شکست کا ذمے دار قرار دیا؟

اس سوال کا جواب پس پردہ ایک سنسنی خیز اور سبق آموز داستان چھپائے ہوئے ہے۔ یہ داستان آشکار کرتی ہے کہ بظاہر اصول و قوانین کے پابند اور دیانت دار امریکی بھی ایسی صفائی و ہوشیاری سے کرپشن کر جاتے ہیں کہ دوسروں کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی۔وطن عزیز میں بہت سے لوگ مغربی حکمران طبقے کی انتظامی صلاحیتوں کے معترف ہیں۔مگر درج ذیل واقعات عیاں کرتے ہیں کہ یہ طبقہ اتنا بھی دودھ کا دھلا نہیں جتنا دعوی کیا جاتا ہے۔

پہلا حملہ
جون 2014ء میں انکشاف ہوا کہ ہیلری کلنٹن جب (جنوری 2009تا فروری 2013ء) امریکی وزیر خارجہ تھیں' تو انہوں نے وزارت داخلہ سے اجازت لیے بغیر اپنے گھر کے تہہ خانے میں ذاتی کمپیوٹر سرور نصب کیا اور اس سے اپنا ایک ذاتی ای میل اکاؤنٹ چلانے لگیں۔ وہ پھر اس اکاؤنٹ کے ذریعے سرکاری سرگرمیاں بھی انجام دیتی رہیں۔اس سرور میں موجودہ ای میلیز کے معائنے سے انکشاف ہوا کہ ان میں ''کلاسیفائیڈ '' اور ''ٹاپ سیکرٹ'' ای میلیں بھی موجود ہیں۔ ان کو صرف سرکاری سرور اور کمپیوٹر میں محفوظ ہونا چاہیے تھا۔

چونکہ ہیلری کلنٹن نے ذاتی سرور اور ذاتی ای میل اکاؤنٹ پر سرکاری سرگرمیاں انجام دے کر غیر قانونی حرکت کی تھی لہٰذا ان کے خلاف جولائی 2015ء سے ایف بی آئی تفتیش کرنے لگی۔یہ تفتیش تقریباً ایک سال تک جاری رہی۔ اس میں ایف بی آئی کے تقریباً تیس ایجنٹوں نے حصہ لیا۔ جولائی 2016ء میں ایف بی آئی کے سربراہ ' جیمز کومی نے ایک پریس کانفرنس میں بتایا:

''ہیلری کلنٹن کے ذاتی سرور پر موجودہ ای میلیز کی چھان بین ختم ہو چکی ۔ ہزارہا ای میلیز میں سے 110کلاسیفائیڈ اورٹاپ سیکرٹ قرار پائی ہیں۔ اس حقیقت سے عیاں ہے کہ سابق وزیر خارجہ نے نہایت بے پروائی کا ثبوت دیا۔ تاہم ایف بی آئی اے نے حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ ہیلری کلنٹن کے خلاف مقدمہ نہ چلایا جائے۔'' چناںچہ اگلے ہی دن امریکی اٹارنی جنرل' لوریتا لائنچ نے اعلان کیا کہ سابق خاتون اول پر کوئی مقدمہ نہیں چلے گا۔

بھارتی مسلمان والدین کی بیٹی' ہما عابدین طویل عرصہ ہیلری کلنٹن کی دست راست رہی ہے۔ اس کی ایک سیاست داں' انتھونی وئینر سے شادی ہوئی۔ بدقسمتی سے یہ آدمی اخلاق باختہ نکالا۔ نیٹ پر نوجوان لڑکیوں کو اپنی فحش تصاویر اور میسج بجھوانا اس کا مشغلہ تھا۔ آخر کار ایف بی آئی نے اسے دھر لیا اور اس کے کمپیوٹروں کی چھان بین کرنے لگی۔اکتوبر 2016ء کے اوائل میں انکشاف ہوا کہ سرکاری کاموں سے متعلق ہما عابدین کی ہزار ہا ای میلز اس کے شوہر والے کمپیوٹر میں بھی محفوظ ہیں۔ یہ ایک غیر قانونی حرکت تھی ۔ چناںچہ فرائض سے غفلت دکھانے کی بنا پر ہما عابدین کے خلاف قانونی کارروائی کا آغاز ہو گیا۔

28اکتوبر کوجیمز کومی نے اعلان کیا کہ ہیلری کلنٹن کے خلاف بھی دوبارہ تفتیش شروع ہو رہی ہے۔ اس اعلان نے پورے امریکا میں ہلچل مچا دی۔ ڈونلڈ ٹرمپ کو پھر یہ کہنے کا موقع مل گیا کہ ہیلری ایک لاابالی عورت ہے جو کسی صورت صدر کا اہم ترین عہدہ سنبھالنے کی اہلیت نہیں رکھتی۔ انہوں نے ای میل تنازع کو واٹرگیٹ سے بھی بڑا اسکینڈل قرار دیا۔ دلچسپ بات یہ کہ 6نومبر کو جیمز کومی نے اعلان کر دیا کہ ہیلری کلنٹن کے ای میل تنازع میں ایف بی آئی کا موقف تبدیل نہیں ہوا... یعنی سابقہ وزیرخارجہ پر مقدمہ نہیں چلے گا۔

یہ حقیقت ہے کہ ذاتی سرور اور ذاتی ای میل اکاؤنٹ پر اہم سرکاری کاموں کے سلسلے میں ای میلیں منگوا اور بھجوا کر ہیلری کلنٹن نے غیر ذمے داری کا ثبوت دیا۔ امریکی قانون کی نظر میں یہ جرم ہے۔ لہٰذا ان کو سزا ملنی چاہیے تھی۔ مگر یہ بھی عیاں ہے کہ ہیلری کے طاقتور سرپرستوں اور ساتھیوں نے جیمز کومی پر دباؤ ڈالا کہ وہ سابقہ وزیر خارجہ کو بے گناہ قرار دے ڈالے۔ وجہ صاف ظاہر ہے۔ اگر ہیلری مجرم قرار پاتیں' تو انھوں نے برسوں سے صدر بننے کا جو سہانا سپنا دیکھ رکھا تھا،وہ ملیا میٹ ہو جاتا۔ جیمز کومی زبردست دباؤ برداشت نہیں کر سکا اور گول مول الفاظ میں ہیلری کلنٹن پر تنقید کرتے ہوئے بھی انہیں پاک صاف ٹھہرا دیا۔

لیکن یہ بھی سچ ہے کہ جیمز کومی سے اپنی شکست برداشت نہیں ہوئی۔ ویسے بھی وہ ریپبلکن پارٹی کا حمایتی تھا۔ درحقیقت امریکی سرکاری اداروں میں موجود بیشتر سفید فام ریپبلکن پارٹی کو پسند کرتے ہیں۔ لہٰذا جب انتھونی ورئینر کے کمپیوٹر سے ہما عابدین کی ای میلیز برآمد ہوئیں' تو جیمز کومی نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہیلری کلنٹن والے ای میلز تنازع کے مردے میں نئی روح پھونک دی ۔

اس ضمن میں 28اکتوبر کو کومی کے اعلان کی ''ٹائمنگ'' بہت اہمیت رکھتی ہے۔ پچھلے چند ہفتوں سے ٹرمپ مسلسل تنقید کی زد میں تھے۔نت نئی خواتین ان پر زیادتی کا الزام دھر چکی تھیں۔ ان خبروں نے ٹرمپ کے ووٹروں کو پژمردہ کر دیا تھا۔ مگر ای میلز تنازع دوبارہ اجاگر ہوا' تو ان ووٹروں میں بھی نئی جان پڑ گئی۔ تب الیکشن ہونے میں صرف دس دن رہ گئے تھے۔ لہٰذا ٹرمپ کے ووٹروں کا جوش وولولہ آخری دن تک برقرار رہااور اس نے الیکشن کے حتمی نتیجے پر لازماً اثر ڈالا ۔ اسی باعث ڈیمو کریٹک ووٹروں کی نگاہوں میں کومی مشکوک اور متنازع شخصیت بن گیا۔



دوسرا بم پھٹ گیا
ٹرمپ فوراً یہ راگ الاپنے لگے کہ ایسی عورت ہرگز صدر نہیں بن سکتی جو سرکار کی خفیہ دستاویز اپنے ذاتی سرور میں محفوظ رکھتی ہے۔ ہیلری تنقید کی زد میں تھیں کہ جیمز کومی نے ڈیموکریٹک امیدوار پہ ایک اور کاری وار کردیا۔1 نومبر کو ایف بی آئی ایک تفتیشی رپورٹ کے ''129 صفحات'' منظر عام پر لے آئی۔ یہ تفتیشی رپورٹ اس معاملے سے متعلق تھی جب ہیلری کلنٹن کے شوہر، بل کلنٹن نے بہ حیثیت صدر امریکا اپنے آخری دن ایک ٹیکس چور، مارک رچ(Marc Rich) کو معاف کردیا تھا۔ بعدازاں بعض وجوہ کی بنا پر معافی متنازع بن گئی۔ حتیٰ کہ ایف بی آئی کو معاملے کی تفتیش کرنا پڑی۔ یہ تفتیش 2005ء میں مکمل ہوئی مگر اس میں کلنٹن جوڑے کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا گیا۔ مگر اب ایف بی آئی نے اچانک تفتیشی رپورٹ کے کچھ حصے شائع کردیئے۔

اس رپورٹ نے عیاں کیا کہ کلنٹن جوڑے نے مادی فوائد اٹھا کر مارک رچ کو معافی دی تھی۔ یوں اس نے ہیلری کلنٹن کو کرپٹ ثابت کردیا۔ یہ رپورٹ 1 نومبر کو یعنی الیکشن سے صرف ایک ہفتہ قبل جاری ہوئی۔ پاکستانی میڈیا نے تو رپورٹ کے متعلق کوئی خبر نہیں دی، مگر خصوصاً ڈونلڈ ٹرمپ کے حامیوں نے طوفان برپا کردیا۔ انہوں نے بذریعہ سوشل میڈیا یہ خوب چرچا کیا کہ کلنٹن ایک کرپٹ اور لالچی عورت ہے لہٰذا اسے کسی بھی قیمت پر صدرنہیں بننا چاہیے۔ اکثر امریکی ماہرین سیاست کا خیال ہے کہ ایف بی آئی کے دوسرے وار نے ہیلری کلنٹن کو عام امریکیوں میں بدنام کر ڈالا۔ یہ رپورٹ آنے کے بعد ڈیموکریٹک پارٹی میں شامل قوم پرست سفید فام بھی ٹرمپ کے طرف دار بن گئے۔

مارک رچ ایک پراسرار کردار
یوں ایف بی آئی کی رپورٹ اور مسلسل چھان بین نے پہلی خاتون صدر بننے کے ہیلری کلنٹن کے سنہرے سپنے کلیوں کی طرح مسل ڈالے۔ رپورٹ کی خاص بات یہ ہے کہ اس کے مرکزی کردار، مارک رچ کی زندگی بین الاقوامی سطح پر جاری دولت و سیاست کے شاطرانہ کھیلوں کو بخوبی نمایاں کرتی ہے۔ اس کی داستان حیات بڑی سبق آموز ہے۔نیز رپورٹ نے یہ بھی آشکارا کیا کہ دنیا کے طاقتور ترین ملک کے سرکاری ایوانوں میں خودغرضی ،جھوٹ اور فراڈ سے آلودہ کس قسم کے کھیل کیونکر کھیلے جاتے ہیں۔

مارک رچ بیلجیًم کے ایک متوسط حال یہودی گھرانے میں 1939ء میں پیدا ہوا۔ جب جرمن حکمران، ہٹلر نے بیلجیئم پر حملہ کیا، تو یہ یہودی خاندان 1941ء میں امریکا چلا آیا۔ مارک کا باپ پھر تاجر بن گیا۔ وہ مشرقی پاکستان سے پٹ سن منگوا کر بوریاں بنانے کا کام کرنے لگا۔ رفتہ رفتہ وہ ایشیائی ممالک سے پھل و سبزیاں بھی منگوانے لگا اور اس کا کاروبار چمک اٹھا۔مارک نے عالمی منڈیوں سے مختلف اشیا سستے داموں خرید کر انہیں مہنگا بیچنے کا فن اپنے باپ سے سیکھا۔ 1954ء سے وہ اشیائے صرف کی خرید و فروخت کرنے والی عالمی کمپنی، فلپس برادرز میں کام کرنے لگا جو اب فائبرو (Phibro) کہلاتی ہے۔

نوجوان اور خوبصورت مالک رچ دلکش شخصیت کا مالک تھا۔ پھر وہ باتوں باتوں میں دوسرے کا دل لبھا لینے والا ہنر بھی جانتا تھا۔ چناں چہ وہ ان دور دراز علاقوں میں پہنچ کر بھی تجارتی معاہدے کرلیتا جہاں دوسرے جانے سے ڈرتے تھے۔چٹکی بجاتے ہی وہ ایسے لوگوں کو بھی اپنے دام میں گرفتار کرلیتا جن سے دوسرے کتراتے تھے۔

فلپس برادرز میں کام کرتے ہوئے مارک کو احساس ہوا ،اسے سخت محنت کے باوجود مناسب دام نہیں ملتے۔ چناں چہ اس نے 1974ء میں اپنے ایک یہودی ساتھی، پنکس گرین کے ساتھ مل کر سوئٹزرلینڈ میں اپنی کمپنی، مارک رچ اینڈ کمپنی کھول لی۔ اب وہ اس کمپنی کے ذریعے مختلف اشیاء خصوصاً تیل، دھاتوں اور چینی کی خریدو فروخت کرنے لگا۔ مارک رچ پہلا کاروباری ہے جس نے تیل کی نقد تجارت (Spot Market Trading) کو بین الاقوامی منڈیوں میں رواج دیا۔

1974ء ہی میں مارک رچ اسرائیل کی بدنام زمانہ خفیہ ایجنسی، موساد کا ایجنٹ بن گیا۔ 1973ء کی یوم کپور جنگ کے بعد کوئی بھی ملک اسرائیل کو خصوصاً تیل بیچنے پر تیار نہ تھا۔ تیل پیدا کرنے والے غیر عرب ممالک بھی پیچھے ہٹ گئے۔ انہیں خطرہ تھا کہ اسرائیل کو تیل بیچا تو عرب ممالک ناراض ہوجائیں گے۔ اس خوفناک بحران میں مارک رچ اسرائیل کی مدد کرنے آپہنچا۔مارک نقد قیمت پر ایران،لیبیا، عراق،جنوبی افریقہ، بولیویا، اسپین وغیرہ سے تیل و دیگر مطلوبہ اشیا خریدتا اور پوشیدہ طور پر اسرائیل کو فراہم کردیتا۔

یہ سلسلہ بلاتعطل تقریباً بیس سال جاری رہا۔ یوں اسرائیل کے لیے ممکن ہوگیا کہ وہ دشمن عربوں میں گھرے رہنے کے باوجود اپنا وجود برقرار رکھ سکے۔شاہ ایران اور کرنل قذافی اس کے دوستوں میں شمار ہوتے۔حیران کن بات یہ کہ مارک آیت اللہ خمینی کے حلقہ احباب تک بھی رسائی رکھتا تھا۔یہی وجہ ہے، ایران میں انقلاب آنے کے باوجود مارک ایرانی تیل خرید کر اسرائیل کو فروخت کرتا رہا۔ نئی ایرانی حکومت کو طویل عرصے بعد معلوم ہوا کہ مارک رچ ان سے تیل خرید کر دشمنوں کو ''لائف لائن''دے رہا ہے۔ گویا وہ آستین کا سانپ ثابت ہوا۔

مارک کا کہنا تھا کہ وہ محض تاجر ہے، جو تیل کی زیادہ بولی لگائے گا، میں اسے بیچ ڈالوں گا۔مگر حقیقت میں وہ اسرائیل کے اہم سرپرستوں میں سے ایک تھا۔آنے والے حالات نے یہ امر ثابت بھی کر دیا۔1976ء میں مارک نے اسرائیل میں ''رچ فاؤنڈیشن'' کے نام سے ایک فلاحی تنظیم قائم کردی۔ اس تنظیم نے مختلف اسرائیلی شہروں میں ہسپتال، کالج اور سکول قائم کیے۔

یوں مارک نے اپنے کاروبار سے جو اربوں ڈالر کمائے،اس کا بڑا حصہ اسرائیل میں رفاہی سرگرمیوں پرخرچ ہوا۔ اس امر نے اسے اسرائیل میں ہیرو بنادیا۔ مارک کی کمپنی کے دفاتر پوری دنیا میں پھیلے ہوئے تھے۔ موساد کے ایجنٹ ملازمین کا روپ دھار کر وہاں کام کرنے لگے۔ ان اسرائیلی ایجنٹوں نے کاروباریوں یا تاجروں کے بھیس میں سراغ رسانی کی کئی مہمات کامیابی سے انجام دیں۔ یوں اسرائیل کو خاص طور پر موقع ملا کہ وہ ایران ' سعودی عرب اور دیگر تیل پیدا کرنے والے اسلامی ممالک میں جاسوسی کا اپنا نیٹ ورک تشکیل دے سکے۔

تیل کے کروڑوں ڈالر پر مبنی معاہدے کرنے کی وجہ سے مارک رچ ''کنگ آف آئل'' کہلانے لگا۔1980ء تک مارک رچ کھرب پتی بن چکا تھا۔ تاہم یورپ اور امریکا میں عوام کی اکثریت اس امیر کاروباری اور سرمایہ کار سے ناواقف تھی۔ تب تک مارک اپنی بے پناہ دولت سے سرمایہ کاری بھی کرنے لگا ۔ مزید براں کم ہی لوگ جانتے تھے کہ اس کا دھندا بے ایمانی اور دھوکے بازی سے آلودہ ہے۔ دراصل مارک رچ نے سوئٹزر لینڈ' پانامہ' بہاماس ' کیمن جزائر وغیرہ میں آف شور کمپنیاں کھول لی تھیں۔ وہ اپنی آمدن کا بڑا حصہ ان کمپنیوں کے ذریعے خفیہ اکاؤنٹس میں منتقل کر دیتا۔ یوں امریکا میں وہ کروڑوں ڈالر کا ٹیکس بچا لیتا۔

آفت آگئی
1981ء میں آخر کار تیل کے دیگر تاجروں نے امریکی حکومت کو آگاہ کیا کہ چالاک و ہوشیار مارک رچ کس طرح کروڑوں ڈالر کا ٹیکس بچا رہا ہے۔ امریکی حکومت یہ جان کر بھی تاؤ میں آ گئی کہ مارک رچ اس کے دشمنوں... ایران ' کیوبا' لیبیا سے بھی چوری چھپے کاروبار کر رہا ہے۔ چناںچہ ایف بی آئی نے مارک رچ کی فائل کھول لی اور اس کے خلاف تحقیقات کرنے لگی۔

1983ء میں مارک رچ کو احساس ہوا کہ ایف بی آئی کسی بھی لمحے اسے ٹیکس چوری کے الزام میں گرفتار کر سکتی ہے۔ چناںچہ وہ اپنے ساتھی' نیکس گرین کے ساتھ سوئٹزر لینڈ فرار ہو گیا۔ سوئس حکومت نے امریکا کے ساتھ ٹیکس چوروں کو واپس کرنے کا معاہدہ نہیں کیا تھا' اس لیے مارک رچ کو با آسانی سوئٹزر لینڈ میں پناہ مل گئی۔ چونکہ سوئٹزر لینڈ کے بینک کرپشن' کالے دھن اور ٹیکس چوری سے کمائے سرمائے کا عالمی مرکز ہیں لہٰذا سوئس حکومت کرپٹ حکمرانوں اور لوگوں کو بہت تحفظ دیتی ہے۔

مارک رچ فرار ہوا' تو ایف بی آئی نے اس کے جرائم کی تفصیل عدالت میں پیش کر دی۔ یہ 1983ء ہی کی بات ہے۔ یہ فائل سرکاری وکیل' رڈی جولیانی کے توسط سے پیش ہوئی جو بعدازاں نیویارک کا میئر بنا۔ نیز اب صدر ٹرمپ اسے اپنا وزیر خارجہ بنا سکتے ہیں۔عدالت نے مارک کو ''65'' الزامات کا مرتکب قرار دیا۔ اگر یہ الزامات درست ثابت ہو جاتے' تو مارک کو تین سو برس حوالات کی ہوا کھانا پڑتی ۔تب یہ امریکی تاریخ میں ٹیکس چوری اور فراڈ کا سب سے بڑا کیس تھا۔



مارک رچ نے تمام الزامات سے انکار کیا مگر وہ کبھی امریکی عدالت میں پیش نہیں ہوا۔ یہ اس امر کی دلیل ہے کہ وہ دھوکے باز اور فراڈیا تھا۔ آخر اس کی عدم موجودگی میں مارک کی کمپنیوں کو 200ملین ڈالر جرمانے کی سزا سنا دی گئی۔ ان کمپنیوں میں مارک رچ اینڈ کمپنی بھی شامل تھی جو اب ''گلین کور'' (Glencorc) کہلاتی ہے۔ یہ دنیا کی دیو ہیکل ملٹی نیشنل کمپنیوں میں سے ایک ہے۔

امریکا کے دشمنوں سے تعلقات بڑھانے کے باعث امریکی حکومت نے مارک کو معاف نہیں کیا اور اسے گرفتار کرنے کی کوشش کرتی رہی۔ وہ کئی برس ایف بی آئی کی ''دس مطلوب ترین شخصیات'' میں شامل رہا۔ تاہم سوئٹرز لینڈ' اسپین اوراسرائیل کی حکومتیں مارک کی سرپرست بن گئیں۔ چناںچہ مارک ملزم بن کر بھی شاہانہ انداز میں پُر آسائش زندگی گزارتا رہا۔ اس کا کاروبار بھی پھلا پھولا اور دولت میں دن دگنی رات چوگنی رفتار سے اضافہ ہوا۔

1966ء میں مارک نے ایک امریکی نغمہ نگار' ڈینسی آئزن برگ سے شادی کر لی تھی جس سے تین بچے تولد ہوئے۔ جب مارک سوئٹزر لینڈ فرار ہوا' تو اس کا خاندان امریکا ہی میں مقیم رہا۔ گو ڈینسی اپنے شوہر سے ملنے آتی جاتی رہی۔ 1996ء میں مارک کی بڑی بیٹی کینسر کے باعث چل بسی ۔گرفتاری کے خوف سے مارک نے امریکا میں قدم نہیں دھرے۔ بیٹی کے جنازے میں باپ کی عدم موجودگی سے بیوی کو از حد صدمہ پہنچا ۔ چناںچہ ڈینسی نے جلد ہی مارک سے طلاق لے لی۔ چھ ماہ بعد مارک نے ایک اداکارہ سے شادی کر لی۔

یہ شادی بھی 2005ء میں طلاق پر منتج ہوئی۔1987ء میں نیویارک کا ایک نوجوان وکیل' جیمز کومی مارک رچ کے کیس سے وابستہ ہو گیا۔ اس نے پھر کوششیں کیں کہ کسی طرح مارک کو گرفتارکر کے امریکا لایا جائے۔1990ء میں مارک سوئٹزر لینڈ سے اسپین جا رہا تھا۔ راستے میں اس کے جہاز کو لندن رکنا تھا۔ کومی نے منصوبہ بنایا کہ لندن ہوائی اڈے پر مارک کو گرفتار کر لیا جائے۔ ایف بی آئی کی ایک ٹیم لندن پہنچ گئی۔ مگر کومی کی بدقسمتی کہ گہری دھند کے باعث مارک کا طیارہ لندن نہیں اتر سکا۔

معافی کی مہم
1998ء میں مارک رچ نے امریکی دارالحکومت میں مقیم ایک بااثر یہودی لابسٹ، گیرشن کیکسٹ( Gershon Kekst) کی خدمات حاصل کرلیں۔ مدعا یہ تھا کہ وہ کسی طرح امریکی حکومت سے اسے معافی دلوا دے۔ وزارت انصاف کا نائب وزیر، ایرک ہولڈر اس کا واقف کار تھا۔ گیرشن نے اس سے مشورہ مانگا،تو ایرک ہولڈر نے کہا کہ تم جیک کوئنن( Jack Quinn) سے رابطہ کرو۔ جیک کلنٹن جوڑے کا وکیل اور ان دونوں کے بہت قریب تھا۔ ایرک ہولڈر جیک کا نام دے کر اسے مالی فائدہ پہنچانا چاہتا تھا۔ بدلے میں اس کی تمنا تھی کہ جیک اٹارنی جنرل بننے میں اس کی مدد کرے۔

1999ء میں جیک کوئنن مارک رچ کا وکیل بن گیا۔ مارک نے اسے بھی مالا مال کردیا۔ ابتداء میں ساڑھے تین لاکھ ڈالر دیئے۔ 55 ہزار ڈالر ماہانہ فیس طے پائی۔ جیک نے اسے یقین دلایا کہ جلد معافی مل جائے گی کیونکہ وزارت انصاف کا نائب وزیر، ایرک ہولڈر بھی اس امر کا حامی تھا۔ لیکن جب سرکاری وکلا، جیولانی اور کومی کو علم ہوا کہ وزارت انصاف مارک رچ کو معافی دینا چاہتی ہے، تو انہوں نے اس بات کی شدید مخالفت کی۔ ان کا مطالبہ تھا کہ پہلے مارک رچ امریکا پہنچ کر مقدمات کا سامنا کرے، پھر معافی دینے دلانے کا سلسلہ شروع ہوسکتا ہے۔ لیکن مارک رچ نے انکار کردیا۔ اسے بخوبی علم تھا کہ جب بھی سرزمین امریکا پہ قدم دھرے، اس کو گرفتار کرلیا جائے گا۔ وہ اپنی باقی ماندہ زندگی جیل میں سڑتے نہیں گزارتا چاہتا تھا۔

اس پیش رفت کے بعد جیک کوئنن اور ایرک ہولڈر نے اپنی نئی چالوں سے جیولانی اور کومی کو بے خبر رکھا۔ جیک کوئنن کے مشورے پر اسرائیلی حکومت درمیان میں کود پڑی۔ اسرائیلی وزیراعظم، ایہود باراک نے امریکی صدر، بل کلنٹن کو خط لکھ کر درخواست کی کہ مارک رچ کو معاف کردیا جائے۔ ایف بی آئی کے مطابق بعدازاں دونوں حکمرانوں کی دو ملاقاتوں میں مارک رچ کی معافی بھی زیر بحث آئی۔تفتیشی دستاویز کے مطابق ایک ملاقات میں ایہود باراک نے تقریباً چلاتے ہوئے کہا ''یہ معافی بہت ضروری ہے۔ اس سے ''مادی فائدہ'' وابستہ ہے۔ پھر اس (مارک رچ) نے موساد کے کئی مواقع پر مدد کی ہے۔''

بل کلنٹن نے جواب دیا ''میں اس معاملے کا جائزہ لے رہا ہوں۔ آپ اس کے متعلق کچھ نہ کہیں۔''صاف ظاہر تھا کہ امریکی صدر مارک رچ کے معاملے کو خفیہ رکھنا چاہتے تھے۔



ایہود باراک کے بعد اسرائیل کے نامی گرامی سیاست دانوں مثلاً شمعون پیریز، ایہود اولمرت، وزیر خارجہ شولومو بن عمی، موساد چیف سبتائی شافیت وغیرہ نے بھی امریکی صدر کو خط لکھے۔ ہسپانوی بادشاہ، جان کارلوس اور امریکا کے طاقتور یہودی کاروباری، صنعت کار اور سرمایہ دار بھی خط لکھنے والوں میں شامل تھے۔ خاص بات یہ کہ ان سب نے مارک رچ سے کسی نہ کسی شکل میں مادی فوائد حاصل کر رکھے تھے۔

ایک ذریعے سے جیک کوئنن کو علم ہوا کہ سابق اسرائیلی وزیراعظم، یاتزک رابن کی بیٹی کلنٹن جوڑے کے قریب ہے۔ چناں چہ مارک رچ کے آدمیوں نے اس سے رابطہ کرلیا۔ بیٹی صاحبہ نے نہ صرف خط لکھا بلکہ بل کلنٹن کو فون کرکے بھی درخواست کی کہ مارک رچ معافی کا مستحق ہے۔ گویا مارک خود کو بری الذمہ قرار دلوانے کے لیے اسرائیل کی پوری سرکاری مشینری حرکت میں لے آیا۔ یہ بات افشا کرتی ہے کہ وہ اسرائیل میں بہت زیادہ اثرو رسوخ رکھتا تھا۔

اس کے باوجود معاملہ لٹکا رہا اور مارک کو معافی نہ مل سکی۔ آخر جیک کوئنن نے مارک کو مشورہ دیا کہ اپنی سابقہ بیگم سے مدد لو۔ دراصل ڈینسی رچ ڈیموکریٹک پارٹی کی کٹر حامی تھی۔ پھر اس کے نغمے ڈیانا راس، نتالی کول،جیسکا سمپن اور مارک انتھونی جیسے مشہور امریکی گلوکاروں نے گائے، تو وہ مشہور بھی ہوگئی۔ کلنٹن جوڑا اس کے گانوں کو پسند کرتا تھا، لہٰذا ڈینسی رچ حکمران جوڑے کے محدود حلقہ احباب میں بھی شامل ہوگئی۔

ڈینسی رچ اپنے سابقہ شوہر سے ناراض تھی۔ لہٰذا اس نے ''مہمِ معافی'' میں مارک کا ساتھ دینے سے انکار کردیا۔ آخر مارک نے اپنا دیرینہ و آزمودہ داؤ آزمایا اور سابقہ بیوی کو پیغام بجھوایا ''اگر تم مجھے بل کلنٹن سے معافی دلوا دو، تو میں تمہارا منہ ڈالروں سے بھر دوں گا۔'' پیسے کی طاقت و کشش اچھے اچھوں کا دین و ایمان متزلزل کردیتی ہے، ڈینسی تو پھر دولت کی دیوانی تھی۔ اس نے سابق شوہر کی پیشکش قبول کرلی۔

اب مارک رچ کی بے پناہ دولت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ڈینسی مختلف طریقوں سے کلنٹن جوڑے کو نوازنے لگی۔ جب ہیلری کلنٹن نے نیویارک سے سینیٹر بننے کی انتخابی مہم چلائی، تو ڈینسی نے اس میں ایک لاکھ ڈالر چندہ دیا۔ جب کلنٹن جوڑے نے نیا گھر خریدا، تو ڈینسی نے اسے نئے فرنیچر سے آراستہ و پیراستہ کیا جو تب سات ہزار ڈالر کا آیا تھا۔کلنٹن جوڑے نے اپنی پریزیڈیشنل لائبریری قائم کی تو ڈینسی نے اسے بھی ساڑھے چار لاکھ ڈالر کی خطیر رقم کا چندہ دیا۔ سب سے بڑھ کر ڈینسی نے ڈیموکریٹک پارٹی کو دس لاکھ ڈالر کا چندہ دیا۔ ڈینسی کی کلنٹن جوڑے کو دی گئیں یہ وہ رقوم ہیں جو بعدازاں ایف بی آئی کو دوران تفتیش معلوم ہوئیں۔

عین ممکن ہے کہ ڈینسی نے دیگر طریقوں سے بھی کلنٹن جوڑے کو مالی فائدہ پہنچایا ہو، مگر وہ اب تک طشت ازبام نہیں ہوسکے۔غرض مارک رچ نے معافی حاصل کرنے کی خاطر کروڑوں روپے خرچ کردیئے۔ ڈینسی نے اس دوران بل کلنٹن اور ہیلری کلنٹن، دونوں سے کئی ملاقاتیں کیں اور ان پر زور دیا کہ اس کے سابق شوہر کو معاف کردیا جائے۔



آخر اپنے اقتدار کے آخری دن،بتاریخ 20 جنوری 2001ء صدر بل کلنٹن نے مارک رچ کو معافی کا حکم جاری کردیا۔ یوں امریکی قانون کی گرفت میں نہ آنے والا مفرور، ٹیکس چور اور فراڈیا اپنے روپے پیسے،کلنٹن جوڑے کے لالچ اور اسرائیلی حکومت سے گہرے تعلقات کے بل پہ باعزت طور پر بری ہوگیا۔وہ پھر 2013ء میں اپنی موت تک عیش وعشرت کی زندگی گذارتا رہا۔مارک رچ کو معافی ملی تو امریکی رہنماؤں نے اظہار حیرت و تعجب کیا۔ حتیٰ کہ ڈیموکریٹک پارٹی کے بہت سے لیڈروں نے اس عمل کو ''افسوسناک'' قرار دیا۔جلد ہی صدر کلنٹن کا یہ عمل اچھا خاصا سکینڈل بن گیا۔ چناں چہ نئی (بش) حکومت نے ایف بی آئی کو حکم دیا کہ وہ سکینڈل کی تحقیقات کرے۔ تفتیشی ٹیم کا سربراہ جیمز کومی کو بنایا گیا۔ جرمی نے 2005ء تک تفتیش مکمل کرلی مگر رپورٹ جاری نہ کی گئی۔

آخر1 نومبرکو بذریعہ ٹوئٹر اکاؤنٹ درج بالا رپورٹ افشا کردی گئی۔ اس کے بیشتر حصے سنسر شدہ ہیں۔ تاہم رپورٹ امریکی عوام کے سامنے حقائق لانے میں کامیاب رہی... یہ کہ کلنٹن جوڑے نے مالی و مادی فوائد حاصل کرکے ایک ملزم کو معافی دے ڈالی اور یہ کہ کلنٹن جوڑے پر اس لیے مقدمہ نہیں چلایا گیا کہ یوں دنیا بھر میں امریکا اور امریکی حکومت کی بدنامی ہوتی۔ اس بدنامی سے بچنے کے لیے امریکی اسٹیبلشمنٹ نے کلنٹن جوڑے پر ہاتھ نہیں ڈالا۔ یہ دنیا بھر کی حکومتوں میں کارفرما انوکھے ''نظریہ ضرورت'' کو اجاگر کرتا خصوصی کیس ہے۔

غرض ایف بی آئی کی دو رپورٹیں دوران ایکشن ہیلری کلنٹن کی شکست کا سبب بن گئیں۔ ممکن ہے کہ انہیں جاری کرکے جیمز کومی نے کلنٹن جوڑے سے کوئی ذاتی یا سیاسی انتقام لیا۔ مگر یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کومی ان رپورٹوں کے ذریعے امریکی عوام کو دکھانا و بتانا چاہتا ہو کہ ہیلری کلنٹن ایک کرپٹ اور بے پروا خاتون ہیں لہٰذا وہ اخلاقی و قانونی طور پر صدر بننے کی اہلیت نہیں رکھتیں۔ امریکی عوام بہرحال ایف بی آئی ڈائریکٹر کا پیغام پانے و سمجھنے میں کامیاب رہے اور انہوں نے سابق خاتون اول کو مسترد کردیا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں