جہاں بینی

نصف صدی سے زائد عرصے سے جاری خانہ جنگی کے فریق اپنا اپنا مضبوط موقف رکھتے ہیں۔

ترکی نے کُرد راہ نما صالح مسلم محمد کی گرفتاری کے لیے وارنٹ جاری کردیے ہیں۔ فوٹو : فائل

کولمبیا، حکومت اور باغی گلے لگ گئےنصف صدی سے جاری خانہ جنگی کا خاتمہ

جمہوریہ کولمبیا براعظم جنوبی امریکا کے شمال مغرب میں واقع ہے۔ گیارہ لاکھ اکتالیس ہزار سات سو مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا قدرتی وسائل سے مالا مال یہ خطۂ ارض نصف صدی سے خانہ جنگی کا شکار چلا آرہا ہے۔ اس جنگ کے کئی فریق رہے ہیں۔ ان میں حکومتیں، پیراملٹری فورسز، منشیات اسمگلروں کے طاقت وَر گروہ، بائیں بازو کا گوریلا گروپ جو کولمبیا کی انقلابی مسلح افواج ( FARC ) کہلاتا ہے، اور نیشنل لبریشن آرمی ( ELN ) شامل ہیں۔ تمام فریق اپنے اپنے زیر اثر علاقے کو وسعت دینے کے لیے باہم برسرپیکار رہے۔



کولمبیا میں جاری خانہ جنگی کا آغاز 1948ء میں عوامیت پسند تحریک کے رہنما Jorge Eliécer Gaitánکے قتل سے ہوا تھا۔ جارج کے قتل کے بعد کنزرویٹیو اور لبرل پارٹی کے کارکنان کے درمیان جھڑپیں شروع ہوئیں جو بعدازاں مسلح تصادم کی شکل اختیار کرگئیں۔ دونوں پارٹیوں کے درمیان جنگ وجدل کا یہ سلسلہ ایک عشرے پرمحیط رہا۔ چند برسوں کے سکون کے بعد 1960ء کی دہائی کے وسط میں کولمبیا کی سرزمین ایک بار پھر خون سے رنگین ہونے لگی۔ کرۂ ارض کی جدید تاریخ میں ہونے والی بیشتر جنگوں کی طرح اس جنگ کے پس پردہ بھی امریکا کا ہاتھ تھا۔ کمیونسٹ مخالف قوتوں کی امریکی حمایت کے ردعمل میں لبرل اورکمیونسٹ جنگ جو گوریلا تحریک کی صورت میں منظم ہوگئے اور ملک میں خانہ جنگی شروع ہوگئی۔ 2013ء تک یہ جنگ شدومد سے لڑی جاتی رہی۔ اس دوران سوا دو لاکھ لوگ مارے گئے جن میں اکثریت عام شہریوں کی تھی۔ خانہ جنگی کے نتیجے میں پچاس لاکھ سے زایدافراد گھربار چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ داخلی طور پر بے گھر ہونے والے افراد کی یہ دوسری سب سے بڑی تعداد ہے۔

نصف صدی سے زائد عرصے سے جاری خانہ جنگی کے فریق اپنا اپنا مضبوط موقف رکھتے ہیں۔ فارک اور دوسری گوریلا تنظیمیں غریب عوام کی نمائندگی کا دعویٰ کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ وہ انھیں ان کے حقوق دلوانے، حکومتی ظلم سے تحفظ فراہم کرنے اور کمیونزم کے ذریعے سماجی انصاف مہیا کرنے کے لیے لڑ رہی ہیں۔ دوسری جانب حکومت ملک میں امن و امان کے قیام اور شہریوں کے حقوق اور مفادات کے تحفظ کے نام پر خانہ جنگی کی سب سے اہم فریق بنی رہی ہے۔ پیراملٹری گروپ گوریلا تنظیموں سے لاحق خطرات کو جواز بنا کر اس جنگ میں کود پڑے تھے۔ مؤخرالذکر دونوں فریقین پر دہشت گردی اور منشیات کی اسمگلنگ میں ملوث ہونے کے الزامات عائد کیے جاتے رہے ہیں۔

معصوم شہریوں کی ہلاکتوں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی بنیاد پر خانہ جنگی کے تمام فریقین کو عالمی سطح پر تنقید کا نشانہ بنانے کے ساتھ ساتھ آپس میں صلح کرلینے کے لیے دباؤ بھی ڈالا جاتا رہا ہے۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ کولمبیا کے موجودہ صدر خوان مانوئل سانتوس نے 2010ء میں منصب صدارت سنبھالنے کے بعد خانہ جنگی کے خاتمے کے لیے کوششیں شروع کردی تھیں۔ ان کی مسلسل کوششوں کا نتیجہ گذشتہ دنوں سب سے بڑے باغی گروپ یعنی فارک اور حکومت کے درمیان امن معاہدے کی صورت میں ظاہر ہوا ہے۔ واضح رہے کہ ملک سے خانہ جنگی کے خاتمے کی کوششوں کے صلے میں خوان مانوئل کو رواں سال امن کا نوبیل انعام بھی دیا گیا ہے۔



حکومت اور فارک کے درمیان جنگ بندی کے معاہدے پر غور رواں برس کے آغاز میں شروع ہوگیا تھا۔ بعدازاں اکتوبر میں حکومت نے مجوزہ معاہدے پر عوام کی رائے معلوم کی مگر اکثریت نے مجوزہ معاہدہ مسترد کردیا تھا۔ امن معاہدے کے مخالفین کو یہ غصہ تھا کہ اپنے ہی لوگوں کے خلاف سنگین ترین جرائم کا ارتکاب کرنے والے گوریلوں کے لیے معاہدے میں کوئی سزا تجویز نہیں کی گئی تھی۔ امن معاہدے کے خلاف مہم سابق صدر الوارو ویلیز نے چلائی تھی۔

کولمبین عوام کے اس فیصلے پر بین الاقوامی حلقوں کی جانب سے تشویش ظاہر کی گئی تھی کہ اس سے خطے میں امن و امان کے قیام کی راہ میں رُکاوٹ پیدا ہوجائے گی۔ چناں چہ عوامی فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے خوان مانوئل نے فارک کے باغیوں کے ساتھ ہونے والے امن مذاکرات کو معاہدے کی شکل دے دی۔ چند روز قبل معاہدے کی کانگریس نے بھی منظوری دے دی ہے جسے اس تاریخی پیش رفت کی راہ میں آخری رکاوٹ سمجھا جارہا تھا۔ سینیٹ اور ایوان نمائندگان سے منظوری پہلے ہی لی جاچکی ہے۔ امید کی جارہی ہے کہ اس معاہدے کے ساتھ کولمبیا میں امن و آشتی سے پُر ایک نئے دور کا آغاز ہوگا۔

برطانیہ کا یورپی یونین سے اخراج کھٹائی میں پڑجانے کا خدشہ
جون 2016ء میں، برطانیہ میں ہونے والے ریفرنڈم میں عوام کی اکثریت نے یورپی یونین کو خیرباد کہہ دینے (بریگزٹ) کے حق میں فیصلہ دے دیا تھا۔ برطانیہ 1973ء میں یورپی یونین کا حصہ بنا تھا جو اس زمانے میں یورپین اکنامک کمیونٹی ( ای ای سی ) کہلاتا تھا۔ برطانیہ کے یورپی یونین کا رکن بننے کے فوراً ہی بعد اس شمولیت کے خلاف آوازیں بلند ہونے لگی تھیں۔ 1970ء اور 80ء کی دہائی میں لیبرپارٹی اور تجارتی انجمنوں کے چند سرکردہ افراد اس کی مخالفت کرتے رہے۔ پھر 90ء کے عشرے میں کنزرویٹو اور نوقائم شدہ یوکے انڈیپینڈنس پارٹی نے یورپی یونین سے علیٰحدگی کے حق میں آواز اٹھائی۔ آخرکار رواں برس سابق وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے، جن کا تعلق کنزرویٹیو پارٹی سے ہے، یورپی یونین سے علیٰحدگی یا اس اتحاد کا حصہ بنے رہنے کے لیے عوامی رائے لینے کا فیصلہ کیا۔ 52 فی صد برطانویوں نے یورپی یونین سے اخراج کے حق میں فیصلہ دیا۔ عوام کی رائے واضح ہوجانے کے بعد ڈیوڈکیمرون اخلاقی جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے کیوں کہ وہ برطانیہ کے یورپی یونین سے اخراج کے خلاف تھے۔

یورپی ملکوں کے اتحاد سے اخراج کے لیے برطانوی حکومت یورپی یونین میں شمولیت کے معاہدہ کا سہارا لے گی۔ مذکورہ معاہدے کے آرٹیکل 50 کے تحت حکومت مارچ 2017ء کے اختتام سے قبل ایک نوٹس کے ذریعے یورپی یونین سے علیٰحدگی کی رسمی کارروائی شروع کرے گی جو دو سال تک جاری رہے گی، تاہم ہنوز یورپی یونین اور برطانوی حکومت کے درمیان 'بریگزٹ' کی شرائط پر مذاکرات کا باقاعدہ آغاز نہیں ہوا ہے۔



برطانیہ کا یورپی یونین سے اخراج کا معاملہ کھٹائی میں بھی پڑ سکتا ہے، کیوں کہ حال ہی میں یورپی پارلیمان کے مذاکرات کار اور بیلجیم کے سابق وزیراعظم ژی ووفستت نے ایک بیان میں کہا ہے کہ پارلیمان برطانیہ کی علیٰحدگی کے سلسلے میں کوئی ایسا معاہدہ قبول نہیں کرے گی جس سے یورپی باشندوں کو حاصل چار آزادیاں بشمول (رکن ممالک کے درمیان) آزادانہ نقل و حرکت کی خلاف ورزی ہوتی ہو۔ واضح رہے کہ یورپی یونین سے اخراج کے فیصلے کا ایک بڑا محرک دوسرے یورپی ممالک کے شہریوں کی برطانیہ آمد بھی تھا۔ یونین کے قوانین کے مطابق رکن ممالک کے شہری آزادانہ ایک سے دوسرے ملک میں آ جا سکتے ہیں مگر برطانویوں کی اکثریت یہ پسند نہیں کرتی۔ اس ناپسندیدگی کا عملی اظہار ریفرنڈم کے بعد دیکھنے میں آیا جب انگریزوں کی جانب سے پولینڈ اور دوسرے یورپی ممالک کے باشندوں کے ساتھ ناروا سلوک کیے جانے کے کئی واقعات پیش آئے۔


ژی ووفستت نے درج بالا بیان برطانوی وزیر ڈیوڈ ڈیوس سے ملاقات کے بعد ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگوکرتے ہوئے دیا۔ ڈیوڈ ڈیوس کو وزیراعظم تھریسا مے کی جانب سے یورپی یونین سے علیٰحدگی کے معاملات کا انچارج بنایا گیا ہے۔ ژی ووفستت کا کہنا تھا کہ ' بریگزٹ' کے لیے ایسی شرائط قطعی ناقابل قبول ہوں گی جن سے شہریوں، اشیاء، خدمات اور سرمائے کی نقل و حرکت پر قدغن لگتی ہو۔ یہ چاروں آزادیاں یا سہولتیں یورپی یونین کے بنیادی عناصر میں شامل ہیں۔

یورپی یونین مذکورہ بالا چار عناصر کے تحفظ پر یقین رکھتی ہے تو دوسری جانب برطانوی عوام تارکین وطن کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ان حالات میں تھریسا مے اور ان کی کابینہ کے لیے ' بریگزٹ' کی ایسی شرائط وضع کرنا جو یورپی یونین کے لیے قابل قبول ہوں، ایک چیلنج ثابت ہوگا۔

ترکی نے شام کے اہم ترین
اپوزیشن پارٹی لیڈرکے وارنٹ گرفتاری جاری کردیے

ترکی نے کُرد راہ نما صالح مسلم محمد کی گرفتاری کے لیے وارنٹ جاری کردیے ہیں۔ وارنٹ کے اجرا کا سبب رواں سال فروری اور مارچ میں ہونے والے بم دھماکے ہیں۔ فروری میں دارالحکومت انقرہ کے انتہائی حساس علاقے میں، پارلیمنٹ کے قریب ایک فوجی کانوائے کونشانہ بنایا گیا تھا۔ کانوائے میں شامل بسوں میں فوجیوں کے علاوہ آرمی ہیڈکوارٹر کے سویلین ملازم بھی شامل تھے۔

دھماکے کے نتیجے میں تیس افراد ہلاک اور اکیاسی زخمی ہوئے تھے۔ اس واقعے کی ذمہ داری کُردستان فریڈم فیلکنز (ٹی اے کے) نامی گروپ نے قبول کی تھی۔ فروری کے بعد مارچ میں ایک بار پھر انقرہ میں بارود سے بھری کار بسوں سے ٹکرا دی گئی۔ اس واقعے میں سینتیس شہری جاں بحق اور سوا سو زخمی ہوئے۔ اس بم دھماکے کی ذمہ داری بھی کردستان فریڈم فیلکنز نے قبول کی۔ کردستان فریڈم فیلکنز، کُرد قوم پرستوں پر مشتمل ایک باغی گروپ ہے جو مشرقی اور جنوب مشرقی ترکی میں آزاد کُرد ریاست کے قیام کے لیے سرگرم ہے۔



پینسٹھ سالہ صالح مسلم محمد شام میں بائیں بازو کی کُردش ڈیموکریٹک یونین پارٹی (پی وائی ڈی)کے مشترکہ چیئرمین ہیں۔ پی وائی ڈی نے جسے شام کی اہم ترین کُردش اپوزیشن پارٹی سمجھا جاتا ہے، 2011ء میں خانہ جنگی شروع ہونے کے بعد شمالی شام میں اپنی آزاد اور خودمختار حکومت کے قیام کا اعلان کردیا تھا۔ آج ایک وسیع و عریض علاقے پر پی وائی ڈی اور اس کی اتحادی کُرد جماعتوں کی حکومت قائم ہوچکی ہے۔ ٹی اے کے کی جانب سے اعتراف جُرم کے باوجود صالح مسلم محمد کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے گئے ہیں، کیوں کہ ترک حکومت انھیں اس واقعے میں مبینہ طور پر ملوث سمجھتی ہے۔ علاوہ ازیں ترک حکام کو یقین ہے کہ ملک میں سرگرم عمل کُرد باغیوں کو صالح مسلم محمد کی پُشت پناہی حاصل ہے۔

ترک حکومت پی وائی ڈی اور اس کی اتحادی کُردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) کو دہشت گرد قرار دے چکی ہے۔ پچھلے چند ماہ کے دوران حکومت نے بم دھماکوں میں ملوث ہونے کے شبہے میں درجنوں ترک کردش سیاست داں گرفتار کیے ہیں۔ واضح رہے کہ ترکی نے رواں سال اگست میں سرحد کے ساتھ لگنے والے شامی علاقے میں، جس پر پی وائی ڈی کی حکومت قائم ہے، داعش کے خلاف فوجی کارروائی کا آغاز کیا تھا۔ اس عسکری مہم کا دوسرا مقصد کُردوں کے توسیع پسندانہ عزائم کی روک تھام تھا۔ ترک حکومت اور کُردوں کے باہمی تعلقات انتہائی کشیدہ ہیں۔ صالح مسلم محمد کے وارنٹ گرفتاری جاری کرنے کے اقدام سے کشیدگی میں مزید اضافہ ہوگا۔

ستائش کی تمنا نہ صلے کی پروا۔۔۔
فیڈل کاسترو کا نہ تو کوئی مجسمہ نصب ہوگا اور نہ ہی عوامی مقامات اس کے نام سے منسوب کیے جائیں گے

شہرت، نام وَری، پذیرائی کا خواہاں ہر انسان ہوتا ہے۔ یہ مقام حاصل کرلینے کے بعد اس کے دل میں اپنی شہرت اور نام وَری کو دوام بخشنے کی تمنا جاگزیں ہوجاتی ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ مرنے کے بعد بھی اس کا نام زندہ رہے۔ اگر وہ شخص کسی ملک کا مطلق العنان حاکم ہو تو پھر اپنے تئیں اس خواہش کی تکمیل کے لیے من چاہے راستے اختیار کرسکتا ہے۔

صدام حسین کے نقش قدم پر عمل کرتے ہوئے ملک بھر میں اپنے سنگی مجسموں کی تنصیب کے ساتھ ساتھ شاہراہوں، تعلیمی درس گاہوں یہاں تک کہ قصبوں اور شہروں کو اپنے نام سے منسوب کرواسکتا ہے۔ کچھ سیاسی راہ نمائوں کی موت کے بعد ان کے وارث حسب اختیار مذکورہ کام سرانجام دیتے ہیں، مگر حیرت انگیز طور پر گذشتہ دنوں انتقال کرجانے والے مشہور عالم انقلابی راہ نما فیدل کاسترو کا نہ تو کیوبا کے کسی چوک میں مجسمہ لگایا جائے گا، اور نہ ہی کوئی شاہراہ، عوامی یادگار یا کوئی شہر ان کے نام سے منسوب ہوگا۔



اس بات کا اعلان آنجہانی راہ نما کے برادرِ صغیر اور کیوبا کے صدر رائول کاسترونے ہزاروں لوگوں کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ یہ جم غفیر سان تیاگو دی کیوبا ( شہر) میں اپنے ہر دل عزیز راہ نما کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے جمع ہوا تھا۔ رائول کاسترو نے کہا کہ قومی اسمبلی کے آئندہ اجلاس میں ایک قانون منظور کیا جائے گا جس کے تحت اداروں، شاہراہوں، پارکوں اور دیگر عوامی مقامات کو فیڈل کاسترو کے نام سے منسوب کرنے پر پابندی ہوگی۔ اس قانون کی رُو سے نہ تو ان کے مجسمے نصب کیے جاسکیں گے اور نہ ہی کسی اور ایسے ہی طریقے سے انھیں خراج عقیدت پیش کیا جاسکے گا۔

اس انوکھے اقدام کے پس پردہ سبب سے عوام کو آگاہ کرتے ہوئے رائول کاسترو نے کہا کہ ان کا ہردل عزیز راہ نما شخصیت پرستی کے سخت خلاف تھا، وہ نہیں چاہتا تھا کہ لوگ اس کی موت کے بعد اسے پُوجتے رہیں۔ واضح رہے کہ کیوبا پر نصف صدی سے زاید عرصے تک حکم راں رہنے والے انقلابی راہ نما نے ذاتی تشہیر سے اپنے دور میں بھی ہمیشہ اجتناب برتا اور اپنے بعد بھی یہی روایت برقرار رکھنے کی وصیت کرگئے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ ان کے انقلابی ساتھیوں کامیلو سین فوئی گوس اور ارنیستو چی گویرا کے مجسمے کیوبا میں جا بہ جا موجود ہیں۔
Load Next Story