صادق آباد پاکستان کا واحد شہر جس کی سالگرہ منائی جاتی ہے
تقریباً 3 لاکھ نفوس کی آبادی پر مشتمل صادق آباد ضلع رحیم یارخان کی آخری تحصیل ہے
لاہور:
پاکستان کو اﷲ تعالیٰ نے بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے۔ دنیا میں پاکستان کی اہمیت بے پناہ ہے اور اس سے کسی کو بھی انکار نہیں ہے ۔ اس کی جغرافیائی و علاقائی اہمیت اس کے موسم، کہیں معدنیات کے ذخائر ہیں تو کہیں پھلوں اور اجناس کے انبار ہیں، کھلے میدان ہیں تو کہیں بلند و بالا کوہسار، صحرا، سمندر، دریا، اس کی قدیم تہذیبیں، اس کے مختلف النوع ثقافتی رنگ غرض یہ کہ ہر نعمت اپنی جگہ اہمیت کی حامل ہے یوں تو وطن عزیز کا ہر شہر ہر قریہ ہر گاؤں اپنی جداگانہ اہمیت و انفرادیت کا حامل ہے مگر کچھ علاقے اپنی جداگانہ شناخت بھی رکھتے ہیں، جیسے سندھ، پنجاب اور بلوچستان کے سنگم پر واقع صوبہ پنجاب کی تحصیل صادق آباد۔ پاکستان کے شہروں میں صادق آباد کی ایک اپنی انفرادیت ہے۔َ
تقریباً 3 لاکھ نفوس کی آبادی پر مشتمل صادق آباد ضلع رحیم یارخان کی آخری تحصیل ہے، جس سے ملحق سیکڑوں بستیاں، دیہات اور قصبات ہیں جو جفاکش محنتی اور خوب صورت رویوں کے مالک لوگوں کا مسکن ہیں۔ صادق آباد نسبتاً ایک نیا شہر ہے جسے 18نومبر 1935ء کو سر ریاست بہاول پور کے حکم راں نواب صادق محمد خان عباسی کے نام پر بسایا گیا اور اس کا سنگ بنیاد خود نواب صاحب نے اپنے دست مبارک سے رکھا۔ صادق آباد کی موجودہ سرصادق مارکیٹ میں یہ سنگ بنیاد آج بھی ایستادہ ہے اور ماضی کی حسین یادوں کا امین بن کر اہل دل کو جمالیاتی تسکین فراہم کرتا ہے۔
زندہ اقوام اپنے مشاہیر کے ساتھ ساتھ اپنی یادگار روایات، عمارات، ثقافتی ورثے اور تہواروں کو بھی اپنے جسم و روح کے رشتوں میں پرو کر رکھتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی آپ کو دنیا کے عجائبات میں سے وہ عجائب سرفہرست نظر آئیں گے جن کو ان کی امین اقوام نے سنبھال کر رکھا ہے اور وہ آج بھی ان کے معاشی مفادات کو مزید تقویت دیتے ہیں اور اپنی رنگینیوں سے ایک عالم کو اپنا گرویدہ کئے ہوئے ہیں۔
صادق آباد کے رہائشی دو بھائیوں نے صادق آباد کی سال گرہ منانے کا قصد کیا اور شہر سے محبت کے اظہار کے لیے شہر کی سال گرہ کا شان دار پروگرام منعقد کیا۔ یہ دو بھائی محمد افضل شاہد کنگ اور محمد اکمل شاہد کنگ ہیں، جنہوں نے اپنے شہر سے محبت کے اظہار کا انوکھا طریقہ اختیار کیا اور باقاعدہ اس کی سال گرہ منانے کا سلسلہ گذشتہ برسوں سے جاری و ساری رکھے ہوئے ہیں۔ دنیا کے دیگر شہروں مثلاً لاس اینجلز، روم، الیگزیڈریا وغیرہ کی سال گرہ منائی جاتی ہے، جب کہ پاکستان میں صادق آباد وہ پہلا شہر ہے جس کی سال گرہ کی تقریبات منعقد کی جاتی ہیں۔ اس دن صادق آباد کے شہری مقامی قدیم ملبوسات پہنتے ہیں، لوگ ایک دوسرے کے گھر مٹھائی بھیجتے ہیں، قدیم روایتی رقص جھومر جو کہ چولستانی کلچر کا خاصہ ہے، کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے۔
سال گرہ کے دن کا آغاز شہر اور ملک کی ترقی و استحکام کی دعاؤں سے ہوتا ہے۔ اس دن باہمی محبت اور یگانگت کے مظاہرے دیدنی ہوتے ہیں، جب تمام لوگ سیاسی، لسانی اور مذہبی تفریق سے بالاتر ہوکر محض اپنے شہر کی ترقی اور خوش حالی کے لیے یکجا ہوتے ہیں۔ کیا خوب صورت سماں ہوتا ہے جب ایک طرف عیسائی، ہندو کمیونٹی، شی میل کمیونٹی اور تمام سماجی، مذہبی وتعلیمی اداروں کی نمائندہ شخصیات اور عام شہری ایک جگہ اکٹھے ہوکر شہر سال گرہ مناتے ہیں۔ اس دن شہریوں کی طرف سے شہر کی بہتری کے لیے عزم کا اظہار کیا جاتا ہے اور با قاعدہ ایک دستخطی مہم شروع کی جاتی ہے، جس میں ہزاروں کی تعد اد میں شہری اپنے دستخط اس عزم کی عبارت کے نیچے ثبت کر تے ہیں۔ یہ ایک انوکھی تقریب ہوتی ہے جس میں ہر شہری اپنی اپنی ذمہ داری کا تعین کرتا ہے، جس کے بعد سال گرہ کا کیک کاٹا جاتا ہے اور اجتماعی دعا کی جاتی ہے۔
اس دن کی ایک اہم بات یہ ہے کہ کاروباری ادارے اپنی مصنوعات کی فروخت پر پچاس فی صد تک رعایت کردیتے ہیں، واضح رہے کہ یہ عمل پورے میں میں کسی تہوار پر نہیں کیا جاتا۔ رعایتی قیمتوں کی باقاعدہ تشہیر کی جاتی ہے اور بڑے بڑے بل بورڈ ز اور ہولڈنگ آویزاں کیے جاتے ہیں۔
تاریخی طور پر1932میں جب احمدپورلمہ تحصیل تھی، اس وقت منڈی صادق آباد کی تحریک شروع کی گئی۔ اس تحریک کے روح رواں میر سید عابد حسین تھے، جنہوں نے صادق آباد کو منڈی بنوانے کے لیے ڈرافٹ تیار کروایا اور اس مقصد کے لیے جدوجہد کی۔ ان کا کہنا تھا کہ چشتیاں، ہارون آباد، بہاولنگر وغیرہ میں منڈیاں تعمیر ہورہی ہیں جو کہ مین ریلوے لائن اور مین روڈ سے ہٹ کر ہیں، لہٰذا اگر صادق آباد جو کہ محلہ وقوع اور مین ریلوے لائن پر ہے، اگر یہاں پر بھی منڈی بن جائے تو یقیناً اس سے نہ صرف اس علاقے میں ترقی کے مواقع میسر آئیں گے بل کہ یہ علاقہ دوسرے علاقوں کی نسبت ریاست بہاولپور کے لیے زیادہ کار آمد ثابت ہوگا اور اس خطے میں خوش حالی سے ریاست بہاولپور میں مزید خوش حالی آئے گی۔
واضح رہے اس وقت بہاولپور ہائی کورٹ میں قادیانیت کے حوالے سے تنسیخ نکاح کا ایک مقدمہ چل رہا تھا، جس کا چرچا ہندوستان بھر میں تھا، جو کہ 1926 ء سے7 فروری 1935 ء تک چلا اور جسٹس محمد اکبر نے تاریخی فیصلہ دیتے ہوئے قادیانیوں کو غیرمسلم قرار دیتے ہوئے اور نکاح کو فسخ کردیا۔ ایسے حالات میں انگریز سرکار کے بے پناہ دباؤ کے باوجود نواب سر صادق محمد خان عباسی والئی ریاست بہاولپور نے اس فیصلے کو ریاستی سطح پر بھر پور پزیرائی دی اور اس خوشی میں اس وقت منڈی صادق آباد کی تعمیر کے سلسلے میں اڑھائی لاکھ روپے کا بجٹ مختص کیا گیا۔
اس بجٹ سے تھانہ سٹی، کچہری، تحصیل داروں کی کوٹھیاں اور ان کے ملازمین کے کوارٹرز، ویٹرنری اسپتال، ماڈل ہائی اسکول اور موجودہ ٹی ایم اے کی بلڈنگ میں واقع اسپتال بھی بنایا گیا۔ اس کے علاوہ قذافی بازار کے قریب واٹر سپلائی کے لیے بھی انتظام کیا گیا، تاکہ صادق آباد شہر کی تعمیر کے بعد مقامی لوگوں کو سہولیات میسر آئیں۔ نواب سر صادق محمد خان عباسی والئی ریاست بہاولپور نے اس کی منظوری دے دی۔ صادق آباد منڈی کی منظوری کی دستاویزات پر سررحیم بخش نے دستخط کیے اور نواب سر صادق محمد خان عباسی والئی ریاست بہاولپور نے 18 نومبر 1935 ء کو اپنے دست مبارک سے اس کا سنگ بنیاد رکھا۔ ان سرکاری عمارات کی تعمیر کے بعد نومبر1939 ء میں موجودہ کینال ریسٹ ہاؤس کے مقام پر ایک جلسہ عام منعقد کیا گیا، جس میں معززین علاقہ اور عوام نے بہت بڑی تعداد میں شرکت کی۔ اس تقریب میں ڈپٹی کمشنر مسٹر پیلی نے اپنی بیگم سمیت شرکت کی۔ اس پُروقار جلسے میں مہمان خصوصی مسٹر پیلی کے اعزاز میں استقبالیہ نظم پیش کی گئی:
پیلی صاحب ایک ہیں ڈپٹی کمشنر بے گماں
رحم دل، عادل، خلیق، نیک خو اور مہربان
ہم بتائیں آپ نے دو سال میں کیا کیا کیا
صادق آباد آپ کی کوشش ہی سے منڈی بنا
صادق آباد میں تقریباً آٹھ قلعہ جات اور متعدد تاریخی مقامات ہیں جن میں کچھ مذہبی مقامات بھی ہیں جبکہ مزارات کی کثیر تعداد بھی یہاں موجود ہے۔ یہاں مدفون تہذیبوں کے آثار بھی موجود ہیں جن پر تحقیق کی ضرورت ہے جبکہ ان میں سے کچھ مقامات پر تحقیقی کام کتابی شکل میں میسر ہے۔ مشہور رومانوی داستان کے کردار سسی کی جائے پیدائش بھٹہ واہن اور عالمی شہرت یافتہ مسجد بھونگ شریف کا صادق آباد اس وقت ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہے یہاں ملکی زرعی ضروریات پورا کرنے کے لیے جنوب مشرقی ایشیا کے کھاد بنانے کے دو بڑے کارخانے موجود ہیں جب کہ 3شوگر ملز، متعدد کاٹن جننگ فیکٹریز، آئل فیکٹریز اور کئی چھوٹے صنعتی ادارے روزگار کی فراہمی کے ساتھ ساتھ ملکی معیشت کو تقویت دے رہے ہیں۔
گنا، کپاس، گندم اور رسیلے باغات خصوصاً آم یہاں کی خاص سوغات ہے، گنے کی وسیع رقبے پر کاشت کی وجہ سے یہ علاقہ اپنی ایک الگ پہچان رکھتا ہے۔ تعلیمی لحاظ سے صادق آباد ضلع بھر میں اول درجے پر ہے۔ صادق آباد کی سال گرہ اس لحاظ سے بھی منفرد ہے کہ تین صوبوں کا سنگم ہونے کی وجہ سے مختلف النوع زبانیں ثقافت مثلاً سندھی، بلوچی، سرائیکی، پنجابی اور راجستھانی رنگوں کا حسین امتزاج ہے۔ یہ سال گرہ کی تقریب دیکھنے کے قابل ہوتی ہے جب سب علاقائی رنگ اپنے جوبن پر ہوتے ہیں۔
ہماری دعا ہے کہ پاکستان کا یہ پُرامن اور خوب صورت شہر یوں ہی خوشیوں کا گہوارہ رہے اور اس کے باسی تاقیامت اس شہر کی سال گرہ مناتے رہیں۔
پاکستان کو اﷲ تعالیٰ نے بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے۔ دنیا میں پاکستان کی اہمیت بے پناہ ہے اور اس سے کسی کو بھی انکار نہیں ہے ۔ اس کی جغرافیائی و علاقائی اہمیت اس کے موسم، کہیں معدنیات کے ذخائر ہیں تو کہیں پھلوں اور اجناس کے انبار ہیں، کھلے میدان ہیں تو کہیں بلند و بالا کوہسار، صحرا، سمندر، دریا، اس کی قدیم تہذیبیں، اس کے مختلف النوع ثقافتی رنگ غرض یہ کہ ہر نعمت اپنی جگہ اہمیت کی حامل ہے یوں تو وطن عزیز کا ہر شہر ہر قریہ ہر گاؤں اپنی جداگانہ اہمیت و انفرادیت کا حامل ہے مگر کچھ علاقے اپنی جداگانہ شناخت بھی رکھتے ہیں، جیسے سندھ، پنجاب اور بلوچستان کے سنگم پر واقع صوبہ پنجاب کی تحصیل صادق آباد۔ پاکستان کے شہروں میں صادق آباد کی ایک اپنی انفرادیت ہے۔َ
تقریباً 3 لاکھ نفوس کی آبادی پر مشتمل صادق آباد ضلع رحیم یارخان کی آخری تحصیل ہے، جس سے ملحق سیکڑوں بستیاں، دیہات اور قصبات ہیں جو جفاکش محنتی اور خوب صورت رویوں کے مالک لوگوں کا مسکن ہیں۔ صادق آباد نسبتاً ایک نیا شہر ہے جسے 18نومبر 1935ء کو سر ریاست بہاول پور کے حکم راں نواب صادق محمد خان عباسی کے نام پر بسایا گیا اور اس کا سنگ بنیاد خود نواب صاحب نے اپنے دست مبارک سے رکھا۔ صادق آباد کی موجودہ سرصادق مارکیٹ میں یہ سنگ بنیاد آج بھی ایستادہ ہے اور ماضی کی حسین یادوں کا امین بن کر اہل دل کو جمالیاتی تسکین فراہم کرتا ہے۔
زندہ اقوام اپنے مشاہیر کے ساتھ ساتھ اپنی یادگار روایات، عمارات، ثقافتی ورثے اور تہواروں کو بھی اپنے جسم و روح کے رشتوں میں پرو کر رکھتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی آپ کو دنیا کے عجائبات میں سے وہ عجائب سرفہرست نظر آئیں گے جن کو ان کی امین اقوام نے سنبھال کر رکھا ہے اور وہ آج بھی ان کے معاشی مفادات کو مزید تقویت دیتے ہیں اور اپنی رنگینیوں سے ایک عالم کو اپنا گرویدہ کئے ہوئے ہیں۔
صادق آباد کے رہائشی دو بھائیوں نے صادق آباد کی سال گرہ منانے کا قصد کیا اور شہر سے محبت کے اظہار کے لیے شہر کی سال گرہ کا شان دار پروگرام منعقد کیا۔ یہ دو بھائی محمد افضل شاہد کنگ اور محمد اکمل شاہد کنگ ہیں، جنہوں نے اپنے شہر سے محبت کے اظہار کا انوکھا طریقہ اختیار کیا اور باقاعدہ اس کی سال گرہ منانے کا سلسلہ گذشتہ برسوں سے جاری و ساری رکھے ہوئے ہیں۔ دنیا کے دیگر شہروں مثلاً لاس اینجلز، روم، الیگزیڈریا وغیرہ کی سال گرہ منائی جاتی ہے، جب کہ پاکستان میں صادق آباد وہ پہلا شہر ہے جس کی سال گرہ کی تقریبات منعقد کی جاتی ہیں۔ اس دن صادق آباد کے شہری مقامی قدیم ملبوسات پہنتے ہیں، لوگ ایک دوسرے کے گھر مٹھائی بھیجتے ہیں، قدیم روایتی رقص جھومر جو کہ چولستانی کلچر کا خاصہ ہے، کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے۔
سال گرہ کے دن کا آغاز شہر اور ملک کی ترقی و استحکام کی دعاؤں سے ہوتا ہے۔ اس دن باہمی محبت اور یگانگت کے مظاہرے دیدنی ہوتے ہیں، جب تمام لوگ سیاسی، لسانی اور مذہبی تفریق سے بالاتر ہوکر محض اپنے شہر کی ترقی اور خوش حالی کے لیے یکجا ہوتے ہیں۔ کیا خوب صورت سماں ہوتا ہے جب ایک طرف عیسائی، ہندو کمیونٹی، شی میل کمیونٹی اور تمام سماجی، مذہبی وتعلیمی اداروں کی نمائندہ شخصیات اور عام شہری ایک جگہ اکٹھے ہوکر شہر سال گرہ مناتے ہیں۔ اس دن شہریوں کی طرف سے شہر کی بہتری کے لیے عزم کا اظہار کیا جاتا ہے اور با قاعدہ ایک دستخطی مہم شروع کی جاتی ہے، جس میں ہزاروں کی تعد اد میں شہری اپنے دستخط اس عزم کی عبارت کے نیچے ثبت کر تے ہیں۔ یہ ایک انوکھی تقریب ہوتی ہے جس میں ہر شہری اپنی اپنی ذمہ داری کا تعین کرتا ہے، جس کے بعد سال گرہ کا کیک کاٹا جاتا ہے اور اجتماعی دعا کی جاتی ہے۔
اس دن کی ایک اہم بات یہ ہے کہ کاروباری ادارے اپنی مصنوعات کی فروخت پر پچاس فی صد تک رعایت کردیتے ہیں، واضح رہے کہ یہ عمل پورے میں میں کسی تہوار پر نہیں کیا جاتا۔ رعایتی قیمتوں کی باقاعدہ تشہیر کی جاتی ہے اور بڑے بڑے بل بورڈ ز اور ہولڈنگ آویزاں کیے جاتے ہیں۔
تاریخی طور پر1932میں جب احمدپورلمہ تحصیل تھی، اس وقت منڈی صادق آباد کی تحریک شروع کی گئی۔ اس تحریک کے روح رواں میر سید عابد حسین تھے، جنہوں نے صادق آباد کو منڈی بنوانے کے لیے ڈرافٹ تیار کروایا اور اس مقصد کے لیے جدوجہد کی۔ ان کا کہنا تھا کہ چشتیاں، ہارون آباد، بہاولنگر وغیرہ میں منڈیاں تعمیر ہورہی ہیں جو کہ مین ریلوے لائن اور مین روڈ سے ہٹ کر ہیں، لہٰذا اگر صادق آباد جو کہ محلہ وقوع اور مین ریلوے لائن پر ہے، اگر یہاں پر بھی منڈی بن جائے تو یقیناً اس سے نہ صرف اس علاقے میں ترقی کے مواقع میسر آئیں گے بل کہ یہ علاقہ دوسرے علاقوں کی نسبت ریاست بہاولپور کے لیے زیادہ کار آمد ثابت ہوگا اور اس خطے میں خوش حالی سے ریاست بہاولپور میں مزید خوش حالی آئے گی۔
واضح رہے اس وقت بہاولپور ہائی کورٹ میں قادیانیت کے حوالے سے تنسیخ نکاح کا ایک مقدمہ چل رہا تھا، جس کا چرچا ہندوستان بھر میں تھا، جو کہ 1926 ء سے7 فروری 1935 ء تک چلا اور جسٹس محمد اکبر نے تاریخی فیصلہ دیتے ہوئے قادیانیوں کو غیرمسلم قرار دیتے ہوئے اور نکاح کو فسخ کردیا۔ ایسے حالات میں انگریز سرکار کے بے پناہ دباؤ کے باوجود نواب سر صادق محمد خان عباسی والئی ریاست بہاولپور نے اس فیصلے کو ریاستی سطح پر بھر پور پزیرائی دی اور اس خوشی میں اس وقت منڈی صادق آباد کی تعمیر کے سلسلے میں اڑھائی لاکھ روپے کا بجٹ مختص کیا گیا۔
اس بجٹ سے تھانہ سٹی، کچہری، تحصیل داروں کی کوٹھیاں اور ان کے ملازمین کے کوارٹرز، ویٹرنری اسپتال، ماڈل ہائی اسکول اور موجودہ ٹی ایم اے کی بلڈنگ میں واقع اسپتال بھی بنایا گیا۔ اس کے علاوہ قذافی بازار کے قریب واٹر سپلائی کے لیے بھی انتظام کیا گیا، تاکہ صادق آباد شہر کی تعمیر کے بعد مقامی لوگوں کو سہولیات میسر آئیں۔ نواب سر صادق محمد خان عباسی والئی ریاست بہاولپور نے اس کی منظوری دے دی۔ صادق آباد منڈی کی منظوری کی دستاویزات پر سررحیم بخش نے دستخط کیے اور نواب سر صادق محمد خان عباسی والئی ریاست بہاولپور نے 18 نومبر 1935 ء کو اپنے دست مبارک سے اس کا سنگ بنیاد رکھا۔ ان سرکاری عمارات کی تعمیر کے بعد نومبر1939 ء میں موجودہ کینال ریسٹ ہاؤس کے مقام پر ایک جلسہ عام منعقد کیا گیا، جس میں معززین علاقہ اور عوام نے بہت بڑی تعداد میں شرکت کی۔ اس تقریب میں ڈپٹی کمشنر مسٹر پیلی نے اپنی بیگم سمیت شرکت کی۔ اس پُروقار جلسے میں مہمان خصوصی مسٹر پیلی کے اعزاز میں استقبالیہ نظم پیش کی گئی:
پیلی صاحب ایک ہیں ڈپٹی کمشنر بے گماں
رحم دل، عادل، خلیق، نیک خو اور مہربان
ہم بتائیں آپ نے دو سال میں کیا کیا کیا
صادق آباد آپ کی کوشش ہی سے منڈی بنا
صادق آباد میں تقریباً آٹھ قلعہ جات اور متعدد تاریخی مقامات ہیں جن میں کچھ مذہبی مقامات بھی ہیں جبکہ مزارات کی کثیر تعداد بھی یہاں موجود ہے۔ یہاں مدفون تہذیبوں کے آثار بھی موجود ہیں جن پر تحقیق کی ضرورت ہے جبکہ ان میں سے کچھ مقامات پر تحقیقی کام کتابی شکل میں میسر ہے۔ مشہور رومانوی داستان کے کردار سسی کی جائے پیدائش بھٹہ واہن اور عالمی شہرت یافتہ مسجد بھونگ شریف کا صادق آباد اس وقت ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہے یہاں ملکی زرعی ضروریات پورا کرنے کے لیے جنوب مشرقی ایشیا کے کھاد بنانے کے دو بڑے کارخانے موجود ہیں جب کہ 3شوگر ملز، متعدد کاٹن جننگ فیکٹریز، آئل فیکٹریز اور کئی چھوٹے صنعتی ادارے روزگار کی فراہمی کے ساتھ ساتھ ملکی معیشت کو تقویت دے رہے ہیں۔
گنا، کپاس، گندم اور رسیلے باغات خصوصاً آم یہاں کی خاص سوغات ہے، گنے کی وسیع رقبے پر کاشت کی وجہ سے یہ علاقہ اپنی ایک الگ پہچان رکھتا ہے۔ تعلیمی لحاظ سے صادق آباد ضلع بھر میں اول درجے پر ہے۔ صادق آباد کی سال گرہ اس لحاظ سے بھی منفرد ہے کہ تین صوبوں کا سنگم ہونے کی وجہ سے مختلف النوع زبانیں ثقافت مثلاً سندھی، بلوچی، سرائیکی، پنجابی اور راجستھانی رنگوں کا حسین امتزاج ہے۔ یہ سال گرہ کی تقریب دیکھنے کے قابل ہوتی ہے جب سب علاقائی رنگ اپنے جوبن پر ہوتے ہیں۔
ہماری دعا ہے کہ پاکستان کا یہ پُرامن اور خوب صورت شہر یوں ہی خوشیوں کا گہوارہ رہے اور اس کے باسی تاقیامت اس شہر کی سال گرہ مناتے رہیں۔