اول درجے کے ڈھونگی

سقراط نے یہ نظریہ پیش کیا تھا کہ انسانی سماج میں تفرقہ اور نزاع کی اصل وجہ نظریہ انفرادیت ہے

ڈیکارٹ نے کہا ہے ''میں سوچتا ہوں اس لیے میں ہوں''۔ ایک بڑا سوال جو سب کی زبان پر ہے کہ آخر پاکستان میں جمہوریت کیوں نہیں پنپ رہی، ملک میں ادارے مستحکم کیوں نہیں ہورہے، ملک معاشی طور پر مضبوط کیوں نہیں ہورہا، ملک سے کرپشن، لوٹ مار، مہنگائی، غربت، دہشت گردی، بدامنی، بیروزگاری، بجلی، گیس، پانی کے بحران کا خاتمہ کیوں نہیں ہو پارہا ہے؟ اس کا جواب بالکل سیدھا سادہ سا ہے کہ پاکستان میں ابھی تک ایسے سماج نے جنم نہیں لیا ہے جو جمہوریت کے لیے سازگار ہو۔ سماج لوگوں سے بنتا ہے جو اس میں بستے ہیں اور ریاست لوگوں کا عکس ہوتی ہے، یعنی جیسا لوگوں کا کردار اور سوچ ہوگی ویسے ہی ریاست نظر آئے گی۔

سقراط نے یہ نظریہ پیش کیا تھا کہ انسانی سماج میں تفرقہ اور نزاع کی اصل وجہ نظریہ انفرادیت ہے۔ ایک فرد کی ذاتی خوشی یا ذاتی پسند و ناپسند یا ذاتی مفاد سے انسانی سماج کے مسائل حل نہیں ہوسکتے، بلکہ اصل حقیقت سماجی انصاف کا اصول ہے، جس کی بنیاد سماجی اور انسانی اخلاق ہے۔ ہم اس کی مثال یوں پیش کرسکتے ہیں کہ ایک چور کی ذاتی خوشی، ذاتی مفاد اور ذاتی پسند یہ ہوتی ہے کہ اس کی چوری کا راز نہ کھلے اور وہ چوری کے مال سے مزے اڑاتا رہے، جب کہ اس شخص جس کی حلال اور محنت مزدوری کی کمائی چوری ہوئی ہے، کی ذاتی خوشی، ذاتی مفاد اور ذاتی پسند یہ ہوتی ہے کہ اس کا چوری شدہ مال اسے واپس مل جائے۔


یہاں ایک طریقہ یہ ہے کہ دونوں اپنی اپنی کوشش کریں اور دونوں میں سے جو طاقتور، ذہین یا بارسوخ ہو وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوجائے، تو اسے ہم کیا کہیں گے؟ کیا ہم اسے سماجی انصاف کہیں گے؟ اس کا جواب نفی میں ہے۔ اگر چور اپنے مقصد میں کامیاب ہوجائے تو یہ سماجی بے انصافی اور زیادتی ہے۔ اس کا مطلب ہے جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔ دوسری طرف اگر وہ شخص اپنے مقصد میں کامیاب ہوجائے جس کا حلال اور محنت مزدوری سے کمایا ہوا مال چوری ہوا تھا تو ہم کہیں گے کہ یہ سماجی انصاف کے عین مطابق ہے۔ لہٰذا سماجی مسائل کا حل فرد کی خوشی، پسند یا مفاد میں مضمر نہیں ہے بلکہ ان مسائل کا حل سماجی انصاف کے اصول میں مضمر ہے۔ یہ وہ واحد نکتہ ہے جس نے ہمارے سماج کے بخیے ادھیڑ کر رکھ دیے ہیں۔ عدم انصاف نے ہمارے پورے سماج کی مٹی پلید کرکے رکھ دی ہے۔

پاکستانی سماج میں موجود تمام برائیوں، خرابیوں کی جڑ یہی عدم سماجی انصاف ہے۔ اجڑنے کی تمام صورتوں میں بدترین صورت پاکستان کی ہے اور اس کی تمام تر ذمے داری اس ٹولے پر عائد ہوتی ہے جو اپنے آپ کو ہر قانون، ہر پابندی، ہر ڈسپلن سے مبرا سمجھتا ہے۔ وہ اپنے ہر عمل اور اپنے ہر لفظ کو قانون کا درجہ دیتے ہیں۔ اس ٹولے میں بڑے جاگیردار، سیاست دان، بڑے سرمایہ دار، بڑے بزنس مین، بیوروکریٹس اور میڈیا کے اکابرین شامل ہیں۔ ان لوگوں کی اکثریت حادثاتی طور پر سماجی لحاظ سے بڑے عہدوں اور حیثیت پر آکر فائز ہوگئی ہے۔

اب ان کی سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ وہ کیا سے کیا کردیں۔ اس کی مثال کچھ اس طرح سے لے لیں کہ اگر کسی معصوم بچے کو کھیلنے کے لیے موم کی گڑیا دے دی جائے تو وہ اس کا کیا حال کردے گا اور یہی حال ان تمام حضرات کا ہے۔ دراصل یہ بیماروں کا ایک ٹولہ ہے جو اپنے آپ کو سب سے زیادہ صحمتند تصور کرتا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ انھیں احساس تک نہیں ہے کہ وہ کتنی خوفناک بیماری میں مبتلا ہیں۔ یہ تمام حضرات احساس برتری کا شکار ہیں، جو اپنے علاوہ ملک کے 20 کروڑ انسانوں کو کیڑے مکوڑوں کا درجہ دیتے ہیں۔ دنیا کے تمام ماہر نفسیات اس بات پر متفق ہیں کہ احساس برتری نام کی کوئی چیز کا وجود ہے ہی نہیں، بلکہ احساس برتری دراصل احساس کمتری کی ہی ایک شکل ہے۔ احساس برتری میں مبتلا لوگ دراصل احساس کمتری میں مبتلا ہوتے ہیں، اصل میں یہ سب کے سب ولن ہیں، جو ہیرو کا روپ دھارے ہوئے ہیں، دوسرے الفاظ میں یہ اول درجے کے ڈھونگی ہیں۔ غریبوں میں جہالت اس قدر عبرتناک نہیں ہوتی جتنی کہ امیروں میں ہوتی ہے۔


شو پنہار کہتا ہے ''ہر شخص اپنے شعور کی حدود میں گھرا ہوا ہے اور وہ ان حدود کو پار نہیں کرسکتا، جیسے وہ اپنی جلد سے باہر نہیں آسکتا''۔ حصول املاک و روپے پیسے کا جنون صدیوں سے انسان کے ذہن و دماغ پر مسلط ہے اور یہ زہر اس کی رگ و پے میں سرائیت کرگیا ہے، اسی جنون نے انسانی وحدت کو پارہ پارہ کردیا ہے اور معاشرے میں عدل و انصاف کا خاتمہ کردیا ہے۔

آئیں ذرا تاریخ میں جھانکتے ہیں۔ افلاطون کی وفات تک ایتھنز دو حصوں میں تقسیم ہوگیا تھا، جیسا کہ افلاطون نے لکھا ہے، دو شہر ایک غربا کا اور دوسرا امراء کا۔ دونوں ایک دوسرے سے برسر پیکار، غربا قانون سازی، ٹیکسوں اور انقلاب کے ذریعے امیروں کو لوٹنے کے منصوبے بناتے ہیں۔ امراء غریبوں سے اپنے تحفظ کے لیے اپنے آپ کو منظم کیے رکھتے ہیں۔

ارسطو کا کہنا ہے کہ طبقہ امراء کے افراد کی ایک تنظیم کے اراکین یہ حلف اٹھایا کرتے تھے ''میں عوام کا دشمن رہوں گا اور کونسل میں ان کی مخالفت میں جو کچھ بھی کرسکا کروں گا''۔ آئسوکریٹس نے 366 قبل مسیح میں یہ لکھا ہے ''امرا کا رویہ اس قدر غیر انسانی ہوگیا ہے کہ وہ اپنی اشیاء ضرورت مندوں کو بطور قرض امداد دینے کے بجائے انھیں سمندر میں پھینک دینے کو ترجیح دیتے ہیں اور غربا کا یہ حال ہے کہ انھیں کوئی خزانہ مل جانے کی اس قدر خوشی نہیں ہوتی جتنی کہ کسی امیر کے مال و اسباب پر قبضہ کرنے سے ہوگی''۔ کم و بیش اسی قسم کی صورتحال کا آج ہمیں بھی سامنا ہے۔

طاقتور، بااختیار اور امیروں نے پاکستان کے 20 کروڑ عوام کو ناقابل برداشت نقصان کی بھٹی میں جھونک دیا ہے، جس کی آگ میں آج یا کل استحصالی قوتوں کو ضرور بھسم ہوجانا ہے۔ آج ملک کے 20 کروڑ عوام کے اندر ایک جذبہ بیدار ہوچکا ہے، جسے غم غصہ کہہ لیجیے یا طیش و غضبناکی کہہ لیجیے اور یہ جذبہ ایک آتش فشاں کی طرح پھٹ پڑنے کو تیار ہے، کیونکہ جتنی طاقت سے اس جذبے کو دبایا جاتا ہے اتنی ہی طاقت سے یہ ابھرتا ہے۔ استحصالی لوگو! تمہیں اس کی گہرائیوں میں اترنا چاہیے، تم اندھیرے میں چند ہی قدم آگے بڑھو گے تو تمہیں تمہارے ہم وطن، ہم زبان، ہم مذہب لوگ بیٹھے نظر آئیں گے۔ قریب جاؤ اور سنو، کیونکہ یہ لوگ تمہارے مقدر کی بات کررہے ہیں۔

تم سمجھتے تھے کہ ان کی روحیں مردہ ہوچکی ہیں، تمہاری مرضی اور اجازت کے بغیر وہ سوچ نہیں سکتے، کوئی قدم نہیں اٹھا سکتے۔ تم انھیں گھاس تک نہیں ڈالتے تھے، لیکن آج وہاں چاروں طرف اجالا ہے، نئی سوچ، نئی فکر اور نئی صبح کا۔ اب محرومیوں، بدنصیبیوں کی آگ میں جلنے کی باری تمھاری ہے۔ پاکستان کے اصل مالک 20 کروڑ عوام ہیں۔ اب ملک پر عوام کی حاکمیت اور حکمرانی کی نئی سحر طلوع ہونے والی ہے۔
Load Next Story