ویرو کولہن اور آج کا سندھ
اس ساری صورت حال میں ہمیں واضح انداز میں ایک موقف اختیار کرنا پڑے گا
میرا یہ مضمون چھپنے تک ویرو کولہن کو انسانی حقوق کے حوالے سے صدارتی ایوارڈ انسانی حقوق کے عالمی دن پر مل چکا ہوگا۔ ویرو کولہن جوکہ ہندو مذہب کی چھوٹی ذات سے ہے، خود اس جبری مشقت سے گزری اور جب آزادی پائی تو اپنی زندگی ان مشقت کرنے والے قیدیوں کے نام کردی۔ بھلا ہو وفاقی سرکار کا کہ انھوں نے اس کی خدمات کو اعزاز سے نوازا۔ اس کے برعکس سندھ سرکار نے اس پر جھوٹا مقدمہ دائر کیا تھا کہ وہ شراب بیچتی ہے۔ ویرو کا قصور یہ تھا کہ اس نے ایک طاقتور سیاسی شخصیت کے مقابلے میں الیکشن میں کھڑے ہونے کی جرأت کی تھی۔
شراب کون بیچتا ہے، کون پیتا ہے، کون امین ہے، کون صادق ہے، کون سچا ہے، کون جھوٹا ہے، اس بحث میں اگر ہم پڑ گئے تو بات وہیں آکر رکے گی کہ مجھے ایک عرب شہزادے نے پیسے دیے تھے، جس سے میں نیباہر کے ملک میں فلیٹ خریدے تھے یا مجھے سابق بیوی نے پیسے دیے تھے جس سے میں نے بنی گالا کا گھر خریدا تھا۔
سندھ میں دہقانوں کی تحریک تاریخ ہوگئی۔ ہاں مگر اونچ نیچ کے ضابطے اب بھی وہی ہیں۔ بات دہقانوں سے بھی نیچے چلی گئی ہے۔ اب تو اجرت پر کام کرنے والے مزدور کھیتوں میں آگئے ہیں۔ وہ جو کپاس کی چنائی کرتی ہوئی عورتیں ہیں، ٹھیکیدار اپنے ساتھ لیے زمیندار کی زمینوں پر پہنچ جاتا ہے۔ وہ ایسی مائیں ہیں جن کے بچے غذا سے محروم ہیں اور اس عمل میں وہ ذہنی و جسمانی معذور بن جاتی ہیں۔
اس طرح سے ایک لمبی سے داستان ہے جو بیان کرنے سے باہر ہے۔ مگر اب کے جو اقوام متحدہ سے منسلک ادارے کی رپورٹ آئی ہے کہ اس ملک خداداد میں لگ بھگ 42 فیصد بچے غذا کی کمی کے باعث ذہنی و جسمانی طور پر کمزور ہیں۔ جس مرض کو انگریزی میں ''STUNTED'' کہا جاتا ہے اور اس طرح پاکستان دنیا کے تین بدترین ممالک میں سے ایک ہے۔ سندھ میں یہ ماجرا اور بھی بدتر ہے اور اس حساب سے سندھ دنیا کے بدترین علاقوں میں سے ہے۔ تھر میں بچے قحط سے مر رہے ہیں، یوں کہیے کہ یہ ایک نسل ہے کہ جو ضایع ہوگئی اور اب تو آیندہ کی نسلیں بھی ضایع ہونے کا خطرہ ہے۔ غریب غریب تر ہوتا جا رہا ہے اور امیر امیر تر ہوتا جا رہا ہے۔ یہ پسماندگی کہاں جاکر ٹھہرے گی، کچھ معلوم نہیں۔ آٹھ سال سے عوامی دور ہے اور کوئی بھی عوامی کام نہیں۔ اسکول اور بنیادی صحت کے ادارے اور ان کی تباہی آپ کے سامنے ہے۔ یرقان، ہیضہ اور طرح طرح کی بیماریاں ان غریبوں کے گھر میں بسیرا کرگئی ہیں۔
اس ساری صورت حال میں ہمیں واضح انداز میں ایک موقف اختیار کرنا پڑے گا۔ نہ صرف موقف بلکہ اس موقف کو عملی رنگ بھی دینا پڑے گا۔ اب تو یہ بات واضح ہوگئی کہ شب خوں کے زمانے چلے گئے اور جب فوجی آمریتیں چلی جاتی ہیں یا تاریک ہوجاتی ہیں تو ارتقا کے پہلے مراحل میں سول آمریتیں جنم لیتی ہیں۔ کل بے چارے امتیاز شیخ شرفاؤں کے ایک چھوٹے گروہ سے نکل کے عوامی پارٹی میں آگئے اور آج جام مدد علی بھی اسی پارٹی میں پناہ لے کر بیٹھ گئے اور ایک دن ایسا آئے گا کہ خود ارباب رحیم تو کیا پیر پگارا صاحب بھی کہیں اس پارٹی میں نہ آجائیں اور اب دور دور تک سندھ میں بیلٹ باکس کے اکھاڑے پر پاکستان پیپلزپارٹی کو کوئی بھی چیلنج نہیں کرسکتا۔
یوں کہیے بجٹ ہے اور بجٹ کا بٹوارا ہے، باقی لوگوں کے لیے بھوک و افلاس، ان کے بچوں کے لیے ذہنی اور جسمانی معذوری، یرقان اور ہیضہ وغیرہ وغیرہ ہے۔ اس کے برعکس پنجاب میں شہروں کے اندر معقول انفرا اسٹرکچر اپنی جگہ بناچکا ہے۔ جس ترقی نے دیہی پنجاب کے اندر بھی گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔ اگر ایک طرف میاں صاحب کی مسلم لیگ ہے تو دوسری طرف خان صاحب کی پی ٹی آئی۔ خیبر پختونخوا میں بھی ماجرا مونوپولی والا نہیں ہے۔
سندھ کے شہروں میں بھی متحدہ کی مونوپولی اگر ختم نہیں ہوئی تو کمزور ضرور ہوئی ہے اور دیہی سندھ میں پیپلزپارٹی کی مونوپولی اور بھی مضبوط ہوئی ہے۔ معاشیات میں کہتے ہیں کہ مونوپولی ایک منفی عمل ہے، جس سے مارکیٹ کے اصول صحیح طرح کام نہیں کرسکتے۔ دیہی سندھ کے اندر پاکستان پیپلزپارٹی کی مونوپولی اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ یہاں ماجرا کوئی اور ہے، یہاں کا ووٹ غلام ذہنیت والے کا ووٹ ہے، ذات پات اور برادری کا ووٹ ہے۔ جس کی جتنی بڑی طاقت اس کا اقتدار میں اتنا ہی بڑا حصہ، جتنا زیادہ لوگوں کو غلام بناکر رکھا جائے گا، اسی طرح اس زور والے کا سکہ چلتا رہے گا۔ بری حکمرانی پیدا کرنا اس کے اقتدار کے لیے عین اچھا کام ہے، وہ کوئی برلا و ٹاٹا نہیں ہے کہ یہ سوچے کہ صنعت لگے گی، مزدور پیدا ہوںگے، مزدوروں کے ہنر و محنت سے وہ اور کمائے گا، مزدور کے صحت مند ہونے سے وہ اور محنت سے کام کرے گا۔
اس کے برعکس یہاں ماجرا یہ ہے کہ یہاں کوئی صنعت نہ لگے، بس یہ سب زراعت کے پیشے سے وابستہ ہوں، وہ دہقانی ہوں اور یہ زمیندار۔ ان کے بچوں کے لیے اسکول نہ ہوں، جب کہ ان کے بچے شہروں میں پڑھیں وغیرہ وغیرہ۔
اس ساری صورت حال میں ہمارے سامنے ویرو کولہن کے نام سے ایک امید کی کرن پیدا ہوئی ہے۔ سندھ کے اندر جو طرح طرح کی انسانی حقوق کی پامالی ہورہی ہے اس پر آواز اٹھانا اور جرأت سے کھڑے ہوجانے کی امید پیدا ہورہی ہے۔ میرے مضمون کے چھپنے کے دن دنیا میں انسانی حقوق کا عالمی دن منایا جائے گا۔ آئیے ہم بھی عہد کریں کہ ہم بھی اس سماج میں اپنے حصے کا قرض ادا کریں۔ یہ وہ سماج ہے جس نے ہمیں اتنی عزت و توفیق عطا کی ہے کہ ہم سے یہ آیندہ کی نسلیں اس کے عیوض کچھ مانگتی ہیں۔
جان دی، دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
(غالبؔ)