2007 سے ٹیکنالوجی کا طوفان

ہم لوگ بلاشبہ خوش قسمت ہیں کہ ٹیکنالوجی کی انتہائی تیز رفتار انقلابی تبدیلیوں کے دور میں سانس لے رہے ہیں


Sajid Ali Sajid December 10, 2016
[email protected]

ISLAMABAD: ہم لوگ بلاشبہ خوش قسمت ہیں کہ ٹیکنالوجی کی انتہائی تیز رفتار انقلابی تبدیلیوں کے دور میں سانس لے رہے ہیں، خاص طور پر وہ بچے جنھوں نے 2007 کے بعد ہوش سنبھالا ٹیکنالوجی کے ایک بڑے طوفان سے گزر گئے اور انھیں اس کا شاید احساس تک نہیں ہوا ہے۔

یہ الفاظ میرے نہیں ممتاز کالم نگار تھامس ایل فرائیڈمین کے ہیں، جن کا ان سارے معاملات پر بہت سے سوالوں کا جواب ہی اس سوال سے شروع ہوتا ہے کہ آخر ہم جب 2007 کے آس پاس سے گزر رہے تھے تو ہمارے ساتھ کیا کچھ پیش آیا تھا۔

اب ہم اصل مضمون کا ترجمعہ شروع کرتے ہیں۔

2007، بظاہر ایک عام اور بے ضرر سا سال، مگر حقیقت میں ایسا نہیں تھا۔

اسٹیوجوبز اور ایپل نے 2007 میں پہلا آئی فون ریلیز کیا، جس سے اسمارٹ فون کا ایک ایسا انقلاب برپا ہوا جس نے گویا کرۂ ارض پر ہر ایک کی ہتھیلی پر انٹرنیٹ کنیکٹڈ کمپیوٹر رکھ دیا، جیسے پوری دنیا چھوٹی سی ہتھیلی میں سما گئی ہو۔ ساتھ ہی اس سے پہلے تقریباً 2006 کے اواخر میں فیس بک جو اب تک یونیورسٹیوں، کالجوں اور ہائی اسکولز تک محدود تھی، ایک آفت شکن انگڑائی لیتی ہوئی ہر اس شخص کے پاس چلی گئی، جس کے پاس اپنا ای میل ایڈریس تھا۔ یوں فیس بک کا ادارہ عالمی سطح پر پھٹ پڑا۔

ٹویٹر کی تخلیق بھی 2006 میں ہوئی، مگر اس نے بلندیوں کی طرف اپنی پرواز 2007 میں شروع کی جب لوگوں کی اکثریت اس سے روشناس ہوئی۔ 2007 میں ہی سب سے اہم سوفٹ ویئر ہڈوپ Hadoop نے کسی بھی ایسی کمپنی کی اہلیت اور صلاحیت میں وسعت پیدا کرنا شروع کی جو اپنے بغیر اسٹرکچر والے اعداد و شمار کی بے پناہ مقدار کو ذخیرہ اور اس کا تجزیہ کرنا چاہتی تھی، اس سے ''بگ ڈیٹا'' اور ''کلاؤڈ کمپیوٹنگ'' دونوں کو مدد ملی۔ ''کلاؤڈ'' نے بھی صحیح معنوں میں 2007 میں ٹیک آف کیا۔

2007 میں کنڈل Kindle نے ای بک انقلاب برپا کیا اور گوگل نے اینڈرائیڈ متعارف کرایا۔ 2007 میں ہی آئی بی ایم نے واٹسن شروع کیا، جو دنیا کا پہلا Cognitive کمپیوٹر تھا، جو آج تقریباً ہر اس کاغذ کو سمجھ سکتا ہے جو کہیں بھی کبھی بھی کینسر پر لکھا گیا ہو اور ڈاکٹروں کو غضب کی حد تک صحیح تشخیص اور علاج کے آپشنز تجویز کرسکتا ہے اور کیا آپ نے ہیومن جینوم کی ''سیکوئنسنگ'' کی لاگت کا گراف دیکھا ہے، اس کی لاگت دو ہزار کی دہائی کے شروع میں دس کروڑ ڈالر تھی اور پھر ڈرامائی انداز میں گرنے لگی اور یہ اچھی ابتدا بھی 2007 کے ارد گرد ہوئی تھی۔

اسی طرح سولر پینلز Solar Panels بنانے کی لاگت بھی 2007 میں ہی آسمان سے زمین پر آنا شروع ہوئی۔ Airbnb کو 2007 میں سوچا گیا اور Change.org ، 2007 میں شروع ہوا۔ اسی طرح GitHub جو لائبریری شیئر کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا اوپن سورس سوفٹ ویئر ہے، اس نے بھی 2007 میں آنکھ کھولی تھی۔

اور 2007 میں ہی انٹیل Intel نے پہلی مرتبہ مائیکرو چپ ٹرانزسٹرز میں نان سلیکون میٹریل متعارف کرایا، جس سے مورس لا Moore's Law کو توسیع مل گئی۔ یعنی یہ توقع کہ مائیکرو چپس کی طاقت تقریباً دو سال میں دگنی ہوجائے گی، اس کے نتیجے میں کمپیوٹنگ پاور میں زبردست گروتھ آج تک جاری ہے۔ پھر بالآخر 2006 میں انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کی تعداد ایک ارب سے آگے نکل گئی ۔ اس طرح 2007 کو تاریخ کے عظیم ترین ''ٹیکنالوجی انفلیکشن پوائنٹس'' میں سے ایک قرار دیا جاتا ہے، لیکن ہم نے اس سال کے اس مقام کو مکمل طور پر مس کیا ہے۔

آخر کیوں؟ اس کا جواب 2008 ہے۔

جی ہاں جب ہماری ان ساری فزیکل ٹیکنالوجیز نے آگے کی طرف زقند بھری تو بہت سی ٹیکنالوجیز جن کو آکسفورڈ کے ماہر اقتصادیات ایرک بین ہوکر سوشل ٹیکنالوجیز کہتے ہیں، پیچھے رہ گئیں۔ یعنی وہ سارے رولز، ریگولیشنز، انسٹی ٹیوشن اور سوشل ٹول جن کی لوگوں کو ٹیکنالوجی کی اس برق رفتاری سے ممکنہ حد تک سب کچھ حاصل کرنے اور خرابیوں کو کچلنے کے لیے ضرورت تھی، اس یلغار کا ساتھ نہیں دے سکے اور بہت سے لوگ ڈسلوکیٹ ہوگئے۔ اتفاق سے اس دوران جتنی تعداد میں ٹیکنالوجی کی اصطلاحات نے جنم لیا وہ بھی اپنی جگہ ایک ریکارڈ ہے۔

یہ تو ہونا ہی تھا۔ 2007 میں ہوا یہ کہ کنیکٹیوٹی اور کمپیوٹنگ اتنی تیز اور کم خرچ ہوگئی کہ انھوں نے طاقت کی تین شکلوں کو ایک ساتھ مگر مختلف انداز سے بدل ڈالا، یعنی ''ایک'' کی پاور مشینوں کی پاور اور خیالات آئیڈیاز کی پاور اب کوئی ایک فرد یا چھوٹا سا گروپ یعنی ''ایک'' کی پاور کی بدولت بنانے بگاڑنے کے سلسلے میں جو کچھ کرسکتا ہے، وہ اتنا زبردست ہے جس کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔

جب نومنتخب صدر ٹرمپ چاہتے ہیں کہ ان کو دنیا بھر میں سنا جائے وہ اپنا پیغام اپنے نیویارک نیٹ ہاؤس سے براہ راست ٹویٹر کے ذریعے ڈیڑھ کروڑ سے زیادہ اپنے چاہنے والوں کو دن رات کے کسی بھی حصے میں بھیج سکتے ہیں، یہی پیغام رسانی داعش بھی شام کے کسی دور دراز کے قصبے سے کرسکتی ہے۔

مشینیں اب نہ صرف ''پیچیدگی'' یا شطرنج میں انسانوں کو شکست دے سکتی ہیں بلکہ اب وہ صحیح معنوں میں کری ایٹیو بھی ہوگئی ہیں، آرکیٹیکچر کی موشگافیاں اور دوسرے ڈیزائن پیش کر رہی ہیں، خبریں ہی نہیں بلکہ ایسے ایسے گیت، نظمیں اور کہانیاں لکھ رہی ہیں کہ پتا ہی نہیں چلتا کہ یہ انسانوں کی لکھی ہوئی نہیں ہیں۔

اس کے ساتھ ہی طرح طرح کے آئیڈیاز سوشل نیٹ ورک کے ذریعے دنیا بھر میں زیادہ تیزی سے اور زیادہ دور تک پھیل رہے ہیں، اس کے نتیجے میں نئے آئیڈیاز (جن میں جھوٹی خبریں بھی شامل ہیں) اچانک جڑ پکڑ سکتے ہیں اور پرانے جمے جمائے آئیڈیاز تہس نہس ہوسکتے ہیں۔ اس سلسلے میں ہم جنس شادیوں اور تیسری جنس کے حقوق کی مثال دی جاسکتی ہے جن کی ایک زمانے میں بڑی شدت سے مخالفت ہوا کرتی تھی۔

اب آپ تیس ہزار فٹ سے نیچے کا نظارہ کریں تو آپ کو نظر آئے گا کہ ٹیکنالوجی گلوبلائزیشن اور مدر نیچر (خاص طور پر موسموں کی تبدیلی، آبادی میں بے تحاشا اضافہ وغیرہ) یہ تمام چیزیں بڑی سرعت کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہیں اور ایک دوسرے کو آگے پیچھے سرکا رہی ہیں۔ زیادہ مورس لا سے زیادہ گلوبلائزیشن، اور زیادہ گلوبلائزیشن سے زیادہ تیزی سے موسم تبدیل ہو رہے ہیں۔ ایک ساتھ مل کر موسموں کی تبدیلی اور ڈیجیٹل کنیکٹیوٹی زیادہ انسانی ہجرت کا سبب بن رہی ہیں۔

میں حال ہی میں مغربی افریقہ میں اقتصادیات اور موسموں کے مارے ہوئے مہاجرین سے ملا، جنھوں نے مجھ پر یہ بات واضح کردی کہ ان کو یورپ میں روک کنسرٹ سے جمع کی جانے والی امداد نہیں چاہیے، وہ خود یورپ آنا چاہتے ہیں، وہ یورپ جسے انھوں نے اپنے سیل فونز پر دیکھا ہے اور وہ وسیع غیر قانونی نیٹ ورک آرگنائز کرنے کے لیے واٹس ایپ استعمال کر رہے ہیں۔

اس لیے کوئی تعجب نہیں کہ مغرب ہل کر رہ گیا ہے۔ دو چیزیں جن کی بنیاد پر انھوں نے دنیا میں لنگر ڈالے تھے یعنی ان کی کمیونٹی اور ان کا جاب۔ یہ سب کچھ غیر مستحکم ہوگیا ہے۔ وہ کچھ خریدنے اسٹور پر جاتے ہیں تو انھیں وہاں کوئی ایسا شخص ملتا ہے جو مختلف زبان بول رہا ہوتا ہے یا کوئی خاتون جو حجاب کیے ہوتی ہیں، مردوں کے واش روم میں جاتے ہیں تو انھیں مختلف جنس کا کوئی شخص برابر کھڑا دکھائی دیتا ہے۔ وہ دفتر جاتے ہیں تو وہاں کوئی ایسا روبوٹ ہوتا ہے جو ان کے کام کو اسٹڈی کر رہا ہوتا ہے۔ میں ان ساری تبدیلیوں کا مزہ لیتا ہوں مگر بہت سے لوگ ان نت نئی تبدیلیوں کو ہضم نہیں کرپاتے ہیں، جو ان کے خیال میں وقت سے پہلے سر پر سوار ہوگئی ہیں۔ اسی لیے ان دنوں میرا پسندیدہ گیت برانڈی چارلی کا مسحور کن گانا دی آئی The Eye ہے، جس کے بول ہیں، میں نے تمہاری محبت کو زنجیر کی طرح اپنے گرد لپیٹ لیا ہے تم چاہو تو طوفان میں ناچ سکتی ہو، مگر اسی صورت میں جب تم آنکھوں میں سمائی ہوئی ہو۔

یعنی ٹیکنالوجی، گلوبلائزیشن اور Mother Nature کی یہ ساری تیزیاں طراریاں ایک طوفان کی مانند ہیں، جس میں ہم سے ناچنے کے لیے کہا گیا ہے۔

یہ تھے تھامس ایل فرائیڈمین کے خیالات، جوامید ہے سمجھ میں آگئے ہوں گے۔ لب لباب یہ ہے کہ اب کوئی ایک فرد یا گروپ وہ کچھ کرسکتا ہے جس کا پہلے تصور تک نہیں کیا جاسکتا تھا۔ اب ایک فردواحد کو دنیا کو بنانے بگاڑنے کی زبردست صلاحیت حاصل ہوگئی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں