ستارہ ہڑپ کرتے ہوئے بھیانک بلیک ہول کی دریافت
یہ فلکیاتی واقعہ پچھلے سال مشاہدہ کیا گیا جسے ابتدائی طور پر سپر نووا کا دھماکا سمجھ لیا گیا تھا۔
ماہرینِ فلکیات کی بین الاقوامی ٹیم نے 10 ماہ کے مسلسل مشاہدے کے بعد ایک ایسا دیوقامت بلیک ہول دریافت کیا ہے جو اپنے قریب موجود سورج جتنے ستارے کو ہڑپ کرنے میں مصروف ہے جس کے نتیجے میں اس سے زبردست شعاعیں خارج ہورہی ہیں۔
یہ فلکیاتی واقعہ پچھلے سال (2015 میں) مشاہدہ کیا گیا تھا جسے ابتدائی طور پر سپر نووا کا دھماکا سمجھ لیا گیا تھا لیکن فلکیات دانوں کا ایک گروپ اس سے مطمئن نہیں تھا اور ان کا خیال تھا کہ زبردست روشنی کے اس اخراج کی وجہ ایک نادیدہ اور بہت بڑا بلیک ہول ہے جو ہمارے سورج جتنی جسامت والے ستارے کو ہڑپ کرنے میں مصروف ہے۔
اس خیال کی تصدیق کرنے کے لیے ''یورپین سدرن آبزرویٹری'' کے تحت آسٹریلیا، چلی، ڈنمارک، فن لینڈ، جرمنی، اسرائیل، اٹلی، اسپین، سویڈن، برطانیہ اور امریکا کے ماہرین فلکیات پر مشتمل ایک بین الاقوامی ٹیم تشکیل دی گئی جس نے زمین پر نصب طاقتور دوربینوں کے علاوہ ہبل خلائی دوربین اور ''سوئفٹ گیمارے برسٹ مشن'' نامی خلائی دوربین سے 10 ماہ تک اس مظہر کا مسلسل مشاہدہ کیا اور مختلف ضروری اعداد و شمار جمع کیے۔
اس تمام ڈیٹا کا محتاط تجزیہ کرنے کے بعد سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اس واقعے میں شدید گیما شعاعوں اور ایکسریز کا اخراج جس جگہ سے ہورہا ہے وہ ایک کہکشاں کے مرکزے سے بہت قریب ہے اور کہکشانی مرکزے میں بہت ہی ضخیم (super-massive) بلیک ہول موجود ہے۔ یہ بلیک ہول ہمارے سورج جیسے ایک ستارے کو ہڑپ کرنے میں مصروف ہے اور اسی بناء پر وہاں سے اتنی شدید نوعیت کی شعاعیں بھی خارج ہورہی ہیں۔ سائنسدانوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ مذکورہ واقعے کی پچھلی وضاحت میں، جو ایک سپرنووا کے طور پر کی گئی تھی، بہت سی تکنیکی خامیاں موجود ہیں جب کہ یہ واقعہ کسی نئے ستارے کی تشکیل بھی قرار نہیں دیا جاسکتا۔ ان ہی باتوں کی بنیاد پر وہ اسے کائنات کا ایک منفرد واقعہ بھی قرار دے رہے ہیں۔
واضح رہے کہ بہت ہی ضخیم (super-massive) بلیک ہولز جنہیں اردو میں ''فوق ضخیم بلیک ہولز'' بھی کہا جاتا ہے، اپنی کمیت کے اعتبار سے عام بلیک ہولز کے مقابلے میں لاکھوں کروڑوں گنا زیادہ بڑے ہوتے ہیں۔ یعنی ایک فوق ضخیم بلیک ہول میں مادّے کی مقدار، ہمارے سورج کے مقابلے میں 10 لاکھ سے سے ہزاروں ارب گنا زیادہ ہوسکتی ہے۔
فوق ضخیم بلیک ہولز کہکشانی مرکزوں میں پائے جاتے ہیں اور اسی مناسبت سے انہیں ''سرگرم کہکشانی مرکزے'' (Active Galactic Nuclei) یا مختصراً ''اے جی این'' بھی کہا جاتا ہے۔ ہماری ملکی وے کہکشاں کے مرکز میں بھی ایسا ہی ایک بہت بڑا بلیک ہول موجود ہے جس کی کمیت کے بارے میں ماہرین نے اندازہ لگایا ہے کہ یہ ہمارے سورج کے مقابلے میں 40 لاکھ گنا زیادہ ہے۔ یعنی اس ایک بلیک ہول میں ہمارے سورج جیسے 40 لاکھ ستاروں سے بھی زیادہ کا مادّہ موجود ہے۔
چونکہ ہم بلیک ہولز کو نہیں دیکھ سکتے اس لیے ان کے مشاہدے کے لیے شدید ایکسریز اور گیما شعاعوں کے طاقتور جھماکوں کا سہارا لیا جاتا ہے جو ان میں گرتے ہوئے مادّے سے خارج ہوتے ہیں اور جنہیں ''مادے کی آخری چیخ'' بھی کہا جاتا ہے۔
یہ فلکیاتی واقعہ پچھلے سال (2015 میں) مشاہدہ کیا گیا تھا جسے ابتدائی طور پر سپر نووا کا دھماکا سمجھ لیا گیا تھا لیکن فلکیات دانوں کا ایک گروپ اس سے مطمئن نہیں تھا اور ان کا خیال تھا کہ زبردست روشنی کے اس اخراج کی وجہ ایک نادیدہ اور بہت بڑا بلیک ہول ہے جو ہمارے سورج جتنی جسامت والے ستارے کو ہڑپ کرنے میں مصروف ہے۔
اس خیال کی تصدیق کرنے کے لیے ''یورپین سدرن آبزرویٹری'' کے تحت آسٹریلیا، چلی، ڈنمارک، فن لینڈ، جرمنی، اسرائیل، اٹلی، اسپین، سویڈن، برطانیہ اور امریکا کے ماہرین فلکیات پر مشتمل ایک بین الاقوامی ٹیم تشکیل دی گئی جس نے زمین پر نصب طاقتور دوربینوں کے علاوہ ہبل خلائی دوربین اور ''سوئفٹ گیمارے برسٹ مشن'' نامی خلائی دوربین سے 10 ماہ تک اس مظہر کا مسلسل مشاہدہ کیا اور مختلف ضروری اعداد و شمار جمع کیے۔
اس تمام ڈیٹا کا محتاط تجزیہ کرنے کے بعد سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اس واقعے میں شدید گیما شعاعوں اور ایکسریز کا اخراج جس جگہ سے ہورہا ہے وہ ایک کہکشاں کے مرکزے سے بہت قریب ہے اور کہکشانی مرکزے میں بہت ہی ضخیم (super-massive) بلیک ہول موجود ہے۔ یہ بلیک ہول ہمارے سورج جیسے ایک ستارے کو ہڑپ کرنے میں مصروف ہے اور اسی بناء پر وہاں سے اتنی شدید نوعیت کی شعاعیں بھی خارج ہورہی ہیں۔ سائنسدانوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ مذکورہ واقعے کی پچھلی وضاحت میں، جو ایک سپرنووا کے طور پر کی گئی تھی، بہت سی تکنیکی خامیاں موجود ہیں جب کہ یہ واقعہ کسی نئے ستارے کی تشکیل بھی قرار نہیں دیا جاسکتا۔ ان ہی باتوں کی بنیاد پر وہ اسے کائنات کا ایک منفرد واقعہ بھی قرار دے رہے ہیں۔
واضح رہے کہ بہت ہی ضخیم (super-massive) بلیک ہولز جنہیں اردو میں ''فوق ضخیم بلیک ہولز'' بھی کہا جاتا ہے، اپنی کمیت کے اعتبار سے عام بلیک ہولز کے مقابلے میں لاکھوں کروڑوں گنا زیادہ بڑے ہوتے ہیں۔ یعنی ایک فوق ضخیم بلیک ہول میں مادّے کی مقدار، ہمارے سورج کے مقابلے میں 10 لاکھ سے سے ہزاروں ارب گنا زیادہ ہوسکتی ہے۔
فوق ضخیم بلیک ہولز کہکشانی مرکزوں میں پائے جاتے ہیں اور اسی مناسبت سے انہیں ''سرگرم کہکشانی مرکزے'' (Active Galactic Nuclei) یا مختصراً ''اے جی این'' بھی کہا جاتا ہے۔ ہماری ملکی وے کہکشاں کے مرکز میں بھی ایسا ہی ایک بہت بڑا بلیک ہول موجود ہے جس کی کمیت کے بارے میں ماہرین نے اندازہ لگایا ہے کہ یہ ہمارے سورج کے مقابلے میں 40 لاکھ گنا زیادہ ہے۔ یعنی اس ایک بلیک ہول میں ہمارے سورج جیسے 40 لاکھ ستاروں سے بھی زیادہ کا مادّہ موجود ہے۔
چونکہ ہم بلیک ہولز کو نہیں دیکھ سکتے اس لیے ان کے مشاہدے کے لیے شدید ایکسریز اور گیما شعاعوں کے طاقتور جھماکوں کا سہارا لیا جاتا ہے جو ان میں گرتے ہوئے مادّے سے خارج ہوتے ہیں اور جنہیں ''مادے کی آخری چیخ'' بھی کہا جاتا ہے۔