نواز شریف کا ایک شاندار فیصلہ
اچھی خبروں کے لیے ہمیں بہت انتظار کرنا پڑتا ہے
اچھی خبروں کے لیے ہمیں بہت انتظار کرنا پڑتا ہے۔ ایک دل خوش کن خبر ہمیں 1979ء میں ملی تھی جب فزکس کا نوبل انعام شراکت میں ڈاکٹر عبدالسلام کو دیا گیا تھا۔ ہم انتظار کرتے رہے کہ اس نابغۂ روزگار کی ملک میں بھی تکریم کی جائے اور اسے اُس کا حق دیا جائے۔ یہ لمحہ 37 برس بعد آیا کہ وزیراعظم میاں نواز شریف نے اسلام آباد یونیورسٹی کے نیشنل سینٹر فار فزکس کا نام تبدیل کرکے ڈاکٹر عبدالسلام سے منسوب کردیا اور اس کے ساتھ ہی فزکس کے شعبے میں ڈاکٹریٹ کرنے والے 5 پاکستانی طلباء کے لیے باہر کی یونیورسٹیوں میں اسکالرشپ کا بھی اعلان کیا ہے۔
ڈاکٹر سلام کی یہ آرزو تھی کہ ذہین پاکستانی طلبا کے لیے گرانٹس اور فیلوشپ کا اہتمام کیا جائے۔ اس کے لیے انھوں نے بڑے بڑے منصوبے بنائے۔ وہ پاکستان میں بین الاقوامی معیار کا ایک ادارہ قائم کرنا چاہتے تھے جو فزکس کے میدان میں پاکستانی طلبہ کو ہر ممکن سہولتیں فراہم کرے اور مغرب کے مختلف ملکوں میں ان کی اعلیٰ تعلیم کا بندوبست کرے۔ اس سلسلے میں وہ اپنے نوبیل انعام کے ساتھ ملنے والی 60 ہزار ڈالر کی رقم بھی عطیہ کرنا چاہتے تھے، لیکن کسی نے ان کی تجاویز کو درخور اعتنا نہیں سمجھا۔ اس منظر کو اپنی آنکھوں میں زندہ کیجیے کہ نوبیل انعامات عطا کیے جانے کی تقریب ہورہی ہے۔
سیاہ اچکن اور سفید شلوار، سر پر سفید پگڑی اور پیروں میں کُھسّے پہنے ہوئے ایک شخص سویڈن کے بادشاہ سے نوبل انعام لے رہا ہے۔ یہ وہ شخص ہے جس کی قومیت پاکستانی اور شہریت انگلستانی تھی۔ 1926ء میں جھنگ میں پیدا ہوا تو برطانوی ہندوستانی تھا۔ 21 نومبر 1996ء کو آکسفورڈ میں اس جہان سے گزرا تو برطانوی پاکستانی تھا۔
نظری طبیعات کی دنیا کا ایک بہت بڑا نام۔ دنیا اس کے قدموں میں نگاہیں بچھاتی تھی اور وہ اپنے دیس کی فضاؤں اور ہواؤں کو ترستا تھا۔ بین الاقوامی سطح پر اعلیٰ ترین اعزازات سے نوازا گیا لیکن اس کے دیس نے اسے ٹھکرا دیا۔ وہ بیسویں صدی میں سائنس کی دنیا کے اہم ترین دماغوں میں سے ایک تھا لیکن ذاتی صدمات نے آخر اسے بولنے اور چلنے سے محروم کیا۔ اس کے باوجود وہ موت سے چند ہفتوں پہلے تک کام کرتا رہا۔
وہ لوگ جو اس کے فولادی اعصاب کے قائل تھے، انھوں نے کئی بار یہ منظر بھی دیکھا کہ کسی بین الاقوامی سیمینار میں کوئی پاکستانی نوجوان سائنس دان، وہیل چیئر پر بیٹھے ہوئے اس شخص کے گھٹنوں کو ہاتھ لگارہا ہے اور اپنی مٹی سے جدائی کا غم اور اپنے دیس کی خوشبو کو محسوس کرتے ہوئے اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کا تار بندھا ہوا ہے۔ سائنس دانوں کی بین الاقوامی برادری کا یہ کامیاب اور مشہور انسان دیار غیر میں دنیا سے رخصت ہوا، دل شکستہ اور دل گرفتہ۔ جن فضاؤں میں رہنا اس جلاوطن کی آرزو تھی، وہاں اس کا تابوت آیا۔
اس نے کامیابیوں کا سفر 14 برس کی عمر سے شروع کیا جب وہ پنجاب بورڈ کے میٹرک کے امتحان میں صوبہ بھر میں اول آیا۔ یاد رہے کہ اس وقت کا پنجاب تقسیم نہیں ہوا تھا۔ یہ ایک ایسا اعزاز تھا جس پر جھنگ کے مسلمانوں، ہندوؤں اور سکھوں نے مل کر جشن منایا، بھنگڑے ڈالے۔ اس کے بعد اعلیٰ تعلیم کے دروازے اس پر کھلتے چلے گئے۔ سلام نے کیمبرج سے نظری سائنس میں شاندار نمبروں سے گریجویشن کیا۔ پاکستان بن چکا تھا۔ نئے ملک کی تعمیر کے جذبے سے سرشار سلام وطن واپس آئے اور گورنمنٹ کالج لاہور میں ریاضی کے پروفیسر ہوگئے، جلد ہی انھیں شعبہ ریاضی کا سربراہ بنادیا گیا۔ لیکن یہاں وہ اپنے محبوب کام یعنی ''تحقیق'' سے محروم ہوئے۔
آخرکار 2 برس بعد انھوں نے کیمبرج جانے کا فیصلہ کیا۔ اپنے اس فیصلے کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے ''نیو سائنٹسٹ'' کی نینا ہال سے کہا تھا کہ ''جلد ہی یہ بات مجھے معلوم ہوگئی کہ میں پورے ملک میں نظری طبیعات کی عملی تحقیق سے جڑا ہوا واحد فرد ہوں۔ کسی کو اس سے دلچسپی نہیں تھی کہ میں کسی تحقیق میں مصروف ہوں یا نہیں۔ بی اے کے طالب علموں کو ریاضی پڑھانے کے علاوہ میرے فرائض میں کالج کی فٹبال ٹیم کی نگرانی بھی تھی۔''
وہ تیسری دنیا کی آزادی کے باوجود ان کی غربت اور امیر ملکوں کی محکومی پر کڑھتے تھے۔ تیسری دنیا کے ذہین نوجوانوں کے لیے انھوں نے نظری طبیعات کے لیے اٹلی میں ایک مرکز قائم کیا جو آج سائنسی تحقیق میں دنیا کے اہم ترین اداروں میں سے ایک ہے۔ وہ ''تھرڈ ورلڈ اکیڈمی آف سائنسز'' کے پہلے صدر ہوئے۔ تیسری دنیا اور بطور خاص مسلم دنیا میں سائنس کی تعلیم اور تحقیق سے دوری انھیں مضطرب رکھتی تھی۔
1979ء میں جب نظری طبیعات میں انھیں دوسرے 2 سائنسدانوں کے ساتھ نوبل انعام سے نوازا گیا تو اس کے کچھ دنوں بعد یونیسیکو کی جنرل کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا تھا کہ ''مسلم دنیا کو ساٹھ ارب ڈالر سے زیادہ کی سالانہ آمدنی عطا ہوئی ہے، بین الاقوامی معیار کے مطابق ان ممالک کو تقریباً ایک ارب ڈالر سائنس اور ٹیکنالوجی پر خرچ کرنا چاہیے۔ آٹھویں، نویں، دسویں اور گیارہویں صدی میں ان کے آباؤ اجداد سائنس اور ٹیکنالوجی کی شمع روشن رکھنے والے تھے۔ ان ہی کے آباؤ اجداد نے بغداد اور قاہرہ میں سائنس کی اکادمیاں شروع کیں۔ ایک بار پھر سخاوت کا مظاہرہ کیجیے۔
سائنس پر ایک ارب ڈالر خرچ کیجیے۔ ایک ٹیلنٹ فنڈ قائم کیجیے۔ آخری فرق قابلیت سے ہی پڑتا ہے۔ اس قابلیت (ٹیلنٹ) فنڈ سے استفادے کو صرف مسلم اور عرب ممالک تک محدود نہ رکھئے بلکہ سب ہی ترقی پذیر ممالک کے لیے عام کیجیے۔ اس فنڈ میں میرا ذاتی حقیر عطیہ ساٹھ ہزار ڈالر کا ہوگا جو 10 دسمبر کو سویڈش اکیڈمی بطور انعام مجھے دے رہی ہے''۔
اپنی ایک تقریر میں انھوں نے کوریا کے صدر کے اس جملے کا ذکر کیا جس میں انھوں نے کہا تھا کہ ''چین کو سائنس اور ٹیکنالوجی کی دوڑ میں پچھاڑنا کوریا کا نصب العین ہوگا۔'' سلام کا کہنا تھا کہ ''کوریا جیسے ایک چھوٹے سے ملک کے اس نصب العین کا اندازہ کیجیے جو اس نے چین جیسے ملک کے مقابل آنے اور اس کو سائنس اور ٹیکنالوجی کی دوڑ میں شکست دینے کے لیے طے کیا ہے۔ یہ اسی طرح کی بلند حوصلگی تھی جس نے کوریا کو سائنس شناس بنادیا۔ پچھلی صدی کے آخر میں جب میجی (Meiji) انقلاب رونما ہوا توکچھ ایسا ہی معاملہ جاپان کے ساتھ پیش آیا تھا۔ جاپان کے ملکی آئین میں پانچ شقیں تھیں، پانچویں شق تھی 'علم حاصل کیا جائے خواہ جہاں کہیں بھی ملے'۔
علم کا مطلب جاپانیوں کے لیے سائنس تھا۔ 100 سال پہلے یہی صورتحال سویڈن میں ہوئی۔ کیا آپ یقین کرسکتے ہیں کہ آج سے ڈیڑھ سو برس پہلے سویڈن میں قحط پڑتے تھے اور وہ اپنے وجود کا احساس بھی نہیں کرسکتا تھا؟ یہی روس میں بھی ہوا۔ لینن نے اور اس کے بعد اسٹالن نے اسے روسی حکومت کی پالیسی میں شامل کرلیا تھا۔ اور روس کے لیے یہ نئی بات نہیں تھی کہ سائنس کو فروغ دیا جائے۔ پیٹر اعظم نے صدیوں پہلے یہی فرمان جاری کیا تھا۔ آج کے حالات میں مجھے ڈر ہے کہ حکومت کی مدد کے بغیر سائنس کو فروغ نہیں دیا جاسکتا۔'' اپنی اس تقریر میں انھوں نے اسی سویڈن کا ذکر کیا ہے جو آج دنیا کے انتہائی ترقی یافتہ ملکوں میں سے ہے اور جہاں سے ہر سال دنیا کی ذہانتوں کو سائنس، سماجی علوم اور ادب کے شعبوں میں نوبل انعام دیا جاتا ہے۔
آج جب ہم گیہوں اور دوسری اجناس کی قلت پر روتے ہیں، غلہ دوسرے ملکوں سے برآمد کرتے ہیں تو ہمیں چاہیے کہ ڈاکٹر سلام کو یاد کریں جو یہ کہتے تھے کہ زراعت ہماری شہ رگ ہے۔ ہمیں سیم و تھور اور کھارے پانی کو میٹھا کرنے کی ٹیکنالوجی پر توجہ دینی چاہیے، ورنہ ہمارے ہاتھ میں کشکول ہوگا اور ہم اقوام عالم میں ذلیل و رسوا ہورہے ہوں گے۔ وہ یہ بات بار بار کہتے تھے کہ ہم اپنی غربت سے اسی وقت لڑ سکتے ہیں جب ہم اپنی ذہانتوں کی پرورش کریں۔ حصول علم، غریب بچے کا بھی حق ہے جو اسے ملنا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ ''سائنسی سوچ بنی نوع انسان کا مشترکہ سرمایہ ہے۔''
ہمارے حکمرانوں کا اپنے دانشوروں، سائنسدانوں اور فلسفیوں سے ایک ہی رویہ رہا۔ کوئی ملحد تھا، کوئی زندیق اور کوئی مرتد۔ علمی اور سائنسی تحقیق و جستجو کا کسی بھی فرد کے مذہب سے تعلق نہیں ہوتا۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ سائنسدان کا عقیدہ کچھ بھی ہوسکتا ہے لیکن سائنس سیکولر ہے۔ ہم نے یہ نکتہ صدیوں پہلے فراموش کردیا تھا اور یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ آج ہم نیم تاریکی میں ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہیں۔ پستی کے اس سفر کو ہم صرف اسی وقت روک سکتے ہیں جب ہم اپنی ذہانتوں کا اعتراف کریں اور انھیں وہ تمام مواقع مہیا کریں جس کے بعد ہی کوئی سماج ترقی کرتا ہے۔
حکومت نے 37 برس بعد سہی ان کی خدمات کا اعتراف کیا اور اس سے کہیں زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ذہین مگر وسائل سے محروم پی ایچ ڈی کے 5 طلبا کی اعلیٰ تعلیم کی ذمے داری خود لی ہے۔ ڈاکٹر عبدالسلام کو اس سے بڑا خراجِ عقیدت کچھ اور نہیں ہوسکتا۔ بہت کم لوگوں کو یہ معلوم ہوگا کہ اس شاندار کام کو تکمیل تک پہنچانے کی کوششوں میں سب سے اہم نام ڈاکٹر پرویز ہود بھائی کا ہے جو اسلام آباد یونیورسٹی میں فزکس کے شعبے کی سربراہی کرتے ہیں اور ڈاکٹر عبدالسلام کو اپنا پیر و مرشد مانتے ہیں۔