سردیوں سے پہلے

یہ سردی جو ان دنوں لاہور میں پڑ رہی ہے، یہ وادیٔ سون کا ایک معمول ہے

Abdulqhasan@hotmail.com

یہ سردی جو ان دنوں لاہور میں پڑ رہی ہے، یہ وادیٔ سون کا ایک معمول ہے اور میرے جیسے اس وادی کے جم پل کو یہ سردی محسوس نہیں کرنی چاہیے لیکن میں اپنے اس موجود گرم ترین کپڑوں میں ملبوس ہوں، ہیٹر جل رہا ہے، دروازے بند ہیں اور سردی کی آمد کو گھر کے باہر ہی روک دیا گیا ہے لیکن اس احتیاط کے باوجود میں سردی محسوس کر رہا ہوں اور سرد وادی سے دور ہونے کے باوجود سردی سے محفوظ نہیں ہوں بلکہ میرا جسم سردی کی مکمل زد میں ہے، باہر کا حصہ اگرچہ سردی کو روکنے میں کام آنے والے تمام ہتھیاروں سے مسلح ہے لیکن میرے جسم پر ایک ہلکی سی کپکپی طاری ہے اور میں سوچ رہا ہوں کہ اس سے تو میرا پیدائشی سرد علاقہ بہتر ہے۔

سردی کے یہ وہ دن ہیں جن کی آمد سے پہلے سردی کی روک تھام کا بندوبست کر لیا جاتا ہے اور قریبی پہاڑوں سے خشک لکڑیوں کی آمد شروع ہو جاتی ہے بلکہ ایسی جلد ازجلد آگ پکڑنے والی خشک لکڑیوں کا ذخیرہ پہلے سے موجود ہوتا ہے۔ سردیاں شروع ہونے سے پہلے ہی گاؤں کے اونٹوں والوں کو خبردار کر دیا جاتا ہے بلکہ ان خشک درختوں کی نشاندہی بھی کر لی جاتی ہے جنھیں سردیوں کے لیے بچا کر رکھا گیا تھا اور جن کی حفاظت کا معقول بندوبست کر دیا گیا تھا چنانچہ سردیاں شروع ہونے پر گھروں کے بزرگ ان درختوں کا ایک بار پھر معائنہ کرتے اور جو کٹنے کے لیے موزوں ہوتے انھیں نشان زد کر کے اونٹوں والوں کے سپرد کر دیا جاتا جو ان کی کٹائی کا بروقت بندوبست کر دیتے اور سردیوں کا موسم شروع ہوتے ہی لوہار ان کے خشک حصوں کو کاٹ کر چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں محفوظ کر لیتے تھے۔ اس طرح سردیوں کا جواب پہلے سے تیار ہو جاتا۔

چولہوں کی مرمت بھی کر دی جاتی اور ان کے قریب ہی کسی جگہ پر ان لکڑیوں کو رکھ دیا جاتا۔ یہ ان تیاریوں کی ایک جھلک ہے جو سردیوں کے استقبال کے لیے کی جاتی ہیں اور وادی سون کی سخت سردی سے بچت کا ایک ذریعہ تیار ہو جاتا ہے لیکن اس کے باوجود سردی ایسے کئی راستے تلاش کر لیتی ہے کہ یہ سب تیاریاں کسی حد تک بے کار جاتی ہیں۔ ہواؤں کے راستے کون روک سکتا ہے اور سردی کا سفر ان ہواؤں کے پروں پر جاری رہتا ہے چنانچہ سردی ہر جگہ کسی نہ کسی راستے سے پہنچ جاتی ہے اور اپنا حساب بے باک کر لیتی ہے۔ وہ ساری بچت جو سردی سے بچنے کے لیے کی جاتی ہے بالعموم اکارت جاتی ہے لیکن پھر بھی سردی سے بچاؤ کی تدبیر لازم ہے۔


جتنا کچھ ممکن ہے وہ کر لیا جاتا ہے اور سردی کا راستہ کسی حد تک روک لیا جاتا ہے۔ سردی چونکہ ہواؤں کے دوش پر سفر کرتی ہے اس لیے بند کمروں میں آپ ان ہواؤں سے بچ کر وقت گزار لیتے ہیں۔ اس بار سردیاں زیادہ تکلیف دہ بتائی جا رہی ہیں کیونکہ بارش نہیں ہوئی اور سردی جب خشک ہوتی ہے تو کبھی برداشت سے باہر بھی ہو جاتی ہے۔ سردی سے بچنے کے لیے لباس میں بھی تبدیلیاں آتی ہیں جو پرانے زمانے کے فوجیوں کی مرہون منت ہیں۔ سردیوں میں فوجی جب چھٹی پر آتے تھے تو سویٹر اور جرسیاں لے کر آتے تھے۔ پہلے تو وہ کچھ فالتو سویٹر وغیرہ عزیزوں کو دے دیتے تھے پھر بچ جانے والوں میں چھٹی کے دن گزار کر ان کو بھی گھروں میں چھوڑ جاتے تھے اس طرح دیہات میں بھی سردی سے بچاؤ کا ایک انتظام چلتا رہتا تھا۔

ان جرسیوں اور سویٹروں سے پہلے سردی سے بچاؤ کا ذریعہ موٹے کپڑے اور کمبل وغیرہ ہوتے تھے جن کو لپیٹ کر سردیوں سے بچ جاتے تھے لیکن یہ بچاؤ کسی حد تک ہوتا تھا کیونکہ پہاڑی وادی سون کی سرد ہوائیں ان کپڑوں کی پروا نہیں کرتی تھیں۔ یہ وہ زمانہ تھا جب جسم کے ساتھ چپک جانے والے سویٹر وغیرہ نہیں ہوتے تھے اور موٹی چادریں جسموں کو سردی سے بچاتی تھیں۔ بعد میں جب وقت بدل گیا اور سویٹر بھی عام ہو گئے تو انسانوں نے سکھ کا سانس لیا اور سردی سے بچ کر اپنے کاروبار میں مصروف ہو گئے۔

اب حالت یہ ہے کہ کام کرنے والے کسی حد تک محفوظ کپڑوں میں ملبوس ہو کر اپنا کام جاری رکھتے ہیں اور سردیوں کو برداشت کر لیتے ہیں۔ اگر وہ کھلے موسم میں سردیوں کو برداشت کریں تو یہ روزی کہاں سے پیدا کریں۔ اب تو ہل چلانے والے بھی سویٹر پہن کر کھیتوں کو فصل کے لیے تیار کرتے ہیں اور بیلوں وغیرہ کو رات کو بند کمروں میں رکھتے ہیں تاکہ وہ سردی سے محفوظ رہیں اور دوسرے دن کی مشقت کے لیے تیار ہوں۔ جو کاشتکار بھی اتنی ہی احتیاط کرتے ہیں کہ کھیت میں جانور اور انسان دونوں برابر کی مشقت کرتے ہیں۔

تو اس طرح سردیوں کا آغاز ہوتا ہے اور کئی فصلیں ایسی ہیں جو سرد موسم میں ہی پھلتی پھولتی ہیں مثلاً گندم، یہ سردیوں کا 'پھل' ہے جس کی نشوونما سردی میں ہوتی ہے اور کٹائی گرمی میں۔ تو یہ ہے سردیوں کا آغاز جو کھیتوں اور انسانوں کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔
Load Next Story