ہم تو پتھر ہوگئے
کہتے ہیں زمانے کو برا مت کہو کہ زمانے پہ کسی کا اختیار نہیں
کہتے ہیں زمانے کو برا مت کہو کہ زمانے پہ کسی کا اختیار نہیں۔ تو پھر کس کو برا کہوں، ان بے حس اور بے رحم لوگوں کو جنھوں نے ماؤں کی گود خالی کی، ان کی جیتی جاگتی اولاد کو اپنے ناپاک ارادوں اور عملیات سے ماؤں سے جدا کیا اور خود نقابیں چڑھا کر پاکباز بن کر زمانے کے سامنے آگئے، اور ان والدین کے خلاف خاندان بھر میں منفی پروپیگنڈا شروع کردیا، جو اپنی اولاد کی ایک جھلک دیکھنے اور اس کی آواز سننے کو ترس رہے ہیں۔
ان کے فون نمبر آٹومیٹک ریجیکٹڈ کال (Automatic Rejected Call) پہ ڈال دیے گئے یا ان بے حس لوگوں کو شاباش دوں جنھوں نے بغیر تحقیق اور بغیر سچ جانے منفی پروپیگنڈے کا یقین کیا اور خود بھی ظالموں کی فہرست میں شامل ہوگئے یا ان بدنصیب والدین اور بدنصیب ماؤں پہ روؤں جو شخصی ٹکراؤ (Personality Clash) کی سزا بھگت رہی ہیں۔ کیونکہ حاسد جب کسی قابل اور معروف شخصیت کا مقابلہ نہیں کرسکتا تو احساس کمتری کی بنا پر وہ اپنی جلن، حسد اور احساس کمتری کے جذبے کو ٹھنڈک پہنچانے کے لیے ایسی ہی اوچھی حرکتیں کرتے ہیں۔
مجھے یہ سب کہنے دیجیے، کیا یہ پتھر کا زمانہ ہے کہ زخمی وجود کو بھی لوگ پتھر مار کر خوش ہو رہے ہیں۔ اور خود اس زعم میں مبتلا ہیں کہ پانچ وقت کی نماز ادا کرکے انھیں کسی کو بھی دکھ پہنچانے اور زخم دینے کا لائسنس اللہ سے مل گیا ہے؟ ہے کسی کے پاس جواب؟ بقول اختر جوناگڑھی:
جسم صحرا ہوچکے ہیں، ذہن بنجر ہو گئے
ہم کہاں زندہ ہیں لوگو، ہم تو پتھر ہوگئے
اس تمہید کی طرف نہ جانے میں کیوں نکل گئی۔ دراصل چند ایسی خواتین کا مسئلہ آن پڑا، جو صاحب حیثیت ہیں، لیکن اولاد کے ہوتے ہوئے بے سہارا ہیں، انھیں حاسدوں اور شرپسندوں نے سازش کے تحت اکیلا کیا ہے، انھیں کراچی میں ایک ایسے ہوسٹل کی تلاش ہے جہاں وہ معاوضہ دے کر عزت اور حفاظت سے مستقل رہ سکیں (جب تک زندگی ہے)۔ ان کی تنہائی اور بے بسی دیکھ کر میں نے تہیہ کیا کہ ان کے لیے کچھ کروں، کیا ہوا جو اولاد جیتے جی بے سہارا چھوڑ گئی، اور ہائی جیک ہوگئی، کیا ہوا جو رشتے دار بھی سازشوں کا شکار ہوگئے، کوئی بات نہیں، اللہ نے تو اکیلا نہیں کیا، اس نے تو بے سہارا نہیں چھوڑا۔ وہ خواتین دن میں لاکھ بار سجدے میں جاکر شکر ادا کرتی ہیں کہ خدا نے انھیں اولاد کا نہ کسی اور کا محتاج کیا۔
مرتے دم تک وہ کسی انسان کی محتاج نہیں ہوسکتیں۔ اللہ کا بڑا کرم ہے۔ لیکن کیا کیجیے اس مامتا کا جو دن رات تڑپتی ہے۔ اس لیے تنہائی کے عذاب سے چھٹکارا پانے کے لیے وہ کسی ایسے اچھے، معقول، صاف ستھرے ادارے کی تلاش میں ہیں جہاں وہ آرام سے رہ سکیں۔ جہاں انھیں کوئی کام نہ کرنا پڑے، بلکہ تمام خدمات کے ساتھ سہولیات موجود ہوں۔ البتہ باہر کے کام وہ اپنے خود کرتی ہیں۔ ماشا اللہ تندرست اور صحت مند ہیں، اس لیے میں ذاتی طور پر قارئین سے درخواست کرتی ہوں کہ اگر انھیں کسی ایسے ویمن ہوسٹل، اولڈ پیپلز ہوم یا عام ہوسٹل کا علم ہو، جہاں انھیں ایک معقول کمرہ مل جائے، ماحول اچھا ہو تو ازراہ کرم میرے ای میل ایڈریس یا اس فون نمبر پہ اطلاع ضرور دیں۔ صرف سنجیدہ لوگ رابطہ کریں۔ 0307-2724690
آپ یہ ضرور سوچ رہے ہوں گے کہ میں نے کسی این جی او سے رابطہ کیوں نہیں کیا؟ تو عرض ہے کہ ہم یہ سب کوشش کرچکے ہیں۔ یہ نام نہاد این جی اوز صرف اپنی پبلسٹی اور فنڈ ریزنگ میں مشغول رہتی ہیں۔ ایک معروف این جی اوز سے میں نے خود بات کی، لیکن آج تک کوئی جواب نہیں۔ یہ سب سراسر دھوکا اور فریب نظر ہے۔
بعض ہوسٹل کا پتا چلا لیکن یہ جان کر افسوس ہوا کہ وہ کمیونٹی کے ہیں، جہاں ایک مخصوص کمیونٹی کے لوگ ہی رہ سکتے ہیں۔ بعض جگہ ماحول بہت تجارتی تھا۔ ہمیں تو شہر قائد میں ایسے ہوسٹل یا اولڈ پیپلز ہوم کی تلاش ہے جہاں صرف انسانیت کی بنیاد پر رہائش دی جاتی ہو۔ مذہب، مسلک، برادری اور کمیونٹی کی تقسیم سے بالاتر ہوکر لوگوں کی مدد کی جاتی ہو۔ جن دو خواتین کو یہ سہولت چاہیے وہ اپنا غم بھلانے کے لیے لوگوں کے درمیان رہنا چاہتی ہیں، کیونکہ جتنی سانسیں اللہ نے لکھ دی ہیں وہ تو انھیں پوری کرنی ہیں۔
میں یہ بھی بتا دوں کہ اگر خودکشی حرام نہ ہوتی تو وہ بیٹے کے اجنبی ہوتے ہی زندگی کی قید سے نجات پالیتیں۔ اسی لیے انھیں باعزت رہائش اور اچھا ماحول چاہیے۔ جہاں یا تو ورکنگ ویمن ہوں یا پڑھے لکھے افراد رہائش پذیر ہوں۔ مجھے امید تو نہیں ہے کہ اس شہر ناپرساں میں کوئی ادارہ صرف انسانیت کی بنیاد پر ایسا ہوگا، لیکن کوشش کرلینے میں کیا حرج ہے۔
اب بتائیے کہ میرا زمانے کو بے حس کہنا جائز ہے کہ نہیں؟ جہاں سگا بھائی اپنے ہی ماں جائے کی قبر پہ جانے کا خیال بھی دل میں نہ لائے۔ جہاں سگی اولاد اس کوکھ کو بھول جائے جس سے اس نے جنم لیا ہو؟ کہتے ہیں روز قیامت لوگ اپنی اپنی ماؤں کے ناموں سے پکارے جائیں گے، تو کیا وہاں بھی یہ بے درد اولاد ماں کو ڈس اون (Disown) کردے گی؟ کیا وہ بے درد لوگ جنھوں نے کسی کی بھی اولاد کو ہائی جیک کرکے بلیک میلنگ کے ذریعے ماں باپ سے جدا کیا ہو، قیامت کے دن خدا سے بھی یہی کہیں گے کہ یہ ان کا بیٹا نہیں ہمارا ہے۔ کیونکہ ہم نے اسے سازشوں، بلیک میلنگ اور اپنے ذاتی مفاد کے لیے ماں باپ سے چھڑایا ہے۔
کیا وہ تمام لوگ بھی گناہ گار نہیں ہیں جو ساری حقیقت جانتے ہوئے بھی چپ کی مہر ہونٹوں پہ مصلحت کی خاطر لگائے ہوئے ہیں۔ کیونکہ مظلوم اور سچ کا ساتھ دینا ہر کسی کے بس کی بات نہیں کیونکہ جب رشتے آپس میں گندھے ہوئے ہوں، ایک دوسرے کے مفاد آپس کی رشتے داریوں سے وابستہ ہوں تو مظلوم اور اکیلے انسان کا ساتھ دینا بڑے حوصلے کا کام ہے۔ مفاد پرستی ہر چیز پر غالب آجاتی ہے۔ لیکن سچ کا سورج کسی نہ کسی طرح اپنی جھلک دکھلا ہی دیتا ہے۔
جس طرح سیاہ رات کے بطن سے سورج جنم لیتا ہے، اسی طرح جھوٹ کے پردے بھی آہستہ آہستہ چاک ہونے لگتے ہیں۔ سچ کی کرنیں رفتہ رفتہ اپنا راستہ خود بنا لیتی ہیں لیکن اس وقت تک بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے۔ جہاد صرف ہتھیاروں سے جنگ کا نام نہیں ہے، بلکہ ظلم، برائی اور جھوٹ کے خلاف کھڑے ہونا بھی جہاد ہے۔ لیکن اس حقیقت کا ادراک بہت کم لوگوں کو ہوتا ہے۔