تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے
اپنی موت کو یوں ہوا میں گلے لگانے والے وہ تمام مسافر، اپنے ورثاء اور پیاروں کے لیے فقط سوالیہ نشان چھوڑ گئے ہیں
نہ دیں کی نذر کہ بیعانہء جزا دیتے
نہ رزم گاہ میں برسا کہ معتبر ہوتا
کسی علم پہ رقم ہو کے مشتہرہوتا
پکارتا رہا ، بے آسرا، یتیم لہو
کسی کو بہر سماعت نہ وقت تھا نہ دماغ
نہ مدعی نہ شہادت، حساب باک ہوا
یہ خون خاک نشیناں تھا، رزق خاک ہوا
( فیض احمد فیض)
7 دسمبر2016 کی شام ، اسلام آباد میں پہلی بار مجھے دھند کی چادر نظر آئی تھی، لیکن اس کے چند منٹ کے بعد ریڈیو پر خبر سنتے ہی سارا ماحول دھندلا گیا تھا، ایک اور جہاز کے کریش ہونے کی خبر، جانے کتنے ہی خاندانوں کے چراغ گل ہونے کی خبریں آنے والی تھیں... نہ جانے کون کون مسافر تھے جو اس جہاز پر سوار ہو کر اپنے ابدی سفر پر روانہ ہو گئے تھے۔ جوں جوں اطلاعات آ رہی تھیں دل ڈوبا جا رہا تھا، ہر چینل اسی خبر کو چلا رہا تھا، اپنے اپنے انداز سے، اپنے اپنے زاویے سے۔
اپنی موت کو یوں ہوا میں گلے لگانے والے وہ تمام مسافر، اپنے ورثاء اور پیاروں کے لیے فقط سوالیہ نشان چھوڑ گئے ہیں ۔ کیا اس معاملے کی تحقیقات ہوں گی یا دس سال گزرنے کے بعد کہہ دیا جائے گا کہ فلاں طیارے کا حادثہ پائلٹ کی غلطی سے پیش آیا تھا کیونکہ حال ہی میں دس سال قبل ملتان میں ہونے والے فوکر کے حادثے کی رپورٹ پیش کی گئی ہے اور اس میں بھی یہی موقف اختیار کیا گیا ہے کہ وہ طیارہ پائلٹ کی غلطی کی وجہ سے حادثے کا شکار ہو ا تھا۔
اسامہ احمد وڑائچ، اس کی بیوی اور بیٹی کی تدفین سے واپسی کے سفر میں ریڈیو آن کیا تو خبر آ رہی تھی کہ تمام میتوں کو ایبٹ آباد سے اسلام آباد لائے جانے کے لیے ہیلی کاپٹر روانہ کر دیے گئے ہیں، پمز اور سی ایم ایچ میں ڈی این اے ٹیسٹ کر کے میتیں لواحقین کے حوالے کر دی جائیں گی۔ ہائے کوئی جانتا ہی نہ تھا کہ چند جسم تو تہہ خاک جا بھی چکے!! جانے کتنے گھروں میں اسی طرح صف ماتم بچھی ہے، جانے کتنی ماؤں کی کوکھ اجڑ گئی ہے، کتنے گھروں کے چراغ گل ہو گئے ہیں، ہم جس طرح درد اور تکلیف محسوس کرتے ہیں، وہ ان کے درد کے پاسنگ بھی نہیں جنھوں نے اپنی متاع کھوئی ہے، جو اس انتظار میں تھے کہ چند منٹوں میں وہ اپنے پیاروں سے ملنے والے ہیں، اب ان کا انتظار... ا ن کے پیاروں کا جیون ساتھی بن گیا ہے، مرنے تک ساتھ نہ چھوڑنے کا عہد کر کے۔
ان جانے والوں میں سے ہر ایک کی جان اتنی ہی قیمتی ہے، ہر ایک کے گھر والوں کا اتنا ہی نقصان ہوا ہے، یہ اور بات ہے کہ ان میں سے کچھ گمنام تھے اور کچھ ایسے نامورتھے جنھیں ہم سب جانتے تھے، میڈیا میں ان کی موت کے نقصان کو نا قابل تلافی اور بہت بڑا نقصان کہا گیا مگر حقیقت یہ ہے کہ موت ہر ایک کے لواحقین کو ایک جیسی محرومی میں مبتلا کرتی ہے ، ہر ایک کا جانا نا قابل تلافی ہوتا ہے، ہم سب نے جانا ہے مگرکسی جانے والے کا کوئی نعم البدل نہیں۔سنتالیس لوگوں کے گھروں میں صف ماتم بچھی اور شام غریباں چھا گئی، اتنے گھروں میں چراغ گل ہوئے، اتنے گھروں میں انتظار کی شمعیں جلا کر رکھنے والوں کا انتظار ابدی ہو گیا ہے، ان کے منتظر ان کے پیارے... کبھی ان چہروں کو دیکھ نہ پائیں گے نہ ہی انھیں چھو سکیں گے، ان کے وجود کی خوشبو سے محروم ہو جانے والے ان کے خونی رشتے، کتنے ہی کاش اپنے دلوں میں دفن کر کے رہ جائیں گے، ان کی نگاہیں ہمیشہ اخبارات میں اور ٹیلی وژن پر اس خبر کو ڈھونڈیں گی کہ ان کے پیاروں کے لہو کا کوئی نہ کوئی سراغ ملا مگر!!
کہیں بھی ، کہیں بھی نہیں لہو کا سراغ
نہ دست و ناخن قاتل نہ آستیں پہ نشاں
نہ سرخی لب خنجر نہ رنگ نوک سناں
نہ خاک پہ کوئی دھبہ نہ بام پہ سراغ
کہیں نہیں ، کہیں بھی نہیں لہو کا سراغ
( فیض احمد فیض)
دکھ تو یہ ہے کہ آج تک کسی حادثے کو اتنی سنجیدگی سے نہیں لیا گیا کہ اس کی فوری اور موثر تحقیقات ہوں، ذمے داروں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے اور آئندہ کے لیے ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ قومی ائیر لائن میں آئے دن کسی نہ کسی حادثے سے بال بال بچنے کی خبریں ہم اور آپ سنتے ہیں، مگر کیا کوئی بھی ایسا واقعہ آج تک عبرت کے طور پر لیا گیا ہے؟ کسی متوقع حادثے سے بچ جانے کے بعد ان عوامل کا تدارک کیا گیا ہے کہ جن کے باعث کوئی حادثہ ہوتے ہوتے رہ گیا۔
سولہ اکتوبر 1930 کو پیدا ہونے اور بارہ اکتوبر 1970 کو اچانک اس دنیائے فانی سے چلے جانے والے، چالیس سال سے بھی کم عمر پانے والے مشہور شاعر، مصطفے زیدی... ان کا ایک مشہور عالم شعر،
میں کس کے ہاتھ پر اپنا لہو تلاش کروں
تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے
یہ شعر ایک اتنی بڑی حقیقت ہے کہ جو اس زمانے کے بہتر حالات سے لے کر آج کے ابتر حالات تک حسب حال آتا ہے، نہ مصطفے زیدی کی پراسرار موت کا معمہ آج تک حل ہوا ہے نہ اس کے بعد ہونے والی کسی بھی حادثاتی موت کا اور نہ ہی اس ملک میں ہونے والے کسی بھی قتل کا۔ زیدی تو کہہ گئے ہیں کہ تمام شہر نے دستانے پہنے ہوئے ہیں مگر اب تو ہم سب نے دستانوں کے ساتھ ساتھ بے حسی کی چادریں اور لاتعلقی کے لبادے بھی اوڑھ لیے ہیں۔
اب ہم میں سے ہر کوئی ہر حادثے کو قدرت کی رضا سمجھ کر قبول کر لیتا ہے، کوئی شک نہیں کہ ہر کسی کی موت اللہ کے امر سے اور اس کے مقرر کردہ وقت اور طریقے سے ہی ہونا ہے، اس ہونی کو کوئی ٹال نہیں سکتا، مگر کسی حادثے کی تحقیقات ہو جائیں اور ذمے دار افراد کو سزا مل جائے تو کم از کم عمر بھر کے لیے روتے رہ جانے والے ان کے لواحقین کے آنسو پونچھے جا سکتے ہیں۔
جانے کیسے بے حس لوگ ہیں جن کے اپنے مفادات انسانوں کی زندگیوں سے بھی اہم ہیں... یہی وہ لوگ ہیں جو ہمارے ساتھ اچھا برا کرنے کے لیے بھی ایک دن اللہ تعالی کو جواب دہ ہوں گے مگر اس جواب دہی کے خوف سے آزاد اور اپنے آج کی فکر میں مبتلا ہیں۔ اپنی اپنی نجی ائیر لائنیں چلانے کے لیے انھوں نے قومی ائیر لائن کا تیا پانچہ کر کے رکھ دیا ہے، اس ائیر لائن کے پاس ایسے اور ایسی حالت کے جہاز ہیں کہ جن میں بیٹھنے والے ہمیشہ اپنی منزل پر پہنچ پانے سے مشکوک ہوتے ہیں۔ ایک ایسی ائیر لائن جو کسی زمانے میں دنیا کی بہترین ائیر لائنوں میں شمار ہوتی تھی، اس وقت اس کی حالت سب سے پتلی ہے۔
کوئی فائدہ نہیں، کچھ ہونے والا نہیں، کوئی اس حادثے سے سبق سیکھنے والا نہیں اور کوئی اتنے نقصان کے بعد بھی اس بات کی کوشش کرنے والا نہیں کہ آئندہ کے لیے کوئی نہ کوئی احتیاطی تدابیر کی جائیں اور اگر کسی طیارے کے انجن میں خرابی کے بارے میں معلوم تھا تو کیا اسے اڑا کر دیکھنا مقصود تھا کہ اس کی قابلیت کیا ہے؟ اتنی قیمتی جانوں کے نقصان کا ازالہ کون کرے گا؟ کس کے ہاتھ پر ہمیں لہو ملے گا؟ کوئی شفاف تحقیقات ہوں گی یا اب بھی ہمیشہ کی طرح کوئی ٹوپی ڈرامہ کر کے معاملات کو دس سال تک کے لیے دبا دیا جائے گا، یا کل کوئی نئی بریکنگ نیوز ہمارے ذہنوں سے اتنے بڑے نقصان کی یاد مٹا دے گی؟
نہ رزم گاہ میں برسا کہ معتبر ہوتا
کسی علم پہ رقم ہو کے مشتہرہوتا
پکارتا رہا ، بے آسرا، یتیم لہو
کسی کو بہر سماعت نہ وقت تھا نہ دماغ
نہ مدعی نہ شہادت، حساب باک ہوا
یہ خون خاک نشیناں تھا، رزق خاک ہوا
( فیض احمد فیض)
7 دسمبر2016 کی شام ، اسلام آباد میں پہلی بار مجھے دھند کی چادر نظر آئی تھی، لیکن اس کے چند منٹ کے بعد ریڈیو پر خبر سنتے ہی سارا ماحول دھندلا گیا تھا، ایک اور جہاز کے کریش ہونے کی خبر، جانے کتنے ہی خاندانوں کے چراغ گل ہونے کی خبریں آنے والی تھیں... نہ جانے کون کون مسافر تھے جو اس جہاز پر سوار ہو کر اپنے ابدی سفر پر روانہ ہو گئے تھے۔ جوں جوں اطلاعات آ رہی تھیں دل ڈوبا جا رہا تھا، ہر چینل اسی خبر کو چلا رہا تھا، اپنے اپنے انداز سے، اپنے اپنے زاویے سے۔
اپنی موت کو یوں ہوا میں گلے لگانے والے وہ تمام مسافر، اپنے ورثاء اور پیاروں کے لیے فقط سوالیہ نشان چھوڑ گئے ہیں ۔ کیا اس معاملے کی تحقیقات ہوں گی یا دس سال گزرنے کے بعد کہہ دیا جائے گا کہ فلاں طیارے کا حادثہ پائلٹ کی غلطی سے پیش آیا تھا کیونکہ حال ہی میں دس سال قبل ملتان میں ہونے والے فوکر کے حادثے کی رپورٹ پیش کی گئی ہے اور اس میں بھی یہی موقف اختیار کیا گیا ہے کہ وہ طیارہ پائلٹ کی غلطی کی وجہ سے حادثے کا شکار ہو ا تھا۔
اسامہ احمد وڑائچ، اس کی بیوی اور بیٹی کی تدفین سے واپسی کے سفر میں ریڈیو آن کیا تو خبر آ رہی تھی کہ تمام میتوں کو ایبٹ آباد سے اسلام آباد لائے جانے کے لیے ہیلی کاپٹر روانہ کر دیے گئے ہیں، پمز اور سی ایم ایچ میں ڈی این اے ٹیسٹ کر کے میتیں لواحقین کے حوالے کر دی جائیں گی۔ ہائے کوئی جانتا ہی نہ تھا کہ چند جسم تو تہہ خاک جا بھی چکے!! جانے کتنے گھروں میں اسی طرح صف ماتم بچھی ہے، جانے کتنی ماؤں کی کوکھ اجڑ گئی ہے، کتنے گھروں کے چراغ گل ہو گئے ہیں، ہم جس طرح درد اور تکلیف محسوس کرتے ہیں، وہ ان کے درد کے پاسنگ بھی نہیں جنھوں نے اپنی متاع کھوئی ہے، جو اس انتظار میں تھے کہ چند منٹوں میں وہ اپنے پیاروں سے ملنے والے ہیں، اب ان کا انتظار... ا ن کے پیاروں کا جیون ساتھی بن گیا ہے، مرنے تک ساتھ نہ چھوڑنے کا عہد کر کے۔
ان جانے والوں میں سے ہر ایک کی جان اتنی ہی قیمتی ہے، ہر ایک کے گھر والوں کا اتنا ہی نقصان ہوا ہے، یہ اور بات ہے کہ ان میں سے کچھ گمنام تھے اور کچھ ایسے نامورتھے جنھیں ہم سب جانتے تھے، میڈیا میں ان کی موت کے نقصان کو نا قابل تلافی اور بہت بڑا نقصان کہا گیا مگر حقیقت یہ ہے کہ موت ہر ایک کے لواحقین کو ایک جیسی محرومی میں مبتلا کرتی ہے ، ہر ایک کا جانا نا قابل تلافی ہوتا ہے، ہم سب نے جانا ہے مگرکسی جانے والے کا کوئی نعم البدل نہیں۔سنتالیس لوگوں کے گھروں میں صف ماتم بچھی اور شام غریباں چھا گئی، اتنے گھروں میں چراغ گل ہوئے، اتنے گھروں میں انتظار کی شمعیں جلا کر رکھنے والوں کا انتظار ابدی ہو گیا ہے، ان کے منتظر ان کے پیارے... کبھی ان چہروں کو دیکھ نہ پائیں گے نہ ہی انھیں چھو سکیں گے، ان کے وجود کی خوشبو سے محروم ہو جانے والے ان کے خونی رشتے، کتنے ہی کاش اپنے دلوں میں دفن کر کے رہ جائیں گے، ان کی نگاہیں ہمیشہ اخبارات میں اور ٹیلی وژن پر اس خبر کو ڈھونڈیں گی کہ ان کے پیاروں کے لہو کا کوئی نہ کوئی سراغ ملا مگر!!
کہیں بھی ، کہیں بھی نہیں لہو کا سراغ
نہ دست و ناخن قاتل نہ آستیں پہ نشاں
نہ سرخی لب خنجر نہ رنگ نوک سناں
نہ خاک پہ کوئی دھبہ نہ بام پہ سراغ
کہیں نہیں ، کہیں بھی نہیں لہو کا سراغ
( فیض احمد فیض)
دکھ تو یہ ہے کہ آج تک کسی حادثے کو اتنی سنجیدگی سے نہیں لیا گیا کہ اس کی فوری اور موثر تحقیقات ہوں، ذمے داروں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے اور آئندہ کے لیے ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ قومی ائیر لائن میں آئے دن کسی نہ کسی حادثے سے بال بال بچنے کی خبریں ہم اور آپ سنتے ہیں، مگر کیا کوئی بھی ایسا واقعہ آج تک عبرت کے طور پر لیا گیا ہے؟ کسی متوقع حادثے سے بچ جانے کے بعد ان عوامل کا تدارک کیا گیا ہے کہ جن کے باعث کوئی حادثہ ہوتے ہوتے رہ گیا۔
سولہ اکتوبر 1930 کو پیدا ہونے اور بارہ اکتوبر 1970 کو اچانک اس دنیائے فانی سے چلے جانے والے، چالیس سال سے بھی کم عمر پانے والے مشہور شاعر، مصطفے زیدی... ان کا ایک مشہور عالم شعر،
میں کس کے ہاتھ پر اپنا لہو تلاش کروں
تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے
یہ شعر ایک اتنی بڑی حقیقت ہے کہ جو اس زمانے کے بہتر حالات سے لے کر آج کے ابتر حالات تک حسب حال آتا ہے، نہ مصطفے زیدی کی پراسرار موت کا معمہ آج تک حل ہوا ہے نہ اس کے بعد ہونے والی کسی بھی حادثاتی موت کا اور نہ ہی اس ملک میں ہونے والے کسی بھی قتل کا۔ زیدی تو کہہ گئے ہیں کہ تمام شہر نے دستانے پہنے ہوئے ہیں مگر اب تو ہم سب نے دستانوں کے ساتھ ساتھ بے حسی کی چادریں اور لاتعلقی کے لبادے بھی اوڑھ لیے ہیں۔
اب ہم میں سے ہر کوئی ہر حادثے کو قدرت کی رضا سمجھ کر قبول کر لیتا ہے، کوئی شک نہیں کہ ہر کسی کی موت اللہ کے امر سے اور اس کے مقرر کردہ وقت اور طریقے سے ہی ہونا ہے، اس ہونی کو کوئی ٹال نہیں سکتا، مگر کسی حادثے کی تحقیقات ہو جائیں اور ذمے دار افراد کو سزا مل جائے تو کم از کم عمر بھر کے لیے روتے رہ جانے والے ان کے لواحقین کے آنسو پونچھے جا سکتے ہیں۔
جانے کیسے بے حس لوگ ہیں جن کے اپنے مفادات انسانوں کی زندگیوں سے بھی اہم ہیں... یہی وہ لوگ ہیں جو ہمارے ساتھ اچھا برا کرنے کے لیے بھی ایک دن اللہ تعالی کو جواب دہ ہوں گے مگر اس جواب دہی کے خوف سے آزاد اور اپنے آج کی فکر میں مبتلا ہیں۔ اپنی اپنی نجی ائیر لائنیں چلانے کے لیے انھوں نے قومی ائیر لائن کا تیا پانچہ کر کے رکھ دیا ہے، اس ائیر لائن کے پاس ایسے اور ایسی حالت کے جہاز ہیں کہ جن میں بیٹھنے والے ہمیشہ اپنی منزل پر پہنچ پانے سے مشکوک ہوتے ہیں۔ ایک ایسی ائیر لائن جو کسی زمانے میں دنیا کی بہترین ائیر لائنوں میں شمار ہوتی تھی، اس وقت اس کی حالت سب سے پتلی ہے۔
کوئی فائدہ نہیں، کچھ ہونے والا نہیں، کوئی اس حادثے سے سبق سیکھنے والا نہیں اور کوئی اتنے نقصان کے بعد بھی اس بات کی کوشش کرنے والا نہیں کہ آئندہ کے لیے کوئی نہ کوئی احتیاطی تدابیر کی جائیں اور اگر کسی طیارے کے انجن میں خرابی کے بارے میں معلوم تھا تو کیا اسے اڑا کر دیکھنا مقصود تھا کہ اس کی قابلیت کیا ہے؟ اتنی قیمتی جانوں کے نقصان کا ازالہ کون کرے گا؟ کس کے ہاتھ پر ہمیں لہو ملے گا؟ کوئی شفاف تحقیقات ہوں گی یا اب بھی ہمیشہ کی طرح کوئی ٹوپی ڈرامہ کر کے معاملات کو دس سال تک کے لیے دبا دیا جائے گا، یا کل کوئی نئی بریکنگ نیوز ہمارے ذہنوں سے اتنے بڑے نقصان کی یاد مٹا دے گی؟