ووٹرز کا باشعور ہونا ناگزیر ہے
سابق صدر پرویز مشرف نے اپنے دور حکومت میں اسمبلی کا ممبر بننے کے لیے گریجویٹ ہونے کی شرط لگائی تھی
سابق صدر پرویز مشرف نے اپنے دور حکومت میں اسمبلی کا ممبر بننے کے لیے گریجویٹ ہونے کی شرط لگائی تھی۔ پھر کیا تھا، ممبران اسمبلی اور دوسرے امیدواروں نے جعلی ڈگریاں اپنے اختیارات اور رشوت کے عوض کھٹاکھٹ بنوائیں اور جمع کروادیں۔ لیکن تحقیقات کے بعد دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی صاف نظر آنے لگا۔ لیکن اس واقعے نے کسی کو شرمندہ ہرگز نہ کیا، بلکہ ببانگ دہل اپنے ہی موقف پر ڈٹے رہے اور پھر آصف علی زرداری کے صدر بننے کے بعد سب تکلفات بالائے طاق رکھ دیے اور مکمل طور پر نمبر 2 کام کرنے کی آزادی حاصل ہوگئی، سیٹوں پر ایسے ایسے لوگ براجمان ہوئے کہ جنھیں اسلامی بنیادی باتوں اور معاشرتی علوم کا کچھ پتا نہ تھا۔ ٹی وی چینلز پر بحیثیت مہمان بلائے جاتے اور جب میزبان کے سوال کا جواب نہ دے پاتے تو بڑے تو بڑے، بچے بھی لطف اندوز ہوتے اور اپنا سر پیٹ لیتے کہ گنتی اور کلمے تو انھیں بھی یاد ہیں۔
اب سوچیے ذرا کہ ایسے لوگ ملک و قوم کی خدمت کرنے کے اہل ہوسکتے ہیں، یہ کم علم اور ان پڑھ لوگ کس طرح ملک چلا سکتے ہیں، کوئی رکشہ ڈرائیور، تو کوئی معمولی سا ملازم۔ چلیں یہ بھی مان لیتے ہیں معمولی ملازمتیں کرنا یا محنت مزدوری کرنا کوئی حرج نہیں لیکن اس کے ساتھ بنیادی تعلیم کا حصول تو لازمی ہے، مساجد و مدارس اور قرآن کریم سے حاصل کردہ علمیت و لیاقت تمام علوم پر بھاری ہوتی ہے کہ پہلے اچھا انسان ہونا ضروری ہے اور اچھا انسان بننے کے لیے تعلیم ہونا ضروری ہے، تعلیم یافتہ اور ڈگری یافتہ ہونا، دونوں باتوں میں بہت فرق ہے۔
نتائج سامنے ہیں، جس قدر پیپلز پارٹی کی حکومت میں انسانیت کو مسخ کیا گیا، لوگوں کے حقوق کو پامال اور خودنمائی کے لیے گاڑیوں کی ریل پیل رہی، یہ بات بھلا کون بھولا ہوگا کہ سابق وزیراعلیٰ قائم علی شاہ اور پی پی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری سیکڑوں گاڑیوں اور سیکیورٹی گارڈز کی سنگت میں اس طرح اپنی سلطنت دولت اور شان و شوکت کی نمائش کرتے تھے جس طرح ہلاکو اور چنگیز خان دھول اڑاتے اور انسانوں کو گھوڑوں کی سموں کے نیچے کچلتے نکلتے تھے، یہاں بھی ایسا ہی حال تھا، بے قصور لوگ ٹریفک جام میں پھنس جایا کرتے، اور جاں بلب مریض ایمبولینسوں میں دم توڑ دیا کرتے تھے، لیکن انھیں رحم نہ آتا تھا کہ اپنے لیے ہیلی کاپٹر کا انتخاب کرلیں اور زمینی راستوں کو چھوڑ دیں تاکہ ٹریفک جام کے مسائل درپیش نہ ہوں۔
تعلیمی اداروں کی زبوں حالی بھی اسی دور کی نشانی ہے۔ اسکول اور دوسری تعلیمی درسگاہیں اصطبل میں بدل دی گئیں، گھوسٹ اساتذہ کی پیداوار شروع ہوگئی، گھر بیٹھے تنخواہیں وصول کی جانے لگیں، افسران و ملازمین کی ملی بھگت سے ہزار، دو ہزار رشوت کھلادی اور باقی تنخواہ مفت میں ہاتھ آئی۔ آج تعلیم کا جو برا حال ہے اور ہر طرح کی بدعنوانی، رشوت خوری عروج پر ہے (غیر قانونی طور پر ملازمین کو بھرتی کیا جا رہا ہے) پی ایچ ڈی کی ڈگریاں بھی جعلی وصول کی جانے لگیں کہ ''سرقے'' کی لعنت نے اچھے اچھوں کو بھی بدنام کر دیا۔ ظاہر ہے ہر ادارے میں اچھے برے لوگ ہوتے ہیں۔
ٹرانسپورٹ بھی شاہراہوں سے غائب ہوگئی، بے شمار میٹرو اور گرین بسوں کے پرزے اڑا کر انھیں ناکارہ کردیا گیا۔ یہ دکھ عوام کو آج تک اٹھانا پڑ رہا ہے۔ بے چاری ملازمت پیشہ خواتین رات گئے تک بسوں کے انتظار میں کھڑی نظر آتی ہیں۔ سابقہ وزیر اعلیٰ نے بارہا یقین دہانی کرائی، لیکن وہ اپنی بات پر اپنی زبان پر قائم نہ رہ سکے، کیسے قائم رہتے زبان پھسلتی جو تھی، کچھ کہنا چاہتے اور کچھ منہ سے نکلتا، جیسے پچھلے مہینوں میں جب امجد صابری شہید ہوئے تو ان کے منہ سے جنید جمشید نکل گیا، کہ بہت افسوس ہوا جنید جمشید کا۔ لوگوں نے یاد دلایا کہ سائیں جنید جمشید نہیں، امجد صابری۔ تب انھوں نے درست نام لیا۔ ان کے منہ سے نکلی ہوئی بات تقریباً 6 ماہ بعد پوری ہوگئی، اور آج جنید جمشید کو شہادت کا درجہ نصیب ہوچکا ہے۔
مسلم لیگ ن کی حکومت نے بھی لوگوں کو مزید مایوس کیا ہے، اور ہر شخص پریشان و غمزدہ ہے۔ مہنگائی بڑھتی چلی گئی اور سکون و اطمینان گھٹتا گیا، ٹیکسوں کی بھرمار علیحدہ، گویا لوگوں کو جیتے جی مار دیا ہے اور اب قدرت کی طرف سے پانامہ لیکس کے عذاب میں گھر چکے ہیں، بہرحال سابقہ اور موجودہ حکومتوں کے مزے چکھنے کے بعد یہ بات دل کو لگتی ہے جس کا ذکر میں نے گزرے دنوں کے کالموں میں کیا تھا کہ نااہل لوگوں کا چناؤ نااہل لوگ ہی کرتے ہیں۔ لہٰذا اب حالات کا تقاضا یہ ہے کہ ووٹرز کے انتخاب کی ضرورت درپیش ہوگئی ہے، آج کی خبر کے مطابق کہ وفاق نے سپریم کورٹ میں تحریری جواب دے دیا ہے کہ مردم شماری آئندہ سال مارچ 15 سے مئی 15 تک مکمل ہوجائے گی۔
چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ اگر مقررہ مدت تک کے اندر مردم شماری نہ ہوئی تو دستخط کنندہ افسر اور حکومت کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی ہوگی۔ اگر چیف جسٹس مردم شماری کے بعد ایک اور مردم شماری کرنے کا قانون بنالیں تو یہ ملک ویسا ہی بن سکتا ہے جس کی تعبیر علامہ اقبال اور قائداعظم نے دیکھی تھی اور جس کی بنیاد لاالہ الا اللہ پر رکھی گئی تھی۔ وہ یہ کہ ان لوگوں کو ووٹ ڈالنے کے حق سے محروم کردیا جائے جو محض ایک بریانی کی پلیٹ یا نقد پچاس اور سو روپے کی خاطر بسوں میں ٹھنس کر پولنگ اسٹیشن پہنچتے ہیں، ان کے ووٹوں سے وہی لوگ جنھوں نے اس ملک کو برباد کیا ہے کئی کئی بار آکر حکومت کرتے ہیں، خوب ناانصافیاں، قتل و غارت، بدعنوانی، اغوا، بھتہ خوری کو بڑھاوا دیتے ہیں۔
ووٹ ڈالنا ان کا حق ہے جو باشعور اور زمانہ شناس ہوں، اچھا برا جانتے ہوں وہ اس بات سے بھی واقف ہوں کہ یہ ملک اسلام کے نام پر بنا ہے۔ 1973 کا قانون گواہ ہے، تو اس پر غیر مسلم حکمران کیسے حکومت کرسکتا ہے؟ اور وہ یہ بھی جانتے ہوں کہ اسلام تلوار سے نہیں بلکہ انسانیت کے تقاضوں کو پورا کرنے سے پھیلا ہے۔ اگر کوئی مسلمان ہوتا ہے تو اپنی مرضی سے مذاہب عالم کے تقابلی جائزے سے یا اس کی خوبیاں دیکھ کر، سمجھ کر۔ اسلام میں زبردستی نہیں ہے۔ اگر کوئی زبردستی مسلمان بنائے اور اس کا ثبوت مل جائے تو بے شک اس کے لیے سزا مقرر کی جاسکتی ہے، نہ کہ پابندی لگادی جائے کہ اتنی عمر میں اور اتنی مدت میں اسلام قبول کیا جاسکتا ہے اور قبول اسلام کے لیے ایک محدود عرصہ مقرر کردیا جائے۔ سمجھ میں نہیں آتا یہ کیسے مسلمان ہیں؟ اور کیا یہ لوگ حکومت کرنے کے حقدار ہیں؟ یہ سوال دعوت فکر کے لیے کافی ہے۔
کس منہ اور کس کارنامے کے حوالے سے ووٹ مانگنے کی راہ کو آسان کیا جا رہا ہے؟
اب سوچیے ذرا کہ ایسے لوگ ملک و قوم کی خدمت کرنے کے اہل ہوسکتے ہیں، یہ کم علم اور ان پڑھ لوگ کس طرح ملک چلا سکتے ہیں، کوئی رکشہ ڈرائیور، تو کوئی معمولی سا ملازم۔ چلیں یہ بھی مان لیتے ہیں معمولی ملازمتیں کرنا یا محنت مزدوری کرنا کوئی حرج نہیں لیکن اس کے ساتھ بنیادی تعلیم کا حصول تو لازمی ہے، مساجد و مدارس اور قرآن کریم سے حاصل کردہ علمیت و لیاقت تمام علوم پر بھاری ہوتی ہے کہ پہلے اچھا انسان ہونا ضروری ہے اور اچھا انسان بننے کے لیے تعلیم ہونا ضروری ہے، تعلیم یافتہ اور ڈگری یافتہ ہونا، دونوں باتوں میں بہت فرق ہے۔
نتائج سامنے ہیں، جس قدر پیپلز پارٹی کی حکومت میں انسانیت کو مسخ کیا گیا، لوگوں کے حقوق کو پامال اور خودنمائی کے لیے گاڑیوں کی ریل پیل رہی، یہ بات بھلا کون بھولا ہوگا کہ سابق وزیراعلیٰ قائم علی شاہ اور پی پی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری سیکڑوں گاڑیوں اور سیکیورٹی گارڈز کی سنگت میں اس طرح اپنی سلطنت دولت اور شان و شوکت کی نمائش کرتے تھے جس طرح ہلاکو اور چنگیز خان دھول اڑاتے اور انسانوں کو گھوڑوں کی سموں کے نیچے کچلتے نکلتے تھے، یہاں بھی ایسا ہی حال تھا، بے قصور لوگ ٹریفک جام میں پھنس جایا کرتے، اور جاں بلب مریض ایمبولینسوں میں دم توڑ دیا کرتے تھے، لیکن انھیں رحم نہ آتا تھا کہ اپنے لیے ہیلی کاپٹر کا انتخاب کرلیں اور زمینی راستوں کو چھوڑ دیں تاکہ ٹریفک جام کے مسائل درپیش نہ ہوں۔
تعلیمی اداروں کی زبوں حالی بھی اسی دور کی نشانی ہے۔ اسکول اور دوسری تعلیمی درسگاہیں اصطبل میں بدل دی گئیں، گھوسٹ اساتذہ کی پیداوار شروع ہوگئی، گھر بیٹھے تنخواہیں وصول کی جانے لگیں، افسران و ملازمین کی ملی بھگت سے ہزار، دو ہزار رشوت کھلادی اور باقی تنخواہ مفت میں ہاتھ آئی۔ آج تعلیم کا جو برا حال ہے اور ہر طرح کی بدعنوانی، رشوت خوری عروج پر ہے (غیر قانونی طور پر ملازمین کو بھرتی کیا جا رہا ہے) پی ایچ ڈی کی ڈگریاں بھی جعلی وصول کی جانے لگیں کہ ''سرقے'' کی لعنت نے اچھے اچھوں کو بھی بدنام کر دیا۔ ظاہر ہے ہر ادارے میں اچھے برے لوگ ہوتے ہیں۔
ٹرانسپورٹ بھی شاہراہوں سے غائب ہوگئی، بے شمار میٹرو اور گرین بسوں کے پرزے اڑا کر انھیں ناکارہ کردیا گیا۔ یہ دکھ عوام کو آج تک اٹھانا پڑ رہا ہے۔ بے چاری ملازمت پیشہ خواتین رات گئے تک بسوں کے انتظار میں کھڑی نظر آتی ہیں۔ سابقہ وزیر اعلیٰ نے بارہا یقین دہانی کرائی، لیکن وہ اپنی بات پر اپنی زبان پر قائم نہ رہ سکے، کیسے قائم رہتے زبان پھسلتی جو تھی، کچھ کہنا چاہتے اور کچھ منہ سے نکلتا، جیسے پچھلے مہینوں میں جب امجد صابری شہید ہوئے تو ان کے منہ سے جنید جمشید نکل گیا، کہ بہت افسوس ہوا جنید جمشید کا۔ لوگوں نے یاد دلایا کہ سائیں جنید جمشید نہیں، امجد صابری۔ تب انھوں نے درست نام لیا۔ ان کے منہ سے نکلی ہوئی بات تقریباً 6 ماہ بعد پوری ہوگئی، اور آج جنید جمشید کو شہادت کا درجہ نصیب ہوچکا ہے۔
مسلم لیگ ن کی حکومت نے بھی لوگوں کو مزید مایوس کیا ہے، اور ہر شخص پریشان و غمزدہ ہے۔ مہنگائی بڑھتی چلی گئی اور سکون و اطمینان گھٹتا گیا، ٹیکسوں کی بھرمار علیحدہ، گویا لوگوں کو جیتے جی مار دیا ہے اور اب قدرت کی طرف سے پانامہ لیکس کے عذاب میں گھر چکے ہیں، بہرحال سابقہ اور موجودہ حکومتوں کے مزے چکھنے کے بعد یہ بات دل کو لگتی ہے جس کا ذکر میں نے گزرے دنوں کے کالموں میں کیا تھا کہ نااہل لوگوں کا چناؤ نااہل لوگ ہی کرتے ہیں۔ لہٰذا اب حالات کا تقاضا یہ ہے کہ ووٹرز کے انتخاب کی ضرورت درپیش ہوگئی ہے، آج کی خبر کے مطابق کہ وفاق نے سپریم کورٹ میں تحریری جواب دے دیا ہے کہ مردم شماری آئندہ سال مارچ 15 سے مئی 15 تک مکمل ہوجائے گی۔
چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ اگر مقررہ مدت تک کے اندر مردم شماری نہ ہوئی تو دستخط کنندہ افسر اور حکومت کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی ہوگی۔ اگر چیف جسٹس مردم شماری کے بعد ایک اور مردم شماری کرنے کا قانون بنالیں تو یہ ملک ویسا ہی بن سکتا ہے جس کی تعبیر علامہ اقبال اور قائداعظم نے دیکھی تھی اور جس کی بنیاد لاالہ الا اللہ پر رکھی گئی تھی۔ وہ یہ کہ ان لوگوں کو ووٹ ڈالنے کے حق سے محروم کردیا جائے جو محض ایک بریانی کی پلیٹ یا نقد پچاس اور سو روپے کی خاطر بسوں میں ٹھنس کر پولنگ اسٹیشن پہنچتے ہیں، ان کے ووٹوں سے وہی لوگ جنھوں نے اس ملک کو برباد کیا ہے کئی کئی بار آکر حکومت کرتے ہیں، خوب ناانصافیاں، قتل و غارت، بدعنوانی، اغوا، بھتہ خوری کو بڑھاوا دیتے ہیں۔
ووٹ ڈالنا ان کا حق ہے جو باشعور اور زمانہ شناس ہوں، اچھا برا جانتے ہوں وہ اس بات سے بھی واقف ہوں کہ یہ ملک اسلام کے نام پر بنا ہے۔ 1973 کا قانون گواہ ہے، تو اس پر غیر مسلم حکمران کیسے حکومت کرسکتا ہے؟ اور وہ یہ بھی جانتے ہوں کہ اسلام تلوار سے نہیں بلکہ انسانیت کے تقاضوں کو پورا کرنے سے پھیلا ہے۔ اگر کوئی مسلمان ہوتا ہے تو اپنی مرضی سے مذاہب عالم کے تقابلی جائزے سے یا اس کی خوبیاں دیکھ کر، سمجھ کر۔ اسلام میں زبردستی نہیں ہے۔ اگر کوئی زبردستی مسلمان بنائے اور اس کا ثبوت مل جائے تو بے شک اس کے لیے سزا مقرر کی جاسکتی ہے، نہ کہ پابندی لگادی جائے کہ اتنی عمر میں اور اتنی مدت میں اسلام قبول کیا جاسکتا ہے اور قبول اسلام کے لیے ایک محدود عرصہ مقرر کردیا جائے۔ سمجھ میں نہیں آتا یہ کیسے مسلمان ہیں؟ اور کیا یہ لوگ حکومت کرنے کے حقدار ہیں؟ یہ سوال دعوت فکر کے لیے کافی ہے۔
کس منہ اور کس کارنامے کے حوالے سے ووٹ مانگنے کی راہ کو آسان کیا جا رہا ہے؟