نظریہ تاریخ اور تباہی کے اسباب
آج کے جدید محقق حضرات تمام جانداروں کی عادات واطو ارکوموجودہ انسان میں ڈھونڈنے کی کوشش کررہے ہیں
مذہبی ومادی نظریات: حضرت انسان کی تاریخ ایک طرف مادی بنیادوں پر قیاسی حادثات کے نتیجے میں جرثومے کے ارتقاء کی انتہائی شکل اختیارکرلینے کے بعد سے شروع ہوتی ہے۔ اسی طبقے کے مفکرین کے مطابق کائنات کی تخلیق بھی قیاسی حادثات کا نتیجہ ہے، جب کہ دوسری طرف تاریخ کا مذہبی نکتہ نظرانسان اورکائنات کی بافضیلت وبامقصد تخلیق کا اقراری ہے۔
تاریخ کے ان دونوں نظریات میں اساسی سطح کے لامتناہی اختلافات ہونے کے باوجود ان میں بعض باتیں مشترک بھی ہیں جن میں انسانی بقاء کی جنگ لڑنے کا نکتہ قابل ذکر ہے۔ان دونوں نظریات کے مابین تحقیقات کے انداز میں واضح طور پر اساسی سطح کی تفریق کا ہونا ہی دراصل ان کے بنیادی اختلافات کا سبب بناہوا ہے، جب کہ مرتب شدہ تاریخ گواہ ہے کہ مذہبی ومادی بنیادوں پرایک دوسرے سے متصادم تناظر میں ہونے والی تحقیقات کا مقصد ومنتہاء انسان کی بقائے حیات کو حاصل کرناہی قرار پایا جا چکا ہے، چونکہ مادی بنیادوں پر مرتب ہونے والے نظریات مافوق الطبع سوچ سے پرے نوخیز اورجدیدمادی تحقیقات کی روشنی میں اپنی پرانی روش کی نئی ارتقاء کی جانب پلے بڑھے ہیں۔ اس لیے ان کے نزدیک Construction And Distruction Of D.N.Aکا درمیانی ٹائیم پیریڈ ہی دعوت حیات ہے۔
ان کے نزدیک دعوت حیات کایہی عرصہ امن وسکون سے دوسری پیڑھی کو منتقل کیے جانے کا نام ہی دراصل حیات جاوداںومقصودحیات ہے، جب کہ مذہبی نظریات انسان وکائنات کو مادی سانچوں میں ڈھال کر مادہ کو مافوق المادہ تخیل کے سامنے جوابدہ قراردیے جانے سے بحث کرتاہے اور وہ اسی جوابدہی کو زندگی کا مقصود ومنتہاء سمجھتے ہیں۔
گوریلے کی نسل: اگر بغور نظر دیکھا جائے تو مادی تحقیقات اورسائنسی قیاسی ومفروضی حادثات کی بنیاد پر مرتب ہونے والی انسانی تاریخ کی ابتداء ڈائنوسارس کے تباہ ہونے کے بعد کے دورانیے کی معلوم ہو تی دکھائی دیتی ہے۔ جس میں انسان نے اپنی ارتقاء کا ابتدائی دور شروع کرتے ہوئے شکار، زراعت اور تمدن کو اپنایا۔ اپنے اس ابتدائی ارتقائی مرحلے میں انسان نے حیوانوں پر اپنا تصرف وتسلط حاصل کرنے کی خاطر ان سے مشابہ عادات واطوار اپنانے شروع کیے۔ جسے بعد میں تحقیق کی روشنی میں جینیٹک بدلاؤ اورانداز میں یکسانیت کے اظہارکی بنیاد پر انسان کوگوریلے اور بندروں کی نسل کے ارتقاء کا نام دیا گیا۔ چونکہ دنیا پر رائج موجودہ ترقی یافتہ تحقیق وتہذیب کا سرخیل مغربی یورپ ہے اس لیے انسانی تاریخ کی جدید ترین مادی تحقیقات کے آغاز اور عروج کا سہرا پہن لینے کو ہی یورپ کی نشاۃ ثانیہ قرار دیا جاتا رہا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ قیاسی ومفروضی حادثات کے نتیجے میں وقوع پذیرہونے والے''انسان وکائنات کی تخلیق کے مقبول ترین تاریخی وارتقائی نظریے'' کا آغاز بھی ان ہی صدیوں میں وہیں سے فروغ پذیر ہوا ہے جہاں ڈائنوسارس کی پہلی بڑی ہڈی (Famur)دریافت کی گئی تھی۔یہ ہڈی1676ء کے انگلینڈ میں دریافت کی گئی تھی۔جس کی مکمل تصویرکشی اورسائنسی تفصیلات کی R.Brookes پبلیکشنزنے 1763ء میں باضابطہ اشاعت کی تھی۔
1842ء میں William Buckland نے اسی پہلے دریافت شدہ ڈائنوسارس کو Speciesمیں Magalosaurusکا سائنسی نام دیا تھا۔جب کہ دنیا کے 35 مختلف ممالک میں سے دریافت ہونے والے ڈائنوسارسزکی ہڈیوں پرکی گئی موجودہ تحقیقات کی روشنی میں محققین کی جانب سے ان چرند ،پرند، درند اور پانی میں رہنے والے ڈائنوسارس کو دس اہم اوران کے بنیادی ارتقائی مراحل میں تقسیم کیا گیا ہے۔جس کے لاکھوں صدیوں پہلے کے ہرایک مر حلے پر ہزاروں ڈائنو سارس کی جانب سے خود کو سائنسی بنیادوں پر ماحول سے مطابقت وموافقت کے ذریعے یعنی Survival Of The Fittest کے تحت اپنی بقاء کی جنگ میں فاتح بنتے ہوئے نئی شکل لیتے رہنے کے عمل کوبیان کیا جاتا رہا ہے۔
ان کے مطابق موجودہ تمام جاندار ان ہی ڈائنوسارس کی ترقی یافتہ شکلیں ہیں، مزیداربات کہ ان ترقی یافتہ Speciesمیں انسان کی موجودہ شکل کو بھی شمار کیا جانے لگا ہے۔ مقابلے کا دم خم:آج کے جدید محقق حضرات تمام جانداروں کی عادات واطو ارکوموجودہ انسان میں ڈھونڈنے کی کوشش کررہے ہیں۔ چونکہ یورپ کی نشاط ثانیہ میں محققین نے پرمغزتحقیقات کے دؤران زمین اورانسانی جسم کی گہرائیوں، چرند ،پرندوحیوانات کے شب روز کے معمولات واندازِ حیات کے انتہائی نزدیکی سے کیے گئے، مشاہدات کی عرق ریزیوں اوراپنی جگرسوزیوں کے بعد ان نظریات کو تخلیق کیا ہے اوران تحقیقاتی نظریات کی ترویج واشاعت میںاپنی تمام ترتوانائیوں سمیت کثیر سرمایہ بھی لگایا ہوا ہے۔ اس لیے تاریخ کے موجودہ مرحلے میں کسی انسانی گروہ میں اتنا معاشی دم خم نہیں کہ وہ ان کے مدمقابل اپنے نظریات کی اشاعت ،ترویج واطلاق کے ذریعے ان نظریات کو رد کرنے کی ہمت کرسکے۔
حالانکہ انگریزی کے اس لفظ Fossilکی تفسیرمیںGold کو شامل نہیں کیا جاتا جوکہ دراصل اس نظریے کی ترویج واشاعت میںایندھن کا کام کر رہا ہے۔تمدنی تسلسل : تمدنی لحاظ سے موئن جودڑوکی مکمل تباہی وبربادی اوربابلی، نینوائی، مصری،فلسطینی، آشوری، رومی و یونانی قدیم تہاذیب کی جزوی تباہی کے بعد ان کی جانب سے نئی ارتقائی شکل یعنی مذہبی بنیادوں پراندازحیات اورانتظام معاشرت کے نظریوں میں تبدیلی اختیارکر لینا ان کی چھوٹی مگر بہترین مثالوں میں سے ایک ہے، جب کہ انسان سمیت تمام جانداروں کی ایک پیڑھی سے دوسری پیڑھی تک کی صحت مند اورطاقتور منتقلی کے تسلسل کو برقرار رکھنے کے لیے جبلی طور پر جنسی طریقہ آزمایا جاتا رہاہے۔کیونکہ تاریخ کی قدیم ترین وتباہ شدہ تہذیبوں کے Fossil یعنی کھنڈرات نماء محلوں، عبادت گاہوںوخوبصورت عمارتوں پرنقش کیے گئے فحاشی پر مبنی خیالات اس بات کا ثبوت فراہم کرتے ہیں کہ ان تباہ شدہ تہاذیب کی تمدنی زندگی میں فکری ومعاشی فراوانی کا دور دورہ تھا۔
جس کی بنیاد پر وہ انسان جنسی جذبوں کی تسکین کے معاملے میں بے راہ روی میں بے حیائی کی حد تک وسیع النظردکھائی دیتے ہیں، جب کہ دوسری طرف اہرام مصر، دیوارِ چین، ہینگنگ گارڈن کی بنیادیں رکھنے والے انسان Survival Of The Fittist کے تحت اتنے طاقتور تھے کہ انھوں نے جبرواستبداد کی بنیادوں پر دیگر انسانوں کو غلام بناکر اپنی خوشحالی و بقاء کو دوام بخشنے میں مگن نظر آتے ہیں، مصرمیں فرعونیت کا تسلسل،700قبل مسیح میں دیوارچین کی بنیادیں رکھنے والے''کی شے'' خاندان کی چنگیز خان کے دؤرتک چلنے والی حکومتیںاور بابل میں بخت نصری اندازحکمرانی اس کی واضح اورثابت شدہ ثبوت ہیں۔ عین ممکن ہے کہ موئن جودڑو (مرجانیوالو ں کا ٹیلہ)کی تہذیب کی بنیادیں بھی اسی قسم کے جبرواستبداد پر مبنی ہو۔
تباہی کے اسباب : تاریخ ہمیں یہ بھی بتاتی ہے کہ جو وجوہات واسباب (ممکنہ لامحدودزلزلے اور سونامیز) پہلے کے تباہ شدہ جان دار اور تمدنی لحاظ سے انسانی گروہو ںکی تہذیبوں کے ایک تسلسل کے خاتمے کی بنیاد بنے تھے وہ وجوہات واسباب اپنی جدید شکل میںکرہ ارض پر آج بھی کیوںکرموجود ہیں۔ جنھیں اگر تاریخ کا جبرواستبداد کہاجائے تو اس میں کوئی مضائقہ نہ ہوگا۔آج توبڑھتی ہوئی ماحولیاتی آلودگی کو پہاڑوں اور سمندروں کے توازن بگاڑنے کا جواز قرار دیکر زلزلے اور سونامیزکی بنیادقرار دیاجانے لگاہے ۔لیکن یہ پہلے کے جو ''ختم شدہ''جان دار اورتمدنی تہذیبیں ہیں ان کے وقت میں تو اتنی ماحولیاتی آلودگی کا تصور بھی محال تھا اوراگر آج کے زلزلے اور سونامیزکا سبب مالوحولیاتی آلودگی ہی ہے تو پھرآج کا انسا ن ہی یہ اقرارکیوں نہیں کرتا کہ ان زلزلوں اورسونامیزکا سبب خود اس کے اپنے اعمال وافعال ہی ہیں جسے وہ اپنی ترقی اور زندہ رہنے کی جستجو قراردے رہا ہے؟