دھند
کراچی کے شہریوں کو اب 35 سال بعد کہیں جاکر روز روز کی قتل و غارت گری، بھتہ خوری اور ہڑتال سے نجات حاصل نصیب ہوئی
کراچی کے شہریوں کو اب 35 سال بعد کہیں جاکر روز روز کی قتل و غارت گری، بھتہ خوری اور ہڑتال سے نجات حاصل نصیب ہوئی ہے۔ یہ طویل عرصہ شہریوں نے جس مصیبت اور پریشانی سے ایک مہیب خوف کے سائے میں گزارا ہے اس کا کرب کوئی دوسرا محسوس نہیں کرسکتا۔ اس شہر کے نوجوانوں کو حقوق کی بے مقصد تحریک میں جھونک کر بے دریغ قتل کرا کر کراچی کے قبرستانوں کو بھر دیا گیا۔ دشمن کے اشارے پر شہر کو بد رونق اور کھنڈر بنانے کے لیے جو خون کی ہولی کھیلی گئی اس کی دنیا میں کہیں مثال نہیں ملتی۔ اپنے ہی لوگوں کو اپنوں سے ہی قتل کرانا ایک کھیل بن چکا تھا۔ پھر جن سے ووٹ لیے جاتے ان ہی پر زندگی تنگ کردی جاتی۔
آئے دن کی ہڑتالوں نے کاروبار ٹھپ اور کارخانوںکو تالے لگوادیے تھے۔ محنت مزدوری کرنے والوں، پتھارے داروں اور خوانچہ لگانے والوں کا جو حال ہوا، اس کا اثر یہ ہوا کہ شہر میں منشیات کے عادیوں کی تعداد میں بے تحاشا اضافہ ہوگیا، چوری ڈکیتیاں، اسٹریٹ کرائمز اور کرائے کے قاتلوں کی شہر میں بھرمار ہوگئی۔ غیر اخلاقی کاموں کا چلن بھی زور پکڑگیا، شہر کے بگڑے ہوئے حالات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دوسرے دہشت گرد گروپ بھی اپنی مذموم کارروائیوں میں مصروف ہوگئے اور پھر ماحول ایسا بن گیا کہ حالات پر قابو پانا پولیس کے بس میں نہ رہا۔ چنانچہ رینجرز کو طلب کرنا پڑا۔
اس اندھیرے دور میں ایسے ایسے اندھیر ہوگئے جنھیں کبھی بھی نہیں بھلایا جائے گا۔ اس کی ایک مثال تو بلدیہ میں واقع فیکٹری میں لگائی جانے والی آگ تھی۔ یہ انسانوں کے اتنے بڑے پیمانے پر قتل کی واردات صرف بھتے کے مسئلے پر ہوئی تھی۔ فیکٹری کے مالک سے اتنی بڑی رقم مانگی گئی تھی کہ وہ فیکٹری بیچ کر بھی ادا نہیں کرسکتا تھا۔ پھر وہی ہوا جو شہر میں بھتے کی نادہندگی کی پاداش میں کیا جاتا تھا مگر یہاں تو غضب ہی ہوگیا کہ 250 بے قصور افراد کو زندہ جلاکر ان کے لواحقین کو زندہ درگور کردیا گیا۔ اب بعید کھلتا جارہا ہے کہ بدقسمت فیکٹری کو صرف بھتے کی نادہندگی پر نذر آتش کردیا گیا تھا۔ اس دور میں صرف مخبری کے شبہے میں کتنے ہی لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔
خدا کا شکر ہے کہ 22 اگست کا سورج کراچی اور سندھ والوں پر رحمت بن کر طلوع ہوا، اس دن کے بعد پاکستان مخالف لوگوں کا شہر سے اثر و رسوخ تمام ہوا اور وطن پرستوں کا بول بالا ہوا، پھر ایم کیو ایم پاکستان کا دور شروع ہوا۔ فاروق ستار کی سربراہی میں یہ پارٹی شاندار انداز میں اپنا نظام چلارہی ہے، اب اسے نہ کسی بیرونی آقا کی ضرورت ہے اور نہ ہی بیرونی امداد کی۔ اس پارٹی کے لوگوں کا کہنا ہے کہ انھوں نے حب الوطنی کا جو چراغ روشن کیا ہے اب اسے کوئی نہیں بجھا سکے گا، گو کہ انھیں باہر سے ڈرانے دھمکانے کا سلسلہ جاری ہے۔ باہر بیٹھے لوگ کچھ اندر کے لوگوں کے ذریعے جاسوسی بھی کرانے کی کوشش کررہے ہیں مگر ایسے لوگوں کو جلد ہی پہچان لیا گیا ہے۔ اس کام پر مامور ایک ایم این اے کو پارٹی سے فارغ کردیاگیا ہے۔
ایک نیا انکشاف بھی ہوا ہے کہ شہر میں کئی خفیہ یونٹس کام کررہے ہیں جن کے ذریعے باہر کے لیے بھتہ وصول کیا جارہا ہے۔ اس وقت ایم کیو ایم پاکستان کو کریش کرنے کی کوششیں تو بہت کی جارہی ہیں مگر اب سب کو ہی گزشتہ حالات کا علم ہوچکا ہے، چنانچہ تمام قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ممبران ایم کیو ایم پاکستان کا دم بھر رہے ہیں اور باہر سے ان سے جو استعفیٰ مانگا جارہا ہے اس کا کوئی جواز نہیں ہے، کیوںکہ انھیں مہاجروں نے فتح سے ہمکنار کرایا تھا اور وہی انھیں دوبارہ فتح و کامرانی سے سرفراز کریںگے۔
اس وقت ایم کیو ایم پاکستان کا اصل مسئلہ کراچی کے میئر کو اختیارات دلانا ہے۔ تقریباً پوری دنیا میں بلدیات کا آزاد نظام قائم ہے جہاں ہر میئر کو اپنے شہر کے تمام عوامی بنیادی مسائل سے متعلق امور پر مکمل کنٹرول حاصل ہوتا ہے۔ بنیادی مسائل سے لے کر پولیس کا محکمہ بھی اس کے دائرہ اختیار میں ہوتا ہے اس نظام میں چونکہ ووٹ کے ذریعے ہر شہری کا کنٹری بیوشن ہوتا ہے چنانچہ ان کے منتخب نمائندے ہی بلدیہ کا سارا نظام چلاتے ہیں، منتخب نمائندے ہی میئر اور ڈپٹی میئر کا انتخاب کرتے ہیں۔ چونکہ میئر اور ڈپٹی میئر عوام میں سے ہوتے ہیں چنانچہ وہ عوامی مسائل سے خوب واقف ہوتے ہیں، اس لیے وہ عوام کی تسلی کے مطابق مسائل کو حل کرتے ہیں۔
اس نظام میں صوبائی اور وفاقی حکومتوں کو مداخلت کا اختیار نہیں ہوتا لیکن وہ بلدیاتی امور کے سلسلے میں ہونے والے اخراجات کے لیے باقاعدگی سے فنڈز کا انتظام کرتی ہیں۔ ایسے نظام کی یہ خوبی ہے کہ عوام کو اپنے مسائل کا جلد اور تسلی بخش حل مل جاتا ہے۔ چونکہ اس نظام میں میئر اور ڈپٹی میئر براہ راست عوام کو جواب دہ ہوتے ہیں چنانچہ وہ اپنے فرائض کی ادائیگی میں کسی قسم کی کوتاہی کے مرتکب ہونے سے گریز کرتے ہیں۔ پرویز مشرف کے دور میں بلدیاتی نظام کے ثمرات سے پورا ملک مستفید ہوچکا ہے اس وقت بلدیاتی عہدیداروں کو مکمل اختیارات حاصل تھے اور انھیں باقاعدگی سے فنڈز فراہم کیے جاتے تھے۔ اس دور میں خاص طور پر کراچی میں بے مثال تعمیراتی کام انجام دیے گئے تھے۔
مصطفی کمال جو اس وقت کراچی کے میئر تھے، نے اپنے باکمال تعمیراتی کاموں کے ذریعے زبردست شہرت اور عوامی پذیرائی حاصل کی تھی۔ وہ اپنے ان ہی کارناموں کی وجہ سے اب بھی پورے پاکستان میں عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ اب جب سے انھوں نے پاکستان مخالف لہر سے نجات حاصل کرکے حب الوطنی کا پرچم لہرایا ہے انھیں عوام کی کافی حمایت حاصل ہوگئی ہے۔ ان کے پاک سرزمین پارٹی کا نعرہ ہے کہ وہ کبھی کسی وقت کے فرعون سے سمجھوتہ نہیں کرے گی اور ملک کی بے لوث اور بے مثال خدمت کرکے اسے رنگ چمن بنائے گی۔ فاروق ستار کا بھی اب یہی نعرہ ہے، انھوں نے بھی اپنی پارٹی ایم کیو ایم پاکستان کو ملک اور عوام کی خدمت کے لیے وقف کرنے کا اعلان کیا ہے اور وہ اس سلسلے میں اقدامات بھی کررہے ہیں۔
حکومت کو چاہیے کہ وہ اس پارٹی کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرے اور ان میں مزید اضافہ نہ کرے۔ حکومت کو اس پارٹی کو اس لیے بھی فوقیت دینا چاہیے کیونکہ سارے منتخب ایم این ایز اور ایم پی ایز اس کے ساتھ ہیں۔ اس پارٹی کا کھلا عزم ہے کہ وہ اب کسی جرائم پیشہ شخص کو اپنی صف میں شامل نہیں ہونے دے گی اور اگر کوئی ایسا شخص اس میں چھپا بیٹھا ہے تو اسے اپنی صف سے نکال باہر کردے گی۔ اس پارٹی کے کئی مسائل میں سے ایک بڑا مسئلہ اس کے کارکنان کی گرفتاریوں اور گمشدگی کا ہے۔ ان مسائل کو حل کرنے کے لیے حکومت کو سنجیدہ اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔
جہاں تک میئر کے اختیارات اور فنڈز کا معاملہ ہے چونکہ یہ اب صوبائی حکومت سے متعلق ہے، اسے حکومت کو پہلی فرصت میں حل کرنا چاہیے، اسے کراچی ہی نہیں سندھ کے تمام شہروں پر نظر کرم کرنا چاہیے، ہر شہر میں کچرے کے پہاڑ کھڑے ہوئے ہیں، پانی کی فراہمی اور نکاسی کے مسائل گمبھیر ترین ہوچکے ہیں، انھیں حل نہ کرنے سے سندھ حکومت کی بہت بدنامی ہورہی ہے۔ ایک انٹرویو میں سابق صدر آصف علی زرداری نے بتایاہے کہ کراچی میں کچرا اٹھانے کے لیے ایک چینی کمپنی کو ٹھیکہ دیا جارہا ہے اور کراچی کے پارکوں کی دیکھ بھال بھی اب ایک پرائیویٹ کمپنی کے سپرد کی جارہی ہے۔
بدقسمتی سے کراچی کے میئر سے اس سلسلے میں کوئی مشاورت نہیں کی گئی ہے، اس سے پتا چلتا ہے کہ سندھ حکومت میئر کو مکمل طور پر بے اختیار کرنے کا پلان تیار کرچکی ہے۔ یہ صورت حال عوام کے لیے کسی طرح بھی قابل قبول نہیں ہوگی۔ اس وقت عوام کی دلی خواہش ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان اور پاک سرزمین پارٹیاں باہم شیر و شکر ہوجائیں تاکہ وہ عوام کی خدمت بہتر طور پر انجام دے سکیں۔