انسانی حقوق اور حیوانی حقوق

آپ نے کبھی یہ سوچا کہ ایسے کتنے چہچہاتے پرندوں کو پکڑ پکڑ کے ظالموں نے پنجروں میں بند کر رکھا ہے.

rmvsyndlcate@gmail.com

ایک اردو اخبار میں لاہور کی بائی لائن کے ساتھ ہم نے یہ خبر پڑھی کہ بندروں کا عالمی دن منایا گیا۔ اس چکر میں لاہور میں بندروں کے وارے نیارے ہو گئے۔ خاص طور پر چڑیا گھر میں بندروں کی بہت خاطر تواضع ہوئی۔ رنگ رنگ کے پھل ان کی نذر کیے گئے۔

ہم نے راوی کو معتبر جانا اور خوش ہوئے۔ بات یہ ہے کہ جانوروں کے بارے میں اچھی خبریں کم ہی آتی ہیں۔ ایسی خبریں زیادہ آتی ہیں کہ فلاں فلاں درندہ یا پرندہ شکاریوں کی زد میں ہے اور اس کی نسل کے معدوم ہو جانے کا خطرہ ہے۔ ابھی پچھلے دنوں تھرپارکر سے موروں کے مرنے کی خبریں اس تواتر سے آئیں کہ ہمیں اندیشہ ہوا کہ مور اب اس دیس میں عنقا ہو جائے گا۔

ایسی جانور کُش فضا میں جب کوئی ایسی خبر آتی ہے جو بتاتی ہے کہ ابھی جانوروں کے کچھ ہمدرد لوگ بھی موجود ہیں تو خوشی ہوتی ہے۔ بندروں کے عالمی دن کی خبر پڑھ کر خوشی اس اعتبار سے ہوئی کہ ہم ہر پھر کر انسانی حقوق کے بارے میں سوچتے ہیں۔ اسی حساب سے عالمی دن مناتے ہیں۔ ارے کیا سارے انسانی حقوق آدم زاد کے لیے مخصوص ہیں۔ اس خطۂ ارض پر اور مخلوقات بھی بستی ہیں۔ ان کے بھی تو کچھ حقوق ہوں گے۔ اور یہ بندر۔ ان کے انسانی حقوق کے بارے میں کبھی سوچا ہی نہیں گیا۔ وہ جب تک جنگل میں چین کی بانسری بجاتے ہیں۔ بستیوں میں آ کر مداریوں کے چنگل میں پھنس جاتے ہیں۔

مگر پرندے بندروں سے بڑھ کر مشکل میں ہیں۔ ہمیں یاد آ رہا ہے کہ ایک سہانی صبح باغ جناح لاہور کی سیر کر کے نکل رہے تھے کہ ایک سائیکل سوار نے ہمیں تاڑا۔ قریب آ کر سائیکل سے اترا اور بولا کہ جناب والا آپ کب سے کالم پہ کالم باندھ رہے ہیں۔ کبھی پرندوں کے حق میں بھی آواز اٹھائیے۔''

ہم نے پوچھا ''کیوں پرندوں کو کیا ہوا۔ ابھی ہم لارنس گارڈن میں انھیں دیکھ کر آ رہے ہیں۔ اپنے حال میں مگن تھے اور خوب چہچہا رہے تھے۔''

وہ بولا ''مگر آپ نے کبھی یہ سوچا کہ ایسے کتنے چہچہاتے پرندوں کو پکڑ پکڑ کے ظالموں نے پنجروں میں بند کر رکھا ہے۔ آپ لوگ پاکستان کے شہریوں کے حقوق پر بہت زور دیتے ہیں۔ ارے بھائی' یہ پرندے بھی تو اسی دیس کے باسی ہیں۔ ان کے بھی تو کچھ حقوق ہونے چاہئیں۔''

ہم نے ان سے تعارف چاہا تو سرسری کہا کہ بندے کو لوگ حکیم صاحب کہتے ہیں۔ ساندہ روڈ پر میرا مطب ہے۔''

اتنا تعارف کرا کر وہ چلے گئے۔ تھوڑے دنوں بعد ہمیں ان کا ایک خط موصول ہوا۔ لکھا تھا کہ ''حضور پاکؐ نے کبھی جنگلی جانوروں کا شکار نہیں کیا۔ نہ کبھی کسی پرندے کو پنجرے میں بند کر کے رکھا۔ حدیث پاک یہ ہے کہ بلا ضرورت اور محض بطور تفریح شکار حرام ہے اگر آپ کو میرے کہنے پر اعتبار نہیں ہے تو میں چھپی ہوئی کتاب سے اس ورق کا فوٹو اسٹیٹ بھیج دوں گا جہاں یہ حدیث درج ہے۔''

اس حکیم کے اس درد بھرے خط کو پڑھ کر ہمیں بیساختہ علامہ اقبال کی ایک نظم یاد آ گئی۔ اور تو کوئی ایسا شاعر ہمیں یاد نہیں آ رہا جس نے پنجروں میں بند پرندوں کے حق میں آواز اٹھائی ہو۔ مگر علامہ اقبال نے تو یہ آواز بڑے درد مندانہ انداز میں اٹھائی ہے۔ نظم کیا ہے کسی مقید طوطے کی آپ بیتی ہے؎

آتا ہے یاد مجھ کو گزرا ہوا زمانہ

وہ باغ کی بہاریں وہ سب کا چہچہانا

آئی بہار' کلیاں پھولوں کی ہنس رہی ہیں

میں اس اندھیرے گھر میں قسمت کو رو رہا ہوں

اور آخر میں درد مندانہ اپیل؎

آزاد مجھ کو کر دے او قید کرنے والے


میں بے زباں ہوں قیدی تو چھوڑ کر دعا لے

چلو ہمارے شاعروں میں سے کسی شاعر نے تو پرندوں کے حق میں آواز اٹھائی۔ اور بھلا کون سے شاعر نے حکیم الامت علامہ اقبال نے؎

اور اس پر بھی نہ سمجھے تو تجھ بت کو خدا سمجھے

مگر خط میں آگے جو حکیم صاحب نے لکھا ہے اس سے ہمیں احساس ہوا کہ اس حکیم کو پرندوں سے زیادہ شکاریوں اور چٹوروں کے مفادات عزیز ہیں۔ انھوں نے تجویز یہ پیش کی تھی کہ جس جانور کا گوشت کھانے کا ارادہ ہو سب سے پہلے اس کی نسل بڑھانے کی طرف توجہ دیں۔ پہلے بیس تیس بچے پیدا کرائیں۔ پھر انھیں پکڑیں' شکار کریں اور حلال کر کے کھائیں۔

یہ نسخہ جانوروں کے حق میں نہیں ہے۔ سرا سر گوشت خوروں کے حق میں ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جانوروں کو ضرور حلال کرو اور کھائو لیکن ایسا انتظام کرو کہ ان کی نسل روز افزوں ہوں اور کام یاروں کا بقدرِ لب و دنداں نکلتا رہے۔

مگر اس نسخہ کو پڑھ کر چٹورے بھی ایسے خوش نہیں ہوں گے۔ وہ سوچیں گے کہ عجب حکیم ہے۔ بھنے بٹیر کھانے کو آج جی چاہ رہا ہے۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ پہلے بٹیر اتنے انڈے بچے دے لیں کہ بیس تیس ہو جائیں۔ پھر آپ اطمینان سے ان کی تکا بوٹی کریں اور بھون کر کھائیں۔ بھلا چٹوروں میں اتنا صبر کہاں۔ وہ تو اس کے قائل ہیں کہ نو نقد نہ تیرہ ادھار۔ جتنے تیتر بٹیر اس وقت زد میں ہیں انھیں آج ہی چٹ پٹ بھونو اور کھا جائو۔ کل کی کل دیکھی جائے گی۔ نسل بڑھانے کی فکر خود بٹیر کرتے رہیں۔ ہمیں بٹیریں کھانے سے مطلب ہے۔ ان کی گنتی سے ہمارا کیا سروکار۔

ان حکیم صاحب نے اپنے اسی خط میں اپنے ایک خواب کا بھی ذکر کیا تھا۔ کہتے ہیں کہ ایک پہاڑی بکرا ہمارے خواب میں آیا اور فریاد کی کہ ظالم شکاری کس بیدردی سے ہمارا شکار کرتے ہیں۔ اسی طرح اندھا دھند ہمارا شکار کرتے رہے تو ہماری تو نسل ہی ناپید ہو جائے گی۔ انھیں سمجھائیے کہ ذرا تامل کریں۔ صبر سے کام لیں۔ پھر اس پہاڑی بکرے نے مصالحت کا ایک فارمولا پیش کیا۔ کہا کہ شکاریوں سے کہیں کہ شکار کرنے سے پہلے استخارہ کر لیا کریں۔ اگر استخارہ حق میں آئے تو پھر بیشک وہ بندوق اٹھائیں۔ لیکن اگر استخارہ منع آئے تو ہاتھ روکیں اور بندوق نہ اٹھائیں۔

بس ایسے نسخوں کو سونگھ کر ہم اس جانور پرست سے بدک گئے۔ اب ہمیں وہ سائیکل سوار یاد آ رہا ہے جس نے اسی طرح علی الصبح سائیکل سے اتر کر ہمیں خبر دی کہ ''لاہور والوں سے کہو کہ ابھی دو ہفتے بیچ میں ہیں۔ یہ خیر چاہتے ہیں تو یہ کام روک دو اور توبہ کر لو۔ ورنہ بہت بڑا زلزلہ آیا کھڑا ہے۔''

ہم نے پوچھا ''کونسے کام کی بات کر رہے ہو۔''

بولا ''کتنے طوطوں کو انھوں نے پنجروں میں قید کر رکھا ہے۔''

یہ کہہ کر وہ سائیکل پر بیٹھ کر آگے نکل گیا۔

کوئی ایک ڈیڑھ مہینے بعد ہم نے اسے قریب سے دیکھا۔ اب ہم نے آواز دے کر اسے روکا۔ قریب آیا تو ہم نے اس سے کہا کہ ''تم نے جس زلزلہ کی خبر دی تھی وہ تو نہیں آیا''

بولا ''آپ کو کیا پتہ ہے کہ میں نے کتنے بھرے بنجرے خرید کر طوطوں کو رہائی دلائی ہے۔ تب یہ زلزلہ رکا ہے۔ مگر آپ ذرا سوچیں کہ میں غریب آدمی۔ مشکل سے گزر ہوتی ہے۔ اولاد والا آدمی ہوں۔ میں کتنے پنجرے خرید سکتا ہوں۔ تو آپ کالم لکھیں اور ذرا لاہوریوں کو سمجھائیں کے بندے کے بچے بن جائیں۔ اپنے پنجروں کی کھڑکیاں کھول دیں۔ ورنہ بہت بڑا زلزلہ آئے گا۔''

ہم نے دل میں کہا کہ یہ سچا طوطا پرست ہے۔ اور ٹھیک کہتا ہے۔ پرندوں کو پنجروں میں بند کر کے جو انھیں ستایا جاتا ہے اس میں آخر ان لوگوں کو کیا مزہ آتا ہے۔ ان طوطوں کی فریاد سنو اور سوچو

آزاد مجھ کو کر دے او قید کرنے والے

میں بے زباں ہوں قیدی تو چھوڑ کر دعا لے
Load Next Story