احسن رشید کی وفا

احسن رشید وفا کے ایک امتحان میں سرخرو ہوئے، اب انھیں عوامی مفاد کا امتحان درپیش ہے.

ghalib1947@gmail.com

پروفیسر ڈاکٹر شفیق جالندھری نے حیرت میں مبتلا کر دیا۔ انھوں نے انکشاف کیا کہ عمران خان نے اپنی کتاب، میں اور میرا پاکستان کے دوسرے ہی صفحے پر جس پروفیسر کے گھر خفیہ طور پر رات بسر کرنے کا ذکر کیا ہے، وہ میں ہوں۔ ہال میں ایک سکوت طاری ہو گیا، ہماری گدڑی میں ایسا لعل بھی پنہاں تھا، یہ کسی کے علم میں نہ تھا اور ڈاکٹر صاحب نے بھی ایک عشرے تک اس راز کو سینے میں مخفی رکھا۔ شفیق صاحب اپنے نام کی مناسبت سے نرم مزاج اور پینڈو طبع لگتے ہیں، مگر وہ تو اندر سے تیس مارخاں نکلے۔

عمران نے جس روز پنجاب یونیورسٹی میں خطاب کے لیے جانا تھا، اسے روکنے کے لیے پولیس اور اسلامی جمعیت طلبہ نے علاقے کا گھیرائو کر لیا تھا، وہ ہر صورت میں عمران کا داخلہ روکنا چاہتے تھے مگر عمران بھی کایاں نکلا، وہ ایک رات قبل ہی یونیورسٹی جا پہنچا اور ڈاکٹر شفیق جالندھری نے اپنے دل کے دروازے اس کے لیے کھول دیے۔ یہ باتیں پریس کونسل آف انٹرنیشنل افیئرز کی ہفتہ وار نشست میں ہو رہی تھیں جسے تحریک انصاف کے رہنمائوں کے اعزاز میں ترتیب دیا گیا تھا۔

پنجاب کے صدر احسن رشید، بیگم مہناز رفیع اور عبدالعلیم خان، مگر خاں صاحب شرکت نہ کر سکے، کہیں اور پھنس گئے ہوں گے، مجھے تو کہا تھا کہ وہ دبئی جا رہے ہیں۔ احسن رشید ہمارے لیے ایک نیا چہرہ تھا، بس پریس ریلیزوں کے ذریعے اس کی خبر ملتی تھی، نہ اس سے زیادہ، نہ اس سے کم، انھوں نے شاید بھانپ لیا کہ ہم لوگ ان کے حقیقی کردار سے نا آشنا ہیں چنانچہ کہنے لگے کہ جن چھ آدمیوں نے مل کر تحریک انصاف کی بنیاد رکھی تھی، وہ ان میں سے ایک ہیں، تین واپس امریکا چلے گے ہیں، باقی رہ گئے تین بانی ارکان۔ ایک نئی سیاسی جماعت کھڑی کرنا اور پھر اس کا ساتھ اس حالت میں نبھانا کہ اسے بار بار انتخابی شکست کا سامنا رہا، یہ دل گردے اور بڑے حوصلے کی بات ہے، یہ وفا داری کا امتحان ہے مگر وہ جو خاندانی لوگ ہیں اور اصولوں پر ڈٹ جاتے ہیں، وہ پیچھے ہٹنے کا نام نہیں لیتے۔

احسن رشید تب بھی عمران کے ساتھ کھڑے تھے اور آج بھی اس کا دست و بازو بنے ہوئے ہیں، میں نے ایک ہفتے کے دوران جب بھی انھیں میٹنگ میں شمولیت کی یاد دہانی کے لیے فون کیا تو وہ ہر مرتبہ ملک کے کسی دور دراز شہر یا قصبے میں پائے گئے، میں نہیں سمجھتا کہ وہ نوجوانی کی دہلیز پر ہیں، نہ ابن بطوطہ سے ان کا شجرہ نسب ملتا ہے مگر مقصد کے حصول کی سرمستی، لگن اور دھن نے انھیں اور عمران دونوں کو ایک نئی جوانی اور توانائی سے بہرہ مند کر دیا ہے۔

26 اپریل 1996ء کی کہانی کا کلائمیکس اگلے برس اسی مہینے اور تاریخ کو دیکھنے میں آئے گا۔ سولہ برس بعد اس پارٹی کی قسمت میں کیا لکھا ہے، کیا وہی گھسے پٹے الزامات، نیم عریاں سی ڈیاں، بہنوں اور بیٹیوں کے قصے اچھالے جائیں گے مگر احسن رشید نے کہا کہ ہمارا فیصلہ ہے کہ ہم غلاظت کا جواب غلاظت سے نہیں دیں گے، ہم میڈیا کی بولی اس طرح نہیں لگائیں گے جیسے ہمارے حریفوں نے لگائی ہے اور ضمیر نام کی ہر شے ناپید ہو کر رہ گئی ہے، ہم عوام کی عدالت میں ہیں، ہمیں کوئی قانون کی عدالت میں لے جائے، ہم ہر جگہ فیئر طریقے سے مقابلہ کریں گے۔ ہم منشور کی بنیاد پر الیکشن لڑیں گے، خالی خولی نعرے بازی نہیں کریں گے، قابل عمل حل دیں گے ، ہر کام کی تکمیل کے لیے ایک میعاد مقرر کریں گے اور کام نہ ہونے پر متعلقہ محکمے کی سرزنش کریں گے۔


ہم نے حال ہی میں بہار کے وزیر اعلی نتیش کمار سے ملاقاتیں کی ہیں، ہم نے مہاتیر محمد کو پاکستان میں خطاب کی دعوت دی تھی، یہ دنیا میں کامیابی کے ماڈل ہیں۔ ملائیشیا افیون زدہ لوگوں کی سر زمین تھی، مہاتیر نے اسے فرش سے اٹھا کر عرش کی بلندیوں سے ہمکنار کر دیا، بہار کی ریاست جرائم پیشہ مافیا کا گڑھ تھی، آج یہ امن کا گہوارہ ہے اور یہاں معیشت کی شرح نمو کو دنیا رول ماڈل قرار دے رہی ہے۔ سوال یہ تھا: آپ کا ایجنڈہ کیا ہو گا، اس کا خلاصہ کیا ہے۔ احسن رشید نے کہا کہ پہلے تو ہمیں امریکا کی جنگ سے چھٹکارہ پانا ہے، یہ جنگ ہماری نہیں، ہمارے اوپر تھوپ دی گئی ہے، ہماری رگوں سے لہو نچوڑا جا رہا ہے، یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ پشاور سے دلدوز سانحے کی خبر ملی جس میں سینئر وزیر بشیر بلور کو شہید کر دیا گیا، مجھے وہ بشیر بلور یاد آیا جسے میں نے اسی فائیوا سٹار ہوٹل میں کوئی پچیس برس قبل ناشتے کے دعوت دی تھی، وہ لاہور میں اجنبی تھا مگر ایک گھنٹے کے اندر اندر وہ پکا لاہوریا بن چکا تھا ، اس نے ہر وہ کھانا چکھا جو لاہوریوں کو مرغوب ہے۔

اس سانحے کی خبر نے ماحول پر رقت طاری کر دی۔ احسن رشید کو یہ ثابت کرنے کے لیے ایک اور دلیل مل گئی کہ دہشت گردی کی جنگ ہمارا لہو نچوڑ رہی ہے۔ انھوں نے اپنے لائحہ عمل کی وضاحت کرتے ہوئے دوسرا نکتہ بتایا کہ قانون کی حکمرانی قائم کرنا ہماری ترجیح ہو گی، قانون کی نظر میں سب برابر ہوں گے۔ نتیش کمار نے اسی فلسفے کے ذریعے جرائم مافیا کا قلع قمع کیا ہے، کیونکہ جب بھی کوئی واردات ہوتی تو اس کا کھرا کسی ایسے شخص تک جاتا جو نتیش کمار کا قریبی سپورٹر ہوتا، وہ لاکھ دہائی دیتا کہ میں تو تمہار ا دوست ہوں مگر وزیر اعلی کہتے، دوستی اپنی جگہ اور جرم کے خلاف کارروائی اپنی جگہ، کوئی رو رعایت نہیں ہو گی۔ احسن رشید نے کہا کہ ہم نیب کو ایک خود مختار اور آزاد ادارے کی حیثیت دیں گے، وہ کسی کے اثر میں نہیں ہو گا اور آزدانہ کارروائی کر سکے گا، پھر دیکھتے ہیں کہ کس کی مجال ہے جو قانون کے شکنجے سے بچ نکلے۔

ہماری تیسری ترجیح ٹیکس ریکوری پر ہو گی، ہمارے ہاں آٹھ ہزار ارب ٹیکس اکٹھا کیا جا سکتا ہے مگر اس وقت صرف دو ہزار ارب کیا جا رہا ہے۔ ہم اقتدار میں آئے تو زرعی ایمرجنسی نافذ کریں گے، بھارت کا کسان ایک ایکڑ سے اسی من گندم لے رہا ہے، ہم تیس پینتیس من پر رکے ہوئے ہیں، ہم چھوٹے کسان پر توجہ مرکوز کریں گے، اس کی امدد کریں گے، وہ خوشحال ہو گا تو پاکستان بھی خوش حال ہو گا۔ تعلیم کے شعبے میں ہم انقلابی تبدیلی لائیں گے، بھانت بھانت کے اسکول اور نصابی نظام ختم کریں گے، جو کتاب امیر کا بچہ پڑھے گا، وہی غریب کا بچہ پڑھے گا، یہ ہے یکساں نظام تعلیم۔ امریکا میں اشرافیہ کے بچے جتنے مرضی مہنگے اسکول میں داخلہ لے لیں، نصاب ان کا بھی وہی ہے جو کسی عام دور دراز دیہاتی اسکول کا ہے۔

اس وقت ہمارے ہاں تعلیم کے شعبے پر خرچ شرمناک حد تک کم ہے، صرف 1.8فی صد، ہم اسے بڑھا کر 8 فی صد تک لے جائیں گے، بھارت ہمارے پڑوس میں ہے، وہاں اے لیول، او لیول والے اسکول اور نصاب تعلیم نہیں، تو ہم ان سے کیوں چھٹکارہ حاصل نہیں کر سکتے۔ اگلی تر جیح یہ ہو گی کہ پولیس کو سیاست سے پاک کیا جائے، اسے وی آئی پی ڈیوٹی سے فارغ کیا جائے، وڈیروں کے اثرو رسوخ سے باہر نکال جائے تا کہ وہ پیشہ ورانہ ڈیوٹی ادا کر سکے اور معاشرے میں امن واپس آ سکے، امن ہو گا تو بیرون ملک مقیم ستر لاکھ پاکستانی اپنی سرمایہ کاری یہاں لا سکیں گے۔ اس وقت نتیش کمار کے دس وزیر جیلوں میں ہیں، یہ ہے قانون کی حکمرانی، نتیش کمار اپنی کارکردگی کی بنا پر اب اگلے الیکشن میں ملک کا وزیر اعظم بن سکتا ہے۔

اس کا رابطہ ہمہ وقت عوام سے ہے، اس کی ماں مری تو ایک روز کے سوگ کے بعد اگلے دن وہ پھر عوام کے درمیان تھا جو اس کو پل پل کی خبریں دیتے ہیں، ہر محکمے کے اندر کی باتیں بتاتے ہیں، اس سے شفافیت آتی ہے، مگر یہاں لاہور میں بس سروس کے لیے ستر ارب کا منصوبہ چل رہا ہے، اس کا کام کسے سونپا گیا ہے، کوئی نہیں جانتا، ہمارے ہاں ٹرانسپرنسی کا فقدان ہے لیکن ہم کوئی کام ایسا نہیں کریں گے جس کے ہر پہلو سے عوام با خبر نہیں ہوں گے، چوری چکاری کا زمانہ لد گیا، اب عوام با شعور ہیں۔

میڈیا نے انھیں ان کے حقوق سے آگاہ کیا ہے، اب اس معاشرے کو ایک امتحان در پیش ہے، یہ امتحان اکیلے عمران خاں کا نہیں، میڈیا اور عوام کا بھی ہے کہ وہ اگلے الیکشن میں کیا فیصلہ کرتے ہیں، کسے منڈیٹ دیتے ہیں، ایک طرف بے انتہا پیسہ ہو گا اور دوسری طرف جوش و جذبہ اور جنوں۔ اس امتحان میں ہم سب کو سرخرو ہونا ہے، احسن رشید وفا کے ایک امتحان میں سرخرو ہوئے، اب انھیں عوامی مفاد کا امتحان درپیش ہے۔ اور لگتا ہے کہ وہ اس کے لیے ہوم ورک مکمل کر چکے ہیں۔
Load Next Story