پاکستان کے تزویراتی مسائل

ضروری ہے کہ افغانستان میں تزویراتی گہرائی تلاش کرنے اور بھارت کے ساتھ دشمنی کی روایتی پالیسی کوخیرآباد کہا جائے۔


Muqtida Mansoor December 23, 2012
[email protected]

ISLAMABAD: معاملہ صرف پولیوکے قطرے پلانے والے رضاکاروں کے سفاکانہ قتل تک محدود نہیں ہے،بلکہ پاکستان ایک ایسی فکری عفریت کی لپیٹ میں آچکا ہے، جو اس ملک کو حقیقی معنی میں پتھروں کے دور میں پہنچاناچاہتی ہے۔یہ سوچ جس کی آبیاری گزشتہ نصف صدی سے پاکستان کے حکمران اور منصوبہ سازکرتے چلے آرہے ہیں، اب خودان کے وجود کے لیے مسئلہ بن چکی ہے۔تضادات پر مبنی داخلی حکمت عملیوں اور نسیم حجازی کے ناولوں سے اخذکردہ سوچ کے دائرے میں بند خارجہ پالیسی نے ملک کو اس حال تک پہنچایاہے۔جس کے نتیجے میں آج ہزاروں کی تعدادمیں معصوم اور بے گناہ افرادکہیںلوگ خود کش حملوںمیںاپنی زندگیاںگنوارہے ہیں۔ کہیںبم دھماکے اورٹارگٹ کلنگ انھیںماررہی ہے۔کہیں قوم کے نونہالوںکو معذوری سے بچانے والوںکے بدن گولیوں سے چھلنی ہورہے ہیں۔آج عام شہری علاقوں سے فوجی تنصیبات تک کچھ بھی محفوظ نہیں ہے۔

مجھے کہنے دیجیے کہ پاکستانی حکمران،سیاسی قیادتیں اور منصوبہ ساز ماضی کے دھندلکوں میں مستقبل کی روشنیاں تلاش کرنے کی فکری نرگسیت میں مبتلا ہیں۔ وہ معاملات ومسائل کی نزاکتوں سمجھنے کے لیے درکارفکری صلاحیت اورامورمملکت چلانے کے لیے درکار قوت ارادی اور استعداد سے عاری ہیں۔یہی سبب ہے کہ آج بدلتے ہوئے عالمی اورعلاقائی منظر نامے کو سمجھنے کی کوشش کرنے کے بجائے افغانستان کو ابن صفی کا تخیلاتی اڈا'' زیرولینڈ'' بنانے کی جستجومیں مگن ہیں،تاکہ اس کے ذریعے راس کماری سے وسط ایشیاء تک حکمرانی کا خواب پوراہوسکے۔ مگر ان بیس برسوں کے دوران دنیا جس تیزی کے ساتھ تبدیل ہوئی ہے اور عالمی اور علاقائی رجحانات میں جس اندازمیں تبدیلیاں رونماء ہوئی ہیں،اس کے نتیجے میں اس خواب کا پورا ہونا تو دور کی بات اپنے وجود کی بقاء ایک بہت بڑا سوالیہ نشان بن چکی ہے۔ پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ ملک پیچیدہ چیلنجز کے بھنورمیںپھنساہوا ہے ،اسے سمجھنے میںصرف حکمران ہی نہیں بلکہ سیاسی قیادتیں اور منصوبہ سازبھی کنفیوژن کا شکارہیں۔ جس کی وجہ سے خارجہ پالیسی پرمناسب نظر ثانی سمیت اندرون ملک واضح حکمت عملیوں کی تیاری میں بیشمار رکاوٹیں حائل ہیں۔

اس وقت صورتحال یہ ہے کہ لبرل اور سیکیولر سیاست کی داعی اور حکومت میں شامل تین جماعتیں یعنی پیپلز پارٹی،عوامی نیشنل پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ ملک میں بڑھتی ہوئی طالبانائزیشن پر تو اپنی تشویش کا اظہار کررہی ہیں، مگر اس مسئلے کے حل کے لیے کوئی واضح حکمت عملی مرتب کرنے کے سلسلے میںان تینوں جماعتوںکاکوئی واضح کردار سامنے نہیں آرہا۔ محسوس یہ ہورہاہے جیسے یہ جماعتیں اس مسئلے کو صرف انتخابی نعرے سے زیادہ اہمیت دینے پر تیار نہیں ہیںاور اسی لیے ٹھوس اقدامات سے ہچکچارہی ہیں۔ دوسری طرف Right to the Centreپاکستان مسلم لیگ(ن) ہے، جواس مسئلے پر مبہم سوچ اورفکری تضاد کا شکار نظر آرہی ہے۔

شاید اس کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ دائیں بازو کا ووٹ حاصل کرنے کی امید میںوہ اس مسئلے پر واضح موقف اختیار کرنے سے گریز کررہی ہے۔ اس معاملے پر سب سے زیادہ کنفیوژن تحریک انصاف پھیلارہی ہے۔اس سلسلے میں دوآرا سامنے آئی ہیں۔ایک یہ کہ عالمی اور خطے کی سیاست پرسطحی اپروچ رکھنے کی وجہ سے تحریک انصاف دہشت گردی اوربڑھتی ہوئی مذہبی جنون پرستی کے اصل اسباب کو سمجھ نہیں پارہی۔دوئم وہ کسی مخصوص اشارے پراس مسئلے کی سنگینی اور حساسیت کوکم کرنے کی خاطر اسے ڈرون حملوں سے نتھی کررہی ہے۔بہرحال پس پشت کہانی کچھ ہی کیوں نہ ہو، تحریک انصاف مذہبی جماعتوں کی طرح اس مسئلے کو الجھانے کا سبب بنی ہوئی ہے۔

اس وقت پاکستان کو جو اہم چیلنجز درپیش ہیں،ان میں سب سے بڑاچیلنج 2014ء سے امریکی فوجوں کے افغانستان سے انخلاء شروع ہونے کے بعد پیدا ہونے والی غیر یقینی صورتحال ہے۔دوسرا چیلنج مسلم دنیا میںشیعہ اور سنی عقائد کے درمیان بڑھتی ہوئی تقطیب(Polarization)کے پاکستان پر پڑنے والے اثرات ہیں۔حالانکہ پاکستان گزشتہ تین دہائیوں سے متشددفرقہ واریت کی لپیٹ میں ہے ، مگراس چیلنج سے نمٹنے کی ابھی تک کوئی واضح حکمت عملی تیار نہیںکی جاسکی ہے۔

تیسرے بھارت اور امریکا تزویراتی اتحاد ہے، جس کے خطے کی سیاسی صورتحال بالخصوص پاکستان پر ممکنہ اثرات کے بارے میںپاکستان کی پالیسی غیر واضح اور مبہم ہے۔محسوس ہورہاہے ،جیسے اقتدار کے مختلف مراکز کے درمیان اس مسئلے پر عدم اتفاق پایا جاتا ہے اور سرد جنگ کا مخصوص Mindset واضح پالیسی سازی کی راہ میں رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ حالانکہ حالیہ دوبرسوں کے دوران بھارت کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے لیے کئی سمتوں میں خاصی پیش رفت ہوئی ہے۔ مگرسیاسی، تزویراتی، تجارتی اور ثقافتی پالیسیوںمیں توازن کا فقدان واضح طورپرنظرآرہا ہے۔

عالمی سطح پر تجزیہ نگار گزشتہ کئی برسوں سے ان خد شات کا اظہار کررہے ہیں کہ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء کے بعد یہ خطہ (بالخصوص پاکستان اور افغانستان) شدید نوعیت کی سیاسی ابتری کا شکار ہوجائیں گے۔ان تجزیہ نگاروں کے خیال میںافغانستان اور عراق کے درمیان تقابل کاکوئی جواز نہیں ہے۔ عراق امریکی افواج کی آمد سے بہت پہلے پورے مشرق وسطیٰ کاسب سے زیادہ ترقی یافتہ ملک تھا،جہاںاربن مڈل کلاس کا اچھاخاصا حجم تھا۔یہی سبب ہے کہ امریکیوں کے انخلاء کے بعد جب منتخب حکومت قائم ہوئی،تو عراق میں اندرونی انتشار کی شرح میں خاصی حد تک کمی واقع ہوئی۔اس کے برعکس افغانستان ایک انتہا پسماندہ قبائلی معاشرہ ہے ،جوابھی تک زرعی معاشرت کے تجربات سے بھی نہیں گذراہے۔

اس لیے وہاںمستقبل قریب میں اربنائزیشن کا تصورممکن نہیں۔ دائود کے دور سے کسی حد تک افغان معاشرے کو اربنائزکرنے کا سلسلہ شروع ہواتھا،جو پہلی افغان جنگ کے دوران ختم ہوگیا۔اس وقت افغانستان میں شمال اور جنوب کی تقسیم واضح ہے۔ جو عملاً پختون اور غیر پختون کی تقسیم ہے۔اس کے علاوہ روایتی جنگی سرداروں (Warlords)کی جگہ ایک مخصوص مسلک کے مذہبی عناصرافغان معاشرے پر حاوی آچکے ہیں۔اس لیے فرقہ وارانہ آویزش کے امکانات کو بھی رد نہیں کیا جاسکتا۔

لہٰذا غیر ملکی فوجوں کے انخلاء کے بعد افغانستان میں مزیدعدم استحکام کے امکانات موجود ہیں۔ مگر اس صورتحال کے سب سے زیادہ بھیانک اثرات پاکستان پر مرتب ہوں گے،جہاں قبائلی علاقوں میں موجود جنگجوعناصر جو گزشتہ دودہائیوں سے پاکستان کے لیے عذاب بنے ہوئے ہیںاور بعض کالعدم تنظیمیں متشدد فرقہ واریت کا سبب بنی ہوئی ہیں۔اس لیے امریکی فوجوں کے انخلاء کے بعدیہ عناصرزیادہ شدت کے ساتھ پاکستانی معاشرت پراثرانداز ہونے کی کوشش کریں گے۔جس کے نتیجے میں پاکستان کے اندر فرقہ وارانہ تشدد سمیت مختلف نوعیت کے تصادم کونظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔

پاکستان کی اس حوالے سے اب تک کوئی واضح پالیسی سامنے نہیںآئی ہے ۔ پاکستان جو مختلف نوعیت کے سماجی تضادات، معاشی عدم استحکام اور سیاسی انتشار میں الجھا ہوا ہے، اس وقت سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ، امریکی فوجوں کے انخلاء کے نتیجے میںمغرب سرحد پر جنم لینے والی نئی صورتحال سے خودکوکس طرح محفوظ رکھا جائے؟ تیس برسوں کے دوران اختیار کی گئی غلط پالیسیوں اور ان پر اصرار کی وجہ سے پاکستان کا سماجی ڈھانچہ(Social Fabric) بری طرح متاثرہوا ہے۔ایک طرف بعض دوست ممالک کی پراکسی لڑائی نے متشدد فرقہ واریت کو بڑھاوادیا ہے،تو دوسری طرف غلط سیاسی فیصلوں کے نتیجے میں لسانی اور صوبائی اختلافات بھی بام عروج تک جاپہنچے ہیں۔

معیشت پہلے ہی زبوں حالی کا شکار ہے اور مسلح افواج سرحدوں کی حفاظت کے ساتھ ساتھ اندرونی محاذ پر دہشت گردی کے خلاف نبرد آزماء ہیں۔اس صورتحال نے پوری ریاست کو زدپذیر (Fargile) بنادیاہے،جو ایک معمولی سے جھٹکے سے کسی بھی وقت بکھر سکتی ہے۔اس صورتحال سے بچنے کے لیے دانشمندی اور دوراندیشی پر مبنی حکمت عملیوں کی ضرورت ہے۔جس میں حکمرانوں ،منصوبہ سازوں اور سیاسی رہنمائوںکوملک کے وسیع تر مفاد میں ایک Wavelengthپر آکر سوچنا ہوگا، جس کے بغیر کسی قابل عمل پالیسی کی تشکیل اور اس پر عمل درآمد ممکن نہیں ہے۔

ہمیں یہ یاد رکھناہوگا کہ پاکستان ایک کثیر القومی، کثیرالعقیدہ اور کثیراللسانی ملک ہے،جسے صرف وفاقی جمہوری نظام کے ذریعے ہی قائم رکھا جاسکتا ہے۔ اب یہ ملک کسی نئے ایڈونچر یا تجربے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ 1973ء کے آئین میں گو کہ کئی واضح سقم ہیں، مگر فی الوقت یہی وفاق کو قائم رکھنے کی واحد زنجیر ہے۔اس لیے پاکستان کے سامنے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ 1973ء کے آئین کو اس کی اصل روح کے مطابق برقرار رکھتے ہوئے اس پر سنجیدگی اور دیانتداری سے عملدرآمد کو یقینی بناکرداخلی محاذ کو پرسکوں بنایا جائے۔اس کے علاوہ معیشت کی بہتری اور خطے میںفعال کردار کی ادائیگی کے لیے ضروری ہے کہ افغانستان میں تزویراتی گہرائی تلاش کرنے اور بھارت کے ساتھ جنگ اور دشمنی کی روایتی پالیسی کوخیرآباد کہا جائے۔تبدیل ہوتی دنیا میں اس کے علاوہ اپنے وجود کو قائم رکھنے اور خوشحالی کی طرف گامزن ہونے کا کوئی اور راستہ نظر نہیں آرہا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں