بونوں کی دنیا…

اگر آپ کامیاب ہونا چاہتے ہیں تو آپ کو اپنے اصولوں کو چھوڑنا ہوگا، سیاستدانوں کے نقش قدم پر چلنا ہوگا۔

سنتے ہیں کہ مایوسی کفر ہے اور نا امیدی گناہ۔ بے شک ایسا ہی ہے لیکن جب لمحے منجمد ہوجائیں،کیلنڈر کے اوراق پلٹنا بھول جائیں، گھڑی کی سوئیاں حرکت چھوڑ دیں تو حالات خودبخود ایک مرکز پرٹھہر جاتے ہیں، یعنی یکساں دن اور یکساں راتیں، تاریخ کے صفحات سیاہ ہوتے جائیں گے، اخبارات کی سیاہی خشک ہوجائے گی، ٹاک شو میں بولنے والے اینکر حضرات سوالات کرتے کرتے تھک جائیں گے، مگر دلائل دینے یا عذر پیش کرنے والے مہمان ہمیشہ بولتے رہیں گے، خواہ مہمل، لغو اور بے معنی ہی کیوں نہ بولیں، وقت کے لٹو کی کیل ٹوٹ جائے گی اور یہ ملک ایسا ہی رہے گا جیسا ہے۔

ادب اور صحافت ہماری فیلڈ سہی مگر یہ بات سب جانتے ہیں کہ یہاں بھی اجارہ داری ہے اور جو جتنا جاہل ہے بلکہ اجہل ہے وہ اتنا ہی پیش پیش ہے، منزل انھیںمل رہی ہے جو شریک سفر نہیں ہیں، ہم آج کل ''لابی'' کا لفظ کثرت اور تواتر سے استعمال کر رہے ہیں مگر یہ لابی ہے کیا بلا؟

دراصل لابی ایک مخصوص گروپ بندی کا نام ہے اور کوئی گروپ اس وقت تک کامیاب نہیں ہوتا جب تک وہ پبلک ریلیشنگ کی فیلڈ کا ماسٹر نہ ہو، ہر تقریب میں شریک ہونا، دعوتیں کرنا، صاحب اختیار لوگوں کے نزدیک ہونا اگر ادیب یا شاعر ہے (سب ہی نہیں) تو شہرت کے لیے شہرت یافتہ اہل قلم کی صحبت میں اٹھنا بیٹھنا اور بعض اوقات اپنے استادوں کو کچھ ہدیہ دے کر تخلیقات اپنے نام سے شایع کروانا، میڈیا کے لوگوں کو تحفے تحائف دینا اور پھر ان سب میں کامیابی کے بعد اسٹیج پر بیٹھنا، ادبی کانفرنسوں اور پاکستان سے باہر جانے والے ادبی و صحافتی وفود میں شامل ہونا اس کا ایک ایسا خواب ہے جس کی تکمیل کے بعد وہ معاشرے میں ایک ''مقبول'' شخصیت کے درجے پر فائز ہوجاتا ہے۔

کتاب کلچر کے خاتمے کے بعد جو کلچر فروغ پا رہا ہے وہ مانگے کا اجالا ہے۔ سچ پوچھیے تو فنکاروں کے نام پر بڑے بڑے فنڈ لیے جاتے ہیں جس کو جتنا اچھا ڈانس آتا ہے وہ اتنا ہی بڑا فنکار ہے جو اچھا گلے باز ہے اس کی ایک رات کی کمائی لاکھوں میں ہوتی ہے، ثقافت کے نام پر جھولیاں، تجوریاں بھر چکی ہیں جب کہ ملک میں ایسے بے شمار تخلیق کار موجود ہیں جن کی کتابیں شایع ہونے سے پہلے دیمک کھا جاتی ہے، جنھیں چھپوانے کی زحمت کوئی ادبی ثقافتی ادارہ نہیں کرتا، ہاں البتہ جن کی پی آر اچھی ہے وہ وقت کے بادشاہ ہیں۔


ایک زمانہ تھا کہ پی ٹی وی کے ڈراموں کی دھوم تھی، شام ہوتے ہی سڑکوں پر سناٹا چھا جاتا تھا خواہ وہ اشفاق احمد کے کھیل ہوں، بانو قدسیہ کے، حمید کاشمیری کے یا حسینہ معین کے، ان ڈراموں میں کہانیت بھی تھی اور ڈرامائیت بھی، اداکاری کا معیار تھا جو کردار جس کلاس سے تعلق رکھتا تھا وہی لباس پہنتا تھا، جب کہ آج کل ڈائجسٹوں کی بے سروپا کہانیاں ہر چینل کی زینت بن رہی ہیں جن کا فلمی انداز سوائے سطحیت کے اور کچھ نہیں۔

آج ہم اپنے اسلاف، اپنے بزرگوں، اپنے مصلحین کے نام پر نہ کوئی کتب خانہ کھول رہے ہیں، نہ شاہراہیں ان کے نام سے منسوب ہیں، نہ کوئی اسکول ان کے نام سے موسوم ہے، نہ کوئی کالج(سوائے سرسید) کے۔

تحریک نسواں کے حوالے سے خواتین کا سب سے معتبر اور قدیم رسالہ ''عصمت'' ہے جو 1908 میں شایع ہوا اور آج 105 برس بعد بھی خاموشی سے جاری و ساری ہے جس میں منشی پریم چند، جوش، علامہ اقبال، اختر شیرانی، فرحت اللہ بیگ، حجاب امتیاز علی، بیگم شائستہ، اکرام اللہ، آمنہ نازلی، ڈاکٹر جمیل جالبی، اسلم فرخی، قرۃ العین حیدر جیسے بلند پایہ ادیب اور شاعر لکھتے رہے، جس نے مسلم معاشرے میں خواتین کے اندر شعور کی نئی روح پھونکی جس پر ہندوستان میں Ph.D کے لیے چند طالب علم خصوصی طور پر پاکستان آئے مگر۔۔۔۔۔پاکستان نے کیا اس کی خدمات کا اعتراف کیا؟ہاں البتہ فیشن شو اور میوزیکل شو میں ہمارے ادبی و ثقافتی ادارے بڑی دریادلی کا مظاہرہ کرتے رہے۔

عزیز حامد مدنی بہت بڑے شاعر تھے، مگر پی آر سے بہت دور، سو ''اہل دانش'' ان کو بھول گئے، اطہر نفیس کا مجموعہ کلام ''کہیں نہیں'' ناصر کاظمی کی یاد میں کوئی شام نہیں منائی جاتی، سو بونوں کی اس بستی میں آپ کس سے انصاف کی توقع کریں گے، ان سے جو الیکشن کے زمانے میں لنچ اور ڈنر پر لاکھوں روپے پانی کی طرح بہاتے ہیں؟ یا ان سے جو ہر بار چولا بدل کر دوبارہ امیدواروں کی صف میں کھڑے ہوجاتے ہیں؟ یا ان سے جو جعلی ممبر بناکر ہر سال کامیاب ہوتے ہیں؟ یا ان سے جو بیلٹ باکس میں بددیانتی کی پرچیاں ڈالتے ہیں؟

فی زمانہ اگر آپ کامیاب ہونا چاہتے ہیں تو آپ کو اپنے اصولوں کو چھوڑنا ہوگا، سیاستدانوں کے نقش قدم پر چلنا ہوگا، ایوانوں میں بیٹھنے والوں کا قرب حاصل کرنا ہوگا، مختلف محکموں کے سیکریٹریوں سے راہ رسم بڑھانی ہوگی، بلکہ ان کے ''پی اے'' کو اپنا ہم نوالہ و ہم پیالہ بنانا ہوگا کہ یہ لوگ شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار ہوتے ہیں، ان کی خوشنودی حاصل کیے بغیر آپ اپنے مقاصد میں کامیاب نہیں ہوسکتے ورنہ جب بھی ان کے ''بگ باس'' کے پاس آپ کو جانا ہوگا تو یہ پرنسپل سیکریٹریز کہیں گے کہ''سوری!صاحب اس وقت نہیں مل سکتے، وہ میٹنگ میں ہیں۔''
Load Next Story