چیف جسٹس کی صائب باتیں
رشوت ستانی، بلیک مارکیٹنگ اور اقربا پروری سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنا ہوگا
DI KHAN:
چیف جسٹس آ ف پاکستان جسٹس انور ظہیر جمالی نے ہفتے کو لاہور ہائیکورٹ کی 150سالہ تقریبات کے سلسلے میں جوڈیشل کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ عدالت عظمیٰ سے لے کر مجسٹریٹ تک تمام عدالتیں مکمل آزاد ہیں اور انصاف کی فراہمی کے لیے کسی دباؤ کا شکار نہیں، ہم کسی کو خوش کرنے یا میڈیا ہائپ کی وجہ سے دباؤ میں آ کرفیصلے نہیں کر سکتے، رشوت ستانی، بلیک مارکیٹنگ اور اقربا پروری سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنا ہوگا۔
عدلیہ کے پاس اختیارات موجود ہیں کہ وہ نظر ثانی کرتے ہوئے مقننہ کے بنائے ہوئے قوانین کو پرکھے، معاشرے میں خوشحالی، عوامی حقوق کے تحفظ اور امن و امان کو قائم رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ قانون کی بالادستی ہونی چاہیے۔ اگر دیگر ادارے اپنی ذمے داریاں ادا کرنے میں ناکام ہوجائیں تو عدالتوںکو ہی لوگوں کی امیدوں پر پورا اترنا ہوتا ہے اور تمام تر ذمے داریاں عدلیہ کے کندھوں پر عائد ہوجاتی ہیں۔ نامزد چیف جسٹس میاں ثاقب نثارنے اپنے خطاب میں کہا کہ جج کا کام محض مقدمات نمٹانا نہیں بلکہ اسے کیس سے مکمل انصاف کرناچاہیے، ہمارے پاس لامحدود اختیار نہیں ہیں، ہمیں قانون و آئین کے دائرہ میں رہتے ہوئے انصاف فراہم کرنا ہوتا ہے۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس انور ظہیر جمالی نے بالکل صائب کہا کہ جج کا کام کیس سے مکمل انصاف کرنا ہے' خواہ کوئی شخص کتنے ہی بڑے عہدے پر فائز کیوں نہ ہو، اگر وہ کسی جرم میں ملوث پایا جاتا ہے تو عدلیہ کو انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے اس کے خلاف کارروائی کرنا چاہیے اور اس سلسلے میں کسی قسم کے دباؤ یا پراپیگنڈا کو خاطر میں نہیں لانا چاہیے۔
اس وقت پاناما لیکس کے حوالے سے سپریم کورٹ میں تحریک انصاف اور دیگر جماعتوں کی جانب سے دی گئی درخواستوں پر کیس چل رہا ہے۔ جمعہ کو تحریک انصاف کی طرف سے پاناما لیکس کی انکوائری کے لیے کمیشن کے قیام کی مخالفت کے بعد سپریم کورٹ نے مقدمے کی سماعت جنوری کے پہلے ہفتے تک ملتوی کرتے ہوئے قرار دیا تھا کہ کیس از سر نو سنا جائے گا۔
عدالت نے قرار دیا تھا کہ کمیشن کے قیام کی تجویز پر فریقین سے رائے مانگی گئی تھی' کچھ فریقین نے اس تجویز کی حمایت کی لیکن کچھ کمیشن کے مخالف ہیں اس لیے اس بارے میں کوئی تبصرہ کیے بغیر کیس کی سماعت اگلے سال جنوری کے پہلے ہفتے تک ملتوی کر دی جاتی ہے' اب تک کی سماعت کو ''سنا ہوا' کیس نہ سمجھا جائے بلکہ اس کی سماعت از سر نو ہو گی کیونکہ بنچ کے ایک رکن کی ریٹائرمنٹ کی وجہ سے بنچ از سر نو تشکیل دینا پڑے گا۔ اس حوالے سے سوشل میڈیا پر نئی بحث شروع ہو گئی ہے' جس کے جو منہ میں آرہا ہے' وہ اپنی بات کر رہا ہے' ایسے حالات میں میں جناب چیف جسٹس نے واضح کر دیا ہے کہ ججز کسی کو خوش کرنے کے لیے یا میڈیا کے دباؤ میں آ کر کوئی فیصلے نہیں کرتے۔ بلاشبہ معزز جج صاحبان کی ذمے داریاں بہت کٹھن ہیں۔
خصوصاً جب طاقتور لوگوں کے مقدمات سامنے آتے ہیں تو ججز کی ذمے داریوں اور حوصلے کا امتحان ہوتا ہے لیکن پاکستان کی عدلیہ نے مشکل اور کٹھن مواقع پر بہت اہم فیصلے کیے ہیں' خصوصاً جنرل پرویز مشرف نے جب ملک میں ایمرجنسی نافذ کی تو اس موقع پر ججز نے اپنا کردار ادا کیا اور پھر وکلاء نے ججز کی بحالی کے لیے ناقابل فراموش تحریک چلائی' اب بھی عدلیہ کے سامنے پاناما لیکس کا مقدمہ موجود ہے۔ یہ بھی بہت بڑا مقدمہ ہے' اس مقدمے کی سماعت ملتوی ہو چکی ہے۔ اب نئے چیف جسٹس اس حوالے سے نیا بنچ تشکیل دیں گے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ پاناما لیکس پر بننے والا عدلیہ کا ازسرنو تشکیل پانے والا بنچ کیا فیصلہ کرتا ہے لیکن اب تک کی صورت حال پر تحریک انصاف وزیراعظم کو اپنے عہدے سے ہٹانے کی جدوجہد پر مطمئن دکھائی نہیں دیتی۔ ہم امید کرتے ہیں کہ عدلیہ آئین و قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے یقیناً انصاف کے تقاضے پورے کرے گی ۔
عدلیہ جو بھی فیصلہ کرے خواہ وہ کسی بھی فریق کے خلاف ہو اسے تسلیم کر لیا جانا چاہیے کیونکہ پاکستان کی بقا ، سلامتی اور جمہوریت کی ترقی کے لیے ایسا کرنا انتہائی ضروری ہے' عدلیہ ایک ایسا محترم ادارہ ہے جو درحقیقت نظام کا محافظ ہوتا ہے جس پر سب کو اعتماد ہوتا ہے' یہ اعتماد ہی عدلیہ کی اصل قوت ہوتی ہے' عدلیہ یہ اعتماد اپنے فیصلوں سے حاصل کرتی ہے جب کہ ملک کے طاقتور ادارے' شخصیات اور عوام اس کے فیصلوں کو تسلیم کر کے اس اعتماد میں اضافہ کرتے ہیں' یہ بھی حقیقت ہے کہ عدلیہ کا فیصلہ کسی کے لیے اچھا اور کسی کے لیے برا ہو سکتا ہے لیکن ایسے تسلیم اس لیے کیا جاتا ہے کہ یہ قانون اور آئین کے مطابق ہوتا ہے۔