امریکا اور مسئلہ کشمیر
مسئلہ کشمیر ایک ایسا تنازعہ ہے جس کے حل نہ ہونے کی وجہ سے بھارت اور پاکستان کو بے پناہ نقصان پہنچا ہے
www.facebook.com/shah Naqvi
امریکا کے نو منتخب نائب صدر مائیک پینس نے کہا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ مسئلہ کشمیر کے حل میں مرکزی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ چند روز قبل ٹرمپ اور وزیراعظم نواز شریف کے درمیان رابطہ ہوا جس میںڈونلڈ ٹرمپ نے انھیں مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے کردار ادا کرنے کی پیش کش کی۔ امریکی ٹی وی این بی سی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ دنیا میں موجود تنازعات اور خاص طور پر مسئلہ کشمیر سمیت تمام مسائل حل کرنے کی غیرمعمولی مہارت رکھتے ہیں۔
پاکستان اور بھارت چاہیں تو وہ مسئلہ کشمیر کے حل میں کردار ادا کر سکتے ہیں۔ حالیہ دنوں میں پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی بڑھی ہے جس کی وجہ تنازعہ کشمیر ہے تاہم نئی امریکی انتظامیہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے سنجیدہ ہے۔ خطے میں استحکام کے لیے جوہری ممالک کے درمیان معاملات حل ہونے چاہئیں۔ انھوں نے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ خطے میں استحکام چاہتے ہیں۔
ٹرمپ نہ صرف امریکا کے داخلی امور پر توجہ دیں گے بلکہ دیرینہ عالمی مسائل کے حل کے لیے اپنی غیرمعمولی صلاحیتیں بھی بروئے کار لائیں گے۔ منتخب نائب امریکی صدر پینس نے کہا کہ نئی امریکی انتظامیہ جنوبی ایشیا پر مکمل توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے اور خاص طور پر خطے میں امن اور سیکیورٹی کے لیے بھارت اور پاکستان کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار ہے۔
مسئلہ کشمیر ایک ایسا تنازعہ ہے جس کے حل نہ ہونے کی وجہ سے بھارت اور پاکستان کو بے پناہ نقصان پہنچا ہے۔ اس مسئلے کے حل نہ ہونے کی وجہ سے دونوں کی معیشتوں خصوصاً پاکستان کی معیشت کو بے پناہ نقصان پہنچا ہے، وہ اس لیے کہ بھارت کے مقابلے میں پاکستان کے وسائل کم ہیں۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان مسلسل جنگی صورت حال کا نتیجہ یہ نکلا کہ دونوں طرف غربت، بے روز گاری میں اضافہ ہوا۔ ایک بات واضح ہے کہ جب تک مسئلہ کشمیر حل نہیں ہوتا دونوں ملکوں کے عوام کا غربت بے روز گاری کی دلدل سے نکلنا ناممکن ہے۔
جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں نہ ہی مسئلہ کشمیر جنگ کے ذریعے حل ہو سکتا ہے۔ پہلی اور دوسری عالمی جنگ میں 5کروڑ افراد مارے گئے۔ ان جنگوں کی بنیاد بھی معاشی تھی۔ برطانیہ اس زمانے کا ایک بڑا سامراج تھا جو نہ صرف پوری دنیا میں قائم اپنی نوآبادیا ت کے نہ صرف وسائل لوٹنا تھا بلکہ اپنی مصنوعات کی کھپت بھی ان نوآبادیات میں کرتا تھا۔ طاقتور معیشت اور بڑی جنگی مشینری کے ذریعے آخر کار برطانیہ نے دنیا کے بڑے حصے پر قبضہ کر لیا۔ محروم یورپی ممالک میں حسد کی آگ عالمی جنگوں کا سبب بنی جس نے آخر کار یورپ کے ایک بہت بڑے حصے کو تباہ برباد کر دیا۔
آخر کار ان کو سمجھ آ گئی کہ امن ہی پورے یورپ کو خوش حالی سے ہمکنار کر سکتا ہے۔ چنانچہ ستر سال سے زیادہ عرصہ گزرنے کے باوجود یورپ میں پھر کوئی جنگ نہیں ہوئی۔ اب جنگ کا میدان یورپ سے باہر ہے۔ بھارت ہو یا پاکستان وہ لوگ بڑے نادان ہیں کہ جو سمجھتے ہیں کہ جنگ مسئلہ کشمیر کا حل ہے۔ جنگ صرف ایک ہی کام کر سکتی ہے کہ دونوں ملکوں کو مکمل طور پر تباہ برباد کر دے۔ یہ بڑی اچھی بات ہے کہ دونوں ملک ایٹمی طاقت ہیں۔ اس ایٹمی طاقت نے ہی دونوں ملکوں کے درمیان ایک بڑی جنگ کو روکا ہوا ہے۔
بھارت اور پاکستان کئی مواقع پر ایٹمی جنگ کے دہانے پر پہنچے جس نے دنیا کو خوفزدہ کر دیا۔ دونوں ملکوں نے کھلم کھلا ایک دوسرے پر ایٹم بم برسانے کی دھمکیاں دیں جس پر امریکا نے مداخلت کرتے ہوئے دونوں ملکوں کو انتباہ کیا کہ ایٹمی قوت ہونے کے ناطے دونوں ملکوں کو ذمے دارانہ رویہ اختیار کرنا چاہیے ۔ لیکن دونوں ملکوں کے درمیان کشمیر کا تنازعہ حل کرانا ضروری ہے ۔
حال ہی میں وائٹ ہاؤس کے ترجمان نے انکشاف کیا کہ مسئلہ کشمیر پر بیک ڈور ڈپلومیسی کے نتیجے میں ایک اہم مرحلے پر ہے۔ اس لیے فریقین کوچاہیے کہ وہ تحمل سے کام لیں۔اس پس منظر میں امریکی نائب صدر کا یہ کہنا کہ نئی امریکی انتظامیہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے سنجیدہ ہے انتہائی معنی خیز ہے۔ جب کہ اس سے پہلے ہمیشہ امریکا کا سرکاری بیان یہی ہوتا تھا کہ مسئلہ کشمیر بھارت اور پاکستان دونوں نے خود ہی حل کرنا ہے۔
یہ بھی عجیب اتفاق کی بات ہے کہ برطانوی وزیر خارجہ نے پچھلے مہینے کے آخر میں اپنے دورہ پاکستان میں کہا ہے کہ برطانیہ پاکستان اور بھارت کے درمیان مسئلہ کشمیر کو کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق حل کرنے کا حامی ہے۔ انھوں نے کہا کہ دونوں ممالک مسئلہ کشمیر کے دیرپا حل کے لیے فوری مذاکرات کا سلسلہ شروع کریں۔
انھوں نے کہا کہ دونوں ممالک کے تنازعات کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کے نتیجے میں اس خطے میں معاشی اور تجارتی ''بوم'' آئے گا جو دونوں طرف کے عوام کی ترقی و خوشحالی کا باعث بنے گا۔ یہ برطانوی خارجہ کا مشورہ ہی تھا کہ لائن آف کنٹرول پر کشیدگی اور اندرون ملک تمام تر مخالفت کے باوجود سرتاج عزیز نے امرتسر میں ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں شرکت کی۔
حال ہی میں ہونے والے دورہ دہلی میں امریکی وزیر دفاع ایشٹن کارٹر نے کہا ہے کہ امریکا اور بھارت کا اسٹریٹیجک پارٹنر بننا تقدیر میں لکھا ہے اور انھیں یقین ہے کہ بھارت اور امریکا کی دفاعی شراکت 21ویں صدی کی اہم شراکت داری ہو گی۔ اس کے ساتھ امریکی وزیر دفاع نے اپنے بھارتی ہم منصب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میرے دوست مجھے فخر ہے۔
اس پر' جو کچھ حاصل کیا ہے۔ امریکی ڈیموکریٹ ہوں یا ری پبلکن دونوں ہی امریکی مفادات کے پیش نظر بھارت کی طرف جھکاؤ رکھتے ہیں کیونکہ دونوں ہی سیکولر ازم پر ایمان رکھتے ہیں۔ دونوں ہی بڑی مضبوط اور پرانی جمہوریتیں ہیں۔ نظریاتی اور ثقافتی معاملے میں دونوں میں بڑی قریبی ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔
بھارت اور امریکا کی قربت ہمارے لیے تو منفی ہے لیکن اس کا مثبت پہلو یہ ہے کہ بھارت کو ہمارے خطے میں وہ عالمی کردار اس وقت تک نہیں مل سکتا جب تک وہ پاکستان کے ساتھ اپنے تمام تنازعات پرامن طور پر حل نہ کرے۔ صورت حال کا یہ پس منظر ہی تھا کہ ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے بھی چند دن پیشتر بھارت میں منعقد ہونے والی کانفرنس میں کہا کہ ایران' پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر کے معاملے میں ثالث کا کردار ادا کر سکتا ہے کیونکہ ہمارے ان دونوں ملکوں سے بہترین تعلقات ہیں۔
اگلے دو سے تین سالوں میں مسئلہ کشمیر کا حل نکل آئے گا۔