میڈیا کی ڈیمانڈ اور ابلاغ عامہ کا نصابپہلا حصہ
جامعہ کراچی کے شعبہ ابلاغ عامہ کے تحت سات اور آٹھ دسمبر کو ایک انٹرنیشنل کانفرنس منقعد کی گئی
جامعہ کراچی کے شعبہ ابلاغ عامہ کے تحت سات اور آٹھ دسمبر کو ایک انٹرنیشنل کانفرنس منقعد کی گئی، جس کا عنوان تھا ''فرسٹ انٹرنیشنل میراتھن کانفرنس، میڈیا ایجوکیشن: تھیوری، انڈسٹری اینڈ ریسرچ''۔ اس کانفرنس کا مقصد شعبہ ابلاغ عامہ کے نصاب کا جائزہ لینا اور مختلف اداروں سے وابستہ ماہرین و محققین و دانشور افراد سے اس کی بہتری کے لیے تجاویز حاصل کرنا تھا۔ راقم نے اس کانفرنس میں منتظیم اور اسپیکر کی حیثیت سے بھی شرکت کی۔ بحیثیت اسپیکر راقم نے اپنے پیپر میں میڈیا کی ڈیمانڈ اور ابلاغ عامہ کے نصاب کا ایک جائزہ پیش کیا، یہاں قارئین کی دلچسپی اور معلومات کے لیے پیش کیا جارہا ہے، اس لیے اس میں کچھ ادارت بھی کردی گئی ہے۔
ذرایع ابلاغ کے موجودہ نصاب کو تبدیل نہیں کیا جانا چاہیے، البتہ اپ ڈیٹ ضرور کیا جانا چاہیے، ہمیں نصاب کو صرف مارکیٹ ڈیمانڈ یا ریٹنگ وغیرہ تک محدود نہیں کرنا چاہیے بلکہ بڑھانا چاہیے۔ اگر صرف اور صرف مارکیٹ ڈیمانڈ کے مطابق نصاب بنانا ہے تو اس کے لیے علیحدہ سے 'اپلائیڈ ماس کمیونیکشن' برانچ یا پھر کوئی ڈگری کورس شروع کیا جاسکتا ہے۔
ہمارا نصاب ایسا ہونا چاہیے جو مارکیٹ یا ڈیمانڈ کا غلام نہ ہو، بلکہ وسیع نصاب ہو جو ملک و قوم اور معاشرے کے لیے اچھے طالب علموں کو ذرایع ابلاغ کے اداروں میں بھیج سکے۔ ایسے طالب علم جنھیں میڈیا قوانین، ضابطہ اخلاق کا علم ہو، جنھیں معاشرتی اقدار کا احساس ہو، جن میں علم و دانش اور فہم و فراست ایسی ہو کہ کمرشل ازم کے اس دور میں بھی وہ معاشرے کے لیے اپنا مثبت کردار ادا کرسکیں۔ ہمیں نصاب کی ڈائیورسٹی ختم کرکے نصاب کو ون ڈائیمنشن نہیں بنانا چاہیے۔ نصاب میں کسی بڑی تبدیلی سے قبل اس کا جائزہ لینا ضروری ہے۔
نصاب کے جائزے کے لیے اسے ہم دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں، یعنی ایک نظری اور دوسرا عملی۔ یہاں عملی سے مراد وہ حصہ ہے جس میں طلبا کو پریکٹیکل کی ضرورت پڑتی ہے جو جدید آلات پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس وقت اخبارات اور ٹی وی چینلز کے قیام میں ایسے سرمایہ داروں کی ایک بڑی تعداد آ چکی ہے جن کے لیے اس شعبے میں زیادہ سے زیادہ سرمایہ لگانا کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔
یہی وجہ ہے کہ آج اکثر میڈیا چینل یہ دعویٰ کرتے نظر آتے ہیں کہ اس کے پاس سب سے زیادہ جدید اور مہنگی ٹیکنالوجی اور آلات ہیں۔ ظاہر ہے کہ بڑے بڑے سرمایہ داروں کی اس دوڑ میں ٹیکنالوجی اور آلات کے معاملے میں جامعات خاص کر سرکاری جامعات اپنے شعبہ ابلاغ عامہ کو آگے کیسے لاسکتی ہیں کہ جب کہ انھیں اپنی تنخواہوں کے حصول کے لیے بھی احتجاج کرنا پڑتا ہو۔ لیکن اس کے باوجود یہ کوئی بڑا ایشو نہیں، اس لیے کہ یہ ادارے بھی خود نئے آنے والوں کو پہلے ٹریننگ دیتے ہیں۔
ہمارے طلبا انٹرن شپ اور ٹریننگ کے نام پر آج بہت سے چینلز میں اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ جس وقت ایکسپریس اخبار کراچی سے نکلنا شروع ہوا تو اس میں پرانے اخبارات سے آئے ہوئے سینئر صحافیوں نے بھی کمپوٹر پر کام کرنے کی ٹریننگ حاصل کی، کیونکہ اس جدید اخبار میں قلم اور کاغذ کے بجائے تمام کام کمپوٹر ٹیکنالوجی پر منتقل کردیا گیا تھا اور ایک عام رپورٹر کو بھی شام کو دفتر آکر کمپوٹرائز طریقے سے اپنی خبر فائل کرنا ہوتی تھی۔
جدید آلات اور تکنیک سے اگر ہٹ کر دوسرے حصے کی بات کریں جو نظری حصہ ہے تو ہمیں معلوم ہوگا کہ یہ نظری حصہ نہ صرف وہ تمام تر توانائی اپنے پڑھنے والے طالب علموں کو فراہم کرتا ہے جو انھیں ایک کامیاب صحافی بنانے میں درکار ہوتی ہے، بلکہ وہ ان میں وہ علم و دانش، فہم و فراست بھی فراہم کرتا ہے جو کسی بھی معاشرے میں ذرایع ابلاغ جیسے خطرناک ہتھیار کو چلانے کے لیے درکار ہوتی ہے۔
اس تناظر میں ہم شعبہ ابلاغ عامہ کے نصاب کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ سب سے پہلے طلبا کو ایلیمنٹری جرنلزم کورس کے تحت ابلاغ کا تصور، ابلاغی عمل، اہمیت اور تاریخ کے ساتھ ساتھ خبر، کالم، اداریہ اور فیچر وغیرہ کا تعارف اور چھوٹے چھوٹے مراسلات و مضامین لکھنے کی مشق کرائی جاتی ہے۔
'ماس میڈیا اینڈ سوسائٹی' کورس کے تحت طلبا کو معاشرے اور ذرایع ابلاغ کے تعلق کو تفصیلی طور پر پڑھایا جاتا ہے۔ اس میں مشرقی اور مغربی معاشرے کی خصوصیات، ان کے نظریات اور ان میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کے علاوہ ذرایع ابلاغ کے ان معاشروں پر اثرات سے متعلق کی گئیں تحقیقات پر بات کی جاتی ہے۔ اس مطالعہ سے طلبا کو احساس ہوتا ہے کہ ذرایع ابلاغ کی دنیا میں قدم رکھنے کے بعد ان کے ایک ایک لفظ کے معاشرے پر کیا اثرات مرتب ہوسکتے ہیں، یوں عملاً وہ ایک واقعہ کی خبر نگاری کریں، کالم لکھیں، اداریہ لکھیں یا کچھ اور، ان کی ہر تحریر معاشرے کے لیے فائدہ مند ہوگی نہ کہ نقصان دہ۔
اسی طرح 'ماس کمیونیکشن تھیوری' کورس میں وہ تمام نظریات طلبا کو پڑھائے جاتے ہیں جو وقتاً فوقتاً مغرب میں پیش کیے گئے۔ ذرایع ابلاغ سے متعلق مختلف تحقیقات اور تجربات کا ذکر کیا جاتا ہے کہ کس طرح مغرب میں انسانی ذہن کو میڈیا کے ذریعے اسیر کرنے کی کوششیں کی جاتی رہی ہے اور آج بھی جاری ہیں۔
اس کورس میں پاکستا ن میں بھی ذرایع ابلاغ پر پی ایچ ڈی کے جو مقالے اب تک پیش ہوچکے ہیں ان سے بھی طلبا کو آگاہ کیا جاتا ہے، مثلاً ڈاکٹر نثار زبیری سابق استاد شعبہ ابلاغ عامہ، جامعہ کراچی نے 1992 میں اپنے مقالہ میں یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ زیادہ وقت ٹی وی دیکھنے والے بچوں میں آتشیں اسلحہ کی طرف میلان، شوق زیادہ پایا گیا اور اپنے مخالفین سے نمٹنے کے لیے جتھہ بندی/ گروہ بندی کا بھی رجحان پایا گیا۔ ایک اور محقیق و استاد شعبہ ابلاغ عامہ نے ان کے نتائج کو درست قرار دیتے ہوئے لکھا ہے کہ جس وقت یہ تحقیق جن عمر کے بچوں پر کی گئی تھی وہ 1994 اور 98 میں جوانی کی عمروں میں پہنچ چکے تھے اور یہی وقت تھا کہ جب کراچی میں نوجوانوں کی خون ریزی میں ملوث ہونے کے واقعات سامنے آئے۔
ہمارے سال دوئم کے طلبا کو کورس ''میڈیا اِن دی ماڈرن ورلڈ'' ذرایع ابلاغ کے جدید نظام کے بارے میں آگاہی دی جاتی ہے جس سے انھیں ترقی یافتہ ملکوں میں جدید پیش رفت کا بھی علم رہتا ہے۔
اسی طرح فنکشنل انگلش اور اردو کے کورسز میں انگریزی صحافت میں جانے والے طلبا کو اردو گرامر و زبان اور اردو صحافت میں قدم رکھنے والے طلبا کو انگریزی گرامر و زبان سے متعلق تعلیم دی جاتی ہے، جس کا طلبا کو بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ وہ صحافتی میدان میں قدم رکھنے سے قبل ہی اپنی زبان پر عبور حاصل کرلیتے ہیں۔ آج کل ٹی وی چینلز پر اردو زبان کی غلطیوں کا سب کو علم ہے اور ایک عام ناظر بھی اس جانب اشارہ کرتا نظر آتا ہے، اس اعتبار سے اس کورس کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے۔
(جاری ہے)
ذرایع ابلاغ کے موجودہ نصاب کو تبدیل نہیں کیا جانا چاہیے، البتہ اپ ڈیٹ ضرور کیا جانا چاہیے، ہمیں نصاب کو صرف مارکیٹ ڈیمانڈ یا ریٹنگ وغیرہ تک محدود نہیں کرنا چاہیے بلکہ بڑھانا چاہیے۔ اگر صرف اور صرف مارکیٹ ڈیمانڈ کے مطابق نصاب بنانا ہے تو اس کے لیے علیحدہ سے 'اپلائیڈ ماس کمیونیکشن' برانچ یا پھر کوئی ڈگری کورس شروع کیا جاسکتا ہے۔
ہمارا نصاب ایسا ہونا چاہیے جو مارکیٹ یا ڈیمانڈ کا غلام نہ ہو، بلکہ وسیع نصاب ہو جو ملک و قوم اور معاشرے کے لیے اچھے طالب علموں کو ذرایع ابلاغ کے اداروں میں بھیج سکے۔ ایسے طالب علم جنھیں میڈیا قوانین، ضابطہ اخلاق کا علم ہو، جنھیں معاشرتی اقدار کا احساس ہو، جن میں علم و دانش اور فہم و فراست ایسی ہو کہ کمرشل ازم کے اس دور میں بھی وہ معاشرے کے لیے اپنا مثبت کردار ادا کرسکیں۔ ہمیں نصاب کی ڈائیورسٹی ختم کرکے نصاب کو ون ڈائیمنشن نہیں بنانا چاہیے۔ نصاب میں کسی بڑی تبدیلی سے قبل اس کا جائزہ لینا ضروری ہے۔
نصاب کے جائزے کے لیے اسے ہم دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں، یعنی ایک نظری اور دوسرا عملی۔ یہاں عملی سے مراد وہ حصہ ہے جس میں طلبا کو پریکٹیکل کی ضرورت پڑتی ہے جو جدید آلات پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس وقت اخبارات اور ٹی وی چینلز کے قیام میں ایسے سرمایہ داروں کی ایک بڑی تعداد آ چکی ہے جن کے لیے اس شعبے میں زیادہ سے زیادہ سرمایہ لگانا کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔
یہی وجہ ہے کہ آج اکثر میڈیا چینل یہ دعویٰ کرتے نظر آتے ہیں کہ اس کے پاس سب سے زیادہ جدید اور مہنگی ٹیکنالوجی اور آلات ہیں۔ ظاہر ہے کہ بڑے بڑے سرمایہ داروں کی اس دوڑ میں ٹیکنالوجی اور آلات کے معاملے میں جامعات خاص کر سرکاری جامعات اپنے شعبہ ابلاغ عامہ کو آگے کیسے لاسکتی ہیں کہ جب کہ انھیں اپنی تنخواہوں کے حصول کے لیے بھی احتجاج کرنا پڑتا ہو۔ لیکن اس کے باوجود یہ کوئی بڑا ایشو نہیں، اس لیے کہ یہ ادارے بھی خود نئے آنے والوں کو پہلے ٹریننگ دیتے ہیں۔
ہمارے طلبا انٹرن شپ اور ٹریننگ کے نام پر آج بہت سے چینلز میں اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ جس وقت ایکسپریس اخبار کراچی سے نکلنا شروع ہوا تو اس میں پرانے اخبارات سے آئے ہوئے سینئر صحافیوں نے بھی کمپوٹر پر کام کرنے کی ٹریننگ حاصل کی، کیونکہ اس جدید اخبار میں قلم اور کاغذ کے بجائے تمام کام کمپوٹر ٹیکنالوجی پر منتقل کردیا گیا تھا اور ایک عام رپورٹر کو بھی شام کو دفتر آکر کمپوٹرائز طریقے سے اپنی خبر فائل کرنا ہوتی تھی۔
جدید آلات اور تکنیک سے اگر ہٹ کر دوسرے حصے کی بات کریں جو نظری حصہ ہے تو ہمیں معلوم ہوگا کہ یہ نظری حصہ نہ صرف وہ تمام تر توانائی اپنے پڑھنے والے طالب علموں کو فراہم کرتا ہے جو انھیں ایک کامیاب صحافی بنانے میں درکار ہوتی ہے، بلکہ وہ ان میں وہ علم و دانش، فہم و فراست بھی فراہم کرتا ہے جو کسی بھی معاشرے میں ذرایع ابلاغ جیسے خطرناک ہتھیار کو چلانے کے لیے درکار ہوتی ہے۔
اس تناظر میں ہم شعبہ ابلاغ عامہ کے نصاب کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ سب سے پہلے طلبا کو ایلیمنٹری جرنلزم کورس کے تحت ابلاغ کا تصور، ابلاغی عمل، اہمیت اور تاریخ کے ساتھ ساتھ خبر، کالم، اداریہ اور فیچر وغیرہ کا تعارف اور چھوٹے چھوٹے مراسلات و مضامین لکھنے کی مشق کرائی جاتی ہے۔
'ماس میڈیا اینڈ سوسائٹی' کورس کے تحت طلبا کو معاشرے اور ذرایع ابلاغ کے تعلق کو تفصیلی طور پر پڑھایا جاتا ہے۔ اس میں مشرقی اور مغربی معاشرے کی خصوصیات، ان کے نظریات اور ان میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کے علاوہ ذرایع ابلاغ کے ان معاشروں پر اثرات سے متعلق کی گئیں تحقیقات پر بات کی جاتی ہے۔ اس مطالعہ سے طلبا کو احساس ہوتا ہے کہ ذرایع ابلاغ کی دنیا میں قدم رکھنے کے بعد ان کے ایک ایک لفظ کے معاشرے پر کیا اثرات مرتب ہوسکتے ہیں، یوں عملاً وہ ایک واقعہ کی خبر نگاری کریں، کالم لکھیں، اداریہ لکھیں یا کچھ اور، ان کی ہر تحریر معاشرے کے لیے فائدہ مند ہوگی نہ کہ نقصان دہ۔
اسی طرح 'ماس کمیونیکشن تھیوری' کورس میں وہ تمام نظریات طلبا کو پڑھائے جاتے ہیں جو وقتاً فوقتاً مغرب میں پیش کیے گئے۔ ذرایع ابلاغ سے متعلق مختلف تحقیقات اور تجربات کا ذکر کیا جاتا ہے کہ کس طرح مغرب میں انسانی ذہن کو میڈیا کے ذریعے اسیر کرنے کی کوششیں کی جاتی رہی ہے اور آج بھی جاری ہیں۔
اس کورس میں پاکستا ن میں بھی ذرایع ابلاغ پر پی ایچ ڈی کے جو مقالے اب تک پیش ہوچکے ہیں ان سے بھی طلبا کو آگاہ کیا جاتا ہے، مثلاً ڈاکٹر نثار زبیری سابق استاد شعبہ ابلاغ عامہ، جامعہ کراچی نے 1992 میں اپنے مقالہ میں یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ زیادہ وقت ٹی وی دیکھنے والے بچوں میں آتشیں اسلحہ کی طرف میلان، شوق زیادہ پایا گیا اور اپنے مخالفین سے نمٹنے کے لیے جتھہ بندی/ گروہ بندی کا بھی رجحان پایا گیا۔ ایک اور محقیق و استاد شعبہ ابلاغ عامہ نے ان کے نتائج کو درست قرار دیتے ہوئے لکھا ہے کہ جس وقت یہ تحقیق جن عمر کے بچوں پر کی گئی تھی وہ 1994 اور 98 میں جوانی کی عمروں میں پہنچ چکے تھے اور یہی وقت تھا کہ جب کراچی میں نوجوانوں کی خون ریزی میں ملوث ہونے کے واقعات سامنے آئے۔
ہمارے سال دوئم کے طلبا کو کورس ''میڈیا اِن دی ماڈرن ورلڈ'' ذرایع ابلاغ کے جدید نظام کے بارے میں آگاہی دی جاتی ہے جس سے انھیں ترقی یافتہ ملکوں میں جدید پیش رفت کا بھی علم رہتا ہے۔
اسی طرح فنکشنل انگلش اور اردو کے کورسز میں انگریزی صحافت میں جانے والے طلبا کو اردو گرامر و زبان اور اردو صحافت میں قدم رکھنے والے طلبا کو انگریزی گرامر و زبان سے متعلق تعلیم دی جاتی ہے، جس کا طلبا کو بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ وہ صحافتی میدان میں قدم رکھنے سے قبل ہی اپنی زبان پر عبور حاصل کرلیتے ہیں۔ آج کل ٹی وی چینلز پر اردو زبان کی غلطیوں کا سب کو علم ہے اور ایک عام ناظر بھی اس جانب اشارہ کرتا نظر آتا ہے، اس اعتبار سے اس کورس کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے۔
(جاری ہے)