گرتے ہیں شہ سوار ہی میدان جنگ میں۔۔۔
دنیاکی بہت سی کام یاب ترین شخصیات نے دل جمعی اور ثابت قدمی سے راہ میں آنے والی ہر رکاوٹ کو عبور کیا۔
زندگی میں اپنی منزل اور مقاصد کا حصول، اپنے خوابوں کو حقیقت کا رنگ دینا، کس نوجوان کی خواہش نہیں ہوتی، لیکن اس میں کام یابی ہر ایک کا مقدر نہیں ہوتی۔
کبھی آپ نے سوچا ایسا کیوں ہے؟ دراصل کام یاب افراد کی زندگی بہت منظم ہوتی ہے اور وہ بہترین منصوبہ بندی کے سبب راہ میںآنے والے مسائل اور رکاوٹوں کو عبور کر کے اپنے مقصد کے حصول میںکام یاب ہو جاتے ہیں، بہ صورت دیگر شاید آج وہ بھی ناکام افراد کی فہرست میں شامل ہوتے۔ ذیل میں ہم ناکامی کے ان عوامل اور ان کے حل کا جائزہ لیتے ہیں۔
جوش وجذبہ ضروری ہے
بیشتر نوجوان جب اپنے مقاصد کا تعین کرتے ہیں تو وہ عموماً اپنے اس مقصد کو پانے کے لیے اس لگن اور جوش و جذبے کا مظاہرہ نہیں کرتے جس کی ضرورت ہوتی ہے۔ عموماً خواہشات اس قسم کی ہوتی ہیں کہ اتنا پیسا کماناہے، نیا گھر بنانا ہے، فلاں عہدے یا مرتبے تک پہنچنا ہے، کاروبار اتنا پھیلانا ہے، نئی گاڑی لینی ہے وغیرہ وغیرہ۔ لیکن عزم وحوصلے کی کم زوری کے باعث چھوٹی چھوٹی رکاوٹیں بھی بہت بڑی معلوم ہونے لگتی ہیں۔ ایسی صورت میں ضروری ہے کہ چشم تصور سے خود کو اس منزل کا حامل دیکھیے اور کام یابی کے ذایقے کو محسوس کیجیے، یہی وہ لمحہ ہے جو آپ کے اندر پھر سے آگے بڑھنے کی لگن پیدا کرتا ہے، پھر آپ محنت، لگن اورجوش و جذبے سے اپنے مقصد حیات کو پانے کی سعی کرتے ہیں اور بالآخر اس میں کام یاب ہو جاتے ہیں۔
ناکامی کا خوف
جو ناکام ہونے سے خوف زدہ رہتے ہیں، وہ ضرور ناکام ہوتے ہیں کیوں کہ وہ اپنے مقصد کے حصول میںآنے والی رکاوٹوں اور خطرات سے نبردآزما ہونے کا ہنر نہیں جانتے اور ناکامی کا خوف سر پر سوار کر لیتے ہیں۔ مثلاً بعض اوقات ہم اچھی پیش کش ملنے کے باوجود کسی نئی جگہ ملازمت اور پرانی ملازمت چھوڑنے سے گریز کرتے ہیں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ میں اپنی جمی جمائی نوکری چھوڑ کر جائوں اور وہاں بھی مطمئن نہ رہوں، پتا نہیں میں وہاںذمے داریوں کو بہتر طریقے سے انجام دے پاؤں گا یا نہیں۔
اس طرح ہی کوئی نیا کاروبار شروع کرتے ہوئے، تعلیمی میدان میں مضامین کا انتخاب یا پیشہ ورانہ زندگی کے آغاز میں بہت سے نوجوان غیر ضروری اندیشوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔ یہ خوف ایک عارضی سوچ ہے۔ آگے بڑھنے کے لیے اس کے چنگل سے نکل کر زندگی کی حقیقتوں کو تسلیم کرنا ہوگا۔ دنیا میں تمام معاملات ہماری مرضی کے مطابق نہیں ہوتے۔ اسی طرح کام یابی کے ساتھ ساتھ کبھی ناکامی کا بھی سامناکرنا پڑتا ہے۔ لیکن شکست کو فتح میں تبدیل کردینا ہی اصل معرکہ ہے اور یہی کام یابی کا رازہے۔
کام یابی کا خوف
کام یابی کاخوف، ناکامی کے خوف سے زیادہ برے اثرات مرتب کرتا ہے کیوں کہ یہ آپ کے جذبوں، عزائم اور لگن کو کم زور کر دیتا ہے، مثلًا آپ نے بے تحاشا دولت حاصل کی۔ اب اگر منفی سوچیں آپ کو اپنے حصار میں مقید کر لیں، جیسے ''اگر یہ دولت مجھے خوشی نہ دے سکی؟ کوئی حادثہ یا پریشانی سے واسطہ نہ پڑ جائے۔۔۔! مجھے نظر لگ گئی تو؟ خاندان والے مجھ سے جلنے لگیں گے پھر کیا ہوگا۔۔۔؟'' غرض اس قسم کی منفی سوچیں ایک پُرعزم نوجوان کے ارادوںکو بھی کم زور کر دیتی ہیں۔ لہٰذا آپ منفی سوچوں کو مثبت سوچوں سے تبدیل کر دیں۔ مثلاً فیصلہ کرلیں کہ میں خوش ہوں اور خوش رہوں گا۔ چاہے جو بھی مسائل ہوں، ان کو حل کروں گا اور اپنی اس کام یابی سے اپنے حلقہ احباب اور خاندان کی بھی مدد کروں گا۔
غیر حقیقی ٹائم ٹیبل
بیشتر نوجوان اپنے مقصدکے حصول کے لیے غیر حقیقی انداز میں وقت کا تعین کر لیتے ہیں۔ مثلاً ایک ہفتے میں، میں یہ حاصل کرلوںگا اورایک سال میں اس مقام تک پہنچ جاؤںگا۔ لیکن جب ہفتے کا ہدف پورا نہیںہوتا تو ناکام اور مایوس ہوکر ہمت ہار دیتے ہیں۔ جب کہ چھوٹی ناکامی ہی بڑی کام یابی کا زینہ ہوتی ہے۔ حقیقت پسندانہ اندازمیں وقت کی صحیح تقسیم کر کے مقاصد کو حاصل کیا جائے تو کبھی ناکامی نہیں ہوتی اور منصوبہ بندی کرتے وقت ہمیشہ اس میں لچک رکھیں۔ ضروری نہیں کہ آپ کی مقررکردہ مدت میں وہ مقصد حاصل ہوجائے۔ بے شمار عوامل ہوتے ہیں، مثلاً ناسازی طبع، حالات کی خرابی، بجلی کی بندش وغیرہ۔ اس کے علاوہ اگر ہمارا کام کچھ دیگر افراد سے جڑا ہے تو اس کو مدنظر رکھتے ہوئے نظام الاوقات بنائیں، جس کے سبب آپ اپنے مقصد کو مقررہ مدت میں حاصل نہیں کر پاتے۔ لٰہذا پرسکون رہیں، خلوص اور محنت لگن کے ساتھ اپنے مقصد کو حاصل کریں۔
ہمت نہ ہاریں
بعض اوقات ایک عارضی ناکامی سے دل برداشتہ ہو کر ہم ہمت ہار دیتے ہیں اور یوں اپنے مقصد میں کام یابی کے حصول کو ہم خود ناممکن تسلیم کرلیتے ہیں۔ مثلاً کسی شعبہ میں اعلا تعلیم کے حصول کے لیے داخلہ لیتے ہیں۔ ابتدائی ایک دو سمسٹرز میںکام یابی کے بعد جب اگلے سمسٹر کے نتیجے میں، اگر معیار میں کمی واقع ہونے لگے تو عموماً نوجوان دل برداشتہ ہو جاتے ہیں یا ہمت ہار دیتے ہیں۔ تعلیم ادھوری چھوڑ دیتے ہیں یا شعبہ تعلیم تبدیل کر لیتے ہیں۔ یوں وہ نوجوان جو اپنی دل چسپی اوراپنی منزل کے حصول کے لیے اس شعبے میںتعلیم حاصل کر رہا تھا، اس کا وہ خواب ادھورا رہ جاتا ہے۔ لیکن اس کی بہ نسبت جو نوجوان ثابت قدم رہتے ہیں، اپنے ارادوںکو متزلزل نہیں ہونے دیتے اور منزل کے حصول میں آنے والی رکاوٹوں کا جم کر مقابلہ کرتے ہیں، اور ان عارضی ناکامیوں سے گھبرا کر اپنے خوابوں کو ادھورا نہیں رہنے دیتے وہی کام یابی حاصل کر پاتے ہیں۔ دنیاکی بہت سی کام یاب ترین شخصیات نے دل جمعی اور ثابت قدمی سے راہ میں آنے والی ہر رکاوٹ کو عبور کیا اور منزل کی جانب بڑھتے چلے گئے۔
کبھی آپ نے سوچا ایسا کیوں ہے؟ دراصل کام یاب افراد کی زندگی بہت منظم ہوتی ہے اور وہ بہترین منصوبہ بندی کے سبب راہ میںآنے والے مسائل اور رکاوٹوں کو عبور کر کے اپنے مقصد کے حصول میںکام یاب ہو جاتے ہیں، بہ صورت دیگر شاید آج وہ بھی ناکام افراد کی فہرست میں شامل ہوتے۔ ذیل میں ہم ناکامی کے ان عوامل اور ان کے حل کا جائزہ لیتے ہیں۔
جوش وجذبہ ضروری ہے
بیشتر نوجوان جب اپنے مقاصد کا تعین کرتے ہیں تو وہ عموماً اپنے اس مقصد کو پانے کے لیے اس لگن اور جوش و جذبے کا مظاہرہ نہیں کرتے جس کی ضرورت ہوتی ہے۔ عموماً خواہشات اس قسم کی ہوتی ہیں کہ اتنا پیسا کماناہے، نیا گھر بنانا ہے، فلاں عہدے یا مرتبے تک پہنچنا ہے، کاروبار اتنا پھیلانا ہے، نئی گاڑی لینی ہے وغیرہ وغیرہ۔ لیکن عزم وحوصلے کی کم زوری کے باعث چھوٹی چھوٹی رکاوٹیں بھی بہت بڑی معلوم ہونے لگتی ہیں۔ ایسی صورت میں ضروری ہے کہ چشم تصور سے خود کو اس منزل کا حامل دیکھیے اور کام یابی کے ذایقے کو محسوس کیجیے، یہی وہ لمحہ ہے جو آپ کے اندر پھر سے آگے بڑھنے کی لگن پیدا کرتا ہے، پھر آپ محنت، لگن اورجوش و جذبے سے اپنے مقصد حیات کو پانے کی سعی کرتے ہیں اور بالآخر اس میں کام یاب ہو جاتے ہیں۔
ناکامی کا خوف
جو ناکام ہونے سے خوف زدہ رہتے ہیں، وہ ضرور ناکام ہوتے ہیں کیوں کہ وہ اپنے مقصد کے حصول میںآنے والی رکاوٹوں اور خطرات سے نبردآزما ہونے کا ہنر نہیں جانتے اور ناکامی کا خوف سر پر سوار کر لیتے ہیں۔ مثلاً بعض اوقات ہم اچھی پیش کش ملنے کے باوجود کسی نئی جگہ ملازمت اور پرانی ملازمت چھوڑنے سے گریز کرتے ہیں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ میں اپنی جمی جمائی نوکری چھوڑ کر جائوں اور وہاں بھی مطمئن نہ رہوں، پتا نہیں میں وہاںذمے داریوں کو بہتر طریقے سے انجام دے پاؤں گا یا نہیں۔
اس طرح ہی کوئی نیا کاروبار شروع کرتے ہوئے، تعلیمی میدان میں مضامین کا انتخاب یا پیشہ ورانہ زندگی کے آغاز میں بہت سے نوجوان غیر ضروری اندیشوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔ یہ خوف ایک عارضی سوچ ہے۔ آگے بڑھنے کے لیے اس کے چنگل سے نکل کر زندگی کی حقیقتوں کو تسلیم کرنا ہوگا۔ دنیا میں تمام معاملات ہماری مرضی کے مطابق نہیں ہوتے۔ اسی طرح کام یابی کے ساتھ ساتھ کبھی ناکامی کا بھی سامناکرنا پڑتا ہے۔ لیکن شکست کو فتح میں تبدیل کردینا ہی اصل معرکہ ہے اور یہی کام یابی کا رازہے۔
کام یابی کا خوف
کام یابی کاخوف، ناکامی کے خوف سے زیادہ برے اثرات مرتب کرتا ہے کیوں کہ یہ آپ کے جذبوں، عزائم اور لگن کو کم زور کر دیتا ہے، مثلًا آپ نے بے تحاشا دولت حاصل کی۔ اب اگر منفی سوچیں آپ کو اپنے حصار میں مقید کر لیں، جیسے ''اگر یہ دولت مجھے خوشی نہ دے سکی؟ کوئی حادثہ یا پریشانی سے واسطہ نہ پڑ جائے۔۔۔! مجھے نظر لگ گئی تو؟ خاندان والے مجھ سے جلنے لگیں گے پھر کیا ہوگا۔۔۔؟'' غرض اس قسم کی منفی سوچیں ایک پُرعزم نوجوان کے ارادوںکو بھی کم زور کر دیتی ہیں۔ لہٰذا آپ منفی سوچوں کو مثبت سوچوں سے تبدیل کر دیں۔ مثلاً فیصلہ کرلیں کہ میں خوش ہوں اور خوش رہوں گا۔ چاہے جو بھی مسائل ہوں، ان کو حل کروں گا اور اپنی اس کام یابی سے اپنے حلقہ احباب اور خاندان کی بھی مدد کروں گا۔
غیر حقیقی ٹائم ٹیبل
بیشتر نوجوان اپنے مقصدکے حصول کے لیے غیر حقیقی انداز میں وقت کا تعین کر لیتے ہیں۔ مثلاً ایک ہفتے میں، میں یہ حاصل کرلوںگا اورایک سال میں اس مقام تک پہنچ جاؤںگا۔ لیکن جب ہفتے کا ہدف پورا نہیںہوتا تو ناکام اور مایوس ہوکر ہمت ہار دیتے ہیں۔ جب کہ چھوٹی ناکامی ہی بڑی کام یابی کا زینہ ہوتی ہے۔ حقیقت پسندانہ اندازمیں وقت کی صحیح تقسیم کر کے مقاصد کو حاصل کیا جائے تو کبھی ناکامی نہیں ہوتی اور منصوبہ بندی کرتے وقت ہمیشہ اس میں لچک رکھیں۔ ضروری نہیں کہ آپ کی مقررکردہ مدت میں وہ مقصد حاصل ہوجائے۔ بے شمار عوامل ہوتے ہیں، مثلاً ناسازی طبع، حالات کی خرابی، بجلی کی بندش وغیرہ۔ اس کے علاوہ اگر ہمارا کام کچھ دیگر افراد سے جڑا ہے تو اس کو مدنظر رکھتے ہوئے نظام الاوقات بنائیں، جس کے سبب آپ اپنے مقصد کو مقررہ مدت میں حاصل نہیں کر پاتے۔ لٰہذا پرسکون رہیں، خلوص اور محنت لگن کے ساتھ اپنے مقصد کو حاصل کریں۔
ہمت نہ ہاریں
بعض اوقات ایک عارضی ناکامی سے دل برداشتہ ہو کر ہم ہمت ہار دیتے ہیں اور یوں اپنے مقصد میں کام یابی کے حصول کو ہم خود ناممکن تسلیم کرلیتے ہیں۔ مثلاً کسی شعبہ میں اعلا تعلیم کے حصول کے لیے داخلہ لیتے ہیں۔ ابتدائی ایک دو سمسٹرز میںکام یابی کے بعد جب اگلے سمسٹر کے نتیجے میں، اگر معیار میں کمی واقع ہونے لگے تو عموماً نوجوان دل برداشتہ ہو جاتے ہیں یا ہمت ہار دیتے ہیں۔ تعلیم ادھوری چھوڑ دیتے ہیں یا شعبہ تعلیم تبدیل کر لیتے ہیں۔ یوں وہ نوجوان جو اپنی دل چسپی اوراپنی منزل کے حصول کے لیے اس شعبے میںتعلیم حاصل کر رہا تھا، اس کا وہ خواب ادھورا رہ جاتا ہے۔ لیکن اس کی بہ نسبت جو نوجوان ثابت قدم رہتے ہیں، اپنے ارادوںکو متزلزل نہیں ہونے دیتے اور منزل کے حصول میں آنے والی رکاوٹوں کا جم کر مقابلہ کرتے ہیں، اور ان عارضی ناکامیوں سے گھبرا کر اپنے خوابوں کو ادھورا نہیں رہنے دیتے وہی کام یابی حاصل کر پاتے ہیں۔ دنیاکی بہت سی کام یاب ترین شخصیات نے دل جمعی اور ثابت قدمی سے راہ میں آنے والی ہر رکاوٹ کو عبور کیا اور منزل کی جانب بڑھتے چلے گئے۔