ملازمت کی محتاجی کیوں

ہمارے ملک کے کروڑوں نوجوان بھی ملک کے روشن مستقبل کی نوید بن کر اس کی ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔


Israil Ishaq Wahgra December 23, 2012
ہمارے ہاں جب ایک طالب علم تعلیم حاصل کر لیتا ہے تو وہ ذہنی طور پر اپنے آپ کو ملازمت کے لئے تیار کر چکا ہوتا ہے۔ فوٹو: فائل

جب کسی معاشرے میں مایوسی اور نا امیدی کا کلچر مستقل جگہ بنا لے، تو ایسے زوال آمادہ ماحول میں بہتری اور اصلاح احوال کی گنجائش کم ہی رہے جاتی ہے۔

نوجوان کسی بھی قوم کا مستقبل اور اس کی امید ہوتے ہیں۔ ہمارے ملک کے کروڑوں نوجوان بھی ملک کے روشن مستقبل کی نوید بن کر اس کی ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ آج کل نوجوانوں کی اکثریت خود اپنے مستقبل کے بارے میں مایوس نظر آتی ہے۔ اس کی بڑی وجہ بڑھتی ہوئی بے روزگاری ہے۔ ہمارے ہاں جب ایک طالب علم تعلیم حاصل کر لیتا ہے تو وہ ذہنی طور پر اپنے آپ کو ملازمت کے لئے تیار کر چکا ہوتا ہے۔

جب اسے حسب توقع روزگار نہیں ملتا تو وہ مایوسی کا شکار ہو کر حالات کے گلے شکوے کرتا نظر آتا ہے۔ یہ ایک کمزور اور کم ہمت شخص کی علامت ہوتی ہے۔ ایک نوجوان کو ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ وہ مشکل سے مشکل حالات کا جواں مردی سے سامنا کرتا ہے اور کبھی ہمت نہیں ہارتا۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر نوجوان ملکی ترقی میں اپنا کردار ادا کرنے کی بجائے خود ہمت ہار کر بیٹھ جائیں گئے تو حالات صحیح رخ پر کیسے گامزن ہوں گئے۔

پہلے تو یہ بات سمجھ لینی چائیے کہ تعلیم کی اپنی اہمیت ہے اور روزگار کی اپنی۔ اچھی اور معیاری تعلیم سے اچھے روزگار کے حصول میں مدد ضرور ملتی ہے، لیکن یہ تعلیم حاصل کرنے کا واحد مقصد نہیں ہوتا اور نہ ہی ہونا چاہیے۔ پھر یہ کہ گریجویشن اور ماسڑز کرنے کے بعد ''تعلیم یافتہ'' نوجوان معمولی ملازمت اور محنت مزدوری کو اپنے لئے باعث عار سمجھنا شروع کر دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر پڑھنے کے باوجود یہ سب کرنا ہے تو پڑھنے کا فائدہ؟ حالانکہ انہیں اس پر غور کرنا چاہیے کہ پڑھنے کے باوجود اگر وہ ایسی سوچ رکھتے ہیں تو ایسے پڑھنے کا کیا فائدہ؟ اکثر نوجوان صرف سرکاری نوکری کرنا چاہتے ہیں، جو کہ ایک پامال سوچ ہے۔1948ء میں ڈھاکہ یونیورسٹی میں طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے قائداعظمؒ نے فرمایا تھا:

'' جب ایک اوسط سطح کا آدمی، بی۔ اے یا ایم اے کر کے سرکاری ملازمت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو وہ اپنی دانست میں یہ سمجھنے لگتا ہے کہ وہ اپنے کیرئیر کی معراج کو پہنچ گیا ہے۔ میں اور آپ سب اس سے اچھی طرح واقف ہیں کہ اس کا کیا نتیجہ نکلا ۔ ہمارا تجربہ بتاتا ہے کہ ایک ٹیکسی ڈرائیور کی نسبت ایک ایم ۔ اے پاس آدمی تھوڑا کماتا ہے۔ بہت سے نام نہاد سرکاری ملازم، معمولی کام کرنے والے آدمیوں کی نسبت، زیادہ تکلیف دہ حالات میں زندگی گزار رہے ہیں۔ اب میں آپ سے چاہتا ہوں کہ اس پامال راستے اور سوچ سے اپنی جان چھڑائیں، خاص طور پر کہ جب ہم ایک آزاد پاکستان میں ہیں، یہ نا ممکن ہے کہ حکومت ہزاروںلوگوں کو نوکریاں دے سکے۔ حکومت صرف ایک مخصوص تعداد میں ملازم بھرتی کر سکتی ہے۔ جبکہ باقی کسی اور کام کیلئے تیار نہیں ہوتے اور غیر مطمئن شخص کی حیثیت سے دوسرے لوگوں کے مقاصد کی تکمیل کے لیے استعمال ہو جاتے ہیں۔''

02

افسوس کی بات ہے کہ نصف صدی سے زیادہ عرصہ گزر جانے کے باوجود سوچ میں تبدیلی نہیں آئی۔ نوجوان کسی پر انحصار کرنے کے بجائے معمولی سرمائے سے اپنے کاروبار کا آغاز کر سکتے ہیں۔ ہم نے اپنی زندگی میں کئی ایسے کامیاب لوگ دیکھے ہیں جنہوں نے بہت چھوٹے درجے سے کام شروع کیا، ایمانداری اور محنت کا دامن نہیں چھوڑا، اور پھر وہ ترقی کی منازل طے کرتے گئے۔ چھوٹے پیمانے پر کاروبار میں کسی دکان یا ریڑھی سے آغاز کیا جا سکتا ہے، جس پر بعد ازاں محنت کر کے اسے کامیاب بنایا جا سکتا ہے۔ ایک دوست جن کا نام سلمان ہے، انہوں نے ایم بی اے کرنے کے بعد ایک نجی بنک میں جاب کر لی۔ تھوڑے ہی عرصے بعد انہیں یہ احساس ہو گیا کہ اس طرح ترقی نہیں کر پاؤں گا، انہوں نے اپنا کاروبار کرنے کا فیصلہ کیا۔ ابتدا میں تو انہوں نے خود ہی کام کیا، مگر جوں جوں کام بڑھتا گیا، وہ ملازم رکھتے گئے، اور یوں ان کے ساتھ کئی اور لوگوں کے روزگار کا بھی بندوبست ہو گیا۔

پاکستان میں ایک بڑی تعداد ان پڑھ لوگوں کی ہے۔ کاروبار نہ ہونا یا پھر ملازمت نہ ملنا، ان لوگوں کے لیے ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ پڑھالکھا طبقہ تو پھر بھی جاب کر کے یا کوئی چھوٹا بڑا کاروبار کر کے زندگی سہل بنا سکتا ہے، مگر ایک ایسا انسان جو کہ ان پڑھ ہے اور اس کے پاس وسائل کی بھی کمی ہے، وہ کیا کرے؟ چھوٹے پیمانے پر کاروبار کا آغاز کر کے ایسے لوگوں کی خدمات سے استفادہ کرتے ہوئے، انہیں با عزت روزگار مہیا کیا جا سکتا ہے۔

جب آپ ایک کاروبار شروع کرتے ہیں اور وہ آپکی محنت کی وجہ سے پروان چڑھتا ہے، تو اس وقت آپکو پڑھے لکھے لوگوں کے ساتھ ساتھ لیبر کی ضرورت بھی ہوتی ہے۔ اس طرح آپ ان لوگوں کیلئے وسیلہ روزگار بن سکتے ہیں۔ اپنے کاروبار میں آپ آزادی سے کام کر کے اپنی صلاحیتوں کا بہتر اظہار کر سکتے ہیں اور اچھے نتائج حاصل کر سکتے ہیں۔ اگر آپ نے معمولی ملازمت پر قناعت کر لی تو جو لوگ آپ کی مدد کے منتظر ہیں، وہ بے روزگار ہو جائیں گے اور آپ بھی ملکی ترقی میں کوئی قابل ذکر کردار ادا نہیں کرسکیں گے۔

جب ملک میں چھوٹے چھوٹے بزنس شروع ہوں گے تو روزگار کے بے شمار مواقع میسر آئیں گے۔ ہمارے ملک میں کئی ایسے بزنس مین موجود ہیں جو کہ اس طرح ہی آگے آئے، انہوں نے چھوٹے پیمانے پر کام شروع کیا اور یوں پھر وہ محنت کرتے گئے اور وہ آج کامیاب لوگوں میں اپنا نام لکھوا چکے ہیں۔ نوجوانوں کو بھی چائیے کہ وہ اس طرف توجہ دیں، تاکہ وہ ملکی ترقی میں قابل قدر کردار ادا کرسکیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں