توہم پرستی کی حقیقت

ہاتھ کی لکیروں میں کب یہ طاقت آگئی کہ انسان کے راستے میں رکاوٹ بننے لگیں؟


Syed Samar Ahmed December 23, 2012
ضعیف الا عتقادی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ فوٹو: فائل

برادرم جہانزیب نے اپنے استاد اسلم کمال کا واقعہ سنایا۔ وہ ایک پائے کے نجومی تھے۔

بتانے لگے، ایک روز میرے پاس دو میاں بیوی آئے۔ دونوں میں جھگڑا چل رہا تھا۔ میں نے دونوں کا ہاتھ دیکھا تو طلاق کی لکیر واضح اور یقینی تھی۔ میں نے ان سے کہا کہ آپ دونوں جو مرضی آئے کر گزریں، آپ دونوں میں طلاق نہیں ہوسکتی۔ دو سال بعد جب ان سے ملاقات ہوئی تو وہ بڑی خوش و خرم زندگی گزار رہے تھے۔ پوچھا، کہنے لگے: جب آپ نے ہمیں بتایا کہ طلاق کسی صورت نہیں ہوسکتی تو ہم نے سوچا کہ جب طلاق نہیں ہونی تو کیوں نہ پھر مل جل کے زندگی گزاری جائے۔ اس دن کے بعد سے ہماری ازدواجی زندگی خوشیوں سے بھر گئی۔

ہمارے معاشرے میں توہم پرستی سرایت کر چکی ہے۔ ہر عمر کے لوگ اس میں گرفتار نظر آتے ہیں۔ کسی زمانے میں بڑی بوڑھی عورتیں اس کا زیادہ شکار ہوتی تھیں۔ اب یہ معاشرے میں اس قدر جڑ پکڑ چکی ہے کہ خواتین، نوجوان، اور عام آدمی، کوئی بھی ان کے اثر سے باہر نہیں رہا۔ اسلامی تعلیمات میں ان کی کوئی گنجائش نہیں۔ ایک پڑھے لکھے اور با شعور معاشرے میں ایسی چیزوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہوتی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ لوگ، خاص طور پر آج کے نوجوان ان چیزوں کی حقیقت کو سمجھیں اور ان کو اپنے قریب بھی مت آنے دیں۔ اقبال نے کہا تھا:

ستارا کیا تیری تقدیر کی خبر دے گا

وہ خود فراخی افلاک میں ہے خوارو زبوں

علم سے محرومی نے جہاں پچھلے دور میں گُل کھلائے، وہاں آج بھی ناسمجھوں کو گودکھلارہی اورحادثے کروا رہی ہے۔ علم اور معلومات دو الگ چیزیں ہیں۔ علم میں شعور اور صحیح غلط کی تمیز شامل ہوتی ہے۔ ضروری نہیں کوئی پی ایچ ڈی عا لم بھی ہو۔ اگر شعور کمزور ہے تو علم کی بنیاد کمزور ہے، جس کا لازمی مطلب ہے کہ خرافات نے کہیں نہ کہیں ذہن میں بسیرا کر رکھا ہے۔ ایک صاحب کا پورا گھرانہ پڑھا لکھا ہے، لیکن منگل کے دن کوئی کام شروع نہیں کرتے کہ منحوس ہوگا۔ کیا یہ عقل مندی کا تقاضا ہے؟رات کو جھاڑو دینا نحس، اور شیشہ دیکھناچہرے پہ جھریاں لانے کا باعث خیال کیا جاتا ہے۔ بدھ والے دن گوشت کا نہ ملنا، دودھ گرنا بد شگون، یورپ میں 13کا عددنحوست کی علامت۔ حالانکہ ان چیزوں کی کوئی حقیقت نہیں۔

03

لوگ گھوڑے کا کھردروازے کے ماتھے پہ لگاتے ہیں کہ نقصانات نہیں ہوں گے۔ نئی گاڑی پہ کالا کپڑا لگایا جاتا ہے یا گندی جوتی لٹکا دی جاتی ہے، نظر نہیں لگے گی۔ بچوں اورخوبصورت خواتین کے چہروں پہ یا کانوں کے پیچھے کالا رنگ یا سرمہ اسی مقصد کی خاطر لگا دیا جاتا ہے۔ بھلا پتھر یا گندے جوتے اورکپڑے میں یہ خاصیت کس نے بتائی؟ یہ سب خام خیالی ہے۔ نظر لگنا ایک حقیقت ہے ۔ اس کی سائنسی توجیہہ بھی سامنے آ چکی ہے۔ آسان الفاظ میں بات کی جائے توجب انسان مثبت یا منفی طور پہ کسی چیز پر یکسو ہوجاتا ہے تو اس کی دماغی طاقتیں بھی اکھٹی ہوکے ایک زبردست چارج پیدا کرتی ہیں۔

جب یہ سارے کا سارا چارج کسی انسان پہ گرتا ہے تو وہ متاثر ہوتا ہے۔ اسے نظر لگنا کہتے ہیں۔ لیکن اس سے بچنے کے طریقے بھی ہر چیز کے خالق کی پناہ میں آجانے کی صورت میں، ہمیں شروع میں بتا دیے گئے تھے۔ رسول ِ خدا ﷺ نے سکھایا کہ اگر نظر لگ جائے تو کیا علاج کیا جائے۔ یقین کے ساتھ بابرکت دعا سکھائی گئی۔ بسم اللہ اللھم اذھب حرھا وبردھا ووصبھا (اللہ کے نام کیساتھ، اے اللہ آپ اس (نظرِبد)کے گرم و سرد اور دکھ درد کو دور کر دیں۔)

ہر قوم کا ایک نظام ِ عقائد ہوتا ہے اور اس کے مطابق ہی اس کے اعمال ترتیب پاتے ہیں۔ علم سے محرومی کے دور میں یہ نظامِ عقائد، اوہام و خرافات (Myths) پر مشتمل تھا۔ آج تک علم سے محروم لوگوں میں یہ فضولیات جڑ پکڑی ہوئی ہیں۔

یہ بظاہر بے حقیقت چیزیں کامیابی کے راستے میں کانٹے چن دیتی ہیں۔ کتنی ہی کامرانیوں سے تہی دامن کر دیتی ہیں۔ انسان کھوکھلے تصورات پر کامیاب زندگی کی کھوکھلی عمارت تعمیر کرنا چاہتا ہے، لیکن دیمک زدہ دیواریں کہاں تک پائدار اور قابل اعتبار ہوسکتی ہیں۔ ہم ذیل میں موجودہ دور میں اور ماضی میں رائج کچھ ایسے توہمات کا مختصرًا جائزہ لیتے ہیں۔

شادی کی توہمات

آٹے کے چراغ پہ چار بتیاں رکھی جاتیں اور آرتا کیا جاتا ( چہرے کے گرد پھرایا جاتا) تاکہ بلائیں دور ہو سکیں۔ اس کے ساتھ لوہے کا ڈنڈا رکھا جاتا تاکہ بھوت پریت اس سے ڈریں اوردولھا پہ آسیب اثر نہ کرے ۔ اسے 'بان بیٹھنا ' کہتے ہیں۔ ایک اور عجیب و غریب چیز 'مروٹ ' کہلاتی ہے۔ اس میں دولھا اور دلھن کے چہروں پر لکیریں کھینچ دی جاتیں ہیں تاکہ نئے سفر کا آغاز اچھا ہوسکے۔ جب دلھن مایوں بیٹھ جائے تو اسے باہر نہیں نکالتے یا لوہے کی کوئی چیز دے کر نکالتے ہیں کہ کہیں کوئی ہوائی چیز اثر نہ کرجائے۔ دلھن گھر میں آئے تو پہلے دروازے میں تیل یا انڈا ڈالا جاتا ہے تا کہ گھر کی زندگی پرسکون رہے۔

صفر کے مہینے سے متعلق توہمات

ہمارے ہاں صفر میں شادی کو تقریباً ممنوع سمجھا جاتا ہے۔ کسی نئے کام کے شروع کرنے میں جھجکا جاتا ہے۔ مردوں کے لیے چنے بانٹے جاتے ہیں تاکہ اس مہینے میں نازل ہونے والی بلائوں سے انہیں محفوظ رکھا جاسکے۔کچھ اپنے برتن توڑتے ہیں۔ یہ سب بے بنیاد توھمات ہیں۔ اس کائنات کے خالق نے کوئی دن، مہینہ اور لمحہ منحوس نہیں بنایا۔ صفر کے مہینے کی کچھ برکتیں ملاحظہ کیجیے۔

٭مجبور اور مظلوم مسلمانوں کو اپنے دفاع میں لڑنے کی اجازت ملی

٭مسلمانوں کی پہلی فتح غزوہِ ابوا اسی ماہ میں ہوئی

٭فتح ِعراق ہوئی

٭اپنے وقت کی سب سے بڑی طاقت ایران پرفتح حاصل ہوئی

٭مسلمانوں کو دوبارہ عروج و بہبود کا دور عمر بن عبدالعزیز کی خلافت کی صورت میں عطا ہوا

٭قراردادِ پاکستان منظور ہوئی

٭پاکستان ایٹمی طاقت بنا

پیدائش پر توہمات

وہمی گھرانوں میں چاند گرہن والی رات حاملہ کی خاص حفاظت کی جاتی ہے۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اگر اس نے سوئی والا کام کیا تو بچہ سوئیوں کے نشان والا چہرہ لے کے پیدا ہوگا۔ اگر کوئی چھری کانٹے والا کام کیا تو بچے کا کوئی عضو کٹا ہوا یا ناقص ہوگا۔ نوزائیدہ بچے کے کپڑے نچوڑے نہیں جاتے کہ اس سے معصوم کے پیٹ میں درد ہوتا ہے۔ اگر لڑکا پیدا ہو تو اسے لڑکیوں جیسے فراک پہنائے جاتے ہیں تا کہ نظر نہ لگ جائے۔

انتقال پر توہمات

اللہ کے نبی ﷺ نے دو چیزوں کو سب سے زیادہ آسان بنایا۔ ایک شادی اور دوسری مرگ ۔ ہم نے انہی دونوں کو عذاب بنا ڈالا۔ ایک عام آدمی کے لیے مرنا اور جینا دونوں عذاب۔ایک دوست بتانے لگے کہ ہمارے گائوں میں قبر پر کانا گاڑا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ قبر پھیلنا یا تنگ ہونا رک جاتی ہے۔ تنگ نظر طبقات میں عدت کے دوران عورت کو بھی گویا دوسرا مردہ بنادیا جاتا ہے۔ اس کے لیے پہننا اوڑھنا ممنوع بنا دیا جاتا ہے ۔

سورج، چاندگرہن

جب بھی چاند کو گرہن لگتا تو قدیم چین کے لوگ اکھٹے مل کے پوری قوت سے شور کرتے۔ ان کا عقیدہ تھا کہ چاند کو ایک بہت بڑا اژدھا کھا رہا ہے۔ ہمارا یہ شور اپنے چاند کو بچانے کی کامیاب کوشش ہے۔ وقت پہ گرہن ختم ہوجاتا۔ یہ لوگ اپنی کامیابی کا جشن مناتے اور اگلی دفعہ پہلے سے زیادہ شور مچاتے۔ سورج اورچاند گرہن کے متعلق عام خیال تھا کہ یہ کسی بڑی شخصیت کی وفات پر وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ یہی زمانہ تھا جس میں دنیا کے نقشے پر اسلام کی عقلی اور انقلابی دعوت ابھری۔ پیغمبر آخر الزماں حضرت محمد ﷺ نے ان توہمات کو ختم کیا۔ آپ ﷺ کے صاحبزادے حضرت ابراہیم انتقال کر گئے۔ اسی دن سورج گرہن ہوا۔ بعض لوگوں نے خیال کیا کہ یہ سب ابراہیم کے غم میں واقع ہوا ہے۔ بات مشہور ہوئی ۔ حضور ﷺ نے لوگوں کو اکھٹا کیا اور خطبہ دیا: ''سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں۔ ان کوگرہن کسی کی موت اور زندگی کی وجہ سے نہیں لگتا۔ پس جب تم اس کو دیکھو تو اللہ کو پکارو، اس کی تکبیر کرو ، سلام بھیجو اور صدقہ کرو۔''

قدیم جہالت

قدیم لوگوں کا خیال تھا کہ طاقت کے سب کام مردکرتا ہے، کماتا ہے، جنگیں لڑتا ہے ۔ جب کہ عورت جسمانی طور پہ کمزور اور نازک ہے ۔ لہذا مرد فائق و برتر اور عورت ذلیل و کم تر ہے۔ وہ جان ہی نہ سکے کہ متوازن ، معتدل اور کامیاب زندگی اندرونی و بیرونی دو میدانوں کے مضبوط ہونے کے باعث وجود میں آتی ہے۔ انسان جسے بلند اور پست سمجھتا ہے، اس کی بلندی اور پستی کے قصے اپنے تصور کو سہارا دینے کے لیے گھڑ ہی لیتا ہے۔ یونانی اوہام (Mythology) میں اسی کا شاخسانہ یہ ٹھہراکہ پرومی تھیس دیوتا نے آسمان سے آگ چرائی اور زمین والوں کو دے دی۔ دیوتائوں کے دیوتا زیوس (Zeus) کویہ بات ناگوار گزری۔ اس نے انتقام لینے کے لیے ایک عورت بنائی اور اسے زمین پہ اتا ر دیا۔

عورت کے متعلق منفی تصورات پھیلائے گئے، بعض پیدا ہوتے ہی قتل کر ڈالتے، میراث کا سوال کہاں؟ حضور ﷺ نے عزت و احترام میں اسے اتنا اٹھایا کہ بعد کے لوگوں کو اس کی خاطر ساری رات پانی لیے کھڑا رہنے کے باعث ولایت عطا کی گئی۔ آپ ﷺ نے فرمایا، مجھے تمہاری دنیا میں دو چیزیں پسند ہیں۔ ایک خوشبو دوسری عورت۔ لوگ تجرد کی زندگی کو اعلی روحانی زندگی سمجھتے۔ آپ ﷺ نے بتایا کہ تقدس الگ تھلگ نہیں، بلکہ گھر بار کے ساتھ رہ کر خدا کی حدود کے اندر رہنے میں ہے۔ محسن ِ انسانیت ﷺ نے مردوں اور عورتوں کے درمیان اس منفی مصنوعی فرق کو ہمیشہ کے لیے دفن کر کے حقیقی ترقی کی تعلیمات عطا کیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم میں سب سے بہتر وہ ہے، جو اپنے گھر والوں کے ساتھ بہتر ہے۔

نیل کا طلسم

مصر فتح ہوا۔ عمرو بن العاصؓ کے سامنے مسئلہ پیش ہوا کہ بودنہ کے مہینے میں ہر گیارہویں رات کو اگر ایک کنواری لڑکی کو سجا سنوار کے نیل کی نذر نہ کر دیا جائے، دریا اس وقت تک بہتا نہیں۔ گورنر مصر نے کہا کہ اسلام کے آنے کے بعد ایسی کوئی ظالمانہ حرکت برداشت نہیں کی جائے گی۔ لوگ اپنے جمے ہوئے تصورات کے مطابق ڈر گئے اور مصر سے ہجرت شروع کی کہ اب کچھ بلائیں نازل ہونا شروع ہو جائیں گی۔ دریا میں پانی نہ آیا۔ بات عمر بن خطابؓ تک پہنچی۔ جواب آیا، تم نے بالکل ٹھیک کیا۔ میرا یہ خط نیل میں ڈال دو۔ خط میں تحریر تھا:

''اے نیل اگر تو خود چلتا ہے تو نہ چل۔ اور اگر تجھے چلانے والا اللہ واحد و قہار ہے تو ہم تجھے اسی خالق کا واسطہ دیتے ہیںتو چل پڑ۔'' دریا اس کے بعد سے آج تک نہ رکا۔ اگر اس بے بنیاد عقیدے کا خاتمہ نہ کیا جاتا تو نہ جانے اب تک نیل پر اور دنیا بھر میں ظلم کی مزید کتنی ہی قسمیں غلط عقائد کی بنیاد پر موجود ہوتیں۔ مظلوم چیختے اور کوئی نہ سنتا کہ یہ ان کے عقیدے کا معاملہ ہوتا۔

اسلامی تعلیمات میں ان سب توہمات کی سختی سے نفی کی گئی ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا، ''جس شخص کو کسی بد شگونی نے کوئی کام کرنے سے روک دیا۔ اس نے یقینا شرک کیا''(البخاری)۔ یعنی اس نے اللہ کے ساتھ حقیر چیزوں کوجوڑا۔ یہ میرا اللہ ہے جو حالات کو سنوارتا ہے اور انسانی اعمال کے باعث بگاڑتاہے۔ یہ معمولی نظر آنے والی باتیں زندگی کو پیچیدگی اور مشکلات سے دوچار کردیتی ہیں، اور ان سے نجات زندگی کو آسانی، سکون اور راحت بخش دیتی ہے۔ کوے کو کیا پتا کہ مہمان نے آناہے۔ دائیں اور بائیں آنکھ کب خوشخبری اور بد خبری کے باعث پھڑکتی ہے۔ ڈکار نظام انہضام یا کسی بیماری کے باعث آتی ہے، یاد کون کرتا ہے؟ ہاتھ کی لکیروں میں کب یہ طاقت آگئی کہ انسان کے راستے میں رکاوٹ بننے لگیں؟ کہا جاتا ہے کہ سکندرِ اعظم کو کسی نے کہا کہ تمہارے ہاتھوں میں فتح کی لکیر نہیں۔ سکندر نے خنجر سے اپنے ہاتھ پر لکیر کھینچی اور دنیا فتح کرنے نکل کھڑا ہوا۔ بقول اقبال:

تقدیر کے پابند نباتات و جمادات

مومن فقط احکامِ الٰہی کا پابند

 

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں