شب پرستوں نے ایک اور چراغ گُل کردیا
بشیر بلور ہر دھماکے کے بعد سب سے پہلے پہنچتے تھے مگر ہفتے کو وہ دھماکے سے پہلے پہنچ گئے تھے۔
حکومت کی جانب سے دہشت گردوں کی کمر توٹ جانے کے دعوے ہم روزانہ سنتے ہیں مگر روزانہ کی بنیاد پر ہم ناخوش گوار واقعات کی خبریں بھی سنتے ہیں۔
خیبرپختون خوا یا فاٹا کا شاید ہی کوئی دن ایسا گذرتا ہو جب یہاں بچے یتیم نہ ہوتے ہوں، عورتیں بیوہ نہ ہوتی ہوں اور بوڑھے والدین بے سہارا نہ ہوتے ہوں۔ ایک ایک واقعے میں دس دس افراد جان سے جاتے ہیں، ٹی وی چینلز پر چند لمحوں کے لیے سرخ پٹیاں اور ہیڈلائنز میں چند روائتی سے الفاظ اور بس۔ اصل میں اس آگ کی حدت کو اس شدت سے محسوس ہی نہیں کیا جا رہا جس کی وہ متقاضی ہے، قوم ''چہ کنم'' کی سی کیفیت سے دوچار ہے۔
مارا مار کرنے والوں کو ''اچھے والے'' اور ''برے والے'' خانوں میں رکھ کر دیکھا جا رہا ہے، سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے اکابر دوٹوک بات کرنے کے بجائے بغلیں جھانکتے اور آئیں بائیں شائیں مارتے ہیں۔ قوم رہ نماؤں کے بے سمت جمگھٹے میں گھری ہوئی ہے، کوئی بھی صاحبِ نظر، نظر نہیں آتا۔ آپ سوچ سکتے ہیں کہ اس آزاد ملک میں ایسا بھی ایک خطہ ہے جہاں سیاست دانوں کا داخلہ ممنوع ہے، انسانوں کے ہجوم کے ہجوم یرغمال ہیں، بستیوں سے یقین رخصت ہے، ناوقت موت کسی بھی وقت ویرانیوں کا میلا لگا سکتی ہے۔
بشیر احمد بلور کے مخالفین یہاں تک کہ ان کے جانی دشمن بھی اس حقیقت سے انکار کی تاب نہیں رکھتے کہ وہ ایک مردِ جری تھے، وہ ہر دھماکے کے بعد سب سے پہلے پہنچتے تھے، صحافی اور سیکیورٹی کا عملہ ان کے اس معمول کو خطرناک قرار دیتا تھا مگر بشیر بلور ہمیشہ یہ نعرہ بلند کرتے ''جو رات قبر میں ہے وہ گھر میں نہیں ہوسکتی'' ان کی اسی ادا پر انہیں ستارۂِ جرات بھی پیش کیا گیا۔ بشیر بلور ہر دھماکے کے بعد سب سے پہلے پہنچتے تھے مگر ہفتے کو وہ دھماکے سے پہلے پہنچ گئے تھے۔
بشیر بلور کچھ مختلف سے سیاست دان تھے، ان کے سینے میں جو دل دھڑکتا تھا اس میں خوف کے لیے کوئی جگہ نہیں تھی۔ انہیں بیس دن قبل بتا دیا گیا تھا کہ ان پر حملے کی منصوبہ بندی کرلی گئی ہے تاہم انہوں نے حلقے کے عوام سے ناتا توڑنے سے صاف انکار کردیا۔ ان پر پشاور ہی کے مختلف مقامات پر تین حملے رابطۂِ عوام مہم کے دوران ہو چکے تھے۔
بشیر بلور بلا کے خطیب تھے، ان کی شعلہ بیانی اے این پی کے کارکنوں میں جوش اور ولولہ پیدا کر دیتی تھی، اسی سٹائل کا نتیجہ تھا کہ وہ حلقہ پی کے تھری سے مسلسل پانچ مرتبہ کام یاب ہوئے۔ وہ اے این پی کے دو مرتبہ صوبائی صدر رہے، کئی مرتبہ صوبائی وزیر رہے اور موجودہ حکومت میں ان کو سینئر وزیر کا عہدہ درجہ حاصل تھا۔ عوام کا خیال تھا کہ ان کو وزیراعلیٰ نام زد کیا جائے گا مگر اسفندیار ولی خان کو کچھ اور منظور تھا لیکن آفرین ہے بشیر بلور کی پارٹی سے وفا پر، کہ انہوں نے جبیں پر بل ڈالے بغیر اس فیصلے کو قبول کیا اور کارکنوں کو بھی ٹھنڈا رکھا۔ صوبائی اسمبلی بعض اوقات مچھلی منڈی بن جاتی یا اپوزیشن کی جانب سے حکومت کی مخالفت میں آواز اٹھتی تو یہ بشیر بلور ہی کی شخصیت تھی کہ جب وہ ایک بار بولنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے تو سب کی بولتی بند ہوجاتی۔
بشیر احمد بلور کی شہادت نے اس بحث میں شدت پیدا کردی ہے کہ کیا ملک میں الیکشن کا انعقاد موجودہ ماحول میں ہوسکے گا؟۔ بشیر بلور کی شہادت کے بعد سیاسی زعماء اس بات پر زیادہ پریشان ہیں کہ اب الیکشن کی تیاریاں کیسے ہوں؟ مبصرین کا خیال ہے کہ خدانخواستہ آنے والے دنوں میں اس قسم کے مزید چند ایک بڑے واقعات ہوئے تو الیکشن کے التواء کی خواہش رکھنے والوں کی آواز میں شدت آسکتی ہے۔ یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ بشیر بلور کی شہادت کا واقعہ ملک کی سیاسی صورت حال کو یک سر تبدیل کرنے کا موجب بھی بن سکتا ہے۔
زندگی کا سفر
بشیر احمد بلور یکم اگست 1943 کو پشاور کے معروف کاروباری شخصیت بلور دین کے ہاں پیدا ہوئے جن کے آبائو اجداد نے باجوڑ ایجنسی کی تحصیل ماموند کے علاقے کٹکوٹ سے پشاور منتقل ہوکر یہاں کاروبار شروع کیا تھا۔ ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد انہوں نے ایڈورڈز کالج پشاور سے بی اے کیا جس کے بعد انہوں نے پشاور یونی ورسٹی سے ایل ایل بی کی ڈگری لی، وہ اب بھی پشاور ہائی کورٹ بار کے ممبر تھے ۔
بشیر بلور 1969 میں رشتۂِ ازدواج میں بندھے، 1970 میں ہارون بلور اور 1971 میں عثمان بلور کی ولادت ہوئی ۔ اگرچہ ان کے والد پہلے ہی باچا خان کی خدائی خدمت گار تحریک سے وابستہ تھے تاہم 1970 میں ان کا خاندان باقاعدہ طور پر موجودہ اے این پی میں شامل ہوا جو اس زمانے میں نیپ کہلاتی تھی۔ 1975 کو بشیر بلور سمیت چاروں بھائیوں کو پابند سلاسل کردیا گیا جب کہ بلور ہائوس پر ایف سی نے قبضہ کرلیا اور ان کا سٹور بھی لوٹ لیا گیا۔ بشیر بلور 1976 میں پہلی مرتبہ پارٹی کے صوبائی نائب صدر بنائے گئے، 1977 میں ان کو صوبائی جنرل سیکرٹری کا عہدہ دیا گیا1979 میں جب افضل خان لالا نے پارٹی کو خیرباد کہا تو بشیر احمد بلور پہلی مرتبہ اے این پی کے صوبائی صدر منتخب کیے گئے۔ اس کے بعد بیگم نسیم ولی خان صوبائی صدر بنیں تو بشیر بلور نے ان کے ساتھ سینئر نائب صدر کے عہدے پر خدمات انجام دیں۔
2002 میں جب بیگم نسیم ولی خان نے استعفیٰ دیا تو ان کو ایک بار پھر صوبائی صدر منتخب کیا گیا اور یوں وہ چار سال تک اس عہدے پر رہے۔ بشیر بلور نے اپنے بڑے بھائی حاجی غلام احمد بلور کے ہمراہ 1988 میں پہلی مرتبہ انتخابات میں حصہ لیا لیکن پی پی پی کے ایوب شاہ کے مقابلے میں اپنا پہلا انتخابی معرکہ ہار گئے۔ 1990 کے انتخابات میں حلقہ پی کے تھری جو نئی حلقہ بندیوں سے قبل پی ایف ون کہلاتا تھا، سے حصہ لیا اور کام یابی حاصل کی، اسی طرح 1993اور 1997 کے انتخابات میں بھی عوام نے ان کو بھرپور پذیرائی بخشی۔ 2008 کے انتخابات میں پی کے تھری کے عوام نے مسلسل پانچویں مرتبہ کام یابی کا تاج ان کے سر پر سجایا۔
جب اے این پی اور پی پی پی کی اتحادی حکومت بنی تو انہیں صوبے کا سینیئر وزیر بنایا گیا۔ اس سے قبل بھی بشیر بلور 1990 میں سی اینڈ ڈبلیو، 1993ء میں ہائوسنگ و پلاننگ اور 1997ء میں ایریگیشن اینڈ پبلک ہیلتھ انجنئیرنگ کے صوبائی وزیر رہے۔ ان کی شادی پشاورکی ممتاز شخصیت گل محمد کی صاحب زادی سے ہوئی تھی اور ان کے دو صاحب زادے اور تین صاحب زادیاں ہیں۔ان کے بیٹوں میں ہارون بلور پشاور میں ٹائون ون کے ناظم رہ چکے ہیں جب کہ دوسرے بیٹے عثمان بلور جو بزنس مین ہیں، وہ بھی پشاور میں این اے ون سے الیکشن لڑ چکے ہیں۔ ان کے دونوں صاحب زادے اپنے والد کی طرح حلقے میں انتہائی مقبول ہیں۔ بشیر احمد بلور نے اپنی زندگی کے دوران کئی ممالک کا دورہ کیا۔
غلام احمد بلور بھی ٹارگٹ پر تھے مگر۔۔۔۔
بشیر احمد بلور پر ہونے والے خودکش حملے کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان نے قبول کرتے ہوئے کہا ہے کہ حاجی غلام احمد بلور بھی ہمارے ٹارگٹ پر تھے اور ہم چاہتے تو انہیں بھی نشانہ بناسکتے تھے مگر چوں کہ ہماری اعلیٰ قیادت نے ان کے لیے گستاخانہ فلم بنانے والے ملعون کے سر کی قیمت مقرر کرنے پر عام معافی کا اعلان کیا تھا اس لئے ان کو نشانہ نہیں بنایا گیا۔ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان احسان اللہ احسان نے نامعلوم مقام سے میڈیا کے نمائندوں کو بتایا کہ خودکش حملہ آور اے این پی کی تقریب کے آغاز سے ہی موجود تھا۔ ہمیں یہ بھی علم تھا کہ اس تقریب میں وفاقی وزیر ریلوے حاجی غلام احمد بلور بھی موجود ہیں مگر ان کی روانگی کا انتظار کیا گیا۔ ترجمان کے مطابق عوامی نیشنل پارٹی پاکستان کے موجودہ سیکولر نظام کا حصہ ہے اور اس نظام سے وابستہ تمام افراد کو نشانہ بنایا جائیگا۔
اے این پی چوں کہ صوبے کی ایک بڑی جماعت ہے اور اس نے 2008ء کے الیکشن میں اتحادی جماعت پی پی پی کے ساتھ واضح اکثریت بھی حاصل کر رکھی تھی تاہم اب اس کے لیے مشکلات میں اضافے کے ساتھ نئی حکمت عملی کے ساتھ میدان میں اترنا پڑے گا کیوں کہ معروضی حالات میں عوامی نیشنل پارٹی کے لیے انتخابی مہم جاری رکھنا جان جوکھوں میں ڈالنے کے مترادف ہوگا۔ اگرچہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں خیبرپختون خوا سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے اور دیگر سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں اے این پی کو کافی نقصان اٹھانا پڑا ہے کیوں کہ اس غیر اعلانیہ جنگ میں عوامی نیشنل پارٹی کے اہم عہدے داروں سمیت پانچ سو کے لگ بھگ کارکنوں نے قربانیاں دی ہیں جس میں اے این پی کے تین ایم پی ایز سوات سے شمشیر خان، پشاور سے حاجی عالم زیب خان اور اب بشیر بلور بھی شامل ہوگئے ہیں۔ اے این پی اب آئندہ کے لیے کیا لائحہ عمل بنائے گی؟ قبل از وقت کچھ نہیں کہا جاسکتا تاہم اے این پی کے سربراہ اسفندیار ولی خان کا کہنا ہے کہ بشیر بلور شہید کے سوئم کے بعد اے این پی اپنے لائحہ عمل کا اعلان کرے گی۔
بلور خاندان کا ملکی اور صوبے کی سیاست میں کلیدی کردار رہا ہے۔ بلور برادران کی اپنے حلقوں سے مسلسل کامیابی اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ وہ اپنے حلقے کے لوگوں کے نہایت قریب رہنے والے سیاست دان ہیں۔ اپنے ہر ووٹر کے مسائل سے آگاہ بلور برادران کے مخالفین کو الیکشن میں سوبار سوچ کر ان کے مقابلے میں اترنا پڑتا ہے تاہم بازی ہمیشہ بلور برادران ہی کی رہی ہے۔ بلور برادران کو سیاست کے علاوہ ہر مکتبۂِ فکر کے لوگوں میں مقبولیت حاصل تھی، ولی خان خاندان کے علاوہ ان کے قومی سطح کے دیگر سیاسی لیڈرز جن میں نوازشریف سرفہرست ہیں، کے ساتھ خصوصی مراسم ہیں۔ بلور برادران نے اپنے حلقے پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا اور ہر قسم کی قربانی دیتے رہے۔ پندرہ سال قبل بھی حاجی غلام احمد بلور کے اکلوتے صاحب زادے شبیر احمد بلور کی شہادت کی صورت میں بلور خاندان کو بڑے صدمے سے دوچار ہونا پڑا تھا۔
عثمان بلور کے لہجے میں والد کے لہجے کی جھلک
شہید بشیر احمد بلور کے صاحب زادے سابق صدر خیبرپختونخوا چیمبر آف کامرس عثمان بشیر بلور نے اپنے والد کی جدائی کے بعد بالکل ان ہی کے لہجے میں کہا کہ دہشت گردوں کے پاس گولیاں اور بم ختم ہوجائیں گے مگر ہمارے سینے ختم نہیں ہوںگے، والد کی شہادت کے بعد دہشت گردوں کے خلاف ہمارا عزم متزلزل نہیں ہوا بل کہ اب ہم اور بھی شدت سے دہشت گردوں کے خلاف لڑیں گے۔
انہوں نے کہا کہ خدا کا واسطہ ہے اب سب سیاست دان دہشت گردوں کے خلاف یک سو ہو جائیں آج ہمارے والد شہید ہوئے کل ان کے بچے شہید ہوسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان کے والد جیسے نڈر لیڈر پاکستان میں خال خال ہیں۔
گلستان کہ مے پہ وینو تازہ کے گی
ہر ازغے دے ھم زما پہ زڑہ کے مات شی
(گلستان اگر میرے لہو سے سرخ رو ہو سکتا ہے
(تو) اس کا ہر خار میرے دل میں اتار دو)
شہید بشیر بلور نے اپنے کہے ہوئے الفاظ کو سچ کر دکھایا کہ ''د گور شپہ پہ کور نہ شی کیدے'' یعنی قبر کی مقرر کردہ رات گھر میں نہیں گذاری جاسکتی۔ بشیر احمد بلور کردار کے غازی تھے کیوں کہ ان کی شہادت کی آرزو بھی پوری ہوگئی اور انہوں نے یہ بھی سچ کر دکھایا کہ دہشت گردوں کو شکست دیں گے'' چاہے ہماری جان چلی جائے''۔ بشیر احمد بلور دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے اور جام شہادت نوش کرنے والے دوسروں کے لیے استعارہ بن چکے ہیں کہ کس طرح وطن کی مٹی پر قربان ہوا جاسکتا ہے، کیوں کہ یہ دھرتی، یہ سرزمین ہمارے آبا و اجداد کی بیش بہا قربانیوں کے طفیل آزاد ہوئی ہے اور اس کو قائم و دائم رکھنے کے لیے بشیر احمد بلور جیسے نڈر، بے باک اور ہر مشکل کا جوان مردی سے مقابلہ کرنے والی ہستیاں موجود ہیں۔
بشیر بلور نڈر انسان تھے، حاجی غلام بلور
وفاقی وزیر ریلوے حاجی غلام احمد بلور نے کہا ہے کہ بشیر بلور اکثر کہا کرتے تھے کہ گھر میں بستر پر مرنے سے بہادروں کی طرح مرنے کا مزہ ہی اور ہے، ان کی خواہش کے مطابق ان کو اللہ تعالیٰ نے بہادروں کی طرح شہادت نصیب کی۔ غلام بلور نے کہا کہ ان کی آدھی کمر ان کے بیٹے کے مرنے سے ٹوٹی تھی اور آدھی کمر اب بھائی کے مرنے سے ٹوٹ گئی ہے لیکن جب مجھے بشیر بلور کی شیروں جیسی بہادری سامنے کھڑی نظر آتی ہے تو ہماری ہمت بندھ جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم اللہ تعالیٰ کی رضا میں راضی ہیں کیوں کہ اس کی جانب سے بشیر بلور کی موت کا یہ وقت مقرر تھا انہوں نے کہا کہ اس موقع پر پارٹی کارکن حوصلہ بھی رکھیں اور صبر کا دامن بھی ہاتھ سے نہ چھوڑیں کیوںکہ جو جنگ ہم لڑرہے ہیں وہ ہم نے جیتنی ہے اور ہم نے دہشت گردوں پر یہ ثابت کرنا ہے کہ ہم جھکنے والے نہیں۔
میاں افتخار حسین بیٹے سے زیادہ بشیر بلور کی جدائی پر مغموم دکھائی دیے
خیبر پختونخوا کے وزیراطلاعات میاں افتخار حسین اور بشیر بلور شہید کا چولی دامن کا ساتھ تھا، دونوں کا یہ وتیرا رہا کہ ہر دھماکے کے بعد جائے وقوعہ پہنچ جایا کرتے تھے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنا اکلوتا بیٹا میاں راشد حسین شہید کھونے کے بعد میاں افتخار حسین کے عزم اور استقلال میں ذرہ برابر بھی کمی نہیں آئی۔ میاں افتخار حسین شاید اپنے اکلوتے بیٹے کی شہادت پر اتنا نہیں روئے ہوں گے جتنا وہ بشیر بلور کی جدائی پر مغموم ہیں۔ میاں افتخار حسین کا کہنا ہے کہ بشیر احمد بلور ایک نڈر، بے باک اور بہادر سیاسی لیڈر تھے جنہوں نے دہشت گردی کا سینہ تان کا مقابلہ کیا اور اس دھرتی کے امن اور قوم کے بہتر مستقبل کے عظیم مقصد کے لیے قربانی دی ہم ان کی اس عظیم قربانی کو سلام پیش کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ شہید کی قربانی رائیگاں نہیں جائے گی اور اے این پی کے کارکن اور باچا خان کے سپاہی اس مقصد کیلئے آخر دم تک لڑتے رہیں گے جس مقصد کیلئے بشیر احمد بلور نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا انہوں نے کہا کہ ہم ڈرنے والے ہر گز نہیں ہم اپنے خون کا آخری قطرہ تک بہادیں گے مگر دہشت گردوں کے سامنے جھکیں گے نہ ان کو مذموم مقاصد میں کام یاب ہونے دیں گے۔
انہوں نے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ افغانستان، پاکستان اور امریکا مل کر خلوص اور ایمانداری کے ساتھ اپنے مفادات کو پس پشت ڈالتے ہوئے یا تو ان عناصر کے ساتھ مذاکرات کریں اور اگر ایسا ممکن نہیں تو ان عناصر کے خلاف موثر کارروائی کی جائے ورنہ اس دہشت گردی سے کوئی بندہ اور کوئی جگہ بھی محفوظ نہیں رہے گا کسی کو اس خوش فہمی میں نہیں رہنا چاہئے کہ یہ صرف قبائلی علاقوں یا خیبر پختون خوا کا مسئلہ ہے اگر اس کو نہ روکا گیا تو یہ جنگ مزید پھیلے گی اس موقع پر صوبائی وزیر نے پارٹی کارکنوں کو تلقین کی کہ وہ مشکل مرحلے میں صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں۔
علم کی روشنی ہی سے دہشت گردی کو شکست دی جاسکتی ہے، بشیر بلورکا آخری خطاب
بشیر بلور شہید نے شہادت سے کچھ دیر قبل زندگی کے آخری خطاب میں تعلیم کے فروغ پر زور دیا اور کہا کہ صرف علم کی روشنی ہی سے ہم دہشت گردی کو شکست دے سکتے ہیں' ڈھکی منور شاہ میں عوامی نیشنل پارٹی کی ایک شمولیتی تقریب سے خطاب میں بشیراحمدبلورشہید نے کہا کہ تعلیم خیبر پختونخوا حکومت کی اولین ترجیح رہی ہے اور ہم نے ساڑھے چار سالہ دور میں 13یونی ورسٹیاں اور ان کے کیمپسز قائم کرکے اس ضمن میں ریکارڈ کام کیا انہوں نے کہا کہ تعلیم کے بغیر ہمارا ترقی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتااس موقع پر انہوں نے ملالہ یوسفزئی کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ ملالہ نے علم پھیلانے کی بات کی جس پر اسے مارنے کی کوشش کی گئی۔ اس موقع پر صوبائی حکومت کے مختلف منصوبوں بھی ذکر کیا۔ بشیر بلورکی تقریر کے دوران عوامی نیشنل پارٹی کے جوشیلے کارکن وقفے وقفے سے نعرہ بازی بھی کرتے رہے۔
خیبرپختون خوا یا فاٹا کا شاید ہی کوئی دن ایسا گذرتا ہو جب یہاں بچے یتیم نہ ہوتے ہوں، عورتیں بیوہ نہ ہوتی ہوں اور بوڑھے والدین بے سہارا نہ ہوتے ہوں۔ ایک ایک واقعے میں دس دس افراد جان سے جاتے ہیں، ٹی وی چینلز پر چند لمحوں کے لیے سرخ پٹیاں اور ہیڈلائنز میں چند روائتی سے الفاظ اور بس۔ اصل میں اس آگ کی حدت کو اس شدت سے محسوس ہی نہیں کیا جا رہا جس کی وہ متقاضی ہے، قوم ''چہ کنم'' کی سی کیفیت سے دوچار ہے۔
مارا مار کرنے والوں کو ''اچھے والے'' اور ''برے والے'' خانوں میں رکھ کر دیکھا جا رہا ہے، سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے اکابر دوٹوک بات کرنے کے بجائے بغلیں جھانکتے اور آئیں بائیں شائیں مارتے ہیں۔ قوم رہ نماؤں کے بے سمت جمگھٹے میں گھری ہوئی ہے، کوئی بھی صاحبِ نظر، نظر نہیں آتا۔ آپ سوچ سکتے ہیں کہ اس آزاد ملک میں ایسا بھی ایک خطہ ہے جہاں سیاست دانوں کا داخلہ ممنوع ہے، انسانوں کے ہجوم کے ہجوم یرغمال ہیں، بستیوں سے یقین رخصت ہے، ناوقت موت کسی بھی وقت ویرانیوں کا میلا لگا سکتی ہے۔
بشیر احمد بلور کے مخالفین یہاں تک کہ ان کے جانی دشمن بھی اس حقیقت سے انکار کی تاب نہیں رکھتے کہ وہ ایک مردِ جری تھے، وہ ہر دھماکے کے بعد سب سے پہلے پہنچتے تھے، صحافی اور سیکیورٹی کا عملہ ان کے اس معمول کو خطرناک قرار دیتا تھا مگر بشیر بلور ہمیشہ یہ نعرہ بلند کرتے ''جو رات قبر میں ہے وہ گھر میں نہیں ہوسکتی'' ان کی اسی ادا پر انہیں ستارۂِ جرات بھی پیش کیا گیا۔ بشیر بلور ہر دھماکے کے بعد سب سے پہلے پہنچتے تھے مگر ہفتے کو وہ دھماکے سے پہلے پہنچ گئے تھے۔
بشیر بلور کچھ مختلف سے سیاست دان تھے، ان کے سینے میں جو دل دھڑکتا تھا اس میں خوف کے لیے کوئی جگہ نہیں تھی۔ انہیں بیس دن قبل بتا دیا گیا تھا کہ ان پر حملے کی منصوبہ بندی کرلی گئی ہے تاہم انہوں نے حلقے کے عوام سے ناتا توڑنے سے صاف انکار کردیا۔ ان پر پشاور ہی کے مختلف مقامات پر تین حملے رابطۂِ عوام مہم کے دوران ہو چکے تھے۔
بشیر بلور بلا کے خطیب تھے، ان کی شعلہ بیانی اے این پی کے کارکنوں میں جوش اور ولولہ پیدا کر دیتی تھی، اسی سٹائل کا نتیجہ تھا کہ وہ حلقہ پی کے تھری سے مسلسل پانچ مرتبہ کام یاب ہوئے۔ وہ اے این پی کے دو مرتبہ صوبائی صدر رہے، کئی مرتبہ صوبائی وزیر رہے اور موجودہ حکومت میں ان کو سینئر وزیر کا عہدہ درجہ حاصل تھا۔ عوام کا خیال تھا کہ ان کو وزیراعلیٰ نام زد کیا جائے گا مگر اسفندیار ولی خان کو کچھ اور منظور تھا لیکن آفرین ہے بشیر بلور کی پارٹی سے وفا پر، کہ انہوں نے جبیں پر بل ڈالے بغیر اس فیصلے کو قبول کیا اور کارکنوں کو بھی ٹھنڈا رکھا۔ صوبائی اسمبلی بعض اوقات مچھلی منڈی بن جاتی یا اپوزیشن کی جانب سے حکومت کی مخالفت میں آواز اٹھتی تو یہ بشیر بلور ہی کی شخصیت تھی کہ جب وہ ایک بار بولنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے تو سب کی بولتی بند ہوجاتی۔
بشیر احمد بلور کی شہادت نے اس بحث میں شدت پیدا کردی ہے کہ کیا ملک میں الیکشن کا انعقاد موجودہ ماحول میں ہوسکے گا؟۔ بشیر بلور کی شہادت کے بعد سیاسی زعماء اس بات پر زیادہ پریشان ہیں کہ اب الیکشن کی تیاریاں کیسے ہوں؟ مبصرین کا خیال ہے کہ خدانخواستہ آنے والے دنوں میں اس قسم کے مزید چند ایک بڑے واقعات ہوئے تو الیکشن کے التواء کی خواہش رکھنے والوں کی آواز میں شدت آسکتی ہے۔ یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ بشیر بلور کی شہادت کا واقعہ ملک کی سیاسی صورت حال کو یک سر تبدیل کرنے کا موجب بھی بن سکتا ہے۔
زندگی کا سفر
بشیر احمد بلور یکم اگست 1943 کو پشاور کے معروف کاروباری شخصیت بلور دین کے ہاں پیدا ہوئے جن کے آبائو اجداد نے باجوڑ ایجنسی کی تحصیل ماموند کے علاقے کٹکوٹ سے پشاور منتقل ہوکر یہاں کاروبار شروع کیا تھا۔ ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد انہوں نے ایڈورڈز کالج پشاور سے بی اے کیا جس کے بعد انہوں نے پشاور یونی ورسٹی سے ایل ایل بی کی ڈگری لی، وہ اب بھی پشاور ہائی کورٹ بار کے ممبر تھے ۔
بشیر بلور 1969 میں رشتۂِ ازدواج میں بندھے، 1970 میں ہارون بلور اور 1971 میں عثمان بلور کی ولادت ہوئی ۔ اگرچہ ان کے والد پہلے ہی باچا خان کی خدائی خدمت گار تحریک سے وابستہ تھے تاہم 1970 میں ان کا خاندان باقاعدہ طور پر موجودہ اے این پی میں شامل ہوا جو اس زمانے میں نیپ کہلاتی تھی۔ 1975 کو بشیر بلور سمیت چاروں بھائیوں کو پابند سلاسل کردیا گیا جب کہ بلور ہائوس پر ایف سی نے قبضہ کرلیا اور ان کا سٹور بھی لوٹ لیا گیا۔ بشیر بلور 1976 میں پہلی مرتبہ پارٹی کے صوبائی نائب صدر بنائے گئے، 1977 میں ان کو صوبائی جنرل سیکرٹری کا عہدہ دیا گیا1979 میں جب افضل خان لالا نے پارٹی کو خیرباد کہا تو بشیر احمد بلور پہلی مرتبہ اے این پی کے صوبائی صدر منتخب کیے گئے۔ اس کے بعد بیگم نسیم ولی خان صوبائی صدر بنیں تو بشیر بلور نے ان کے ساتھ سینئر نائب صدر کے عہدے پر خدمات انجام دیں۔
2002 میں جب بیگم نسیم ولی خان نے استعفیٰ دیا تو ان کو ایک بار پھر صوبائی صدر منتخب کیا گیا اور یوں وہ چار سال تک اس عہدے پر رہے۔ بشیر بلور نے اپنے بڑے بھائی حاجی غلام احمد بلور کے ہمراہ 1988 میں پہلی مرتبہ انتخابات میں حصہ لیا لیکن پی پی پی کے ایوب شاہ کے مقابلے میں اپنا پہلا انتخابی معرکہ ہار گئے۔ 1990 کے انتخابات میں حلقہ پی کے تھری جو نئی حلقہ بندیوں سے قبل پی ایف ون کہلاتا تھا، سے حصہ لیا اور کام یابی حاصل کی، اسی طرح 1993اور 1997 کے انتخابات میں بھی عوام نے ان کو بھرپور پذیرائی بخشی۔ 2008 کے انتخابات میں پی کے تھری کے عوام نے مسلسل پانچویں مرتبہ کام یابی کا تاج ان کے سر پر سجایا۔
جب اے این پی اور پی پی پی کی اتحادی حکومت بنی تو انہیں صوبے کا سینیئر وزیر بنایا گیا۔ اس سے قبل بھی بشیر بلور 1990 میں سی اینڈ ڈبلیو، 1993ء میں ہائوسنگ و پلاننگ اور 1997ء میں ایریگیشن اینڈ پبلک ہیلتھ انجنئیرنگ کے صوبائی وزیر رہے۔ ان کی شادی پشاورکی ممتاز شخصیت گل محمد کی صاحب زادی سے ہوئی تھی اور ان کے دو صاحب زادے اور تین صاحب زادیاں ہیں۔ان کے بیٹوں میں ہارون بلور پشاور میں ٹائون ون کے ناظم رہ چکے ہیں جب کہ دوسرے بیٹے عثمان بلور جو بزنس مین ہیں، وہ بھی پشاور میں این اے ون سے الیکشن لڑ چکے ہیں۔ ان کے دونوں صاحب زادے اپنے والد کی طرح حلقے میں انتہائی مقبول ہیں۔ بشیر احمد بلور نے اپنی زندگی کے دوران کئی ممالک کا دورہ کیا۔
غلام احمد بلور بھی ٹارگٹ پر تھے مگر۔۔۔۔
بشیر احمد بلور پر ہونے والے خودکش حملے کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان نے قبول کرتے ہوئے کہا ہے کہ حاجی غلام احمد بلور بھی ہمارے ٹارگٹ پر تھے اور ہم چاہتے تو انہیں بھی نشانہ بناسکتے تھے مگر چوں کہ ہماری اعلیٰ قیادت نے ان کے لیے گستاخانہ فلم بنانے والے ملعون کے سر کی قیمت مقرر کرنے پر عام معافی کا اعلان کیا تھا اس لئے ان کو نشانہ نہیں بنایا گیا۔ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان احسان اللہ احسان نے نامعلوم مقام سے میڈیا کے نمائندوں کو بتایا کہ خودکش حملہ آور اے این پی کی تقریب کے آغاز سے ہی موجود تھا۔ ہمیں یہ بھی علم تھا کہ اس تقریب میں وفاقی وزیر ریلوے حاجی غلام احمد بلور بھی موجود ہیں مگر ان کی روانگی کا انتظار کیا گیا۔ ترجمان کے مطابق عوامی نیشنل پارٹی پاکستان کے موجودہ سیکولر نظام کا حصہ ہے اور اس نظام سے وابستہ تمام افراد کو نشانہ بنایا جائیگا۔
اے این پی چوں کہ صوبے کی ایک بڑی جماعت ہے اور اس نے 2008ء کے الیکشن میں اتحادی جماعت پی پی پی کے ساتھ واضح اکثریت بھی حاصل کر رکھی تھی تاہم اب اس کے لیے مشکلات میں اضافے کے ساتھ نئی حکمت عملی کے ساتھ میدان میں اترنا پڑے گا کیوں کہ معروضی حالات میں عوامی نیشنل پارٹی کے لیے انتخابی مہم جاری رکھنا جان جوکھوں میں ڈالنے کے مترادف ہوگا۔ اگرچہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں خیبرپختون خوا سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے اور دیگر سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں اے این پی کو کافی نقصان اٹھانا پڑا ہے کیوں کہ اس غیر اعلانیہ جنگ میں عوامی نیشنل پارٹی کے اہم عہدے داروں سمیت پانچ سو کے لگ بھگ کارکنوں نے قربانیاں دی ہیں جس میں اے این پی کے تین ایم پی ایز سوات سے شمشیر خان، پشاور سے حاجی عالم زیب خان اور اب بشیر بلور بھی شامل ہوگئے ہیں۔ اے این پی اب آئندہ کے لیے کیا لائحہ عمل بنائے گی؟ قبل از وقت کچھ نہیں کہا جاسکتا تاہم اے این پی کے سربراہ اسفندیار ولی خان کا کہنا ہے کہ بشیر بلور شہید کے سوئم کے بعد اے این پی اپنے لائحہ عمل کا اعلان کرے گی۔
بلور خاندان کا ملکی اور صوبے کی سیاست میں کلیدی کردار رہا ہے۔ بلور برادران کی اپنے حلقوں سے مسلسل کامیابی اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ وہ اپنے حلقے کے لوگوں کے نہایت قریب رہنے والے سیاست دان ہیں۔ اپنے ہر ووٹر کے مسائل سے آگاہ بلور برادران کے مخالفین کو الیکشن میں سوبار سوچ کر ان کے مقابلے میں اترنا پڑتا ہے تاہم بازی ہمیشہ بلور برادران ہی کی رہی ہے۔ بلور برادران کو سیاست کے علاوہ ہر مکتبۂِ فکر کے لوگوں میں مقبولیت حاصل تھی، ولی خان خاندان کے علاوہ ان کے قومی سطح کے دیگر سیاسی لیڈرز جن میں نوازشریف سرفہرست ہیں، کے ساتھ خصوصی مراسم ہیں۔ بلور برادران نے اپنے حلقے پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا اور ہر قسم کی قربانی دیتے رہے۔ پندرہ سال قبل بھی حاجی غلام احمد بلور کے اکلوتے صاحب زادے شبیر احمد بلور کی شہادت کی صورت میں بلور خاندان کو بڑے صدمے سے دوچار ہونا پڑا تھا۔
عثمان بلور کے لہجے میں والد کے لہجے کی جھلک
شہید بشیر احمد بلور کے صاحب زادے سابق صدر خیبرپختونخوا چیمبر آف کامرس عثمان بشیر بلور نے اپنے والد کی جدائی کے بعد بالکل ان ہی کے لہجے میں کہا کہ دہشت گردوں کے پاس گولیاں اور بم ختم ہوجائیں گے مگر ہمارے سینے ختم نہیں ہوںگے، والد کی شہادت کے بعد دہشت گردوں کے خلاف ہمارا عزم متزلزل نہیں ہوا بل کہ اب ہم اور بھی شدت سے دہشت گردوں کے خلاف لڑیں گے۔
انہوں نے کہا کہ خدا کا واسطہ ہے اب سب سیاست دان دہشت گردوں کے خلاف یک سو ہو جائیں آج ہمارے والد شہید ہوئے کل ان کے بچے شہید ہوسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان کے والد جیسے نڈر لیڈر پاکستان میں خال خال ہیں۔
گلستان کہ مے پہ وینو تازہ کے گی
ہر ازغے دے ھم زما پہ زڑہ کے مات شی
(گلستان اگر میرے لہو سے سرخ رو ہو سکتا ہے
(تو) اس کا ہر خار میرے دل میں اتار دو)
شہید بشیر بلور نے اپنے کہے ہوئے الفاظ کو سچ کر دکھایا کہ ''د گور شپہ پہ کور نہ شی کیدے'' یعنی قبر کی مقرر کردہ رات گھر میں نہیں گذاری جاسکتی۔ بشیر احمد بلور کردار کے غازی تھے کیوں کہ ان کی شہادت کی آرزو بھی پوری ہوگئی اور انہوں نے یہ بھی سچ کر دکھایا کہ دہشت گردوں کو شکست دیں گے'' چاہے ہماری جان چلی جائے''۔ بشیر احمد بلور دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے اور جام شہادت نوش کرنے والے دوسروں کے لیے استعارہ بن چکے ہیں کہ کس طرح وطن کی مٹی پر قربان ہوا جاسکتا ہے، کیوں کہ یہ دھرتی، یہ سرزمین ہمارے آبا و اجداد کی بیش بہا قربانیوں کے طفیل آزاد ہوئی ہے اور اس کو قائم و دائم رکھنے کے لیے بشیر احمد بلور جیسے نڈر، بے باک اور ہر مشکل کا جوان مردی سے مقابلہ کرنے والی ہستیاں موجود ہیں۔
بشیر بلور نڈر انسان تھے، حاجی غلام بلور
وفاقی وزیر ریلوے حاجی غلام احمد بلور نے کہا ہے کہ بشیر بلور اکثر کہا کرتے تھے کہ گھر میں بستر پر مرنے سے بہادروں کی طرح مرنے کا مزہ ہی اور ہے، ان کی خواہش کے مطابق ان کو اللہ تعالیٰ نے بہادروں کی طرح شہادت نصیب کی۔ غلام بلور نے کہا کہ ان کی آدھی کمر ان کے بیٹے کے مرنے سے ٹوٹی تھی اور آدھی کمر اب بھائی کے مرنے سے ٹوٹ گئی ہے لیکن جب مجھے بشیر بلور کی شیروں جیسی بہادری سامنے کھڑی نظر آتی ہے تو ہماری ہمت بندھ جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم اللہ تعالیٰ کی رضا میں راضی ہیں کیوں کہ اس کی جانب سے بشیر بلور کی موت کا یہ وقت مقرر تھا انہوں نے کہا کہ اس موقع پر پارٹی کارکن حوصلہ بھی رکھیں اور صبر کا دامن بھی ہاتھ سے نہ چھوڑیں کیوںکہ جو جنگ ہم لڑرہے ہیں وہ ہم نے جیتنی ہے اور ہم نے دہشت گردوں پر یہ ثابت کرنا ہے کہ ہم جھکنے والے نہیں۔
میاں افتخار حسین بیٹے سے زیادہ بشیر بلور کی جدائی پر مغموم دکھائی دیے
خیبر پختونخوا کے وزیراطلاعات میاں افتخار حسین اور بشیر بلور شہید کا چولی دامن کا ساتھ تھا، دونوں کا یہ وتیرا رہا کہ ہر دھماکے کے بعد جائے وقوعہ پہنچ جایا کرتے تھے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنا اکلوتا بیٹا میاں راشد حسین شہید کھونے کے بعد میاں افتخار حسین کے عزم اور استقلال میں ذرہ برابر بھی کمی نہیں آئی۔ میاں افتخار حسین شاید اپنے اکلوتے بیٹے کی شہادت پر اتنا نہیں روئے ہوں گے جتنا وہ بشیر بلور کی جدائی پر مغموم ہیں۔ میاں افتخار حسین کا کہنا ہے کہ بشیر احمد بلور ایک نڈر، بے باک اور بہادر سیاسی لیڈر تھے جنہوں نے دہشت گردی کا سینہ تان کا مقابلہ کیا اور اس دھرتی کے امن اور قوم کے بہتر مستقبل کے عظیم مقصد کے لیے قربانی دی ہم ان کی اس عظیم قربانی کو سلام پیش کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ شہید کی قربانی رائیگاں نہیں جائے گی اور اے این پی کے کارکن اور باچا خان کے سپاہی اس مقصد کیلئے آخر دم تک لڑتے رہیں گے جس مقصد کیلئے بشیر احمد بلور نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا انہوں نے کہا کہ ہم ڈرنے والے ہر گز نہیں ہم اپنے خون کا آخری قطرہ تک بہادیں گے مگر دہشت گردوں کے سامنے جھکیں گے نہ ان کو مذموم مقاصد میں کام یاب ہونے دیں گے۔
انہوں نے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ افغانستان، پاکستان اور امریکا مل کر خلوص اور ایمانداری کے ساتھ اپنے مفادات کو پس پشت ڈالتے ہوئے یا تو ان عناصر کے ساتھ مذاکرات کریں اور اگر ایسا ممکن نہیں تو ان عناصر کے خلاف موثر کارروائی کی جائے ورنہ اس دہشت گردی سے کوئی بندہ اور کوئی جگہ بھی محفوظ نہیں رہے گا کسی کو اس خوش فہمی میں نہیں رہنا چاہئے کہ یہ صرف قبائلی علاقوں یا خیبر پختون خوا کا مسئلہ ہے اگر اس کو نہ روکا گیا تو یہ جنگ مزید پھیلے گی اس موقع پر صوبائی وزیر نے پارٹی کارکنوں کو تلقین کی کہ وہ مشکل مرحلے میں صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں۔
علم کی روشنی ہی سے دہشت گردی کو شکست دی جاسکتی ہے، بشیر بلورکا آخری خطاب
بشیر بلور شہید نے شہادت سے کچھ دیر قبل زندگی کے آخری خطاب میں تعلیم کے فروغ پر زور دیا اور کہا کہ صرف علم کی روشنی ہی سے ہم دہشت گردی کو شکست دے سکتے ہیں' ڈھکی منور شاہ میں عوامی نیشنل پارٹی کی ایک شمولیتی تقریب سے خطاب میں بشیراحمدبلورشہید نے کہا کہ تعلیم خیبر پختونخوا حکومت کی اولین ترجیح رہی ہے اور ہم نے ساڑھے چار سالہ دور میں 13یونی ورسٹیاں اور ان کے کیمپسز قائم کرکے اس ضمن میں ریکارڈ کام کیا انہوں نے کہا کہ تعلیم کے بغیر ہمارا ترقی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتااس موقع پر انہوں نے ملالہ یوسفزئی کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ ملالہ نے علم پھیلانے کی بات کی جس پر اسے مارنے کی کوشش کی گئی۔ اس موقع پر صوبائی حکومت کے مختلف منصوبوں بھی ذکر کیا۔ بشیر بلورکی تقریر کے دوران عوامی نیشنل پارٹی کے جوشیلے کارکن وقفے وقفے سے نعرہ بازی بھی کرتے رہے۔