سول سروس کا درخشندہ ستارہ۔اُسامہ شہید ہمیشہ زندہ رہیگا
خیبرپختونخواہ کے سینئر ترین افسران اعلیٰ کارکردگی کے ضمن میں ہر بار اُسامہ کا حوالہ دیا کرتے تھے۔
باجی کا بڑا بیٹا سعد فارن سروس میں اعلیٰ عہدے پراور چھوٹا سول سروس میں تھا۔دونوں ممتاز اور مقبول تھے۔بیٹی اپنے گھر میں خوش تھی،بہوئیں اور داماد اﷲ نے تحفے کے طور پر دیے تھے۔گھر میں رونقیں اور خوشیاں تھیں۔ مگرسات دسمبر کی شام ایسی قیامت ٹوٹی جس نے اس قابلِ رشک گھرانے کی سب رونقیں بھَسم کردیں۔اُسامہ ہمارے گھرانے کا روشن ماہتاب تھا جسکے ڈوب جانے سے پوراگھر انہ تاریکیوں میں ڈوب گیا ہے۔وہ اس گھر انے کی سب خوشیاں سمیٹ کرلے گیا ہے۔ میں ڈیرہ اسمعٰیل خان سے واپس آرہا تھا کہ باجی کی کال آئی۔آواز میں ایسا درد اور بے بسی تھی کہ جسم لرز اُٹھا۔پھرکئی گھنٹے تڑپتا رہا کہ بہن پر کوہ ہمالیہ آگرا ہے اور بھائی اس کے پاس نہیں ہے۔
اُسامہ میری باجی جبین(جنھیں ہم بچپن سے ہی آپا میں جی کہتے ہیں) کا سب سے چھوٹا بیٹا تھا، ہم تینوں چھوٹے بہن بھائیوں (میں، ڈاکٹر نثار صاحب اور آپا میں جی)کا عمر وں میں زیادہ فرق نہیں تھا اس لیے ہماری آپس میں زیادہ دوستی تھی۔آپا میں جی کے تینوں بچے ہی مجھے بہت پیارے تھے۔اُسامہ چھوٹاہونے کے ناتے سب کا لاڈلا اورگھرکا راج دلارا تھا۔اونچا، لمبا،خوبرو، ذہین، خوش اخلاق، ملنسار۔وہ بلاشبہ گھر کا چاند تھا جسکے طلوع ہونے سے گھر کے درودیوار چمک اٹھتے۔
جب وہ چھوٹا تھا تو مجھے یونیفارم میں دیکھ کرکہتا تھا ''میں بھی پولیس افسر بنوں گا''گھر میں سب اسے پیار سے '' آئی جی صاحب'' کہنے لگے۔ پھر ایک دفعہ میں تینوں بہن بھائیوں۔اُسامہ،سعد اور ملیحہ کولے کر چترال گیا جہاں میرا دوست یوسف ڈپٹی کمشنر تھا۔وہاں ہم دو تین دن ڈی سی ہاؤس میں رہے تو اس نے کہا ''میں تو ڈی سی چترال بنونگا''۔کائناتوں کے مالک نے معصوم بچے کی یہ خواہش بھی ایک روز پوری کردی۔
اُسامہ اپنی بے پناہ ذہانت اور قابلیت سے ہمیشہ کلاس میں فرسٹ آتا ۔ ایف ایس سی کے بعد اس نے انجینئر بننے کا ارادہ کرلیا اور الیکٹریکل انجینئرنگ کا انتخاب کیا۔ابھی اس کا رزلٹ نہیں آیا تھا کہ ایک ملٹی نیشنل کمپنی نے بہت اچھی ملازمت کی پیشکش کردی جو اس نے قبول کرلی، وہ پرائیویٹ سیکٹر میں ہی نوکری کرنا چاہتا تھا مگر میں اسے سول سروس کی طرف کھینچنے کی کوشش کرتا رہا اور بالآ خر اس نے میری بات مان لی، چند ماہ تیاری کرکے مقابلے کے امتحان میں بیٹھ گیا اور پہلی کوشش میں ہی ایڈمنسٹریٹیو سروس کے لیے منتخب ہوگیا۔ گھر کی تربیت اور بڑوں کی روایات نے اس کی سمت پہلے ہی متعین کردی تھی اور پھر وہ ان روایات کا پرچم لے کر نکلا توسب کو پیچھے چھوڑ گیا۔
دیانتداری، جرأت اور انصاف اس گھر کا ورثہ تھامگر عوام سے محبّت، خوش اخلاقی، عوامی فلاح کے کاموں سے عشق ، علاقے کی بہتری اور ترقّی کے لیے نئے نئے منصوبوں کی تخلیق اور اسے عملی جامہ پہنانے کا جنون اس کی اپنی شخصیت کا خاصہ تھا۔اسنے پھٹے کپڑوں میں ملبوس پسے ہوئے عوام سے اپنا رشتہ استوار کیا ان کے زخموں پر مرھم رکھا، ان کے مسائل اور مصائب کو ذاتی سمجھ کر انھیں کم کرنے کی آخری حد تک کوشش کی۔عام آدمی کی زندگی کو بہتر بنانا اسنے اپنی زندگی کا مشن بنا لیا۔اس نے قانون کی حکمرانی اورغیر جانبداری کا پرچم کبھی سرنگوں نہ ہونے دیااور پھر لوگوں نے بھی کوئی کسر نہ چھوڑی، اپنے دل نکال کر اس کی مٹھی میں رکھ دیے۔دلوں میں اس کی یادیں اور گھروں میں اس کی تصویریں سجالیں۔اپنی تمام ترمحبتیں اور عقیدتیں اس پر نچھاور کردیں۔
ایبٹ آباد کے لوگوں کی زبانی میں اس کی ہر دلعزیزی کے قصے سنتا تو خوشی سے نہال ہوجاتا جب کوئی کہتا کہ اُسامہ میں آپکا پَرتو نظر آتا ہے توسجدہ شکر بجا لاتا مگر اس کے غیر معمولی کاموں اور کارناموں سے میں بھی پوری طرح آگا ہ نہیں تھا اس کا اندازہ تو اب ہوا ہے جب چترال کے دور دراز علاقوں سے عام لوگ بیس بیس گھنٹے بسوں کا سفر کرکے اسلام آباد میں اُسامہ شہید کے والدین کو یہ بتانے آتے ہیں ''جی اُسامہ صاحب ہمارا ہیرو تھا وہ ہمارا محسن تھا''۔وہاں کے صاحبانِ دانش کا کہنا ہے کہ ''عوام کا اتنا ہمدرد افسر آجتک نہیں دیکھا''، منتخب نمایندے کہتے ہیں ''انگریزوں کے بعد چترال کے لیے کسی نے کام کیا ہے تو وہ ہمارے ڈی سی اُسامہ صاحب نے کیا ہے، چترال کے ہر گھر میں سوگ ہے، ہر گھر میں اپنے محسن کے لیے دعائیں ہورہی ہیں''۔وہاں کے پولیس افسروں کا کہنا ہے، ''چترال کے عوام اُسامہ وڑائچ کو دیوتا سمجھتے ہیں''۔
مگر ہمارے پیارے اُسامہ ہمارے گھر کے چاند! تم نے اپنے مشن میں اتنا دل لگا لیا کہ وہیں کے ہوکر رہ گئے اور اپنے گھر کا راستہ ہی بھول گئے!۔ اُسامہ! اپنی امی کو بھی بھول گئے؟۔تم تو امی کا اتنا خیال رکھتے تھے، جانتے ہو چند دنوں میں ان کا کیا حال ہوگیاہے۔تمہاری جدائی میں انھوں نے اپنی آنکھوںکا سارا پانی بہادیا ہے۔ انھیں نہ کپڑوںکا ہوش ہے نہ کھانے کا، وہ صرف تمہاری باتیں کرتی ہیںیا تمہاری جدائی میں روتی اور تڑپتی ہیں ۔تمہارے البموں سے لپٹ لپٹ کر، تمہارے کپڑوں کو سینے سے لگالگا کر۔اخباروں میں چھپی ہوئی تمہاری تصویروں کو چوم چوم کر۔وہ جب تمہیں پکارتی ہیں تو ان کی درد بھری آواز توآسمان تک پہنچتی ہے۔یہ آواز تم کیوں نہیں سن رہے؟ وہ تمہیں ڈھونڈتی پھرتی ہے، کبھی کمروں میں، کبھی گیلری میں۔کبھی برآمدے میں۔
شاید کہیں سے میرا اُسامہ نکل آئے۔ وہ بظاہر مہمانوں کو چھوڑنے باہر جاتی ہیں مگر ان کی نظریں گیٹ پر لگی ہوتی ہیں کہ شاید تمہاری گاڑی آکررُکے اور تم نکل کر ان سے لپٹ جاؤ کہ امی میں توچند دن کے دورے پر گیا ہوا تھا۔ لیکن اب ایسا کہاں ہوگا، یہ دورہ کبھی ختم نہیں ہوگا۔امی کو دوڑکر لپٹنے کے لیے گاڑی سے کوئی نہیں نکلے گا۔چترال سے امی کو اب کون فون کریگا۔
ہمارے جان سے پیارے اُسامہ! تم نے اپنے ابو جان کا بھی خیال نہیں کیا! اس عمر میں تو تم نے ان کا سہارابننا تھا۔تم توان کا سہارا ہی چھین کر لے گئے ہو۔وہ بظاہر خاموش رہتے ہیں مگر اندر سے ٹوٹ پھوٹ چکے ہیں۔کوئی پرانا دوست آتا ہے تو پھوٹ پھوٹ کر روتے ہیں مگرتم انھیں دلاسا دینے بھی نہیں آئے۔اور جانتے ہو تمہاری پیاری آپا ملیحہ اور بھیّا سعد تمہاری جدائی میں کسطرح تڑپ رہے ہیں،کبھی تمہاری آپا امی کو دلاسا دیتی ہے اورجب اس کی اپنی ھچکیاں بندنہیں ہوتیں تو امی خود روتے روتے اسے تسلی دینے کی کوشش کرتی ہے پھر ان دونوں کو تمہارا بھائی سعد چُپ کرانے لگتا ہے تو خود دھاڑیں مار کررونا شروع کردیتا ہے۔یہ سب تمہاری وجہ سے ہی تو ہورہا ہے۔
میرے پیارے اُسامہ! تم نے میرا بھی کوئی خیال نہیں کیا ، میرے ساتھ تو تمہارے کئی رشتے تھے! تم میرے بھانجے بھی تھے،بیٹے بھی تھے، شاگرد بھی تھے اور دوست بھی تھے۔اب فون بجتا ہے تواس دعا اور اُمید کے ساتھ لپک کر اٹھاتا ہوںکہ شاید آواز آجائے'' تو ماموں جان کب آرہے ہیں چترال؟'' اُسامہ! مجھے معاف کردینا میں چترال آنے کا وعدہ پورا نہ کرسکا مگر تم نے بھی تو دسمبر میں آنے کا وعدہ کیا تھا۔اس وعدے کا کیا ہوا؟ ہم نے تو تمہارے لیے گھرکی صفائیاں بھی کرالی تھیں۔لوگوں کے درمیان تو تمہاری باتیں کرتا یا سنتا ہوں۔ دل زیادہ مضطرب ہوتا ہے تو کمرے میں بند ہوکر کوئی کتاب کھول لیتا ہوں مگرآنسوؤں سے اس کے صفحات بھی تر ہوجاتے ہیں ۔ یہ سطریں لکھتے ہوئے بھی کئی بار کاغذ گیلے ہوئے اور کئی بار بدلے گئے، اُسامہ ! اپنی آمنہ اور ماہ رخ کو بھی ساتھ ہی لے گئے ہو۔کسی کے پاس چھوڑنا بھی گوارا نہیں کیا۔
خیبرپختونخواہ کے سینئر ترین افسران اعلیٰ کارکردگی کے ضمن میں ہر بار اُسامہ کا حوالہ دیا کرتے تھے۔ایک سابق چیف سیکریٹری کہہ رہے تھے کہ پبلک سروس کے تقاضوں کے بارے میں جو بات سیکڑوں کتابوں اور لیکچرز سے نہیں سمجھائی جاسکتی تھی وہ اُسامہ نے چترال میں چودہ مہینے کی سروس میں سمجھادی کہ پبلک سروس کیا ہوتی ہے اور عوام کی فلاح و بہبود کسے کہتے ہیں! جب تک اس ملک میں سول سروس رہیگی اُسامہ کا نام زندہ رہیگا۔اعلیٰ سطحی میٹنگوں میں اس کے حوالے دیے جائیں گے، پبلک سروس کے لیے اس کے قائم کیے گئے پیمانے ریفرنس پوائنٹ بن جائیں گے اور افسروں کی تربیت گاہوں میں اُسامہ اور اس کے کارناموں کو ماڈل کے طور پر پیش کیا جاتا رہیگا۔
وہاں کے سینئر افسران یہ بھی کہتے ہیں کہ ہمارے پاس کوئی دوسرا اُسامہ نہیں ہے اگر اُسامہ کو دس سال اور مل جاتے تو وہ سول سروس کا کلچر ہی تبدیل کردیتا۔اس کے چلے جانے سے سول سروس اپنے درخشندہ اسٹار اور قوم ایک ایماندار، بہادر اور روشن ضمیر سول سرونٹ سے محروم ہوگئی ہے جو بلا شبہ ایک بہت بڑا قومی سانحہ ہے۔بلاشبہ اسامہ کی مختصر زندگی بھی قابلِ فخر تھی اور سفرِ آخرت پر بھی وہ بڑی شان سے روانہ ہوا۔تمام تر جید علماء متفق ہیںکہ عام لوگوں کے لیے اس کی خدمات کے صلے میں خالقِ کائنات نے اسے شہادت کا عظیم مرتبہ بخش دیا ہے۔
اے رحمان و رحیم و کریم! اُسامہ، آمنہ اور ماہ رخ کی جدائی کا صدمہ ہماری استطاعت سے بڑھکر ہے، ہم پر رحم فرما اورہمیں صبر عطا کردے۔ہماری غمزدہ باجی کے گہرے زخموں پر اپنی رحمتوں کے مرہم رکھ دے۔ہماری آپا میں جی کے کٹے ہوئے دل کو پھر سے جوڑ دے اور انھیں صبر اور سکون سے مالا مال کردے۔یا الٰہی اس حادثے کے تمام شہیدوں کے پسماندگان کو صبرِ جمیل سے نواز دے۔(آمین)