فاروق عبداللہ کی سیاست
فاروق عبداللہ کے لیے صائب مشورہ یہ ہو گا کہ وہ راجیہ سبھا سے استعفیٰ دے دیں
مقبوضہ کشمیر کے سابق وزیراعلیٰ فاروق عبداللہ آجکل اقتدار سے باہر ہیں۔ ان کی جانب سے کی گئی حالیہ تلخ اور کھلے طور پر بھارت کی سالمیت کے خلاف تقاریر اس بات کا بین ثبوت ہے ۔ بحیثیت رکن راجیہ سبھا انھوں نے بھارت سے وفاداری کا حلف اٹھا رکھا ہے۔ان کا تازہ ترین خطاب حریت کانفرنس کی حمایت میں ہے جو کشمیر کی بھارت سے علیحدگی کی وکالت کرتی ہے۔
اپنے خطاب میں وہ کہتے ہیں کہ ''میں نیشنل کانفرنس کے کارکنوں سے کہنا چاہتا ہوں کہ وہ اس جدوجہد سے خود کو الگ نہ کریں۔ میں خبردار کرتا ہوں کہ ہم اس جدوجہد کا حصہ ہیں۔ ہم نے ہمیشہ اس ریاست کے مفادات کے لیے جدوجہد کی ہے۔ فاروق عبداللہ کے لیے صائب مشورہ یہ ہو گا کہ وہ راجیہ سبھا سے استعفیٰ دے دیں کیونکہ وہ بیک وقت بھارت اور حریت کانفرنس سے وفاداری نہیں نبھا سکتے۔ درحقیقت مجھے سخت دھچکا لگا ہے کہ کیسے ایک شخص جو یونین مسنٹر اور کشمیرکا وزیر اعلیٰ رہا ہو آئین مخالف بیان کیسے دے سکتا ہے؟ قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس نے کشمیر میں مجمع سے خطاب میں یہ بات کہی۔ فاروق عبداللہ ایسا شخص جو خود پر قابو نہیں رکھ سکتا۔ وہ کچھ بھی کہہ سکتا ہے۔
مجھے یاد ہے کہ علی گڑھ یونیورسٹی میں ایک خطاب کے دوران ان کا انداز بنیاد پرستوں والا تھا۔ میں جو ان کے ساتھ اسی اسٹیج پر بیٹھا تھا نیان پر تنقید کی۔ اپنے خطاب میں میں نے کہا ان سے کہا کہ انھوں نے مجھے تقسیم ہند سے پہلے کے دنوں کی یاد دلا دی ہے۔ ان دنوں محمد علی جناح مذہب کو قومیت کی بنیاد بناتے تھے اور ہندوؤں اور مسلمانوں کو دو الگ قومیں قرار دیتے تھے۔ دو ہفتے قبل فاروق عبداللہ نے سرینگر سے شایع ہونے والے ایک جریدے میں لکھا کہ اس کے والد شیخ محمد عبداللہ اس سے بہت خوش ہوتے کہ کشمیری نوجوان آزادی کے لیے مسلح جدوجہد کر رہے ہیں۔
میں شیخ صاحب کی سوچ بہت اچھی طرح جانتا ہوں اور میرا نہیں خیال کہ وہ ایسا غیر ذمے دارانہ بیان دیتے۔ فاروق عبداللہ کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ وہ ہمیشہ خبروں میں رہنا چاہتے ہیں۔ اس کو ممکن بنانے کے لیے وہ کچھ بھی کہہ سکتے ہیں۔ کیا انھیں یقین ہے کہ حریت جو پرچار کر رہی ہے وہ کشمیر یا بھارت کے عوام کے مفاد میں ہے؟ کیا اس نے کشمیر کی بھارت سے علیحدگی کے ردعمل کو تولا ہے؟ کشمیر چاروں طرف سے خشکی میں گھرا ہوا ہے اور ماسوائے بھارت کسی اور ملک تک اس کو آسان رسائی حاصل نہیں ہے۔
بھارت فورسز کے خلاف جدوجہد والے نوجوانوں کے ذہنوں میں اس بارے میں کوئی ابہام نہیں کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔ حال ہی میں میرے دورہ کشمیر کے دوران ان میں سے کئی نوجوانوں نے مجھ سے ملاقات کی۔ وہ چاہتے تھے کہ وادی کشمیر کو خودمختار اسلامی ریاست بنایا جائے۔ وہ پاکستان سے الحاق نہیں چاہتے تھے۔ علحیدگی پسند حریت رہنما سید علی گیلانی اب ان کی نمایندگی نہیں کرتے کیونکہ وہ کشمیر کو پاکستان کا حصہ بنانے چاہتے ہیں چاہے ایسا کرنے کے لیے تقسیم ہند کے بندوبست کو کالعدم ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔ حقیقت یہ ہے کہ مہاراجہ کشمیر ہری سنگھ انگریز کی برصغیر سے رخصت کے بعد خود مختار رہنا چاہتے تھے۔
دراصل مہاراجہ کمشیر ہری سنگھ انگریز کے برصغیر سے رخصت کے بعد خود مختار رہنا چاہتے تھے۔ مگر قبائلیوں اور پاکستان کی غیر منظم فورسز (باقاعدہ فوج بھی) نے سرینگر کی جانب پیش قدمی شروع کردی۔ اگر وہ بارہ مولہ میں لوٹ مار کرنے کے لیے نہ رکتے تو سرینگر پر قبضہ کر لیتے۔ اس وقت فاروق عبداللہ کے والد جنھیں اس وقت کے وزیراعظم جواہر لعل نہرو کی مداخلت پر جیل سے رہائی ملی تھی نے مہاراجہ کے دور میں لوگوں کی ایک رضاکار فورس تشکیل دی جس نے بھارتی فوج کے کشمیر میں اترنے تک سرینگر کی جانب پیش قدمی کرنے والی قوتوں کو روکے رکھا۔ بھارتی فوج نے حملہ آوروں کو اس علاقے میں دھکیل دیا جسے آج پاکستان کے زیر تسلط کشمیر کے طور پر جانا جاتا ہے۔ جو لوگ دن رات کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ قرار دیتے ہیں وہ ان معنوں میں غلط ہیں کہ کشمیر کو بھارتی آئین کے آرٹیکل ۳۷۰ کے تحت خود مختاری حاصل ہے۔
بھارتی حکومت کو آئین کی دیگر شقوں کے تحت حاصل اختیارات کا اطلاق جموں و کشمیر پر نہیں کیا جا سکتا۔ ان کا اطلاق صرف ریاستی اسمبلی کی منظوری سے ہی کیا جا سکتا ہے۔دوسرے لفظوں میں ریاست جموں و کشمیر کو وہ خود مختاری حاصل ہے جو کسی اور ریاست کو حاصل نہیں ہے۔بعدازاں شیخ عبداللہ نے بھارت کے ساتھ ناقابل تنسیخ الحاق کی قرارداد ریاستی دستور ساز اسمبلی سے منظور کرائی۔ قرارداد منظور کرانے سے قبل سے یہ جاننے کے لیے کہ پاکستان کا نظام سیاست کیا ہو گا غلام محمند صادق (جو کشمیر کے وزیراعلی بھی بنے) کو اسلام آباد بھیجا۔
صادق سے یہ جاننے کے بعد کہ پاکستان اسلامی ریاست ہو گا شیخ صاحب نے جو مہاراجہ ہری سنگھ اور انگریزوں سے عوامی جدوجہد کی پیداوار تھے نے فوراً بھارت سے الحاق کر لیا کیونکہ وہ ایک عوامی ریاست چاہتے تھے۔ صاف ظاہر ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے مقابلے میں شیخ صاحب کا انتخاب مذہبی آزادی کا حامل جمہوری بھارت ہی ہونا تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ ہندوؤں اور مسلمانوں کے چیلنجوں اور جوابی چیلنجوں کے درمیان سنائی دی جانے والی واحد بے تعصب آواز شیخ عبداللہ کی ہی تھی۔ مجھے یاد ہے کہ ایمرجنسی کے دوران جب مجھے تہاڑ جیل سے رہا کیا گیا تو میرے ساتھ قید دیگر افراد نے کہا کہ چونکہ شیخ عبداللہ عوام کے لیے محترم ہیں اس لیے میں سرینگر جا کر ان سے ایمرجنسی کے خلاف آواز اٹھانے کی درخواست کروں۔
انھوں نے بلا جھجھک بیان دیا کہ ایمرجنسی کا دورانیہ بہت طویل ہو گیا ہے اور اسے اب اٹھا لینا چاہیے۔ کاش کے فاروق عبداللہ شیخ صاحب کی خصوصیات اپناتے اور بھارت کے کاز کو نقصان پہنچانے کے لیے علیحدگی پسندوںسے پینگیں بڑھانے کے بجائے بھارت سرکار کی رہنمائی کرتے۔ متلون مزاجی کے باوجود سارا ملک ان کا مدح ہے۔
علیحدگی پسندوں کو کسی بھی بلواسطہ مدد سے قبل بھی انھیں دو بار سوچنا چاہیے۔ حریت کانفرنس کے لیے اپنی حمایت کا اعلان کر کے انھوں نے کشمیر اور بھارت کے لوگوں کے ذہنوں میں کئی سوال اٹھا دیے ہیں۔ فاروق عبداللہ کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ پورا ملک ہی ان کا حلقہ انتخاب ہے۔ جب وہ بھارت کی یکجہتی پر بد اثرات مرتب کرنے والی بات کرتے ہیں تو لوگوں کوشرمندہ کر دیتے ہیں کیونکہ وہ انھیں ملک دشمن نہیں بلکہ ملک دوست شخصیت سمجھتے ہیں۔
(ترجمہ تجمل یوسف)