ہماری بدلتی زندگی

شہری زندگی کی پسند و نا پسند رفتہ رفتہ دیہات کی زندگی میں بھی دیکھی جا سکتی ہے۔

Abdulqhasan@hotmail.com

عجیب اتفاق ہے کہ تاریخوں میں بھی یکسانیت آ گئی ہے اور عربی اور عیسوی مہینوں کی تاریخیں مل گئی ہیں۔ میں ان تاریخوں میں کچھ لکھنے کی کوشش کر رہا ہوں آج دس ربیع الاول اور دس دسمبر کو جب لاہور میں سردی کی ہلکی سی لہر اٹھی اور اس نے اہل لاہور کو ٹھنڈے کپڑوں سے آزاد کرکے گرم کپڑوں میں لپیٹ دیا تو مجھے اپنا گاؤں یاد آیا جہاں ان دنوں سردی نے اپنے پرانے ساتھیوں کو یاد دلایا کہ میں آپ کے دروازے پر پہنچ گئی ہوں دروازہ کھولیے میرا استقبال کیجیے اور چند ماہ کے لیے میری رفاقت کا سامان بھی کیجیے۔

میں آپ کے پاس رہوں گی اور سرد راتیں آپ کے گرم بستروں میں آرام کر کے گزاروں گی۔ اگر آپ گرما گرم کوئلوں اور دہکتی ہوئی آگ کا بندوبست بھی کر سکیں تو یہ اعلیٰ درجہ کی مہمان نوازی ہو گی۔ لاہور کی سردی برائے نام ہے اگر آپ دن کی دھوپ میں بیٹھ سکیں اور رات کو موٹی رضائی کا انتظام کر سکیں تو یہ آپ کے لیے زیادہ بہتر ہو گا۔ پرانے زمانے میں ہمارے ہاں انگریز فوجیوں کا آنا جانا رہتا تھا۔

فوج میں مقامی لوگوں کے ساتھ برطانوی فوجی بھی ہوا کرتے تھے اور دونوں ہر موسم ایک ساتھ گزارتے تھے۔ مشہور تھا کہ جس انگریز نے رضائی اوڑھ لی اس نے پھر کمبل نہیں لیا اسی طرح جس انگریز نے صبح ناشتے میں پراٹھا کھا لیا اس نے پھر ڈبل روٹی نہیں کھائی۔ انگریز فوجی چھٹیوں میں ہمارے دیہات میں بھی آ جاتے تھے کیونکہ ناشتے میں پراٹھا اور سردیوں کی رات کو رضائی انھیں برطانیہ کے شہروں میں نہیںفوجی چھاؤنیوں میں ہی مل سکتی تھی اور انگریز ان دونوں چیزوں کو بے حد پسند کرتے تھے۔

صبح ناشتے میں پراٹھا اور سردیوں کی رات کو رضائی ان کے لیے ایک نعمت تھی۔ وہ انگلستان سے جب کبھی کسی ہندوستانی دوست کو خط لکھتے تو رضائی اور پراٹھے کا ذکر خود کرتے اور ان سے محرومی پر رنج کرتے یہ دونوں ان کے لیے ایک نعمت تھیں جو انگلستان میں ان کو میسر نہیں تھیں۔ ایک سینئر انگریز نے جو فوج کے ایک اونچے عہدے سے ریٹائر ہوا تھا اپنی یادداشتیں قلمبند کیں اور ان کو میں نے بھی کبھی دیکھا تھا۔


وہ لکھتا ہے کہ جو باوقار عورت میں نے ہندوستان میں دیکھی وہ میں کہیں اور نہ دیکھ سکا۔ اپنی برطانوی عورتوں پر وہ افسوس کرتا ہے جو نسل در نسل اپنی نسوانیت کو ترک کرتی جا رہی ہیں۔ ان کی ٹانگوں کی عریانی اوپر کی طرف اٹھتی جا رہی ہے اور ان کے سینے کا لباس نیچے کی طرف بڑھتا ہے۔ ان کے اندر وہ راز ختم ہو رہا ہے جو عورت کے وجود میں ہوتا تھا۔ سچ بات تو یہ ہے کہ عریانی نسوانیت کی دشمن ہے جو اسے بے نقاب کرتی جا رہی ہے۔ چہرے کا پردہ کیا اٹھا پورے جسم کا پردہ اٹھتا جا رہا ہے اور اندر سے رازوں بھری عورت باہر آ رہی ہے۔

یہ جو میں عرض کر رہا ہوں یہ پرانے زمانے کی باتیں ہیں آج کے زمانے میں زندگی بلا تکلف بے نقاب ہو رہی ہے اور خواتین اپنے آپ کو بہت بدلتی جا رہی ہیں ابھی چند دن ہوئے میں گاؤں سے آیا ہوں وہاں لباس تو پرانا ہی ہے لیکن وہ جسم کے ساتھ اس قدر چپک رہا ہے کہ کچھ چھپاتا نہیں ہے۔ بس چشم تصور کے وا ہونے کی قدرت ہے۔ میرا خیال ہے کہ اب نئے فیشن اور نئے انداز پر بند باندھنا آسان نہیں جو پرانے دیہات تک پہنچ چکا ہے۔ اس پر ہمارے معززین کو غور کرنا ہو گا جو پرانے زمانے کی روایات کو ہم سے بہتر سمجھتے ہیں اور ان کی خوبیوں اور خرابیوں کو جانتے ہیں مگر وقت کی رفتار اور پسند و نا پسند کو آپ مسترد نہیں کر سکتے۔ میں جب بھی گاؤں جاتا ہوں تو لباس کی تراش خراش میں تبدیلی دیکھتا ہوں اور یہ بھی کہ اس میں کسی جدت کو برا نہیں سمجھتا تھا۔ شہری زندگی کی پسند و نا پسند رفتہ رفتہ دیہات کی زندگی میں بھی دیکھی جا سکتی ہے۔

دیہات اور شہروں کا تعلق اب مضبوط ہوتا جا رہا ہے اور شہری زندگی رفتہ رفتہ دیہات میں بھی سرایت کرتی جا رہی ہے۔ ٹیلی ویژن ہر گھر میں موجود ہے اور اس کے ذریعہ عام زندگی میں جو تبدیلی آ رہی ہے اسے روکا نہیں جا سکتا۔ اس طرح دیہات بھی آہستہ آہستہ بدل رہے ہیں اگرچہ دیہات کی زندگی اس روایت سے محروم ہوتی جا رہی ہے جو اس کی شناخت تھی اور خود دیہی لوگ بھی اس شناخت کو عزیز رکھتے تھے لیکن تبدیلی پوری زندگی میں آ رہی ہے۔ دیہات کی زندگی ہو یا دیہات سے متصل شہروں کی زندگی اس میں تبدیلی اب چھپائی نہیں جا سکتی۔

گاؤں سے متصل تالاب سے پانی اب بھی بھر کر لایا جاتا ہے اور جوان لڑکیاں سروں پر پانی کے گھڑے اٹھائے دیکھی جاسکتی ہیں لیکن کب تک۔ پانی کا حصول آسان ہوتا جا رہا ہے اور گھروں تک ضرورت کا پانی لانے کے دوسرے ذریعے بھی سامنے آ رہے ہیں۔ دیہات میں بھی کچھ لوگ اپنے جانوروں پر پانی لاد کر لے آتے ہیں اور اسے فروخت کر دیتے ہیں۔ گھروں کے لیے پانی کی فروخت کا ایک نیا رواج نکلا ہے۔ ورنہ یہی پانی ضرورت کے مطابق گھروں کی جوان لڑکیاں کسی قریبی تالاب سے بھر کر لے آتی تھیں۔ اب انھی لڑکیوں کے والدین یہ پانی خریدتے ہیں۔

وقت اس سے زیادہ کیا بدلے گا۔ ابھی تو مشکل یہ ہے کہ بجلی ضرورت کے مطابق میسر نہیں ہے ورنہ ٹیوب ویل جو صرف بجلی سے چلتے اور اس ایک تبدیلی سے پوری زندگی بدل جاتی ہے۔ لڑکیوں کے سروں سے پانی کے گھڑے اتر جاتے اور آٹا چکی پر پیسنے کی آواز نہ آتی جس سے صبح سویرے آنکھ کھلتی تھی اور وقت کا احساس ہوتا تھا کہ کتنا باقی ہے اور کتنا گزر چکا ہے۔
Load Next Story