صدر بشارالاسد کی فورسز نے حلب شہر کا کنٹرول حاصل کرلیا
مرنے والوں میں خواتین اور بچے شامل، لاشیں سڑکوں پر پڑی ہیں،یواین انسانی حقوق کمشنر، شامی فوج نے الزام مسترد کردیا
اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ شامی فورسز نے حلب میں خواتین اور بچوں سمیت82 افراد کو قتل کر دیا جبکہ شامی فوج نے کہا کہ وہ کسی بھی وقت حلب میں مکمل کنٹرول کا اعلان کرسکتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے کمشنر برائے انسانی حقوق کا کہنا ہے کہ حلب میں حکومتی کنٹرول مضبوط ہونے کے بعد شامی صدر بشارالاسد کی حامی فورسز نے شہریوں کے قتل عام کا سلسلہ شروع کردیاہے۔ شامی فورسزلوگوں کے گھروں میں داخل ہو کر انھیں نشانہ بنا رہی ہیں اور اب تک82 شہریوں کو قتل کیا جاچکا ہے۔ اقوام متحدہ کمشنر برائے انسانی حقوق (شام) کے ترجمان روپرٹ کولویل کے مطابق شہریوں کو حلب کے4 مختلف علاقوں میں گولیاں مار کر ہلاک کیا گیا جن میں11خواتین اور 13 بچے بھی شامل ہیں۔ جینیوا میں نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ترجمان کا کہنا تھا کہ حلب سے موصول ہونے والی یہ خبریں انتہائی تشویشناک ہیں کہ شہریوں کی لاشیں سڑکوں پر پڑی ہوئی ہیں۔
این این آئی ایجنسی کے مطابق حلب میں شامی سرکاری فوج اور اس کے حامی عسکری گروپوں کی کارروائیوں کے دوران بچوں اور خواتین سمیت200 افراد مارے گئے۔ یونیسف کے ایک اہلکار نے مشرقی حلب میں موجود ایک ڈاکٹر کا حوالہ دیتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ ایک عمارت پر شدید حملے کیے جا رہے ہیں جس میں تقریباً 100 لاوارث بچے موجود ہیں ۔ سرکاری ٹی وی پر دکھائے جانے والے مناظر میں باغیوں کے زیر انتظام علاقوں پر حکومتی افواج کی پیش قدمی کے بعد عوام کو خوشی مناتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ شامی فوج نے ہلاکتوں کی تردید کی ہے جبکہ روس نے کہا ہے باغی ایک لاکھ افراد کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کررہے ہیں۔ شامی فوج نے کہا کہ وہ کسی بھی وقت حلب میں مکمل کنٹرول کا اعلان کرسکتے ہیں۔ اے ایف پی کے مطابق مارچ 2011 سے شروع ہونے والے شامی جنگ میں اب تک 3 لاکھ 12 ہزار افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔
دوسری جانب انٹرنیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس (آئی سی آر سی) کی جانب سے بھی حلب میں شہریوں کی جان کے تحفظ کیلیے اپیل کی گئی ہے۔ دوسری جانب اقوام متحدہ کے حال ہی میں سبکدوش ہونے والے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے بھی شام میں خواتین اور بچوں سمیت نہتے شہریوں پر ڈھائے جانے والے ان مظالم پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
امریکی ٹی وی سی این این کی رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ شامی صدر بشارلاسد کی حامی فورسز حلب کے ان مخصوص علاقوں میں گھروں میں داخل ہوکر لوگوں کو قتل کررہے ہیں جہاں اب بھی کسی حد تک باغیوں کا قبضہ ہے۔ انسانی حقوق کے رضاکاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ2012 میں حلب پر قبضہ کرنے والے باغیوں سے تعلق رکھنے والے ہر فرد کا تعاقب کیا جارہا ہے اور انھیں قتل کیا جارہا ہے۔
نہتے شہریوں کے قتل کی اطلاعات ایسے وقت میں سامنے آئی ہیں جب باغیوں کا گڑھ سمجھے جانے والے شہر حلب کے90 فیصد حصے پر شامی صدر بشارالاسد کی فوج اپنا کنٹرول قائم کرنے میں کامیاب ہوگئی ہے۔ حلب میں لڑائی والے علاقے سے ہزاروں افراد نے ہجرت کی ہے۔ حلب میں لڑائی آخری حصے میں داخل ہوگئی ہے۔ باغیوں کا حلب کے معمولی سے علاقے پر قبضہ رہ گیا ہے۔ شام میں اتحادی فوج کی بمباری سے داعش کے 3 اہم رہنما ہلاک ہوگئے۔ مرنے والوں میں 2 وہ افراد بھی شامل ہیں جنہوں نے پیرس حملوں میں معاونت فراہم کی تھی۔ مرنے والوں میں صلاح الدین، سمی دجیدو شامل ہیں۔
https://www.dailymotion.com/video/x556lpp_army-hold-on-aleppo-syria_news
اقوام متحدہ کے کمشنر برائے انسانی حقوق کا کہنا ہے کہ حلب میں حکومتی کنٹرول مضبوط ہونے کے بعد شامی صدر بشارالاسد کی حامی فورسز نے شہریوں کے قتل عام کا سلسلہ شروع کردیاہے۔ شامی فورسزلوگوں کے گھروں میں داخل ہو کر انھیں نشانہ بنا رہی ہیں اور اب تک82 شہریوں کو قتل کیا جاچکا ہے۔ اقوام متحدہ کمشنر برائے انسانی حقوق (شام) کے ترجمان روپرٹ کولویل کے مطابق شہریوں کو حلب کے4 مختلف علاقوں میں گولیاں مار کر ہلاک کیا گیا جن میں11خواتین اور 13 بچے بھی شامل ہیں۔ جینیوا میں نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ترجمان کا کہنا تھا کہ حلب سے موصول ہونے والی یہ خبریں انتہائی تشویشناک ہیں کہ شہریوں کی لاشیں سڑکوں پر پڑی ہوئی ہیں۔
این این آئی ایجنسی کے مطابق حلب میں شامی سرکاری فوج اور اس کے حامی عسکری گروپوں کی کارروائیوں کے دوران بچوں اور خواتین سمیت200 افراد مارے گئے۔ یونیسف کے ایک اہلکار نے مشرقی حلب میں موجود ایک ڈاکٹر کا حوالہ دیتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ ایک عمارت پر شدید حملے کیے جا رہے ہیں جس میں تقریباً 100 لاوارث بچے موجود ہیں ۔ سرکاری ٹی وی پر دکھائے جانے والے مناظر میں باغیوں کے زیر انتظام علاقوں پر حکومتی افواج کی پیش قدمی کے بعد عوام کو خوشی مناتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ شامی فوج نے ہلاکتوں کی تردید کی ہے جبکہ روس نے کہا ہے باغی ایک لاکھ افراد کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کررہے ہیں۔ شامی فوج نے کہا کہ وہ کسی بھی وقت حلب میں مکمل کنٹرول کا اعلان کرسکتے ہیں۔ اے ایف پی کے مطابق مارچ 2011 سے شروع ہونے والے شامی جنگ میں اب تک 3 لاکھ 12 ہزار افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔
دوسری جانب انٹرنیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس (آئی سی آر سی) کی جانب سے بھی حلب میں شہریوں کی جان کے تحفظ کیلیے اپیل کی گئی ہے۔ دوسری جانب اقوام متحدہ کے حال ہی میں سبکدوش ہونے والے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے بھی شام میں خواتین اور بچوں سمیت نہتے شہریوں پر ڈھائے جانے والے ان مظالم پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
امریکی ٹی وی سی این این کی رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ شامی صدر بشارلاسد کی حامی فورسز حلب کے ان مخصوص علاقوں میں گھروں میں داخل ہوکر لوگوں کو قتل کررہے ہیں جہاں اب بھی کسی حد تک باغیوں کا قبضہ ہے۔ انسانی حقوق کے رضاکاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ2012 میں حلب پر قبضہ کرنے والے باغیوں سے تعلق رکھنے والے ہر فرد کا تعاقب کیا جارہا ہے اور انھیں قتل کیا جارہا ہے۔
نہتے شہریوں کے قتل کی اطلاعات ایسے وقت میں سامنے آئی ہیں جب باغیوں کا گڑھ سمجھے جانے والے شہر حلب کے90 فیصد حصے پر شامی صدر بشارالاسد کی فوج اپنا کنٹرول قائم کرنے میں کامیاب ہوگئی ہے۔ حلب میں لڑائی والے علاقے سے ہزاروں افراد نے ہجرت کی ہے۔ حلب میں لڑائی آخری حصے میں داخل ہوگئی ہے۔ باغیوں کا حلب کے معمولی سے علاقے پر قبضہ رہ گیا ہے۔ شام میں اتحادی فوج کی بمباری سے داعش کے 3 اہم رہنما ہلاک ہوگئے۔ مرنے والوں میں 2 وہ افراد بھی شامل ہیں جنہوں نے پیرس حملوں میں معاونت فراہم کی تھی۔ مرنے والوں میں صلاح الدین، سمی دجیدو شامل ہیں۔
https://www.dailymotion.com/video/x556lpp_army-hold-on-aleppo-syria_news