بشیربلورکیساتھ وہی کچھ ہواجس کاخدشہ تھا بی بی سی
طالبان مخالفت میں بشیر بلور اور میاں افتخارپیش پیش رہے،میاں افتخار اکلوتا بیٹا گنوا چکے ہیں.
خیبر پختونخوا کے سینئر وزیر بشیر احمد بلور کے ساتھ بھی بالآخر وہی کچھ ہوا جس کا بہت پہلے سے خدشہ ظاہر کیا جارہا تھا۔
وہ جس طرح ہر فورم اور میڈیا میں کھل کر طالبان کی مخالفت کرتے تھے اور ان کو ملک دشمن اور دہشت گردوں کے نام سے یاد کرتے تھے اس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ وہ یقینا شدت پسندوں کی ہِٹ لسٹ پر ہوں گے۔ بی بی سی نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ بشیر بلور پشاور میں عوامی نیشنل پارٹی کیلیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے تھے۔ انھوں نے 1970 میں عملی سیاست کا آغاز کیا، انھیں یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ 1990 سے 2008 تک مسلسل 5 مرتبہ اپنے حلقے سے صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوتے رہے۔ 3 مرتبہ صوبائی وزیر کے عہدے پر بھی فائز رہے۔
وہ پشاور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے ممبر بھی تھے، طالبان مخالفت میں بشیر احمد بلور اور صوبائی وزیر اطلاعات میاں افتخار حسین سب سے پیش پیش رہے۔ جہاں دہشت گردی کا واقعہ پیش آتا، دونوں وزرا منٹوں میں جائے وقوعہ پر پہنچ جاتے، طالبان حملوں کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے تھے۔ بشیر احمد بلور پر اس سے پہلے بھی 2 قاتلانہ حملے ہوچکے تھے جبکہ میاں افتخار حسین کے اکلوتے بیٹے طالبان حملے میں شہید ہوئے تھے۔ ضلع پشاور کی سطح پر اے این پی کو منظم کرنے میں بلور خاندان کا اہم کردار رہا۔مرحوم کے دو بیٹے ہارون بلور اور عثمان بلور بھی سیاست میں سرگرم ہیں۔
وہ جس طرح ہر فورم اور میڈیا میں کھل کر طالبان کی مخالفت کرتے تھے اور ان کو ملک دشمن اور دہشت گردوں کے نام سے یاد کرتے تھے اس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ وہ یقینا شدت پسندوں کی ہِٹ لسٹ پر ہوں گے۔ بی بی سی نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ بشیر بلور پشاور میں عوامی نیشنل پارٹی کیلیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے تھے۔ انھوں نے 1970 میں عملی سیاست کا آغاز کیا، انھیں یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ 1990 سے 2008 تک مسلسل 5 مرتبہ اپنے حلقے سے صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوتے رہے۔ 3 مرتبہ صوبائی وزیر کے عہدے پر بھی فائز رہے۔
وہ پشاور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے ممبر بھی تھے، طالبان مخالفت میں بشیر احمد بلور اور صوبائی وزیر اطلاعات میاں افتخار حسین سب سے پیش پیش رہے۔ جہاں دہشت گردی کا واقعہ پیش آتا، دونوں وزرا منٹوں میں جائے وقوعہ پر پہنچ جاتے، طالبان حملوں کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے تھے۔ بشیر احمد بلور پر اس سے پہلے بھی 2 قاتلانہ حملے ہوچکے تھے جبکہ میاں افتخار حسین کے اکلوتے بیٹے طالبان حملے میں شہید ہوئے تھے۔ ضلع پشاور کی سطح پر اے این پی کو منظم کرنے میں بلور خاندان کا اہم کردار رہا۔مرحوم کے دو بیٹے ہارون بلور اور عثمان بلور بھی سیاست میں سرگرم ہیں۔