جمہوریت سے عوام کی ٹوٹتی امیدیں چھٹا حصہ
تحریک انصاف سے قومی اور خیبر پختونخواہ کی حد تک جتنی امیدیں وابستہ کرلی تھیں رفتہ رفتہ دم توڑتی جارہی ہیں۔
تبدیلی کا نعرہ آج کل وطنِ عزیز میں کافی مشہور بھی ہے اور بازار میں منافع بخش بکتا ہوا مال بھی۔ یہ نعرہ اِس وقت سب کی زبان پر ہے، کوئی کہتا ہے ہم نہیں تو کون؟ اب نہیں تو کب؟ کوئی راگ الاپتا ہے تبدیلی ہم سے ہے اور کسی کی زبان پر ہے ہم تبدیلی لاچکے۔ یعنی یہ نعرہ رفتہ رفتہ بازار حُسن کی ایسی غنائیہ کا روپ دھار چکا ہے جس کو سب اپنے اپنے مفادات کے لئے استعمال کر رہے ہیں، مگر اس کی حقیقی روح سے سب دور ہیں، اور عوام یہ بات سمجھنے سے قاصر نظر آتے ہیں کہ وہ آخر کون سی تبدیلی آئی ہے یا آرہی ہے جس کا کچھ فائدہ اُن کو بھی مل رہا ہو۔
تمام صوبوں اور وفاق میں سب اپنی اپنی دکان چمکائے ہوئے بیٹھے ہیں۔ گاہک آرہے ہیں، مال بک رہا ہے مگر اس کاروبار کا فائدہ عوام کو کیوں نہیں ہورہا؟ یہ ایسا سوال ہے جس نے نہ صرف اس نعرے کی مقبولیت متاثر کی ہے بلکہ عوام کے دلوں میں اس کو سطحی بنادیا ہے۔
جمہوریت سے عوام کی ٹوٹتی امیدیں (پہلا حصہ)
اپوزیشن سے عوام کی ٹوٹتی امیدیں (دوسرا حصہ)
جمہوریت سے عوام کی ٹوٹتی امیدیں (تیسرا حصہ)
جمہوریت سے عوام کی ٹوٹتی امیدیں (چوتھا حصہ)
جمہوریت سے عوام کی ٹوٹتی امیدیں (پانچواں حصہ)
راولپنڈی میں جب پاکستان تحریک انصاف نے تبدیلی کا نعرہ لگایا تو راقم کا خیال بھی تھا کہ یہ ایسی تیسری قوت ابھری ہے جو باقی سیاسی پارٹیوں کا قبلہ درست کرنے کی جانب بھی اہم قدم ہوگا اور باقی سیاسی پارٹیاں اپنے اندرونی معاملات اس لئے بھی درست کرنا چاہیں گی کہ عوام میں تیسری قوت مقبولیت پارہی ہے اور ان کا کباڑہ ہوسکتا ہے، مگر شومئی قسمت یہ اب تک صرف راقم کی طرح پوری قوم کی سوچ ہی رہی ہے۔ تبدیلی کا نعرہ تو لگا لیکن اس نعرے کو تعبیر نہ مل سکی۔ وفاق میں اچھی کارکردگی، پنجاب و سندھ میں نمائندگی حاصل کرنے میں کامیابی، اور خیبر پختونخواہ میں حکومت بنانے میں کامیابی کے بعد بھی پاکستان تحریک انصاف عوام کو اپنی جانب اس طرح سے راغب نہیں کرپائی جس کی اِس جماعت سے توقع کی جا رہی تھی۔
سیاسی کشمکش چونکہ پاکستان تحریک انصاف کا طرہ امتیاز بن چکا ہے لہذا کوئی بھی احتجاج خیبر پختونخواہ حکومت کی شمولیت کے بغیر ممکن نہیں ہوپاتا۔ حیران کن طور پر یہ تک نہیں سوچا جاتا کہ روزانہ کی بنیاد پر ہونے والے احتجاج کی وجہ سے ایک مکمل صوبہ مفلوج ہوجاتا ہے۔ بے شک اشاریے بتاتے ہیں کہ تبدیلی کے آثار موجود ہیں لیکن اگر پاکستان تحریک انصاف مکمل زور 2018ء کے انتخابات، انتخابی اصلاحات، غیر جانبدار الیکشن کمیشن پر رکھتی اور خیبر پختونخواہ کو ایک ماڈل کے طور پر 2018ء میں عوام کے سامنے رکھتی اور دوسری پارٹیوں کے جھوٹے نعروں کا تقابل اپنی خیبر پختونخواہ کی کارکردگی سے کرتی تو کچھ یہ قطعی طور پر ناممکن نہیں تھا کہ اگلے انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف وفاق میں اکثریتی پارٹی بن کر سامنے آتی۔
پاکستان تحریک انصاف جن انتخابی اصلاحات کا واویلا وفاق کی سطح پر آج بھی کرتی ہے وہ اب تک اس صوبے میں مکمل نافذ نہیں کر پائی جہاں ان کی اپنی حکومت ہے۔ جاگیردارانہ نظام کے خلاف پارٹی کا اپنا یہ حال ہے کہ اس میں اعلیٰ عہدوں پر اکثریت صنعتکار، جاگیردار اور لینڈ لارڈ موجود ہیں۔ خیبر پختونخواہ میں بلدیاتی نظام بھی باقی صوبوں سے مختلف نہیں کہ نمائندے اختیارات کے لئے احتجاج کا راستہ اپناتے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے تک یہ اطلاعات بھی زیرِ گردش رہیں کہ قومی اسمبلی ممبران کو فنڈز تک صوبائی خزانے سے دیئے جاتے رہے۔ متعدد مرتبہ عمران خان خود کہہ چکے ہیں کہ ہم تبدیلی کے سفر میں ابھی پیچھے ہیں اور عوام کی امنگوں پر پورا ابھی تک نہیں اتر پائے۔ سوال بس اتنا سا ہے کہ جب آپ خود ابھی عوام کی امنگوں پر پورا نہیں اتر پائے تو دوسروں کو کس سلسلے میں رگیدتے پھرتے ہیں؟
ایک اور معاملہ آپ کا وہ وعدہ ہے جس کے لیے شاید آپ کے حمایتی کے ساتھ ساتھ آپ کے مخالفین بھی دعاگو تھے کہ یہ وعدہ ضرور پورا ہونا چاہیے، جی ہاں میں بلین ٹری منصوبے کی بات کررہا ہوں، لیکن سچ پوچھیے تو یہ اِس وعدے کو عملی جامہ پہنانا اب ناممکن دکھائی دے رہا ہے۔ اِس دعوے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جب خان صاحب نے یہ وعدہ کیا تھا تو اُس وقت انتخابات کو ہوئے دو سال مکمل ہوگئے تھے، جس کا مطلب یہ تھا کہ اگلے انتخابات سے پہلے آپ کے پاس تین سال کا وقت یعنی 1095 دن تھے۔ ان 1095 دنوں میں ایک ارب پودے لگانے کا مطلب یہ ہے کہ آپ کو یعنی آپ کی حکومت کو ایک دن میں 9 لاکھ 13 ہزار سے زائد پودے، ایک گھنٹے میں 38 ہزار سے زائد پودے ایک منٹ میں 634 پودے، ایک سیکنڈ میں 10 پودے لگانے تھے۔ اب سوال یہ ہے کہ جس رفتار سے پودے لگانے کی ضرورت تھی کیا اُسی رفتار سے پودے لگائے جارہے ہیں؟ اِس تمام تر صورتحال میں بس عرض اتنی سی ہے کہ اگر آپ کو اپنے صوبے کو رول ماڈل نہیں بنانا تھا تو وہ وعدے کیوں کئے گئے جن سے عوام کو یہ اُمید ہوچلی کہ ہمارے پاس بھی ایسے حکمران جو اُن کے بارے میں بھی سوچتے ہیں؟
بلین ٹری منصوبہ ہو یا بجلی کی پیداوار، خزانے کے معاملات ہوں یا سیاسی چپقلش، عوام نے پاکستان تحریک انصاف سے قومی اور خیبر پختونخواہ کی حد تک جتنی امیدیں وابستہ کرلی تھیں رفتہ رفتہ دم توڑتی جارہی ہیں۔ ان امیدوں کی آہ و بکا بس اتنی سی ہے کہ جو صوبہ مکمل طور پر آپ کے تصرف میں ہے اس کو ایسا بنا دیجیئے کہ مثال بنے۔ اس کو ایسا کر دیجیئے کہ عوام اگلے انتخابات میں آپ کے انتخابی نشان پر ٹوٹ پڑیں۔ خدارا! نعرہ نہ لگائیے بلکہ عملی طور پر تبدیلی دکھائیے، جو تبدیلی لائیں اس کی تشہیر کریں کیونکہ اب صرف نعروں کی تشہیر کا دور نہیں ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تمام صوبوں اور وفاق میں سب اپنی اپنی دکان چمکائے ہوئے بیٹھے ہیں۔ گاہک آرہے ہیں، مال بک رہا ہے مگر اس کاروبار کا فائدہ عوام کو کیوں نہیں ہورہا؟ یہ ایسا سوال ہے جس نے نہ صرف اس نعرے کی مقبولیت متاثر کی ہے بلکہ عوام کے دلوں میں اس کو سطحی بنادیا ہے۔
جمہوریت سے عوام کی ٹوٹتی امیدیں (پہلا حصہ)
اپوزیشن سے عوام کی ٹوٹتی امیدیں (دوسرا حصہ)
جمہوریت سے عوام کی ٹوٹتی امیدیں (تیسرا حصہ)
جمہوریت سے عوام کی ٹوٹتی امیدیں (چوتھا حصہ)
جمہوریت سے عوام کی ٹوٹتی امیدیں (پانچواں حصہ)
راولپنڈی میں جب پاکستان تحریک انصاف نے تبدیلی کا نعرہ لگایا تو راقم کا خیال بھی تھا کہ یہ ایسی تیسری قوت ابھری ہے جو باقی سیاسی پارٹیوں کا قبلہ درست کرنے کی جانب بھی اہم قدم ہوگا اور باقی سیاسی پارٹیاں اپنے اندرونی معاملات اس لئے بھی درست کرنا چاہیں گی کہ عوام میں تیسری قوت مقبولیت پارہی ہے اور ان کا کباڑہ ہوسکتا ہے، مگر شومئی قسمت یہ اب تک صرف راقم کی طرح پوری قوم کی سوچ ہی رہی ہے۔ تبدیلی کا نعرہ تو لگا لیکن اس نعرے کو تعبیر نہ مل سکی۔ وفاق میں اچھی کارکردگی، پنجاب و سندھ میں نمائندگی حاصل کرنے میں کامیابی، اور خیبر پختونخواہ میں حکومت بنانے میں کامیابی کے بعد بھی پاکستان تحریک انصاف عوام کو اپنی جانب اس طرح سے راغب نہیں کرپائی جس کی اِس جماعت سے توقع کی جا رہی تھی۔
سیاسی کشمکش چونکہ پاکستان تحریک انصاف کا طرہ امتیاز بن چکا ہے لہذا کوئی بھی احتجاج خیبر پختونخواہ حکومت کی شمولیت کے بغیر ممکن نہیں ہوپاتا۔ حیران کن طور پر یہ تک نہیں سوچا جاتا کہ روزانہ کی بنیاد پر ہونے والے احتجاج کی وجہ سے ایک مکمل صوبہ مفلوج ہوجاتا ہے۔ بے شک اشاریے بتاتے ہیں کہ تبدیلی کے آثار موجود ہیں لیکن اگر پاکستان تحریک انصاف مکمل زور 2018ء کے انتخابات، انتخابی اصلاحات، غیر جانبدار الیکشن کمیشن پر رکھتی اور خیبر پختونخواہ کو ایک ماڈل کے طور پر 2018ء میں عوام کے سامنے رکھتی اور دوسری پارٹیوں کے جھوٹے نعروں کا تقابل اپنی خیبر پختونخواہ کی کارکردگی سے کرتی تو کچھ یہ قطعی طور پر ناممکن نہیں تھا کہ اگلے انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف وفاق میں اکثریتی پارٹی بن کر سامنے آتی۔
پاکستان تحریک انصاف جن انتخابی اصلاحات کا واویلا وفاق کی سطح پر آج بھی کرتی ہے وہ اب تک اس صوبے میں مکمل نافذ نہیں کر پائی جہاں ان کی اپنی حکومت ہے۔ جاگیردارانہ نظام کے خلاف پارٹی کا اپنا یہ حال ہے کہ اس میں اعلیٰ عہدوں پر اکثریت صنعتکار، جاگیردار اور لینڈ لارڈ موجود ہیں۔ خیبر پختونخواہ میں بلدیاتی نظام بھی باقی صوبوں سے مختلف نہیں کہ نمائندے اختیارات کے لئے احتجاج کا راستہ اپناتے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے تک یہ اطلاعات بھی زیرِ گردش رہیں کہ قومی اسمبلی ممبران کو فنڈز تک صوبائی خزانے سے دیئے جاتے رہے۔ متعدد مرتبہ عمران خان خود کہہ چکے ہیں کہ ہم تبدیلی کے سفر میں ابھی پیچھے ہیں اور عوام کی امنگوں پر پورا ابھی تک نہیں اتر پائے۔ سوال بس اتنا سا ہے کہ جب آپ خود ابھی عوام کی امنگوں پر پورا نہیں اتر پائے تو دوسروں کو کس سلسلے میں رگیدتے پھرتے ہیں؟
ایک اور معاملہ آپ کا وہ وعدہ ہے جس کے لیے شاید آپ کے حمایتی کے ساتھ ساتھ آپ کے مخالفین بھی دعاگو تھے کہ یہ وعدہ ضرور پورا ہونا چاہیے، جی ہاں میں بلین ٹری منصوبے کی بات کررہا ہوں، لیکن سچ پوچھیے تو یہ اِس وعدے کو عملی جامہ پہنانا اب ناممکن دکھائی دے رہا ہے۔ اِس دعوے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جب خان صاحب نے یہ وعدہ کیا تھا تو اُس وقت انتخابات کو ہوئے دو سال مکمل ہوگئے تھے، جس کا مطلب یہ تھا کہ اگلے انتخابات سے پہلے آپ کے پاس تین سال کا وقت یعنی 1095 دن تھے۔ ان 1095 دنوں میں ایک ارب پودے لگانے کا مطلب یہ ہے کہ آپ کو یعنی آپ کی حکومت کو ایک دن میں 9 لاکھ 13 ہزار سے زائد پودے، ایک گھنٹے میں 38 ہزار سے زائد پودے ایک منٹ میں 634 پودے، ایک سیکنڈ میں 10 پودے لگانے تھے۔ اب سوال یہ ہے کہ جس رفتار سے پودے لگانے کی ضرورت تھی کیا اُسی رفتار سے پودے لگائے جارہے ہیں؟ اِس تمام تر صورتحال میں بس عرض اتنی سی ہے کہ اگر آپ کو اپنے صوبے کو رول ماڈل نہیں بنانا تھا تو وہ وعدے کیوں کئے گئے جن سے عوام کو یہ اُمید ہوچلی کہ ہمارے پاس بھی ایسے حکمران جو اُن کے بارے میں بھی سوچتے ہیں؟
بلین ٹری منصوبہ ہو یا بجلی کی پیداوار، خزانے کے معاملات ہوں یا سیاسی چپقلش، عوام نے پاکستان تحریک انصاف سے قومی اور خیبر پختونخواہ کی حد تک جتنی امیدیں وابستہ کرلی تھیں رفتہ رفتہ دم توڑتی جارہی ہیں۔ ان امیدوں کی آہ و بکا بس اتنی سی ہے کہ جو صوبہ مکمل طور پر آپ کے تصرف میں ہے اس کو ایسا بنا دیجیئے کہ مثال بنے۔ اس کو ایسا کر دیجیئے کہ عوام اگلے انتخابات میں آپ کے انتخابی نشان پر ٹوٹ پڑیں۔ خدارا! نعرہ نہ لگائیے بلکہ عملی طور پر تبدیلی دکھائیے، جو تبدیلی لائیں اس کی تشہیر کریں کیونکہ اب صرف نعروں کی تشہیر کا دور نہیں ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔