تکیہ تارڑ چاہت کا بہاو

دسمبرکی ایک خوشگوار سہ پہر کومنعقد ہونیوالی یہ تقریب تو اختتام پذیر ہوگئی، مگر اپنے پیچھے کتنی ہی حسین یادیں چھوڑ گئی۔


تحسین عزیز December 16, 2016
یہ ایک مردہ پرست معاشرہ ہے، جس کے نزدیک وہی شخص عظیم ہے، جو لحد میں اترچکا ہو۔ لیکن اگر اِسی معاشرے میں کسی کو اُس کی زندگی میں ہی اعزاز مل جائے تو یہ کتنی خوش قسمتی کی بات ہے۔

یہ ایک مردہ پرست معاشرہ ہے، جس کے نزدیک وہی شخص عظیم ہے، جو لحد میں اتر چکا ہو۔ کسی شخص کے قد کا تعین اُس وقت ہوتا ہے جب وہ مرحوم ہوچکا ہو۔ ایک ایسی قوم جو اپنے مشاہیر، شاعروں، ادیبوں اور اکابرین سے صرف اِس حد تک واقف ہو، جتنا وطن عزیز کے حکمران گڈ گورننس سے۔

ایک ایسا سماج، جہاں آج بھی لوگوں کی بڑی تعداد یقین کی حد تک "احمد ندیم قاسمی" کو "عطاالحق قاسمی" کا سگا بھائی سمجھتی ہو، فیض احمد فیض اور فراز احمد فراز میں تفریق نہ کرسکے، جہاں منٹو کی معاشرے کو جھنجھوڑنے والی تحریروں سے بھی صرف جنسی تسکین حاصل کی جاتی ہو، جہاں اشفاق احمد کی پہچان فقط ان کے ڈرامے ہوں۔ ایسے معاشرے میں اگر ایک ادیب کو اتنی اہمیت حاصل ہوجائے کہ اُس کی زندگی ہی میں اُس کے چاہنے والے، اُس کے پرستار، اُس کے سفرنامے پڑھ کر دور دراز وادیوں کا رخ کرنے والے شہر شہر، بستی بستی، کبھی کسی جھیل کنارے، حتیٰ کہ ایک نگر سے دوسرے نگر جاتی بس کی چھت پر ایک ایسی محفل منعقد کریں، جہاں اُس ادیب کے لکھے اور کہے ہوئے لفظوں کو دہرایا جائے، اُس کا ذکر محبت اور عقیدت سے کیا جائے، تو کیا یہ اُس ادب بیزار معاشرے میں اچنبھے کی بات نہیں؟ ایک معجزہ نہیں؟

یہ ذکر ہے اپنے عہد کے عظیم لکھاری مستنصر حسین تارڑ کا، جن کے دامن میں نہ صرف سفرناموں کا ایک بیش قیمت ذخیرہ ہے، بلکہ انہوں نے ادب کی اہم ترین صنف، یعنی ناول نگاری میں بھی بہاﺅ، راکھ اور خس و خاشاک زمانے جیسے شاہکار لکھ کر اپنا لوہا منوایا۔ ان کے ناول "بہاﺅ" کو آل انڈیا ریڈیو نے اردو ادب کے پانچ بہترین ناولوں میں سے ایک قرار دیا۔

قصہ کچھ یوں ہے کہ ان کے چاہنے والے ان کے اعزاز میں ایک ایسی تقریب منعقد کرتے ہیں، جسے "تکیہ تارڑ" کے نام سے جانا جاتا ہے۔ جس شہر یا بستی میں یہ تقریب منعقد ہوتی ہے، ان کے چاہنے والے کشاں کشاں چلے آتے ہیں اور اپنے محبوب ادیب کی باتوں سے اپنے سینوں کو لبریز کرکے لوٹ جاتے ہیں۔ اِس نادر تقریب کا اچھوتا خیال پہلے پہل امریکا میں مقیم ڈاکٹر عاطف فرید کے ذہن میں آیا تھا، جو ہیں تو دیار غیر میں مقیم، مگر اُن کا دل پاکستان اور پاکستان میں موجود اپنے من پسند ادیب کے لئے دھڑکتا ہے۔ فیس بک پر بھی ایک گروپ "مستنصر حسین تارڑ ریڈرز ورلڈ" کے نام سے چلاتے ہیں، جہاں دس ہزار سے زائد ممبر موجود ہیں۔

گزشتہ دنوں تکیہ تارڑ کی تقریب کراچی میں "فاران" کلب میں منعقد کی گئی، جس میں راقم خود بھی موجود تھا۔ اِس تقریب کے سرپرست ڈاکٹر عاطف صاحب تھے۔ روح رواں حاجرہ ریحان اور نازش امین تھیں، جو خود بھی منجھی ہوئی لکھاری ہیں۔ اُن کے علاوہ فریال عثمان بھی موجود تھی، جو ایک کوہ پیما ہیں۔ پاکستان میں خواتین کوہ پیماﺅں کی عظمت و ہمت کی مثال شاہ جی بھی تھے، جنہوں نے تارڑ صاحب کے لیے عقیدت بھری بے مثال شاعری پیش کی۔ ماجد صاحب نے شاندار فوٹوگرافی کے ذریعے ان قیمتی لمحات کو ہمیشہ کے لیے محفوظ کیا۔

اِس محفل کی خاص بات دورانِ محفل تارڑ صاحب کی ویڈیو کال تھی۔ انہوں نے مداحوں سے ملاقات نہ ہونے پر دکھ کا اظہار کیا، پھر برجستہ انداز میں اپنے دل کی باتیں کیں۔ ساتھ خوش خبری دی کہ مستقبل قریب میں ان کی مزید کتابیں آنے والی ہیں۔ مستنصر صاحب نے راقم الحروف کے سوال کا بھی مفصل جواب دیا۔ غرض یہ کہ ایسی محفل، جو ہر لحاظ سے لاجواب اور بھرپور تھی، ہر بڑے ادیب کے لئے منعقد ہونی چاہیئے، اور اُس کی زندگی میں منعقد ہونی چاہیئے، کیوںکہ بقول تارڑ صاحب، انسان کو اُس کی زندگی میں ہی وہ عزت و احترام ملنا چاہیئے، جس کا وہ حق دار ہے۔



دسمبر کی ایک خوشگوار سہ پہر کو منعقد ہونے والی یہ تقریب تو اختتام پذیر ہوگئی، مگر اپنے پیچھے کتنی ہی حسین یادیں چھوڑ گئی، جو کئی برس تک میری یادوں کو مہکاتی رہیں گی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں