فتح ِ مکّہ

’’حق آگیا اور باطل مٹ گیا۔ بے شک! باطل مٹنے کے لیے تھا۔‘‘

’’حق آگیا اور باطل مٹ گیا۔ بے شک! باطل مٹنے کے لیے تھا۔‘‘

قرآن حکیم میں آتا ہے:''جب اﷲ کی مدد اور (مکہ کی) فتح آ پہنچے اور وہ آثار جو اس پر کھلنے والے ہیں کہ آپ لوگوں کو اﷲ کے دین یعنی اسلام میں جوق در جوق داخل ہوتا ہوا دیکھ لیں تو اپنے رب کی تسبیح کریں اور اس سے استغفار کی درخواست کریں۔ وہ بڑا توبہ قبول کرنے والا ہے۔'' (النصر 3-1) اسلامی ریاست کی سیاسی برتری کے آثار فتح خیبر اور وادی القریٰ کے بعد نظر آرہے تھے۔ قیصر و کسریٰ کی سرحدیں خطرے میں تھیں۔ آس پاس کے تقریباً تمام قبائل نے اسلامی فوقیت تسلیم کرلی تھی اور خود بہ خود اسلامی ریاست میں داخل ہوتے جارہے تھے۔

یہ معجزہ ہجرت کے بعد سے شروع ہوچکا تھا۔ قریش کا سمجھ دار طبقہ مائل بہ اسلام تھا۔ مکے کی اپنی مذہبی حکومت زوال پذیر تھی۔ خود اہل مکہ خوف و ہراس اور مایوسی کا شکار تھے۔ معاہدۂ مدینہ کے بعد تمام قبائل کو یہ اختیار دے دیا گیا تھا کہ وہ من پسند وفاق کو چن لیں۔ بنوخزیمہ مسلمانوں کے ساتھ اور بنو بکر قریش کے ساتھ تھے۔ رمضان 10 ہجری میں نبی کریم نے بی بی عائشہ کو سفر کی تیاری کا حکم دیا۔ آپ نے اہل مدینہ کو بتایا کہ میں مکہ جارہا ہوں لہٰذا سب لوگ فوراً تیار ہوجائیں۔ ساتھ ہی یہ حکم بھی فرمایا کہ اس ضمن میں پوری احتیاط کریں۔

جب تک ہم خود ان کے علاقے میں نہ پہنچ جائیں، اس وقت تک قریش کو ہماری نقل و حرکت کی اطلاع نہیں ہونی چاہیے۔ سیرت نگاروں کا بیان ہے کہ کو جب کہ آپ اور آپ کے تمام ساتھی روزے سے تھے، مسلمانوں کی دس ہزار کی فوج مدینے سے نکلی اور عازم مکہ ہوئی۔ ابن اسحاق کا بیان ہے کہ جب اسلامی فوج مکے میں داخل ہونے والی تھی تو مکے کے واحد رئیس ابو سفیان نے اسلام کے سامنے سر تسلیم خم کردیا۔

اہل مکہ نے اسلامی فوج کے سامنے کوئی مزاحمت نہ کی اور یہ لوگ فاتحانہ مکے میں داخل ہوگئے۔ اس موقع پر یہ اعلان کیا گیا کہ جو شخص ابو سفیان کے گھر میں داخل ہوگا، اسے امان ملے گی۔ جو اپنے گھر کا دروازہ بند کرلے گا، اسے امان ملے گی اور جو مسجد الحرام میں داخل ہوگا، وہ بھی مامون ہوگا۔

نبی کریم جب مکے کی وادی ذی طوی میں پہنچے تو آپ نے اپنا سر عاجزی کے ساتھ اﷲ کے حضور جھکا دیا، کیوں کہ اﷲ تعالیٰ نے آپ کو فتح مکہ سے نوازا تھا۔ مکے میں داخل ہونے کا حکم دیتے ہوئے نبی محترم نے اپنے لشکر کے امیروں سے یہ عہد لیا کہ وہ سوائے ان لوگوں کے جو ان سے آکر لڑیں، کسی سے نہیں لڑیں گے۔ فتح مکہ کے بعد آپ نے بیت اﷲ کا رخ کیا اور خانۂ کعبہ کا سات مرتبہ طواف کیا۔

طواف مکمل کرنے کے بعد نبی نے عثمان بن طلحہ سے کعبۃ اﷲ کی چابی لی اور کعبے میں داخل ہوئے۔ پھر آپ نے کعبے کے اندر اور باہر موجود تمام بتوں کو توڑ کر گرادینے کا حکم دیا۔ اس کے ساتھ بہ ذات خود اپنے دست مبارک میں پکڑی چھڑی سے بتوں کو گراتے جاتے اور یہ ارشاد فرماتے جاتے:''حق آگیا اور باطل مٹ گیا۔ بے شک! باطل مٹنے کے لیے تھا۔''

جب نماز کا وقت ہوا تو حضرت بلال حبشی نے اذان دی اور خانۂ کعبہ میں باجماعت نماز ادا کی گئی۔ اس کے بعد رسول مقدس نے یہ خطبہ ارشاد فرمایا: ''اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں جو یکتا اور تنہا ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔ اس کا وعدہ سچا ثابت ہوا۔ اس نے اپنے بندے کی نصرت فرمائی اور صرف اسی نے تمام گروہوں کو شکست دی۔ اے گروہ قریش! اﷲ تعالیٰ نے تم سے جاہلیت کی نحوست اور آبا و اجداد پر فخر و غرور زائل کردیا۔ سب انسان آدم سے پیدا ہوئے اور آدم مٹی سے بنے تھے۔''


پھر نبی برحق نے قرآن حکیم کی یہ آیت پڑھی:''اے لوگو! ہم نے تمھیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور ہم نے تمھارے گروہ اور قبیلے بنائے، تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ بے شک! تم میں سے اﷲ کے نزدیک زیادہ پسندیدہ وہ ہے جو تم میں سے سب سے زیادہ پرہیزگار ہے۔ یقیناً اﷲ خبیر و علیم ہے۔'' (الحجرات13)

پھر نبی کریم نے مکے کے قریش سے مخاطب ہوکر ارشاد فرمایا:''اب تم آزاد ہو۔''

اس کے بعد آپ نے اسلام قبول کرنے والوں سے بیعت لی۔ اس موقع پر کسی شخص پر زور زبردستی نہیں کی گئی کہ وہ فوراً مذہب تبدیل کرلے۔ صفوان بن امیہ، ابو سفیان کے وزیر تھے۔ جب ان کے سامنے اسلام پیش کیا گیا تو انھوں نے مہلت مانگی۔

اس کے بعد نبی کریم حرمت کعبہ پر خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:''اے لوگو! اﷲ تعالیٰ نے جس دن زمین و آسمان پیدا کیے، اسی دن مکہ کو حرمت کی جگہ قرار دیا اور یہ اس وقت سے حرمت کی جگہ چلا آرہا ہے اور قیامت تک اسی طرح محرم رہے گا۔ لہٰذا کسی بھی ایسے آدمی کے لیے جو اﷲ اور یوم قیامت پر ایمان رکھتا ہے یہ جائز نہیں کہ مکے میں کسی کا خون بہائے اور نہ کوئی شخص اس میں درخت کاٹے۔ مجھ سے پہلے کسی بھی شخص کے لیے مکہ حلال نہیں ہوا اور نہ میرے بعد آنے والے کسی شخص کے لیے حلال ہوگا۔

حضور نبی کریم کے مکے میں قیام سے انصار سمجھے کہ اب آپ یہیں قیام پذیر رہیں گے۔ چناں چہ آپ نے انصار سے فرمایا:''میرا جینا مرنا تمہارے ساتھ ہے۔'' یہ سن کر انصار کو اطمینان ہوا۔

فتح مکہ سے پہلے قریش، ہر وقت حضور کی مخالفت پر کمر بستہ اور آپ سے لڑنے کو تیار رہتے تھے۔ لیکن جب اﷲ کی مدد اور عنایت سے مکہ فتح ہوا اور قریش نے اسلام قبول کرلیا تو اہل عرب کو معلوم ہوگیا کہ اب کسی میں آنحضرت سے لڑنے کی طاقت نہیں اور نہ کوئی آپ کی مخالفت میں کامیاب ہو سکتا ہے۔ چناں چہ فتح مکہ کے بعد عربوں کے گروہ کے گروہ حضور کی خدمت میں آکر مشرف بہ اسلام ہونے لگے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:''بے شک! ہم نے آپ کو ایک کھلم کھلا فتح دی، تاکہ اﷲ تعالیٰ آپ کی سب اگلی خطائیں معاف فرما دے اور آپ پر اپنے احسانات کی تکمیل کردے اور آپ کو سیدھے رستے پر لے چلے اور اﷲ آپ کو ایسا غلبہ دے جس میں عزت ہی عزت ہو۔'' (الفتح3-1)

چناں چہ فتح مکہ، سرور عالم کی اعلیٰ حکمت عملی، معاملہ فہمی، تالیف قلب اور حالات کو اپنی موافقت میں تبدیل کرنے کی عمدہ ترین صلاحیتوں کا مظہر ہے جس نے اہل مکہ کو بلا کسی خون خرابے کے ایک ہی روز میں ہتھیار ڈالنے پر مجبور کردیا۔

Recommended Stories

Load Next Story