سماجی روابط کے ذرایع پر تنقید کیوں
آج کل سماجی رابطے کے ذرایع یا سوشل میڈیا کے بارے میں بحث جاری ہے
آج کل سماجی رابطے کے ذرایع یا سوشل میڈیا کے بارے میں بحث جاری ہے۔ کچھ دوستوں کا خیال ہے کہ اس کی وجہ سے بداخلاقی، بدکرداری اور بدانتظامی کو فروغ حاصل ہورہا ہے، جب کہ دیگر احباب کا خیال ہے کہ ان ذرایع ابلاغ کی وجہ سے دنیا بھر میں انسانوں کے انسانوں سے روابط میں آسانی پیدا ہوئی ہے۔ خاص طور پر skip،Viber،WhatsAppاورInstagram کی وجہ سے عام لوگوں کو بڑے پیمانے پر سہولیات حاصل ہوئی ہیں ، جب کہ فیس بک، Linkedin اورٹوئٹرسمیت کوئی دو درجن کے قریبWebsitesکی وجہ سے لوگوں کو بغیر کسی رکاوٹ اپنے خیالات کے اظہارکے مواقعے مل رہے ہیں۔
اگر بغور مطالعہ کیا جائے، تو وائر لیس کی ایجاد دراصل اس جدید ٹیکنالوجی تک پہنچنے کا ذریعہ بنی ہے۔ چنانچہ ٹیلی فون اور ٹیلی گراف سے شروع ہونے والا سلسلہ ریڈیو اورٹیلی ویژن سے ہوتا ہوا سیٹلائٹ اور انفارمیشن ٹیکنالوجی تک پہنچا ہے۔کمپیوٹرخاص طور پر اسمارٹ موبائل فون کی تخلیق کے بعد سماجی رابطے یا Social Mediaکا تصور دنیا کے سامنے آیا، کیونکہ وہ باتیں یا خیالات جو رسمی ذرایع ابلاغ کے ذریعے ممکن نہیں، اس ذرایع سے ان کا مشتہر ہونا آسان ہوگیا ہے۔
یہی سبب ہے کہ اس وقت کوئی ڈیڑھ درجن کے قریب سماجی رابطے کے ذرایع متحرک ہیں، جو سماجی روابط اور آزادانہ خیالات کے اظہار کے مواقعے فراہم کررہی ہیں۔ ان کے استعمال کنندگان کی تعداد جون 2016کے ایک سروے کے مطابق 10کروڑ سے زائد ہے۔ اگلے دس برسوں کے دوران ان ویب سائٹس اور استعمال کنندگان کی تعداد کے دگنے ہونے کی توقع کی جارہی ہے۔ لہٰذا یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ سماجی روابط کی متعارف ہونے والی سائٹس اصل میں سماجی تعلق (Social Connectivity)کی سائٹس ہیں۔
ہم ذاتی تجربات کی روشنی میں اپنی بات کے حق میں دلائل دے سکتے ہیں۔ ہم نے عملی زندگی میں1975میں قدم رکھا۔ اس وقت ہم یونیورسٹی کے طالب علم بھی تھے۔ انگریزی کے لیے ٹائپ رائٹر جب کہ اردو اور سندھی تحریریں ہاتھ سے لکھا کرتے تھے۔ مضمون کا ابتدائی مسودے میں کئی کاغذ ضایع ہوا کرتے تھے، پھر کہیں جاکر حتمی مسودہ تیار ہوتا تھا۔ جسے خوش خط لکھ کر ڈاک یا ذاتی طور پر اخبار یا رسالے کے دفتر تک پہنچاتے تھے۔ جس کے شایع ہونے والے عام طور پر تین سے چار دن لگ جایا کرتے تھے۔ اکثر یہ بھی ہوا کہ جس موضوع پر لکھا، اس کا منظر نامہ تبدیل ہوجانے سے باسی (Stale)ہوگیا۔
اس کے برعکس آج اخبار کے لیے مضمون اس صبح بھیجا جاسکتا ہے، جس شام اسے پریس میںجانا ہے۔ ذرا 40برس بعد کے منظر نامے پر نظر ڈالتے ہیں۔ یہ ستمبر 2013کا واقعہ ہے، مجھے کوئٹہ جانا تھا۔ فلائٹ کا مقررہ وقت 1بج کر 25منٹ تھا۔ ایک بجے ڈپارچر لاؤنج میں پہنچ گیا۔ سوچا یہ تھا کہ اپنا اظہاریہ ڈیڑھ گھنٹے کی فلائٹ کے دوران لکھ لوں گا۔ کوئٹہ پہنچنے پر اخبار کو email کردوں گا۔ مگر جیسے ہی ڈپارچر لاؤنج میں پہنچنے تو معلوم ہوا کہ فلائٹ ٹیکنیکل وجوہات کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہے۔
اپنا لیپ ٹاپ کھول کر اظہاریہ لکھنے بیٹھ گئے۔ ابھی اظہاریہ مکمل کیا ہی تھا کہ جہاز کی روانگی کا اعلان ہوگیا۔ جہاز پر سوار ہونے سے پہلے انٹر نیٹ کی مہربانی سے اظہاریہ اخبار تک پہنچ چکا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ کالم نگار Views on Newsکے بجائے فکاہیہ کالم لکھنے یا بین السطور میں باتیں کیا کرتے تھے۔ جدید ٹیکنالوجی کی آمد کے بعد اب کسی واقعے یا سانحہ پر فوری تبصرہ آسان ہوگیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب اخبارات کے ادارتی صفحے پر فکاہیہ یا افسانوی طرز کے کالموں کی جگہ Views on News کو اہمیت دی جاتی ہے۔
دوسرا واقعہ 1977کے عام انتخابات کا ہے۔ یہ انتخاباات خاصے معرکہ آرا تھے۔ نو سیاسی جماعتوں کا اتحاد پاکستان قومی اتحاد(PNA)نے پیپلز پارٹی کو چیلنج کیا ہوا تھا۔ مجھے لانڈھی کورنگی سے قومی اسمبلی کے حلقے کے درجن بھر پولنگ اسٹیشنوں کو کور کرنا تھا۔ اس نشست پر پیپلزپارٹی کے پروفیسر این ڈی خان کا مقابلہ قومی اتحاد (PNA)کے پروفیسر شاہ فرید الحق مرحوم سے ہورہا تھا۔کئی پولنگ اسٹیشنوں پر ہنگامہ آرائی جاری تھی۔کمپری ہنسو اسکول کورنگی میں PNAکے کچھ کارکنوں نے پیپلز پارٹی کی رہنما شمیم این ڈی خان مرحومہ کے ساتھ بدتمیزی کی ۔جس کے بعد دونوں جماعتوں کے کارکنوں میں تصادم ہوگیا۔ ادارے کو اس صورتحال کی اطلاع دینے کے لیے ٹیلیفون کی تلاش میں نکلا، مگر تمام دکانیں بند تھیں۔ بڑی مشکل سے ایک میڈیکل اسٹور کھلا ہوا ملا۔ اس کے مالک نے طویل پوچھ گچھ کے بعد دگنی شرح پر فون کرنے کی اجازت دی۔
اس واقعے کے 36برس بعد2013 کے عام انتخابات کے موقعے پر جب حلقہ 258کے دورے پر نکلے، تو صورتحال خاصی تبدیل ہوچکی تھی۔ اس نشست پر کئی امیدوار تھے، مگر مضبوط امیدوار مسلم لیگ(ن) سے تعلق رکھنے والے حکیم بلوچ تھے۔یاد رہے کہ حکیم بلوچ مسلم لیگ چھوڑ کرنہ صرف پیپلز پارٹی میں شامل ہوچکے ہیں، بلکہ یہ نشست بھاری اکثریت کے ساتھ دوبارہ حاصل بھی کرچکے ہیں۔بہر حال اس وقت ہمارے ہاتھ میں اسمارٹ فون تھا، جس میں انٹر نیٹ سمیت درجنوں آپشنز موجودتھے۔
ہم بیک وقت بیرون ملک ذرایع ابلاغ کے علاوہ اندرون ملک ابلاغی اداروں سے بھی رابطے میں تھے۔emailکے ذریعے ہر پولنگ اسٹیشن کے بارے میں مسلسل معلومات فراہم کررہے تھے۔ WhatsApp کے ذریعے پیغام رسائی کے علاوہ کلامی رابطے میں تھے۔ Facebookپر الیکشن کے بارے میں آنے والے عوامی تبصروں سے مستفیض ہورہے تھے۔ جب کہ Liveٹیلی ویژن کے ذریعے ملک کے دوسرے حصوں کی انتخابی صورتحال کے بارے میں اپنی آنکھوں سے جائزہ لے رہے تھے۔
چنانچہ جب ہم اپنی 40برس سے زائد عرصے پر محیط پیشہ ورانہ زندگی پر نظر دوڑاتے ہیں، تو ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی نے ہماری زندگی میںبڑے پیمانے پر سہولیات پیدا کی ہیں۔ کتاب کی اہمیت اپنی جگہ، مگرفوری طورپرکسی معلومات کے حصول کے لیے Google بہترین ذریعہ بن گیا ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں سے بہت کم ایسا ہوا ہے کہ کوئی مضمون ہاتھ سے لکھا ہو۔ اب صورتحال یہ ہے کہ ہاتھ سے لکھنا بھی چاہیں تو لکھا نہیں جاتا۔آج اخبار کے لیے اظہاریہ ہو یا طویل مضامین یا پھر کلاس میں دینے کے لیے لیکچرز کی Presentations ہو، ہم سب کچھ کمپیوٹر پرہی لکھتے اور تیارکرتے ہیں۔ حتیٰ کہ تراجم بھی کتاب سامنے رکھ کربراہ راست کمپیوٹر پر ہی کیا کرتے ہیں۔
ہمیں اس پہلو کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا کہ ہر ایجاد کے علمی و سماجی فوائد کے ساتھ تجارتی فوائد بھی ہوتے ہیں۔ تجارتی مقاصد کے لیے استعمال اکثر منفی رجحانات کو پروان چڑھانے کا باعث بن جاتے ہیں۔ جیسے بعض سائٹس پر جنسی معاملات کو تجارتی مقاصد کے لیے پرکشش انداز میں پیش کیا جاتا ہے۔ جس طرح ریموٹ کنٹرول کے ذریعے ہم ناپسندیدہ چینلزکو بلاک کردیتے ہیں، اسی طرح ان سائٹس کو بلاک کرنا بھی ہمارے ہاتھ میں ہے۔ دراصل کسی مصنوعات کو استعمال کرنے کے لیے اس کی آگہی ضروری ہے۔ کمپیوٹر اور سماجی ویب سائٹس کے استعمال کے لیے بھی ان کے بارے میں آگہی ضروری ہے۔ جو عناصر مسلسل پریشانی کا باعث بنیں یا جن کی پوسٹس ذہنی کرب میں اضافہ کریں انھیں بلاک بھی کیا جاسکتا ہے۔
دراصل ہم جدید ٹیکنالوجی کو کس طرح استعمال کرتے ہیں، اس سے اس کے فوائد اور نقصانات کا تعین ہوتا ہے۔ ریلوے اور ہوائی جہاز کی ایجاد نے سفرکو نہایت آسان بنا دیا۔ان دونوں ذرایع کو بعض انسانی کوتاہیوں یا تکنیکی وجوہات کی وجہ سے حادثات بھی پیش آتے ہیں، جن میں لاکھوں افراد اپنی جاں گنوا بیٹھتے ہیں۔ مگر اس بنیاد پر کوئی یہ مطالبہ نہیں کرے گا کہ ریلوے یا ہوائی جہازوں کی سروس بند کردی جائے۔ اسی طرح سٹیلائٹ ٹیکنالوجی کی وجہ سے عالمی سطح پر روابط(Connectivity)میں بے بہا اضافہ ہوا ہے۔ اب اس میں پائی جانے والی بعض خرابیوں کی وجہ سے اس پر پابندی کا مطالبہ غیر منطقی ہے۔ دراصل ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہر سائنسی ایجاد نے نسل انسانی کو بے بہا فوائد پہنچائے ہیں، جب کہ نقصانات ان فوائد کا عشر عشیر بھی نہیں ہیں، اس لیے جدید ایجادات پر تنقید بلا جواز ہے۔
اگر بغور مطالعہ کیا جائے، تو وائر لیس کی ایجاد دراصل اس جدید ٹیکنالوجی تک پہنچنے کا ذریعہ بنی ہے۔ چنانچہ ٹیلی فون اور ٹیلی گراف سے شروع ہونے والا سلسلہ ریڈیو اورٹیلی ویژن سے ہوتا ہوا سیٹلائٹ اور انفارمیشن ٹیکنالوجی تک پہنچا ہے۔کمپیوٹرخاص طور پر اسمارٹ موبائل فون کی تخلیق کے بعد سماجی رابطے یا Social Mediaکا تصور دنیا کے سامنے آیا، کیونکہ وہ باتیں یا خیالات جو رسمی ذرایع ابلاغ کے ذریعے ممکن نہیں، اس ذرایع سے ان کا مشتہر ہونا آسان ہوگیا ہے۔
یہی سبب ہے کہ اس وقت کوئی ڈیڑھ درجن کے قریب سماجی رابطے کے ذرایع متحرک ہیں، جو سماجی روابط اور آزادانہ خیالات کے اظہار کے مواقعے فراہم کررہی ہیں۔ ان کے استعمال کنندگان کی تعداد جون 2016کے ایک سروے کے مطابق 10کروڑ سے زائد ہے۔ اگلے دس برسوں کے دوران ان ویب سائٹس اور استعمال کنندگان کی تعداد کے دگنے ہونے کی توقع کی جارہی ہے۔ لہٰذا یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ سماجی روابط کی متعارف ہونے والی سائٹس اصل میں سماجی تعلق (Social Connectivity)کی سائٹس ہیں۔
ہم ذاتی تجربات کی روشنی میں اپنی بات کے حق میں دلائل دے سکتے ہیں۔ ہم نے عملی زندگی میں1975میں قدم رکھا۔ اس وقت ہم یونیورسٹی کے طالب علم بھی تھے۔ انگریزی کے لیے ٹائپ رائٹر جب کہ اردو اور سندھی تحریریں ہاتھ سے لکھا کرتے تھے۔ مضمون کا ابتدائی مسودے میں کئی کاغذ ضایع ہوا کرتے تھے، پھر کہیں جاکر حتمی مسودہ تیار ہوتا تھا۔ جسے خوش خط لکھ کر ڈاک یا ذاتی طور پر اخبار یا رسالے کے دفتر تک پہنچاتے تھے۔ جس کے شایع ہونے والے عام طور پر تین سے چار دن لگ جایا کرتے تھے۔ اکثر یہ بھی ہوا کہ جس موضوع پر لکھا، اس کا منظر نامہ تبدیل ہوجانے سے باسی (Stale)ہوگیا۔
اس کے برعکس آج اخبار کے لیے مضمون اس صبح بھیجا جاسکتا ہے، جس شام اسے پریس میںجانا ہے۔ ذرا 40برس بعد کے منظر نامے پر نظر ڈالتے ہیں۔ یہ ستمبر 2013کا واقعہ ہے، مجھے کوئٹہ جانا تھا۔ فلائٹ کا مقررہ وقت 1بج کر 25منٹ تھا۔ ایک بجے ڈپارچر لاؤنج میں پہنچ گیا۔ سوچا یہ تھا کہ اپنا اظہاریہ ڈیڑھ گھنٹے کی فلائٹ کے دوران لکھ لوں گا۔ کوئٹہ پہنچنے پر اخبار کو email کردوں گا۔ مگر جیسے ہی ڈپارچر لاؤنج میں پہنچنے تو معلوم ہوا کہ فلائٹ ٹیکنیکل وجوہات کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہے۔
اپنا لیپ ٹاپ کھول کر اظہاریہ لکھنے بیٹھ گئے۔ ابھی اظہاریہ مکمل کیا ہی تھا کہ جہاز کی روانگی کا اعلان ہوگیا۔ جہاز پر سوار ہونے سے پہلے انٹر نیٹ کی مہربانی سے اظہاریہ اخبار تک پہنچ چکا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ کالم نگار Views on Newsکے بجائے فکاہیہ کالم لکھنے یا بین السطور میں باتیں کیا کرتے تھے۔ جدید ٹیکنالوجی کی آمد کے بعد اب کسی واقعے یا سانحہ پر فوری تبصرہ آسان ہوگیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب اخبارات کے ادارتی صفحے پر فکاہیہ یا افسانوی طرز کے کالموں کی جگہ Views on News کو اہمیت دی جاتی ہے۔
دوسرا واقعہ 1977کے عام انتخابات کا ہے۔ یہ انتخاباات خاصے معرکہ آرا تھے۔ نو سیاسی جماعتوں کا اتحاد پاکستان قومی اتحاد(PNA)نے پیپلز پارٹی کو چیلنج کیا ہوا تھا۔ مجھے لانڈھی کورنگی سے قومی اسمبلی کے حلقے کے درجن بھر پولنگ اسٹیشنوں کو کور کرنا تھا۔ اس نشست پر پیپلزپارٹی کے پروفیسر این ڈی خان کا مقابلہ قومی اتحاد (PNA)کے پروفیسر شاہ فرید الحق مرحوم سے ہورہا تھا۔کئی پولنگ اسٹیشنوں پر ہنگامہ آرائی جاری تھی۔کمپری ہنسو اسکول کورنگی میں PNAکے کچھ کارکنوں نے پیپلز پارٹی کی رہنما شمیم این ڈی خان مرحومہ کے ساتھ بدتمیزی کی ۔جس کے بعد دونوں جماعتوں کے کارکنوں میں تصادم ہوگیا۔ ادارے کو اس صورتحال کی اطلاع دینے کے لیے ٹیلیفون کی تلاش میں نکلا، مگر تمام دکانیں بند تھیں۔ بڑی مشکل سے ایک میڈیکل اسٹور کھلا ہوا ملا۔ اس کے مالک نے طویل پوچھ گچھ کے بعد دگنی شرح پر فون کرنے کی اجازت دی۔
اس واقعے کے 36برس بعد2013 کے عام انتخابات کے موقعے پر جب حلقہ 258کے دورے پر نکلے، تو صورتحال خاصی تبدیل ہوچکی تھی۔ اس نشست پر کئی امیدوار تھے، مگر مضبوط امیدوار مسلم لیگ(ن) سے تعلق رکھنے والے حکیم بلوچ تھے۔یاد رہے کہ حکیم بلوچ مسلم لیگ چھوڑ کرنہ صرف پیپلز پارٹی میں شامل ہوچکے ہیں، بلکہ یہ نشست بھاری اکثریت کے ساتھ دوبارہ حاصل بھی کرچکے ہیں۔بہر حال اس وقت ہمارے ہاتھ میں اسمارٹ فون تھا، جس میں انٹر نیٹ سمیت درجنوں آپشنز موجودتھے۔
ہم بیک وقت بیرون ملک ذرایع ابلاغ کے علاوہ اندرون ملک ابلاغی اداروں سے بھی رابطے میں تھے۔emailکے ذریعے ہر پولنگ اسٹیشن کے بارے میں مسلسل معلومات فراہم کررہے تھے۔ WhatsApp کے ذریعے پیغام رسائی کے علاوہ کلامی رابطے میں تھے۔ Facebookپر الیکشن کے بارے میں آنے والے عوامی تبصروں سے مستفیض ہورہے تھے۔ جب کہ Liveٹیلی ویژن کے ذریعے ملک کے دوسرے حصوں کی انتخابی صورتحال کے بارے میں اپنی آنکھوں سے جائزہ لے رہے تھے۔
چنانچہ جب ہم اپنی 40برس سے زائد عرصے پر محیط پیشہ ورانہ زندگی پر نظر دوڑاتے ہیں، تو ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی نے ہماری زندگی میںبڑے پیمانے پر سہولیات پیدا کی ہیں۔ کتاب کی اہمیت اپنی جگہ، مگرفوری طورپرکسی معلومات کے حصول کے لیے Google بہترین ذریعہ بن گیا ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں سے بہت کم ایسا ہوا ہے کہ کوئی مضمون ہاتھ سے لکھا ہو۔ اب صورتحال یہ ہے کہ ہاتھ سے لکھنا بھی چاہیں تو لکھا نہیں جاتا۔آج اخبار کے لیے اظہاریہ ہو یا طویل مضامین یا پھر کلاس میں دینے کے لیے لیکچرز کی Presentations ہو، ہم سب کچھ کمپیوٹر پرہی لکھتے اور تیارکرتے ہیں۔ حتیٰ کہ تراجم بھی کتاب سامنے رکھ کربراہ راست کمپیوٹر پر ہی کیا کرتے ہیں۔
ہمیں اس پہلو کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا کہ ہر ایجاد کے علمی و سماجی فوائد کے ساتھ تجارتی فوائد بھی ہوتے ہیں۔ تجارتی مقاصد کے لیے استعمال اکثر منفی رجحانات کو پروان چڑھانے کا باعث بن جاتے ہیں۔ جیسے بعض سائٹس پر جنسی معاملات کو تجارتی مقاصد کے لیے پرکشش انداز میں پیش کیا جاتا ہے۔ جس طرح ریموٹ کنٹرول کے ذریعے ہم ناپسندیدہ چینلزکو بلاک کردیتے ہیں، اسی طرح ان سائٹس کو بلاک کرنا بھی ہمارے ہاتھ میں ہے۔ دراصل کسی مصنوعات کو استعمال کرنے کے لیے اس کی آگہی ضروری ہے۔ کمپیوٹر اور سماجی ویب سائٹس کے استعمال کے لیے بھی ان کے بارے میں آگہی ضروری ہے۔ جو عناصر مسلسل پریشانی کا باعث بنیں یا جن کی پوسٹس ذہنی کرب میں اضافہ کریں انھیں بلاک بھی کیا جاسکتا ہے۔
دراصل ہم جدید ٹیکنالوجی کو کس طرح استعمال کرتے ہیں، اس سے اس کے فوائد اور نقصانات کا تعین ہوتا ہے۔ ریلوے اور ہوائی جہاز کی ایجاد نے سفرکو نہایت آسان بنا دیا۔ان دونوں ذرایع کو بعض انسانی کوتاہیوں یا تکنیکی وجوہات کی وجہ سے حادثات بھی پیش آتے ہیں، جن میں لاکھوں افراد اپنی جاں گنوا بیٹھتے ہیں۔ مگر اس بنیاد پر کوئی یہ مطالبہ نہیں کرے گا کہ ریلوے یا ہوائی جہازوں کی سروس بند کردی جائے۔ اسی طرح سٹیلائٹ ٹیکنالوجی کی وجہ سے عالمی سطح پر روابط(Connectivity)میں بے بہا اضافہ ہوا ہے۔ اب اس میں پائی جانے والی بعض خرابیوں کی وجہ سے اس پر پابندی کا مطالبہ غیر منطقی ہے۔ دراصل ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہر سائنسی ایجاد نے نسل انسانی کو بے بہا فوائد پہنچائے ہیں، جب کہ نقصانات ان فوائد کا عشر عشیر بھی نہیں ہیں، اس لیے جدید ایجادات پر تنقید بلا جواز ہے۔