حادثات ہوتے اور لوگ روتے رہیں گے
ہمارے ملک میں طاقت اوراقربا پروری کے سرطان نے پوری طرح جڑیں پکڑ لی ہیں
ہمارے ملک میں طاقت اوراقربا پروری کے سرطان نے پوری طرح جڑیں پکڑ لی ہیں۔ یہاں حق و انصاف، تحفظ اورآزادی سب طاقتوروں کا حق ہے عام قانون پسند شہریوں کے لیے کچھ نہیں ہے۔ تمام شہری وحکومتی ادارے، سیاسی، سماجی اورمذہبی رہنما کسی نہ کسی طور پر ان کے استحصال پرکمر بستہ ہیں۔ لوڈشیڈنگ، پانی کی قلت، امن وامان کا مسئلہ، بنیادی شہری سہولیات کی عدم دستیابی، مہنگائی، جلسے جلوس، ریلیاں، دھرنے، ٹریفک جام انھی مسیحاؤں کی کارفرمائیوں کی دین ہے۔ ملک میں آئے دن بڑے بڑے حادثات رونما ہوتے رہتے ہیں جن میں عمومی طور پر بلواسطہ یا بلاواسطہ انھی کرم فرماؤں کا حصہ یا آشیرباد شامل ہوتی ہے۔
کوئی حادثہ ہوجائے تو یہ لوگ ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر ہمدردانہ بیانات دیتے ہیں، فوٹو سیشن کراتے ہیں۔ مبالغہ آرائی ودروغ گوئی کے ذریعے خوشنما بیانات دے کر معاوضوں کا اعلان کرکے جو عموماً ملتے بھی نہیں ہیں سستی شہرت حاصل کرنے اور عوامی ردعمل سے بچنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ بلدیہ فیکٹری میں آگ لگی جس میں 260 کے قریب محنت کش جل کر بھسم ہوگئے۔اتنی بڑی تعداد میں ہلاکتیں ہوئیں جنھیں پوری رات جلنے دیا گیا وہ اپنے گھر والوں سے موبائل فونز پر رابطے میں تھے فیکٹری کے باہر ان کے لواحقین متعلقہ حکام سے ان کی جان بچانے کی بھیک مانگ رہے تھے۔ فیکٹری میں پھنسی لوگوں کو دیواریں توڑکر نکالنے کی کوششیں نہیں کی گئیں فیکٹری میں باہر نکلنے کے مطلوبہ راستے نہیں تھے۔
جو تھے وہ بند تھے، دروازے کیوں نہیں کھولے گئے، فیکٹری کی دیواریں توڑ کر مزدوروں کو باہر نکالنے میں کیا رکاوٹ تھی، اتنی بڑی فیکٹری میں مطلوبہ حفاظتی اقدامات کیوں نہیں تھے، اس سلسلے میں متعلقہ کنٹرولنگ اداروں نے اپنا کردار ادا کیوں نہیں کیا۔ متعلقہ ادارے یہ کہہ کر اپنے فرائض منصبی سے کیس سبکدوش ہوگئے کہ فیکٹری میں حفاظتی قوانین پر عملدرآمد نہیں ہو رہا تھا اور یہ کہ فیکٹری میں بورڈ لگے ہوتے ہیں کہ یہاں سرکاری اہلکاروں غیر متعلقہ افراد کا داخلہ ممنوع ہے، اگر واقعی ایسا تھا تو پھر متعلقہ اداروں نے اس قانون شکنی پر کوئی کارروائی کیوں نہیں کی؟ حکومت نے متاثرین کی دادرسی کے بجائے فیکٹری مالکان کا نام ایف آئی آر سے نکالنے کی ہدایت کیوں دی؟ چونکہ اس قسم کے بڑے بڑے قومی سانحات وحادثات میں ذمے داروں کا تعین کرکے سزا نہیں دی گئی اس کی وجہ سے حادثات میں روزبروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
بلدیہ فیکٹری کے سانحے کے کئی سال گزرجانے کے باوجود اب بھی جاں بحق ہوجانے والے محنت کشوں کے لواحقین انصاف، امداد اوراپنے پیاروں کے لاشوں کے منتظر تھے کہ شہرکے ایک بڑے ہوٹل میں پراسرارآتشزدگی کا واقعہ پیش آگیا جس میں 12 افراد اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے، 100 کے قریب زخمی بھی ہوئے لوگوں نے کھڑکیوں سے کود کر اور پردوں کے ذریعے لٹک کر باہر آکر اپنی زندگیاں بچانے کی کوششیں کیں۔ بتایا جا رہا ہے کہ ہوٹل کا فائر اور الارم سسٹم اور ایمرجنسی میں باہر نکلنے کے راستے مسدود تھے۔
وزیر اعلیٰ ہاؤس میں ہونے والے اجلاس میں اس بات کا انکشاف بھی ہوا کہ ہوٹل انتظامیہ کے عدم تعاون کی وجہ سے ہوٹل میں آگ بجھانے والے آلات کا معائنہ آخری مرتبہ 2015 کے آخر میں ہوا تھا جب کہ معائنہ ہر 3 ماہ بعد ہونا ضروری ہے اگر واقعی ایسا تھا تو متعلقہ ادارے کیوں سوئے ہوئے تھے؟ وزیر اعلیٰ نے سیکریٹری داخلہ کو تفصیلی انکوائری کا حکم دے دیا ہے اور چیف سیکریٹری سے کہا ہے کہ وہ کمشنر، مختارکار، کے ایم سی اہلکاروں اور الیکٹریکل انسپکٹر سمیت متعلقہ افسران پر مشتمل کمیٹی تشکیل دیں جو تمام عمارتوں کا معائنہ کرے اور ہنگامی حفاظتی اقدامات کا جائزہ لے متعلقہ اداروں کو آگ بجھانے کے آلات، ایمرجنسی گیٹ کی تنصیب جنگی بنیادوں پرکرنے کی ہدایت کرے اور انسپکشن کے نام پر کسی کو ہراساں نہ کرے اور اس سلسلے میں انھیں 48 گھنٹوں میں رپورٹ پیش کی جائے۔
ملک میں رونما ہونے والے سانحات پر ہمیشہ کمیٹیاں اورکمیشن بنا دیے جاتے ہیں رپورٹیں طلب کرلی جاتی ہیں ان میں یا تو خود ان محکموں کے افراد ملوث ہوتے ہیں یا پھرکسی ایسی اتھارٹی یا شخصیات کے زیر اثر ہوتے ہیں جن سے ممکن طور پر کسی حادثے یا سانحے کا تعلق ہوسکتا ہے لہٰذا ان سے شفاف اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کی توقع کم ہی کی جاسکتی ہے۔ اسی لیے جرم کا مرتکب کوئی شخص کیفر کردار تک نہیں پہنچتا جس ملک میں کرپٹ ملازمین پلی بارگین کرکے دوبارہ اپنے مرغوب عہدوں پر فائز ہوجائیں وہاں کسی خیر کی توقع کیسے کی جاسکتی ہے۔
کراچی کے ہوٹل میں لگنے والی آگ کی چنگاریاں ابھی دبی نہیں تھیں کہ ایبٹ آباد کے نزدیک ایک اندوہناک فضائی حادثے میں 47 قیمتی انسانی زندگیاں لقمہ اجل بن گئیں۔ اگر یہ طیارہ آبادی یا ڈپو پر گرجاتا تو اس سے کئی گنا بڑا نقصان ہوسکتا تھا۔ حادثے پر چیئرمین پی آئی اے کہتے ہیں طیارے میں کوئی خرابی نہیں تھی حادثے میں انسانی غلطی کا امکان بھی نہیں ہے۔ سیکریٹری ایوی ایشن کا کہنا ہے کہ طیارے کا ایک انجن خراب تھا تحقیقات کے بعد ہی اصل وجوہات سامنے آئیں گے جب کہ سی اے اے کے ڈائریکٹر نے خدشہ ظاہرکیا ہے کہ طیارے کے دونوں انجن فیل ہوگئے تھے ۔
پی آئی اے کی سی بی اے یونین بھی انتظامیہ کی زبان بول رہی ہے کہ طیارے میں کوئی فنی خرابی نہیں تھی انجن فیل ہونے کی خبروں میں کوئی صداقت نہیں، حادثے پر قیاس آرائیاں قابل مذمت ہیں۔ پی آئی اے میں اقربا پروری اور سیاسی مداخلت کا یہ حال ہے کہ 14 ہزارکے قریب اضافی ملازمین سیاسی بنیادوں پر بھرتی ہیں۔ دو تین سال پہلے ایسے 15 پائلٹس اورکیپٹن کا اسکینڈل سامنے آیا تھا جو بغیرکسی کمرشل پائلٹ لائسنس کے کئی سالوں سے جہاز اڑا رہے تھے۔ معاملہ چونک اسمبلی فلور پر آیا تھا اس لیے ان سے وصول کی گئی تنخواہیں واپس کرنے کی بات تو ہوئی تھی لیکن اس کے بعد کچھ سننے میں نہیں آئی وہ پائلٹس جو انسانی جانوں اور کثیر مالیت کے طیاروں کی قیمت پر جہاز اڑا رہے تھے ۔
ان کے اور انکو بھرتی کرنے والوں کے خلاف بھرپور قانونی کارروائی ہونا چاہیے تھی۔ اگر بلدیہ فیکٹری سانحے کے بعد فیکٹریوں میں جاکر ماہانہ، ششماہی یا سالانہ لفافے وصول کرکے ملازمین کا استحصال اور قومی خزانے کو نقصان پہنچانے والے متعلقہ کنٹرولنگ اداروں کے ذمے داروں کو کٹہرے میں کھڑا کرکے جوابدہی کی جاتی کہ ای او بی آئی والوں نے تمام ملازمین کی انشورنس کیوں نہیں کی، ورکرز کی سوشل سیکیورٹی رجسٹرڈ کیوں نہیں کی گئی، کم ازکم تنخواہ اور فیکٹری ایکٹ کے معیارات کو پورا کیوں نہیں کیا گیا، لیبر انسپکٹر، الیکٹریکل انسپکٹر، سول ڈیفنس والے حفاظتی اقدامات، مطلوبہ سہولیات اور معیارات کی عدم دستیابی پر آنکھیں کیوں بند کیے رہے تو جرم کے مرتکب کیفرکردار تک پہنچتے، دوسروں کو نصیحت ہوتی اور حادثے کی آڑ میں رشوت میں مزید اضافہ اور لاپرواہی قانون شکنی کے رجحان کی حوصلہ افزائی بھی نہ ہوتی اور شاید بلدیہ فیکٹری کے بعد ریجنٹ پلازہ یا مستقبل میں پیش آنے والے حادثات میں کمی لائی جاسکتی تھی۔ لیکن کیونکہ احتساب کا عمل اور جوابدہی کا تصور مفقود ہے اس لیے آتشزدگی کے واقعات ہوتے رہیں گے ٹرینیں ٹکراتی رہیں گی، ہوائی اور دیگر حادثات ہوتے رہیں گے، ہر واقعے کے بعد رشوت کے نرخ اور بے خوفی بڑھتی رہے گی۔عوام روتے اور حادثات ہوتے رہیں گے، کمیٹیاں، کمیشن بنتے اور بے نتیجہ ثابت ہوتے رہیں گے۔
کوئی حادثہ ہوجائے تو یہ لوگ ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر ہمدردانہ بیانات دیتے ہیں، فوٹو سیشن کراتے ہیں۔ مبالغہ آرائی ودروغ گوئی کے ذریعے خوشنما بیانات دے کر معاوضوں کا اعلان کرکے جو عموماً ملتے بھی نہیں ہیں سستی شہرت حاصل کرنے اور عوامی ردعمل سے بچنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ بلدیہ فیکٹری میں آگ لگی جس میں 260 کے قریب محنت کش جل کر بھسم ہوگئے۔اتنی بڑی تعداد میں ہلاکتیں ہوئیں جنھیں پوری رات جلنے دیا گیا وہ اپنے گھر والوں سے موبائل فونز پر رابطے میں تھے فیکٹری کے باہر ان کے لواحقین متعلقہ حکام سے ان کی جان بچانے کی بھیک مانگ رہے تھے۔ فیکٹری میں پھنسی لوگوں کو دیواریں توڑکر نکالنے کی کوششیں نہیں کی گئیں فیکٹری میں باہر نکلنے کے مطلوبہ راستے نہیں تھے۔
جو تھے وہ بند تھے، دروازے کیوں نہیں کھولے گئے، فیکٹری کی دیواریں توڑ کر مزدوروں کو باہر نکالنے میں کیا رکاوٹ تھی، اتنی بڑی فیکٹری میں مطلوبہ حفاظتی اقدامات کیوں نہیں تھے، اس سلسلے میں متعلقہ کنٹرولنگ اداروں نے اپنا کردار ادا کیوں نہیں کیا۔ متعلقہ ادارے یہ کہہ کر اپنے فرائض منصبی سے کیس سبکدوش ہوگئے کہ فیکٹری میں حفاظتی قوانین پر عملدرآمد نہیں ہو رہا تھا اور یہ کہ فیکٹری میں بورڈ لگے ہوتے ہیں کہ یہاں سرکاری اہلکاروں غیر متعلقہ افراد کا داخلہ ممنوع ہے، اگر واقعی ایسا تھا تو پھر متعلقہ اداروں نے اس قانون شکنی پر کوئی کارروائی کیوں نہیں کی؟ حکومت نے متاثرین کی دادرسی کے بجائے فیکٹری مالکان کا نام ایف آئی آر سے نکالنے کی ہدایت کیوں دی؟ چونکہ اس قسم کے بڑے بڑے قومی سانحات وحادثات میں ذمے داروں کا تعین کرکے سزا نہیں دی گئی اس کی وجہ سے حادثات میں روزبروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
بلدیہ فیکٹری کے سانحے کے کئی سال گزرجانے کے باوجود اب بھی جاں بحق ہوجانے والے محنت کشوں کے لواحقین انصاف، امداد اوراپنے پیاروں کے لاشوں کے منتظر تھے کہ شہرکے ایک بڑے ہوٹل میں پراسرارآتشزدگی کا واقعہ پیش آگیا جس میں 12 افراد اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے، 100 کے قریب زخمی بھی ہوئے لوگوں نے کھڑکیوں سے کود کر اور پردوں کے ذریعے لٹک کر باہر آکر اپنی زندگیاں بچانے کی کوششیں کیں۔ بتایا جا رہا ہے کہ ہوٹل کا فائر اور الارم سسٹم اور ایمرجنسی میں باہر نکلنے کے راستے مسدود تھے۔
وزیر اعلیٰ ہاؤس میں ہونے والے اجلاس میں اس بات کا انکشاف بھی ہوا کہ ہوٹل انتظامیہ کے عدم تعاون کی وجہ سے ہوٹل میں آگ بجھانے والے آلات کا معائنہ آخری مرتبہ 2015 کے آخر میں ہوا تھا جب کہ معائنہ ہر 3 ماہ بعد ہونا ضروری ہے اگر واقعی ایسا تھا تو متعلقہ ادارے کیوں سوئے ہوئے تھے؟ وزیر اعلیٰ نے سیکریٹری داخلہ کو تفصیلی انکوائری کا حکم دے دیا ہے اور چیف سیکریٹری سے کہا ہے کہ وہ کمشنر، مختارکار، کے ایم سی اہلکاروں اور الیکٹریکل انسپکٹر سمیت متعلقہ افسران پر مشتمل کمیٹی تشکیل دیں جو تمام عمارتوں کا معائنہ کرے اور ہنگامی حفاظتی اقدامات کا جائزہ لے متعلقہ اداروں کو آگ بجھانے کے آلات، ایمرجنسی گیٹ کی تنصیب جنگی بنیادوں پرکرنے کی ہدایت کرے اور انسپکشن کے نام پر کسی کو ہراساں نہ کرے اور اس سلسلے میں انھیں 48 گھنٹوں میں رپورٹ پیش کی جائے۔
ملک میں رونما ہونے والے سانحات پر ہمیشہ کمیٹیاں اورکمیشن بنا دیے جاتے ہیں رپورٹیں طلب کرلی جاتی ہیں ان میں یا تو خود ان محکموں کے افراد ملوث ہوتے ہیں یا پھرکسی ایسی اتھارٹی یا شخصیات کے زیر اثر ہوتے ہیں جن سے ممکن طور پر کسی حادثے یا سانحے کا تعلق ہوسکتا ہے لہٰذا ان سے شفاف اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کی توقع کم ہی کی جاسکتی ہے۔ اسی لیے جرم کا مرتکب کوئی شخص کیفر کردار تک نہیں پہنچتا جس ملک میں کرپٹ ملازمین پلی بارگین کرکے دوبارہ اپنے مرغوب عہدوں پر فائز ہوجائیں وہاں کسی خیر کی توقع کیسے کی جاسکتی ہے۔
کراچی کے ہوٹل میں لگنے والی آگ کی چنگاریاں ابھی دبی نہیں تھیں کہ ایبٹ آباد کے نزدیک ایک اندوہناک فضائی حادثے میں 47 قیمتی انسانی زندگیاں لقمہ اجل بن گئیں۔ اگر یہ طیارہ آبادی یا ڈپو پر گرجاتا تو اس سے کئی گنا بڑا نقصان ہوسکتا تھا۔ حادثے پر چیئرمین پی آئی اے کہتے ہیں طیارے میں کوئی خرابی نہیں تھی حادثے میں انسانی غلطی کا امکان بھی نہیں ہے۔ سیکریٹری ایوی ایشن کا کہنا ہے کہ طیارے کا ایک انجن خراب تھا تحقیقات کے بعد ہی اصل وجوہات سامنے آئیں گے جب کہ سی اے اے کے ڈائریکٹر نے خدشہ ظاہرکیا ہے کہ طیارے کے دونوں انجن فیل ہوگئے تھے ۔
پی آئی اے کی سی بی اے یونین بھی انتظامیہ کی زبان بول رہی ہے کہ طیارے میں کوئی فنی خرابی نہیں تھی انجن فیل ہونے کی خبروں میں کوئی صداقت نہیں، حادثے پر قیاس آرائیاں قابل مذمت ہیں۔ پی آئی اے میں اقربا پروری اور سیاسی مداخلت کا یہ حال ہے کہ 14 ہزارکے قریب اضافی ملازمین سیاسی بنیادوں پر بھرتی ہیں۔ دو تین سال پہلے ایسے 15 پائلٹس اورکیپٹن کا اسکینڈل سامنے آیا تھا جو بغیرکسی کمرشل پائلٹ لائسنس کے کئی سالوں سے جہاز اڑا رہے تھے۔ معاملہ چونک اسمبلی فلور پر آیا تھا اس لیے ان سے وصول کی گئی تنخواہیں واپس کرنے کی بات تو ہوئی تھی لیکن اس کے بعد کچھ سننے میں نہیں آئی وہ پائلٹس جو انسانی جانوں اور کثیر مالیت کے طیاروں کی قیمت پر جہاز اڑا رہے تھے ۔
ان کے اور انکو بھرتی کرنے والوں کے خلاف بھرپور قانونی کارروائی ہونا چاہیے تھی۔ اگر بلدیہ فیکٹری سانحے کے بعد فیکٹریوں میں جاکر ماہانہ، ششماہی یا سالانہ لفافے وصول کرکے ملازمین کا استحصال اور قومی خزانے کو نقصان پہنچانے والے متعلقہ کنٹرولنگ اداروں کے ذمے داروں کو کٹہرے میں کھڑا کرکے جوابدہی کی جاتی کہ ای او بی آئی والوں نے تمام ملازمین کی انشورنس کیوں نہیں کی، ورکرز کی سوشل سیکیورٹی رجسٹرڈ کیوں نہیں کی گئی، کم ازکم تنخواہ اور فیکٹری ایکٹ کے معیارات کو پورا کیوں نہیں کیا گیا، لیبر انسپکٹر، الیکٹریکل انسپکٹر، سول ڈیفنس والے حفاظتی اقدامات، مطلوبہ سہولیات اور معیارات کی عدم دستیابی پر آنکھیں کیوں بند کیے رہے تو جرم کے مرتکب کیفرکردار تک پہنچتے، دوسروں کو نصیحت ہوتی اور حادثے کی آڑ میں رشوت میں مزید اضافہ اور لاپرواہی قانون شکنی کے رجحان کی حوصلہ افزائی بھی نہ ہوتی اور شاید بلدیہ فیکٹری کے بعد ریجنٹ پلازہ یا مستقبل میں پیش آنے والے حادثات میں کمی لائی جاسکتی تھی۔ لیکن کیونکہ احتساب کا عمل اور جوابدہی کا تصور مفقود ہے اس لیے آتشزدگی کے واقعات ہوتے رہیں گے ٹرینیں ٹکراتی رہیں گی، ہوائی اور دیگر حادثات ہوتے رہیں گے، ہر واقعے کے بعد رشوت کے نرخ اور بے خوفی بڑھتی رہے گی۔عوام روتے اور حادثات ہوتے رہیں گے، کمیٹیاں، کمیشن بنتے اور بے نتیجہ ثابت ہوتے رہیں گے۔