حفظ ماتقدم

لانڈھی جیل میں ہماری بیرک سے پہلے جو دوسری بیرک تھی،اس کے ساتھ ہی چکری ہوا کرتی تھی

لانڈھی جیل میں ہماری بیرک سے پہلے جو دوسری بیرک تھی،اس کے ساتھ ہی چکری ہوا کرتی تھی جو دراصل درخت کے گرد دائرے کی شکل میں بنے ہوئے چبوترے کا نام تھا، جہاں وارڈن بیٹھ کر آس پاس کی بیرکوں اور ان کے باسیوں پر نظر رکھتا تھا۔ یہ چکری اخلاقی جرائم میں سزا کاٹنے والے قیدیوں کو جسمانی سزا دینے کے لیے بھی استعمال ہوتی تھی۔

ہماری وہاں موجودگی میں صرف ایک بارایسا ہوا تھا جس پر ہم نے سخت احتجاج کیا اوراس کے بعد انھیں سزا دینے کا سلسلہ بند ہوگیا تھا۔ یہ 78 کی بات ہے جب ہم تحریک آزادی صحافت کے اسیروں کو تحفظ امن عامہ آرڈیننس ( ایم پی او ) کے تحت کراچی پریس کلب کے بھوک ہڑتالی کیمپ سے گرفتار کرکے وہاں لا کر رکھا گیا تھا۔ ہم گویا وی آئی پی قیدی تھے کہ ہم پرکسی بھی قسم کی کوئی پابندی نہیں تھی اور ہم پوری جیل میں بلا روک ٹوک ادھر ادھر گھومتے پھرتے رہتے تھے۔

ایک دفعہ یونہی وارڈن کے پاس چکری پر بیٹھے بیٹھے میں نے ساتھ والی بیرک میں کھڑکی سے ایک نوجوان کو بھاگ بھاگ کر اپنے دوسرے قیدی ساتھیوں کے کام اوران کی خدمت کرتے دیکھا تو یہ مجھے سراسر ظلم لگا، قدرتی طور پر مجھے اس سے ہمدردی ہوگئی، مجھ سے رہا نہ گیا،کوشش کے باوجود خود کو نہ روک سکا اوراس بیرک میں چلا گیا۔ وہ لوگ خود تو ہر وقت بیرک میں بند رہتے تھے لیکن ہمیں وقت بے وقت مٹرگشت کرتے دیکھتے رہتے تھے،اس لیے فوراً پہچان گئے ۔

انھوں نے میری خوب آؤ بھگت کی، زمین پر بچھے ہوئے اس بستر پر لے جاکر بٹھایا جو سب سے اچھا اورصاف ستھرا تھا، پھر سب میرے گرد دائرہ بنا کر بیٹھ گئے۔ سندھ کے روایتی طریقے سے لمبی خیروعافیت کے بعد ان میں سے ایک نے پوچھا آپ لوگ بھی ہماری طرح قیدی ہیں یا کچھ اورکہ بلا روک ٹوک گھومتے پھرتے رہتے ہیں، ہمیں تو بیرک سے باہر نکلنے تو دورکی بات باہرجھانک کر دیکھنے کی بھی اجازت نہیں ہے۔ میں نے ان سے اپنا اور ساتھیوں کا مختصراً تعارف کرایا کہ ہم صحافی ہیں اور حکومت کے خلاف تحریک چلانے کی پاداش میں یہاں ہیں۔ جیل حکام جانتے ہیں کہ حکومت آج نہیں توکل ہمیں رہا کرنے پر مجبورہوجائے گی،اس لیے انھوں نے ہم پر غیرضروری پابندیاں نہیں لگائی ہیں، بس اتنی سی بات ہے۔

پھر جب میں نے ان کا تعارف حاصل کرنا چاہا تو پتہ چلا وہ سب حیدرآباد کے قریبی شہر ہالہ کے رہنے والے، مخدوم طالب المولی کے مرید اور پیپلز پارٹی کے جیالے ہیں۔

ایم آر ڈی کی کال اور مقامی قیادت کی ہدایت پر انھوں نے احتجاجاً درخت کاٹ کر قومی شاہراہ بند کردی تھی جس کے نتیجے میں دونوں طرف ہزاروں گاڑیاں پھنس کر رہ گئی تھیں، فوج نے آکر آپریشن کیا اورکئی گھنٹوں بعد کہیں جا کر ٹریفک بحال ہوا۔ پکڑ دھکڑ شروع ہوئی تو ان میں سے ایک کے سوا کوئی بھی ہاتھ نہیں لگا، اس ایک ( گالی دے کر) نے ہم سب کو بھی مروا دیا اور فوجیوں نے اس کی نشاندھی پر ہمیں گھروں سے آکر اٹھایا،اس نے ایسا کیوں کیا یہ آپ اسی سے پوچھیے ۔ میں نے پوچھا وہ کون ہے تو انھوں نے چپت رسید کرکے اس نوجوان کی طرف اشارہ کیا جو بھاگ بھاگ کر ان سب کے کام کرتا تھا اور جس کے لیے میں پہلے سمجھتا تھا کہ وہ مشقتی ہے خدمت کے لیے انھیں ملا ہوا ہے اور یہ سب شاید سیاسی قیدی ہیں۔


میں نے اس کی طرف رخ کرکے پوچھا کیوں میاں، آپ کا نام کیا ہے؟ جواب میں اس نے روایتی طریقے سے ہاتھ جوڑ کر پہلے اظہار تابعداری کیا اور پھر اپنا نام بتایا۔ میں نے کہا تم نے یہ کیا کیا کہ خود پکڑے گئے تو ان سب کو بھی پکڑوا دیا، جب کہ ان میں سے کچھ تو درخت کاٹ کر ہائی وے بند کرنے والی کارروائی میں تمہارے ساتھ شامل بھی نہیں تھے۔ میں جب تک بولتا رہا وہ چپ چاپ گردن جھکائے بیٹھا میری بات سنتا رہا، پھر مجھے خاموش پاکر یوں گویا ہوا ''سائیں، بات یہ ہے کہ ہم سب بچپن کے دوست ہیں، پرائمری سے ساتھ پڑھے ہیں اور اب کالج میں بھی ساتھ ہیں۔

یہ صحیح ہے کہ درخت کاٹنے والی کارروائی میں ان میں سے کئی ہمارے ساتھ شامل نہیں تھے، لیکن سائیں دوستی کیا اسی وقت تک ہوتی ہے جب تک ہم ساتھ ہوتے ہیں، اگر کسی وقت ہم ساتھ نہ ہوں تو کیا ہم دوست نہیں رہتے۔ سچی بات یہ ہے سائیں کہ میں ان سب سے بہت محبت کرتا ہوں اور ان لوگوں کے بغیرجینے کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔

اس لیے جب میں پکڑا گیا تو یہ سوچ کر پریشان ہوگیا کہ نہ جانے کہاں،کس جیل میں،کتنا عرصہ قید رہنا پڑے ۔ میں ان سب کے بغیر قیدکے یہ دن کیسے کاٹوں گا، میں تھانے کے لاک اپ میں انھی سوچوں میں گم تھا کہ ایک خیال بجلی کی طرح میرے ذہن میں کوندا، مجھے یہ آئیڈیا پسند آیا اور میں نے فیصلہ کرلیا کہ اب قید کتنی ہی لمبی کیوں نہ کاٹنی پڑے ،ایک دوسرے کو یاد کرکے اداس نہیں ہوں گے ، جہاں رہیں گے اورجس حال میں رہیں گے ، ساتھ رہیں گے اورکسی بھی صورت میں ایک دوسرے کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے۔

سو جب فوجی مجھے تفتیش کے لیے لینے آئے تو میں نے وقت ضایع کیے بغیر ان سب کے نام اور پتے انھیں بتائے اورکہا کہ درخت کاٹنے کی کارروائی میں ہم سب ساتھ تھے، ایسا کرکے میں نے خود کو ہی نہیں ان سب کو بھی بلاوجہ کی مارپیٹ اور پوچھ گچھ سے بچا لیا۔ ان کا غصہ بجا ہے لیکن میں کیا کروں، میں ان کے بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔ اب یہ کچھ بھی کہیں لیکن مجھے یقین ہے کہ اگر میں نے ایسا نہ کیا ہوتا، اکیلا جیل میں پڑا سڑ رہا ہوتا، یہ سب بھلے ہی بظاہر آزاد گھوم پھر رہے ہوتے لیکن مجھے بہت مس کرتے ، مجھے یاد کرکے روتے اور آہیں بھرتے ۔

وہ بہت زیادہ جذباتی ہو رہا تھا، میں نے دیکھا اس کی آنکھیں بھیگ گئی تھیں۔ میں دوستوں سے اس کی محبت اور ان کے لیے اس کے جذبات سے بے حد متاثر ہوا اور اسے بانہوں میں لے کر گلے لگا لیا، وہ بچوں کی طرح بلک بلک کر رونے لگا۔ پھر میں نے وہ منظر دیکھا جو اس سے بھی زیادہ متاثر کن اورسچی محبت کے جذبات کا عکاس تھا۔ ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی اس بیرک کے سارے قیدی جو اس کے دوست بھی تھے اور اس سے اتنی ہی محبت کرتے تھے جتنی یہ ان سے کرتا تھا، ہمارے پاس آئے اورایک ایک کرکے اسے بانہوں میں لے کرگلے لگایا، ان سب نے اس سے اپنے اب تک کے رویے کی معافی مانگی، اس کا رد عمل بھی ان سے مختلف نہ تھا۔

پھر اس جذباتی ماحول سے نکلنے میں پہل بھی اسی نے کی، اپنے سب دوستوں کو آنسو بہاتے اور پونچھتے چھوڑ کر ایک دم چھلانگ مارکر اٹھا اور یہ کہتا ہوا بیرک کے دوسرے کونے کی طرف چلا کہ آپ لوگ بیٹھیں، میں ابھی گرم گرم چائے لاتا ہوں۔ سب نے ملکر چائے پی اور میں ان سے اجازت لے کر اپنی بیرک میں آ گیا۔ میں آج بھی چشم تصور سے ان سب دوستوں کو ہالہ کی سڑکوں پر اورگلی محلوں میں ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے ساتھ گھومتے اور موج مستیاں کرتے دیکھتا ہوں، میں بوڑھا ہوگیا ہوں تو وہ بھی یقیناً پہلے جیسے نوجوان نہیں رہے ہوںگے ، پختہ کار انسانوں کی طرح زندگی کے مختلف شعبوں میں خدمات انجام دے رہے ہوں گے ، میری دلی دعا ہے کہ خدا انھیں ہمیشہ خوش اور آباد رکھے۔
Load Next Story