انتہائی زہریلے ماحول میں زندہ رہنے والی مچھلی دریافت

1000 سے زیادہ مچھلیوں کو ہلاک کرنے کے لئے کافی زہر بھی کل فش پر اثرانداز نہیں ہو پاتا


ویب ڈیسک December 15, 2016
’’مڈ منو‘‘ یا ’’کل فش‘‘ کہلانے والی یہ مچھلی امریکہ کے مشرقی ساحل (ایسٹ کوسٹ) کے قریب سمندر میں پائی جاتی ہے۔ (فوٹو: فائل)

سائنسدانوں نے ایک ایسی مچھلی دریافت کرلی ہے جو انتہائی زہریلے ماحول میں بھی آسانی سے زندہ رہ سکتی ہے۔

''مڈ منو'' یا ''کل فش'' کہلانے والی یہ مچھلی امریکہ کے مشرقی ساحل (ایسٹ کوسٹ) کے قریب سمندر میں پائی جاتی ہے اور اس نے خود کو تبدیل کرکے اس قابل بنالیا ہے کہ یہ 8000 گنا زیادہ زہر آسانی سے برداشت کرجاتی ہے۔ یعنی اتنا زہر جو ایک ہزار سے زیادہ دوسری مچھلیوں کو ہلاک کرنے کےلئے کافی ہوتا ہے، وہ اس مچھلی پر اثرانداز نہیں ہو پاتا۔

نیو جرسی میں نیو آرک کا ساحلی علاقہ پچھلے کئی سال سے خطرناک اور زہریلے فضلے کی آماجگاہ بنا ہوا ہے جہاں سے ہر سال دریائے الزبتھ کے راستے ہزاروں ٹن زہریلا مواد سمندر میں پھینکا جاتا ہے۔ چھوٹی جسامت اور خوبصورت، چمک دار رنگوں والی یہ ''کل فش'' اسی ساحل کے نزدیک سمندر کی پٹی میں پائی جاتی ہے اور گھریلو ایکویریئمز میں آرائش کےلئے پالی جاتی ہے جبکہ ماحولیاتی جائزے میں خصوصی اہمیت بھی رکھتی ہے۔

یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، ڈیوس کے ماحولیات داں اینڈریو وائٹ ہیڈ اور ان کے ساتھیوں نے نیو آرک سے متصل سمندر سے اس قسم کی 400 مچھلیاں پکڑیں اور جائزہ لیا کہ لمبے عرصے تک زہر آلود ماحول میں رہنے کی وجہ سے ان پر کیا اثرات پڑے ہیں۔

وہ یہ جان کر حیران رہ گئے کہ ان مچھلیوں میں قدرتی طور پر ایسی تبدیلیاں واقع ہوچکی ہیں جن کی بدولت یہ عام حالات کی نسبت 8000 (آٹھ ہزار) گنا زیادہ زہریلے پانی میں آسانی سے زندہ رہ سکتی ہیں جبکہ یہ تمام زہریلے مادے وہ ہیں جو مختلف کارخانوں اور فیکٹریوں سے فضلے کی صورت میں نکل کر مسلسل سمندر میں پہنچ رہے ہیں۔

ہفت روزہ تحقیقی جریدے ''سائنس'' میں شائع شدہ اس رپورٹ میں جہاں یہ امید افزاء بات سامنے آئی ہے کہ سمندر میں رہنے والے جاندار انسانی سرگرمیوں کے سامنے سخت جان ثابت ہورہے ہیں، وہیں تشویش کا پہلو یہ بھی ہے کہ آنے والے برسوں میں انسان خود اپنی ہی پھیلائی ہوئی آلودگی کے باعث خطرے میں پڑ رہا ہے کیونکہ اس میں خود کو بدلتے ہوئے حالات میں تیزی سے تبدیل کرنے کی صلاحیت موجود نہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں