وفاقی کابینہ کے اجلاس میں اہم فیصلے

وفاقی کابینہ نے نیٹو سپلائی بحالی کے بارے میں امریکا کے ساتھ تحریری معاہدے کی منظوری دے دی ہے۔

وفاقی کابینہ نے نیٹو سپلائی بحالی کے بارے میں امریکا کے ساتھ تحریری معاہدے کی منظوری دے دی ہے۔ رائٹرز

وفاقی کابینہ نے نیٹو سپلائی بحالی کے بارے میں امریکا کے ساتھ تحریری معاہدے کی منظوری دے دی ہے۔ کابینہ کے اجلاس کے بعد وزیر اطلاعات قمر زمان کائرہ نے پریس بریفنگ میں بتایا کہ پارلیمنٹ سے وضع کردہ پالیسی گائیڈ لائن کے مطابق نیٹو سپلائی کی بحالی کے بارے میں تحریری معاہدہ تیار کیا ہے' پارلیمنٹ نے اپنی سفارشات میں واضح طور پر کہا تھا کہ تعاون کے بارے میں زبانی معاہدہ نہیں ہو گا۔ مفاہمت کی یادداشت پر دستخط قوم کے سامنے ہوں گے۔

وفاقی کابینہ کی جانب سے نیٹو سپلائی کی بحالی کے حوالے سے امریکا کے ساتھ تحریری معاہدے کی منظوری اس امر کا عملی اظہار ہے کہ اس سپلائی کی بحالی کے سلسلے میں وہ نہایت مخلص ہے اور پاکستان چاہتا ہے کہ افغانستان میں دہشت گردوں کے خلاف برسرپیکار امریکی و نیٹو فورسز جلد از جلد کامیاب ہوں تاکہ ہمارے اس پڑوسی لیکن طویل عرصے تک جنگ زدہ رہنے والے ملک میں پائیدار امن کی بحالی ممکن ہو سکے۔ اس معاہدے کے تحریری ہونے کا ایک فائدہ یہ ہو گا کہ جہاں پاکستان کو کچھ معاملات کی پابندی کرنا پڑے گی وہاں امریکی انتظامیہ بھی کافی چیزوں کی پابند ہو گی۔

یہاں ایک بات ایک بار پھر بڑی شدت کے ساتھ محسوس ہو رہی ہے کہ پاکستان نے نیٹو فورسز کو سپلائی بحال کرنے کا وافر معاوضہ طے نہیں کیا ہے جب کہ ماضی میں بہت سے ممالک امریکا کی اسی نوعیت کی مجبوریوں سے بھرپور فائدہ اٹھاتے رہے ہیں۔ امریکا اور نیٹو ممالک کے پاکستان کے ذمے واجب الادا قرضوں کی معافی یا ان میں کمی کی ہی بات کر لی جاتی تو کافی مالی فائدہ ملتا لیکن ایسا نہیں کیا گیا حتیٰ کہ امریکا سے یہ تک نہیں منوایا گیا کہ وہ پاکستانی علاقوں میں ایک عرصے سے جاری ڈرون حملے ہی بند کر دے۔

بہرحال اب جب کہ نیٹو سپلائی کے حوالے سے ایک یادداشت منظور کی جانے والی ہے تو امید کی جانی چاہیے کہ دونوں ملک ہی اس کی پاسداری کریں گے جب کہ امریکا پاکستان کے ساتھ لاغرضی والا طرز عمل تبدیل کر لے گا کیونکہ اسے بہرحال افغانستان سے انخلاء کے لیے اور بعد از انخلاء کے زمانے کے معاملات میں پاکستان کی ضرورت پڑنے والی ہے' لہٰذا اس کے لیے بہتر یہی ہے کہ پاکستان کے ساتھ بنا کر رکھے۔

یہ بات ہر قسم کے شک و شبہ سے بالاتر ہو کر کہی جا سکتی ہے کہ ہمارا ملک دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ہمہ تن کوششوں میں مصروف ہے لہٰذا امریکا اور اس کے اتحادیوں کو پاکستان کا کم از کم وہ مالی نقصان ضرور پورا کرنا چاہیے جو اس جنگ کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ اس طرح اس خطے میں امن کے قیام کی کوششوں کو زیادہ تیز کیا جا سکے گا۔ وزیر اطلاعات نے پریس بریفنگ میں بتایا کہ بلوچستان کے معاملے پر وزیر دفاع نوید قمر کی سربراہی میں 5 رکنی وزارتی کمیٹی قائم کر دی گئی ہے جو ایک ہفتے میں اپنی رپورٹ کابینہ کو پیش کرے گی۔


بلوچستان ہماری خصوصی توجہ کا متقاضی ہے اور اس سلسلے میں کمیٹی کا قیام ایک اچھی پیش رفت ہے تاہم ضروری ہے کہ یہ کمیٹی اپنا کام بروقت مکمل کرے اور تفصیلی رپورٹ مرتب کرے جس میں اس مسئلے کی وجوہ کا ہی پتہ نہ چلایا گیا ہو بلکہ اس کے ممکنہ حل بھی پیش کیے گئے ہوں۔ پتہ چلا ہے کہ کابینہ کا آیندہ اجلاس بلوچستان کے ایک نکاتی ایجنڈے پر ہو گا جواس امر کا ثبوت ہے کہ حکومت اب بلوچستان پر توجہ دے رہی ہے۔

امید کی جانی چاہیے کہ یہ کوششیں بارآور ثابت ہوں گے اور ہمارے اس صوبے کے حالات بہتر ہو جائیں گے۔ وزیر اطلاعات کا یہ واضح کرنا کہ پاور کمپنیوں کو تیل کی مسلسل فراہمی کی ہدایت کی گئی ہے' شیڈول کی لوڈ شیڈنگ ہو رہی ہے' غیرعلانیہ لوڈشیڈنگ نہیں ہے' اس معاملے میں پائی جانے والی کنفیوژن دور کرنے کا سبب بنے گا۔ یہ بھی پتہ چلا ہے کہ وزیر اعظم نے ایک بار پھر سحر و افطار میں لوڈشیڈنگ کی شکایات دور کرنے کے احکامات جاری کرتے ہوئے رمضان المبارک کے دوران مہنگائی کنٹرول کرنے کی بھی ہدایت کی ہے۔

یہ ایک اچھی پیش رفت ہے تاہم انھیں یہ بھی پتہ چلانا چاہیے کہ ان کے احکامات اور ہدایات پر کس قدر عمل درآمد ہو رہا ہے۔ وزیر اطلاعات نے یہ بھی بتایا کہ نگران حکومت کے لیے جلد یا بدیر سیاسی جماعتوں سے رابطے کیے جائیں گے' انتخابات اگلے سال ہوں گے۔ ملکی سیاسی معاملات کو آگے بڑھانے اور پُرامن' شفاف' غیرجانب دارانہ اور متفقہ نتائج کے حامل انتخابات منعقد کرانے کے سلسلے میں یہ ایک مناسب پیش رفت ہے۔

وفاقی کابینہ نے وزارت دفاع کو قازقستان کے ساتھ ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ کے شعبہ میں مفاہمتی یادداشت پر دستخط کرنے' وزارت پیداوار کو روس کی وزارت اقتصادی امور کے ساتھ پاکستان اسٹیل ملز کے لیے تعاون بڑھانے پر معاہدہ کرنے کی اجازت بھی دی ہے۔ کابینہ نے بھارت کے ساتھ پٹرولیم مصنوعات کی تجارت کے حوالے سے بات چیت کے آغاز کے لیے وزارت پٹرولیم کی تجویز کی منظوری جب کہ وزارت پٹرولیم کو بھارت سے ''آر ایل این جی'' درآمد کے لیے بات چیت کا آغاز کرنے کی اجازت بھی فراہم کی ہے۔

وفاقی وزیر نے بتایا کہ بھارت سے گیس پائپ لائن لانا انتہائی آسان ہے یہ صرف 50 سے 60 کلومیٹر لمبی لائن ہے جس کے ذریعے جلد از جلد اور سستے طریقے سے گیس پاکستان لائی جا سکتی ہے۔ ہمارے خیال میں اس منصوبے پر غور کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے تاہم گیس کے حصول کی دیگر جاری اسکیموں کی تکمیل پر بھی توجہ دی جانی چاہیے۔

Recommended Stories

Load Next Story