جیسا آقائوں کا حکم

’’باپ بھلا نہ بھیا، سب سے بڑا روپیہ‘‘ بہت پرانا محاورہ ہے لیکن ہر موقع پر بلکہ ہر دور پر پورا اترا ہے


ایم قادر خان December 16, 2016
[email protected]

''باپ بھلا نہ بھیا، سب سے بڑا روپیہ'' بہت پرانا محاورہ ہے لیکن ہر موقع پر بلکہ ہر دور پر پورا اترا ہے۔ جس نے یہ محاورہ ایجاد کیا، وہ واقعی بڑا دانشور تھا، اس نے اپنے وقت میں اچھی طرح آزمایا ہوگا، جب یہ کہا۔ اب جس نے آزمایا وہ بھی یہی کہہ رہا ہے۔ کیسا اختلاف، کیسی سیاست، لیکن جب مال و زر پر بات آتی ہے تو سب ایک ہیں، کوئی الگ نہیں۔ بظاہر مخالف ہیں لیکن پس پردہ ایک ہیں۔ بالکل اسی طرح امریکا میں ریسلنگ دیکھی۔ ایک دوسرے نے خوب مارپیٹ کی، خون بہایا، دیکھنے والے بڑے افسوس میں دیکھتے رہے، کس قدر مارکٹائی ہوتی ہے۔ جس نے مار خوب کھائی وہ جیت گیا۔

وہ تو بالکل ہارا ہوا لگ رہا تھا۔ معلوم ہوا یہ پہلے سے طے تھا کہ ہارنے کا معاوضہ تم دوگے اور جو سرکار ہارنے والے کو نصف رقم دیتی ہے اس میں نصف ملاکر آپ دیں گے۔ یہ ان کا بڑا اچھا کاروبار ہے۔ میرا خیال ہے ان ریسلرز سے ہمارے لوگوں نے سیکھا ہو۔ ایک دوسرے کو گالیاں دو، بدتمیزی کرو، جو چاہو وہ کہو، لیکن دوستی اپنی جگہ، پس پردہ رقم دی جاتی رہے گی اور جو کام کہے جائیںگے وہ پہلے ہوں گے۔ منظر و پس منظر میں بڑا فرق، بہت کم لوگ ان باتوں کو سمجھ پاتے ہیں اور جب سمجھ میں آتا ہے تو وقت گزرچکا ہوتا ہے۔ بہت بڑی بڑی باتیں کہنے والے غائب ہوجاتے ہیں۔ جب آپ کچھ نہ کرسکیں تو عوام کو بے وقوف نہ بنائیں۔

بہت مشکل دور ہے، کس پر اعتبار کیا جائے اور کس پر اعتبار نہ کریں۔ ایسا لگتا ہے کہ کوئی اعتبار کے لائق نہیں اور اگر جو ہمدرد، ایماندار، قوم پرست، محب وطن ہے وہ اپنے ہر موقع پر ناکام ہوجاتا ہے، ایسے شخص کو کیسے کامیابی ملے گی، جب اس میں اس دور کے مطابق ساری الگ باتیں ہیں۔ مشکل یہ بھی ہے اس کے ساتھ ایسے لوگ ہیں جو پس پردہ خاموشی سے اپنا کام بنانے میں لگے ہیں۔

ان کو منطق خیال نہیں، ہمیں نیک کام کرنے ہیں۔ اگر سب لوگ برائیوں میں رہیںگے تو عوام کے لیے نیکی کون کرے گا۔ یہ تو اب سب کو معلوم ہوچکا ہے غریب کے لیے قانون، سلاخیں اور ترازو ہیں، جب کہ امیر، رئوسا، امراء، اکابرین، سربراہان مملکت کے لیے کھلی چھوٹ۔ ایسے تلخ دور میں اچھے ایماندار لوگوں کی کمی نہیں، لیکن ان کی نہ رسائی ہے اور نہ کوئی چاہے گا کہ وہ اوپر آئیں۔ اگر وہ اوپر آگئے تو کھانے پینے، کمانے، مار دھاڑ کرنے والے تو بیکار ہوکر رہ جائیںگے۔ لہٰذا آپ اس بات کو نوٹ کرلیں خواہ کوئی بھی حکومت آئے، ہر بڑی جگہ ان چور، ڈکیتوں، راشیوں، کرپٹ لوگوں کے ایسے ہی بندے بیٹھیںگے جیسے وہ ہیں۔ وہ 24 گھنٹے میں کسی وقت، کسی بھی غیر قانونی کام کا کہہ دیں وہ چند گھنٹوں میں قانونی بن کر آجائے گا۔

مجھے کیا سب ہی کو اس کا موازنہ ہوگا، کہہ نہیں سکتے مگر دل میں باتیں تو ہیں۔ کیا کریں وقت گزارنا ہے، بچے پالنے ہیں۔ وہ لوگ بہت اچھے ہیں جو کوئی نہ کوئی وجہ بناکر ملک سے باہر نکل گئے، سکون میں ہیں اور معقول آمدنی بھی مل رہی ہے۔ رشوت ستانی بھی نہیں، سارا کام صاف ستھرا۔ اب وہ لوگ کیا کریں جن کے کوئی وسائل نہیں، ان کے لیے تو ادھر ہی فاقہ، بیماری، بے روزگاری میں وقت گزارنا ہے۔ دنیا کا ہر ملک ہر سال اپنے ملک میں اندازہ کرتا ہے کہ آبادی کتنی بڑھے گی، کتنے بچے اعلیٰ تعلیم حاصل کریںگے اور ان کے لیے نوکریوں کا انتظام کرنا ہے۔

باقاعدگی سے ہر شخص کے لیے نوکری کا انتظام کیا جاتا ہے اور جس کو نوکری نہ مل سکے تو اس کو اس وقت تک سوشل رقم دیتے ہیں جب تک اس کو نوکری نہ مل جائے، اس کو جیسے نوکری ملتی ہے وہ سوشل آفس جاکر مطلع کرتا ہے اور پھر وہ سوشل رقم بند ہوجاتی ہے۔ یہ ساری ایمانداری ان ملکوں نے اسکولوں سے سکھائی ہے، آج پوری قوم ایماندار اور سچی ہے۔ اپنی قوم و ملک کے لیے وہ بہت اچھے ہیں، دوسرے ملک اور دوسری قوم کی میں بات نہیں کروںگا۔ یہ بڑی بات ہے کہ آپ اپنے وطن اور اپنی قوم کے لیے اچھے ہوں، تاکہ ملک و قوم آگے بڑھے۔

ہمارے ہاں ایک عجیب حساب ہے، کوئی اپنے ملک و قوم کے لیے وفادار ہے تو غربت کے چنگل میں پھنس گیا ہے اور جو اس کی پرواہ نہیں کرتا وہ آگے بڑھتا جاتا ہے۔ پاکستان کو برا کہنے والوں کا کیا، وہ سب عیش کررہے ہیں۔

18 اگست 1948 کی بات ہے، لاہور جنکشن اسٹیشن پر ایک بوڑھی عورت جس کی عمر 70 سال تھی، وہ پلیٹ فارم نمبر 11 کے نل پر کھڑی لوگوں کو پانی بھر کر دے رہی تھی اور کہتی جاتی تھی، یہ پاکستان کا پانی ہے، دل کھول کر پیو۔ یہ ستر سالہ بوڑھی عورت پورے خاندان سے لاوارث ہوچکی تھی، اس کا کوئی وارث نہیں بچا، سارے ریل گاڑی میں ماردیے گئے، یہ لاش کے نیچے دبی ہوئی بچ گئی، لیکن اس کے حوصلے کی داد دینی چاہیے، سب کچھ کھو کر نل کے پاس کھڑی لوگوں کو پانی بھر کر دے رہی تھی۔

اس کو یہ فکر نہیں، اب کہاں رہے گی، کہاں کھائے گی، کون اس کو رکھے گا؟ ایک آنسو اس کی چشم میں نظر نہ آیا۔ ستر سالہ بوڑھی خاتون کی ہمت آج کل سترہ سالہ جوان میں نہ ہوگی۔ کم از کم پاکستان کو برا کہنے والے اس بوڑھی عورت کی ہمت کو سمجھ لیتے، ان شہدا کو جان لیتے جنھوں نے پاکستان کے لیے لاکھوں کی تعداد میں شہادتیں دیں، ان لوگوں کو جان جاتے جو سارا مال اسباب، سونا وجواہرات چھوڑ کر پاکستان آئے اور یہاں آج تک ان کی نسل بے بسی، غربت کی زندگی گزار رہی ہے۔ ایک صاحب نے بڑی پیاری بات کہی، وہاں جو امیر تھے وہ یہاں غریب ہوگئے اور جو غریب تھے وہ امیر ہوگئے۔ بات کچھ صحیح ہے، اس طرح کے جو صاحب حیثیت تھے ان کا ایک وقار تھا، جس کی وجہ سے وہ پاکستان آکر کسی کے مکان یا فیکٹری، زمین، جائیداد پر قبضہ نہ کرسکے۔ جو جاہل لفنگے لوگ تھے انھوں نے آتے ہی ہندوئوں کے خالی مکانوں، فلیٹوں، فیکٹریوں پر قبضے کیے۔

شریف النفس لوگ تو ویسے بھی کسی کی جائیداد میں نہیں بیٹھے، لیکن کوئی ایک آدھ اپنے بچوں کو دیکھ کر کسی مکان میں بیٹھ گیا تو اس کے ساتھ ایسا سلوک ہوا۔ جن لوگوں نے جھگیاں ڈالیں حکومت نے ان کو رہائش دی، اس وقت غریب حکومت کی بڑی عنایت تھی، جن آفس میں پیپرپن کی جگہ ببول کے کانٹے استعمال ہوں تو یہ موازنہ کرنا مشکل نہیں اس وقت لوگوں نے اس ملک پر کس قدر پرخلوص انداز سے محنت کی۔ کئی ماہ کی تنخواہ کے بغیر دفاتر میں کام کرنا یہ کتنی بڑی بات ہے۔ ایک ڈاک لفافہ چار پانچ دفعہ استعمال کرتے، ایڈریس کی جگہ سادہ کاغذ لگاکر نیا ایڈریس تحریر کرتے، ٹکٹ لگاکر پوسٹ کرتے تھے۔ ان باتوں سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے بڑوں نے شہادت کے علاوہ جو حیات تھے انھوں نے بھی محنت کی، جب جاکر آج ہم اس قابل ہیں۔ اب ہم پاکستان کو برا کہیں بڑے شرم کی بات ہے۔

مجھے تو وہ ستر سالہ بوڑھی عورت یاد آتی ہے، آنکھیں اشک بار ہوجاتی ہیں۔ افسوس ہم نے کچھ نہ سوچا، لوٹ مار، کمیشن خوری، رشوت ستانی میں لگے رہے، ان تمام حالات وواقعات کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ شاید آنے والا وقت اس سے خراب ہو، اس لیے کہ ہم آقائوں کے حکم پر چلتے ہیں اور وہ آقا کبھی اپنے ملک سے آگے یا برابر نہیں آنے دیںگے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں