سانحہ پشاور دوسال بعد ہم کہاں ہیں
دسمبرکا مہینہ پاکستان کے لیے دکھ، صدمے، اذیت،کرب اورتاسف کا استعارہ بن گیا ہے
دسمبرکا مہینہ پاکستان کے لیے دکھ، صدمے، اذیت،کرب اورتاسف کا استعارہ بن گیا ہے۔ یہی دسمبر تھا جس کی 16تاریخ کو دنیا کی سب سے بڑی مسلم ریاست نے بھارت کے سامنے سقوط مشرقی پاکستان کی شرمناک دستاویز پر دستخط کیے۔اس دن مشرقی پاکستان ہم سے جدا ہوا، اس سانحے کے 43 سال بعد 16دسمبر ہی کے دن ایک اور بڑا المیہ پیش آیا، دہشتگردوں نے پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں خون کی ہولی کھیلی، 150 معصوم پھولوں کو چند لمحوں میں مسل دیا، یہ پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا کی تاریخ کا بہت بڑا المیہ تھا جب چند لمحوں کے اندر ہنستے مسکراتے بچوں کے سینے چھلنی کردیے گئے، پوری قوم لرز کر رہ گئی۔آرمی پبلک اسکول پشاور میں درندگی کا جو بدترین نمونہ پیش کیا گیا، اس کی تلخ یادیں آج بھی ہر ایک کے دل پر نقش ہیں، سچ یہ ہے کہ یہ زخم برسوں ہرا رہے گا، معصوم پھولوں کو جس بے دردی سے نشانہ بنایاگیا اس کا تصور کرکے ہر ذی شعور کا دل کانپ اٹھتا ہے۔
وطن عزیز پر گزرنے والی لرزہ خیز قیامت کو پورے دو سال گزرنے کو ہے مگر ایسا لگتا ہے کہ کل کی بات ہے، وہ پھول جنھیں دشمن نے اس قوم کے حوصلے پست کرنے کے لیے روندنے کی کوشش کی ان کی خوشبو آج بھی پرعزم قوم کی صورت میں وطن عزیزکی فضاؤں کو مہکا رہی ہے، مگر یہ بھی سچ ہے کہ پشاورکی غمزدہ ماؤں کے دلوں کو سولہ دسمبر نے آکٹوپس کی طرح جکڑا ہوا ہے، انھیں اس قیامت خیز دن کا پل پل یاد ہے، پشاور کی غمزدہ مائیں آج بھی ان اذیت ناک یادوں کے زندان میں قید ہیں۔ ہم میں سے کوئی بھی ان حرماں نصیب ماؤں کے کرب کو نہیں سمجھ سکتا، وہ مائیں آج بھی کتنی اداس ہوں گی،کسی نے اپنے بچے کا یونیفارم سنبھال کر رکھا ہوگا توکسی نے کتابیں،کسی ماں کو اپنے بچے کے کتابوں والے بیگ میں اس کی لپٹی یادیں نظر آتی ہوں گی تو کسی ماں کے سامنے اپنے بچے کے پڑے ہوئے جوتے اپنے لخت جگر کی بھاگ دوڑ اور چلنا یاد دلاتی ہوگی۔
تو کبھی جوتوں کے الجھے تسموں کو کھولتے ہوئے اس کو ڈانٹنا یاد آتا ہوگا،کبھی کیچڑ میں لتھڑے جوتوں اورکپڑوں کو دیکھ کر اپنے معصوموں کو ڈانٹنے کے الفاظ یاد آتے ہوں گے، بچوں کی مرضی کی شاپنگ کرنے کی ضد دلوں میں طوفان بپا کرتی ہوگی توکبھی رات کو سوتے ہوئے اترے ہوئے کمبل یا لحاف کو پیار سے اوڑھانا دلوں کو پسیج دیتا ہوگا۔کبھی پیار سے ماں کے گلے میں بانہوں کو ہار بناکر لپٹ جانے کے حسرت بھرے لمحات یاد آتے ہونگے ماں باپ کے لیے یہ ساری یادیں کتنی اذیت ناک ہونگی ہم تصور بھی نہیں کرسکتے۔ کیسی قیامت کی گھڑی تھی۔
یہ وہ قیامت تھی، جس نے قوم کے رویوں اور سوچ کوبدل ڈالا، وہ لوگ جو دہشتگردی کی جنگ میں واضح نقطہ نظر نہیں رکھتے تھے بچوں کے بہیمانہ قتل پر سوچ بدلنے پر مجبورہوگئے تھے۔ اس ہولناک سانحے نے اندر اور باہر بہت کچھ بدل ڈالا تھا، نیشنل ایکشن پلان کو ازسرنوتشکیل دیا گیا، دنیا نے بھی دیکھا کہ جنرل راحیل شریف نے پشاورکی حرماں نصیب ماؤں سے جوعہد کیا اسے پورا کیا۔
دو سال گزرنے کے بعد یہ جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ آج ہم کہاں کھڑے ہیں ہم نے کیا کیا ہے اور کیا کرنا باقی ہے، 150بچوں نے قربان ہوکر ہمیں ایسا لازوال درس دیا ہے جس کے نتیجے میں ہمیں ادراک ہوا کہ صبح کے امکان کے لیے مضمون بدلنے پڑتے ہیں، نیا درس لینا ہوتا ہے، نئے ورق الٹنے پڑتے ہیں۔
ہر قوم سانحات کا شکار ہوتی ہے، کسی بھی سانحے کے بعد قوم دو میں سے کوئی ایک راستہ اختیار کرتی ہے، پہلا تو یہ کہ سانحے کا سبب بننے والے امور میں کچھ بنیادی تبدیلیاں کرتے ہوئے دوبارہ معمول کی سیاسی زندگی پر گامزن ہوا جائے۔نیم دلی سے کی جانیوالی علامتی تبدیلیوں کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا، ان کے ذریعے دہشتگردی جیسے سفاکانہ واقعات کو روکنا ممکن نہیں۔ دوسرا راستہ قدرے مختلف ہے، اس کے لیے بنیادی ڈھانچے میں تبدیلیاں درکار ہوتی ہیں، ریاست اور معاشرے کے تصورات تبدیل کیے بغیر یہ مقصد حاصل نہیں ہوتا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ معاشرے میں کچھ مثبت پیش رفت ہوئی، لیکن بدقسمتی سے گورننس میں بنیادی انقلابی تبدیلیاں رونما نہ ہوسکیں، فوج اور رینجرز نے تو دن رات ایک کرکے امن قائم کردیا، فوج نے اپنے حصے کا کام کرکے دکھلادیا، اختیارات حاصل کیے تو اختیارات کا پھل قوم کے سامنے طشتری میں سجاکر رکھ دیا۔اس دوران سول حکمرانوں کا فرض تھا کہ وہ عدلیہ کے نظام کو بہتر بناتے، پولیس کو غیرسیاسی بناتے، اگر کہیں ایک قدم آگے بڑھتے تو مجرموں کو سرعام پھانسی پر لٹکانے کا قانون بنادیتے، مگر افسوس کہ ایسا نہ ہوسکا، حکمران خواب خرگوش میں مگن ہیں۔
بے شک سانحہ پشاور کے قاتلوں کو پھانسی پر لٹکادیا گیا مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ابھی تک ہم اس سوچ کو انجام تک نہیں پہنچا سکے ہیں جو ہمارے بچوں کو قتل کرنے کے درپے ہے۔ ابھی تک دہشتگرد، ان کے ہمدرد اور سہولت کار موجود ہیں، معاشرے کے کچھ دھڑے عوام کو دہشتگردی پر پھر ابہام کا شکار کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔
اس لیے یہ سفر ابھی جاری ہے، بہت کچھ کیا جانا باقی ہے۔ یقینا ضرب عضب ہماری بقا کی جنگ ہے لیکن یہ محض عسکری محاذ پر ہی نہیں جیتی جاسکتی اس کے لیے اور جتن بھی کرنے پڑیں گے، نیشنل ایکشن پلان پر بلا کم و کاست اور ایمانداری سے عملدرآمد کرنا پڑے گا۔ مکمل امن کے لیے انصاف کی فوری فراہمی کو یقینی بنانا ہوگا۔ جب تک نظام عدل اتنا موثر نہیں ہوجاتا کہ دہشتگردوں کو بلاخوف و خطر سزائیں سناکر انصاف کرے تب تک مقاصد حاصل نہیں ہوسکتے، اورکیے جانے والے اقدامات کے طویل المدتی اثرات نہیں ہونگے، سب سے اہم یہ ہے کہ ہمیں اپنے تعلیمی نصاب پر نظرثانی کرنے کی ضرورت ہے، جو ہمارے اسکولوں اور مدارس میں پڑھایا جارہا ہے، اگر ہم نے ننھے ذہنوں کو برداشت کی تعلیم نہ دی تو ہماری آنیوالی نسلیں بھی اس سوچ کے ساتھ پروان چڑھے گی جو اس ملک کے مستقبل کے لیے خطرناک ہوگا۔
ایک اور اہم مسئلہ یہ ہے کہ ایک طرف کالعدم تنظیموں کے خلاف کارروائی کی بات کی جاتی ہے تو دوسری طرف یہ بھی سننے آتا ہے کہ کالعدم تنظیموں کے کارندے مختلف ناموں سے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ابھی بھی کہیں نہ کہیں کوتاہی ہورہی ہے جسے دور کرنا ہوگا، ورنہ یہ عناصر گلی محلے کی سیاست کا حصہ بن کر اس معاشرے کے لیے زہر قاتل ثابت ہونگے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ وفاقی وصوبائی حکومتیں خود احتسابی کے عمل سے گزریں، خلوص نیت سے ایسے اقدامات کیے جائیں جس سے انتہا پسندی کی سوچ کو پروان چڑھنے سے روکا جائے، انتہا پسندانہ سوچ کی آبیاری کرنیوالے تعلیمی اداروں و مراکزکے خلاف بلا تفریق کارروائی کی جائے، ملک بھر میں نصاب تعلیم میں اصلاحات کی جائے۔ اس بات کا بھی جائزہ لیا جائے کہ دہشتگردی کے خاتمے کے لیے کہاں کہاں غلطیاں ہوئی ہیں اوران غلطیوں کو درست کیا جائے تب ہی جاکر وطن عزیز کو دہشتگردی کے کینسرکو نجات مل سکے گی اور پھول سے معصوم بچوں کے خون کا قرض ادا ہوگا۔