علاقائی لیڈروں کی مانگ بڑھ گئی

بھارت میں صدر محض ایک آئینی سربراہ ہوتا ہے۔

کلدیپ نائر

بھارت میں صدر محض ایک آئینی سربراہ ہوتا ہے۔ اسے جو اختیار ملتا ہے وہ منتخب پارلیمنٹ اور ریاستی اسمبلیوں سے ملتا ہے۔ اس کے باوجود یہ عہدہ مسابقت کا مرکز بن گیا کیونکہ کانگریس اور بی جے پی دونوں 2014ء میں ہونے والے عام انتخابات سے قبل سیاسی حالات کا جائزہ لینا چاہتی تھیں۔

کانگریس نے ثابت کر دیا ہے کہ اس کی حمایت' اس کے اتحادیوں سمیت' بدستور قائم ہے۔ اس کا امیدوار پرناب مکھرجی' جو سابق وزیر خزانہ ہے، بھارت کا 13واں صدر بن گیا ہے۔ بی جے پی نے شمال مشرقی قبائلی لیڈر پی اے سنگما کو اپنا امیدوار بنایا تھا جسے بمشکل آدھے ووٹ ہی مل سکے۔ تاہم صدارتی انتخاب سے آیندہ پارلیمانی انتخابات کے نتائج کا حتمی اندازہ نہیں لگایا جا سکتا کیونکہ لوک سبھا کے انتخابات کو ابھی 22 مہینے پڑے ہیں۔

یہ درست ہے کہ کانگریس نے 2009ء کے انتخابات کے بعد سے بہت سی نشستیں کھو بھی دیں کیونکہ تب کانگریس نے 207 نشستیں جیت کر اپنے طور پر حکومت تشکیل دی تھی لیکن گزشتہ دو تین سال میں کرپشن کے جو معاملات سامنے آئے ہیں ان سے اس پارٹی کا تاثر خاصا خراب ہوا ہے۔ مزید برآں ملکی معیشت کے تنزل اور روزمرہ زندگی کے اخراجات میں اضافے سے بھی کانگریس کی ساکھ متاثر ہوئی ہے۔

اگر کانگریس معیشت میں بہتری پیدا کر سکے اور اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں کمی کرا سکے تب ممکن ہے لوگ اس کی طرف پھر سے مائل ہو جائیں۔ عوام کی یادداشت خاصی کمزور ہوتی ہے لہٰذا ووٹر اس وقت کے موجودہ حالات سے متاثر ہو جاتے ہیں۔ لیکن پارٹی کی مشینری میں جو خرابیاں پیدا ہو چکی ہیں انھیں درست کرنا آسان نہیں ہو گا۔ اگر منموہن سنگھ حکومت قوم کو کسی سمت کا احساس دلا سکے اور حکمرانی کی خامیاں دور کر سکے تو اس سے کانگریس کو فائدہ ہو سکتا ہے۔

بی جے پی کے لیڈر ایل کے ایڈوانی نے فراخ دلی سے تسلیم کر لیا ہے کہ ان کی پارٹی کو عوام میں مقبولیت حاصل نہیں۔ بی جے پی کے ساتھ مشکل یہ ہے کہ وہ کسی صورتحال پر اپنا ردعمل تو ضرور ظاہر کرتی ہے مگر آگے بڑھ کر بھینسے کو اس کے سینگوں سے نہیں پکڑتی۔ اس پارٹی کی کارکردگی مثبت کی بجائے زیادہ تر منفی ہے۔ یہ حملہ کرنے کے لیے تو ہر دم تیار رہتی ہے مگر زخم کھانے سے ڈرتی ہے۔

غالباً اس کو یہ احساس ہے کہ وہ حکومت کی جگہ نہیں لے سکتی۔ جو لوگ بہت مشکلات میں گھرے ہیں وہ ریلیف چاہتے ہیں۔ ان کو صرف بیان بازی سے مطمئن نہیں کیا جا سکتا یعنی ایسے بیانات سے جن میں یہ تجزیہ کیا جائے کہ غلطی کہاں پر ہوئی بلکہ لوگ حالات میں بہتری کے لیے ٹھوس تجاویز مانگتے ہیں۔ یہ دلیل دینا کہ بی جے پی چونکہ حکومت میں نہیں اس لیے کچھ نہیں کر سکتی ایک فرسودہ بہانہ ہے جس سے رائے دھندگان متاثر نہیں ہو سکتے۔

یہ پارٹی ہمہ وقت آر ایس ایس کے سائے تلے دبی رہتی نظر آتی ہے جو کہ خود بھی اکثر و بیشتر یہ ثابت کرتی رہتی ہے کہ اصل طاقت اسی کے پاس ہے۔ نتنگ گدکری جیسے ڈانواں ڈول شخص کو پارٹی کا سربراہ مقرر کر دینا اور پھر دوسری مدت کے لیے بھی اس پر اصرار کرنا ممکن ہے آر ایس ایس کے چیف موہن بھگوت کی انّا کی تسکین کے لیے تو ضروری ہو مگر پارٹی کے کارکنوں اور اس کے ہمدردوں نے اسے پسند نہیں کیا۔

انھوں نے دراصل اسے ایل کے ایڈوانی کی اہانت سے تعبیر کیا ہے جنہوں نے بی جے پی کو کھرچن سے تعمیر کیا تھا اور چونکہ کانگریس اور بی جے پی دونوں گزرے ہوئے زمانے کی پارٹیاں نظر آتی ہیں جو اپنے چھوٹے موٹے جھگڑوں میں الجھی ہوئی ہیں اور گھٹیا درجے کی سیاست کر رہی ہیں چنانچہ لوک سبھا میں ان کی موجودہ تعداد میں کوئی اضافہ نہیں ہو سکے گا۔ بی جے پی قدرے بہتر کارکردگی دکھا سکتی ہے تاہم اگر اس خبر میں ذرہ بھر بھی سچائی ہے کہ 2014ء کے انتخابات کے لیے گجرات کا وزیر اعلیٰ نریندر مودی بی جے پی کی طرف سے وزارت عظمیٰ کا امیدوار ہو گا تو ایسی کارکردگی ممکن نہ ہو گی۔


صرف اس وجہ سے نہیں کہ مسلمان اس کی مخالفت کریں گے بلکہ اس وجہ سے کہ اگر اس کا وزیر اعظم ایسا شخص ہو جس کے ہاتھ انسانی خون سے لتھڑے ہوں تو بھارت اقوام عالم میں سر اونچا نہیں کر سکے گا۔ مودی میں تو اتنی شرم بھی نہیں کہ مسلمانوں کے قتل عام پر معذرت ہی طلب کر سکے۔ مودی اگر وزارت عظمی کا امیدوار بن گیا تو کوئی بھی سیاسی پارٹی بی جے پی سے تعاون نہیں کرے گی گویا آیندہ انتخابات کے لیے اس پارٹی کو صرف اپنے آپ پر ہی انحصار کرنا پڑے گا جب کہ ایوان پارلیمنٹ بہت وسیع و عریض جگہ ہے جس کو بی جے پی نہیں بھر سکتی۔ نیز اس کی قیادت میں ''نیشنل ڈیمو کریٹک الائنس'' نام سے جو اتحاد قائم ہے وہ بھی منہدم ہو جائے گا۔

بی جے پی کو کسی غلط فہمی میں نہیں رہنا چاہیے۔ مودی کو امید وار بنانے کا مطلب ہے ہندوتوا کا بھونپو پوری قوت سے بجانا اور یہ ایسی بات ہے جو سیکولر بھارت کسی صورت قبول نہیں کر سکتا۔ جہاں تک کانگریس کا تعلق ہے تو اس کے اتحادی سرکاری ہینڈ آئوٹوں کی وجہ سے اس کے ساتھ ہیں۔ یہ ایک راز نہیں ہے کہ ملائم سنگھ کے یو پی (اتر پردیش) اور نتیش کمار کے بہار کو منموہن سنگھ نے بھاری مالیاتی پیکیج دینے کا وعدہ کیا ہوا ہے۔

لیکن سب سے غلط بات سینٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن (سی بی آئی) کو بعض وزرائے اعلیٰ کے خلاف استعمال کرنا ہے جو صدارتی انتخاب میں حکومت کی پالیسی پر عمل نہیں کر رہے تھے۔ ناگالینڈ کے وزیر اعلیٰ کی مثال سب سے زیادہ نمایاں ہے۔

سنگما نے بھی ہارنے کے بعد بعض الزامات عاید کیے ہیں لیکن حکومت یا میڈیا محض اس بنا پر انھیں مسترد نہیں کر سکتا کہ یہ ہارنے والے امیدوار کے دل کی بھڑاس ہے۔ ان الزامات کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل انکوائری ہونی چاہیے۔ سنگما نے یہ بات ریکارڈ پر کہی ہے کہ بہت بھاری اقتصادی پیکیج دیئے گئے ہیں۔ بہار کو 75,000 کروڑ روپے کا پیکیج اور اترپردیش کو27,000 کروڑ روپے کا پیکیج دیا گیا جب کہ مایا وتی' ملائم سنگھ یادیو اور ناگالینڈ کے وزیر اعلیٰ کو دھمکیاں دی گئی ہیں کہ اگر آپ نے ہمارے صدارتی امیدوار کو ووٹ نہ دیا تو آپ کے خلاف جو مقدمات ہیں وہ کھولے جا سکتے ہیں۔

حتٰی کہ کانگریس کی سب سے قدیمی اتحادی نیشنلسٹ کانگریس پارٹی (این سی پی) جس کی سربراہی مرکزی وزیر شردپوار کے پاس ہے وہ اپنی ایک قیمت طلب کرتے پائے گئے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں مہاراشٹرا میں آبپاشی کے سکینڈل کی تحقیقات نہ ہوں۔ گزشتہ عشرے میں ریاست نے 42,500 کروڑ روپے مختلف منصوبوں پر خرچ کئے لیکن زیرکاشت رقبے میں پانچ فیصد تک بھی اضافہ بھی نہیں ہو سکا۔ مزید برآں 75,000 کروڑ روپے ان منصوبوں کی تکمیل کے لیے درکار ہیں، جو پانچ سال سے لے کر تیس سال سے زیر تکمیل ہیں۔

کانگریس نے شرد پوار کو تسلی دینے کی پوری کوشش کی ہے اور منموہن سنگھ حکومت کا اپنے اتحادیوں کو ساتھ رکھنے کے لیے کوششیں کرنا تعجب کی بات بھی نہیں لیکن کانگریس کو یہ احساس نہیں کہ وہ سی بی آئی کی دھمکیوں سے اپنے حامیوں کو کھو رہی ہے اور بی جے پی کے لیے راستہ صاف ہو رہا ہے حالانکہ اپنے اقتدار کے زمانے میں بی جے پی نے بھی اپنے اتحادیوں کو ساتھ رکھنے کی خاطر سی بی آئی کا بھرپور استعمال کیا تھا۔

کانگریس اور بی جے پی کی اس قسم کی حرکات نے علاقائی پارٹیوں کو اپنے اصل قد سے زیادہ بڑا کر دیا ہے اور ان میں بھی اپنی اہمیت کا احساس بڑھ رہا ہے۔ 2014ء کے انتخابات ممکن ہے علاقائی سطح پر ہی لڑے جائیں۔ کانگریس اور بی جے پی دونوں کو علاقائی لیڈروں کی حمایت حاصل کرنا پڑے گی۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ملک میں لیڈروں کی بہت کمی پیدا ہو گئی ہے اور یہ ایک المیہ ہے۔

(ترجمہ: مظہر منہاس)

Recommended Stories

Load Next Story