بارے سڑکوں کا کچھ بیاں ہو جائے

واضح ہو کہ یہاں سڑکوں سے مراد لاہور کی سڑکیں ہیں۔


Intezar Hussain July 26, 2012
[email protected]

بارے سڑکوں کا کچھ بیاں ہو جائے۔ واضح ہو کہ یہاں سڑکوں سے مراد لاہور کی سڑکیں ہیں۔ اور وہی ہو بھی سکتی تھیں کہ ہمارے قدموں کی زد میں تو یہی سڑکیں ہیں۔ مت پوچھو کہ کب سے ع

کب سے ہوں کیا بتائوں جہان خراب میں

کہتے ہیں کہ باہر سے آیا ہوا کوئی مسافر شہر میں بھٹکتا پھر رہا تھا۔ اس نے چلتے چلتے کسی راہگیر سے پوچھا کہ بھائی تم اس شہر کے لگتے ہو۔ میں باہر سے آیا ہوا ہوں۔ مسافر غریب۔ خدارا یہ بتائو کہ یہ سڑک کہاں جاتی ہے۔ اس راہگیر نے جواب دیا کہ اے مسافر اس شہر میں آ کر یہ مت پوچھ کہ یہ سڑک یا وہ سڑک کہاں جاتی ہے۔ اس انداز سے سوچ اور پوچھ کہ تجھے کہاں جانا ہے۔

یہ مشورہ بالخصوص اس گھڑی لاہور کی سڑکوں کے حوالے سے بہت صائب ہے۔ کیونکہ ان دنوں لاہور کی کسی سڑک پر مشکل ہی سے اعتبار کیا جا سکتا ہے۔ راہ بتانے والا تو پرانے حساب سے بتائے گا کہ یہ سڑک یا یہ راستہ کدھر جا رہا ہے اور کہاں جا کر نکلے گا۔ لیکن یہ نشان دہی نو وارد کو بہت مشکل میں پھنسا سکتی ہے۔

کیونکہ اس راہ پر تھوڑا چل کر نو وارد کو پتہ چلے کہ آگے رستہ بند ہے۔ ایک بڑا بورڈ سامنے دکھائی دے کہ تکلیف کے لیے معذرت۔ آگے رستہ بند ہے۔ کیوں بند ہے۔ اس لیے کہ ان دنوں شہر میں نئی تعمیر کا غلغلہ ہے۔ پل بن رہے ہیں۔ سڑکوں کی توسیع کی جا رہی ہے۔ نئے رستے نکالے جا رہے ہیں۔ یہ تو ہوا تعمیری منصوبہ۔ مگر تعمیر اپنے جلو میں بہت سی تخریب لے کر آتی ہے۔ اور اس سے مفر بھی نہیں ہے کیونکہ علامہ اقبال کہہ گئے ہیں کہ ع

ہر نئی تعمیر کو لازم ہے تخریب تمام

تو ابھی شہر تخریب تمام کے مرحلہ میں ہے۔ اور راہ رو مشکل میں ہیں۔ لیجیے اس پر ہمیں اس تقریب سے ایک شعر یاد آ گیا

رہروِ راہِ محبت کا خدا حافظ ہے

اس میں دو چار بہت سخت مقام آتے ہیں

بس یہ سمجھو کہ رہرو راہ محبت پر موقوف نہیں۔ اس وقت لاہور شہر کی سڑکوں کا جو بھی رہرو ہے وہ رہرو راہ محبت ہے۔ جس رستے چلے گا اور مڑ کر جس سڑک پر قدم رکھے گا اسے پتہ چلے گا کہ اگے سخت مقام ہے۔ وہ یہ سوچ کر کہ سڑک یہاں کھدی ہوئی ہے۔ کوئی مضائقہ نہیں۔ کسی نہ کسی طور اس سے گزر لیتے ہیں۔ آگے رستہ ہموار ہو گا۔ مگر آگے چل کر اسے پتہ چلے گا کہ آگے دور تک سڑک کھدی پڑی ہے۔ کھدائی کرنے والے اپنے کام پر جتے ہوئے ہیں۔ آنے جانے والی موٹریں' بسیں' تانگے' ریڑھے' اسکوٹر' سائیکلیں اس طرح ٹھساٹھس ہیں کہ نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن۔ تو اے عزیز' اے مسافر غریب' قدم اپنے گھر یا اپنی قیام گاہ سے باہر نکالنے سے پہلے سوچ لے کہ تجھے کہاں جانا ہے۔ کونسا ایسا رستہ ہے کہ جو پیچ کھاتا ہوا اس طرح طے ہو کہ راہ میں کوئی سخت مقام نہ آئے۔

ہاں ایک ایسا راستہ ہے۔ اور سیدھا راستہ کہ کہیں مڑنا بھی نہیں پڑے گا اور راہ میں سخت مقام بھی نہیں آئے گا۔ اور عجب ہے کہ یہ وہی راستہ ہے جس سے کل تک ہم بہت خوف زدہ تھے۔ کچھ پتہ نہیں ہوتا تھا کہ گزرتے گزرتے کس چوک پر پولیس راستہ روکے کھڑی ہو۔ پتہ چلے کہ آگے رستہ بند ہے۔ کیوں بند ہے۔ اس لیے کہ ایک جلوس نعرہ زنی کرتا چلا آ رہا ہے۔ اسے مارا مار کرتے ہوئے گورنرز ہائوس تک پہنچنا ہے۔ اس سفر میں جو ہو سو ہو۔ اور اگر ہم نے یہ سوچ کر کہ چلو مال روڈ سے اس سڑک پر مڑتے ہیں۔ آگے رستہ صاف ملے گا۔ مگر ایں خیال است و محال است و جنوں۔ مڑنے پر پتہ چلے گا کہ کتنے اس خوش گمانی میں اس راہ مڑے تھے اور اب ٹریفک کے گرداب میں پھنسے کھڑے ہیں۔

مگر اس وقت صورت کیا ہے۔ ہم کینال بینک سے بھنگیوں کی توپ تک کی گارنٹی دیتے ہیں کہ سڑک کی کہیں کھدائی نہیں ہو رہی ہے۔ اور یہ رمضان کا مبارک مہینہ ہے۔ جلسے جلوس موقوف ہیں۔ تو کسی موڑ پر کسی جلوس سے مڈھ بھیڑ نہیں ہو گی۔ نہ وکیلوں کے پر شور مظاہرے سے' نہ لوڈشیڈنگ کی ستائی ہوئی مخلوق کے امنڈتے ہجوم سے' نہ کسی سیاسی پارٹی سے جو اس سڑک پر رک کر اپنی طاقت کا مظاہرہ کر رہی ہو۔

بھنگیوں کی توپ سے آگے کی ہم ضمانت نہیں دیتے۔ آگے چند قدم چل کر جب لوئر مال پر قدم رکھو گے دائیں مڑو یا بائیں اپنے آپ کو مشکل میں پائو گے۔ تعمیر کا کھٹراگ قدم قدم پر رستہ روکے گا۔

ہماری یہ بات سن کر ایک عزیز نے کہا کہ ابھی تم نے وہ جو رہرو راہ محبت کی بات کی تھی بھائی میں تو اسی قسم کا رہرو ہوں مجھے داتا دربار میں حاضری دینی ہے۔

ہم نے کہا کہ اس راہ محبت میں یہاں سے وہاں تک سخت مقام آتے چلے جائیں گے۔ ہمت کو شناوری مبارک جوش عقیدت میں مشکل مرحلوں سے گزر کر دربار میں پہنچو گے تو وہاں ساری کلفت دور ہو جائے گی۔ مگر ایک مخلوق اور ہے جس کی منزل داتا دربار سے آگے ہے۔ قلعہ کے دامن میں سجی ہوئی فوڈ اسٹریٹ۔ وہاں جانے والے چٹوروں کے لیے سوا مشکل ہے۔ گڑھوں کھائیوں سے بچتے بچاتے وہاں پہنچ بھی گئے تو ایک نئی مشکل منہ کھولے کھڑی نظر آئے گی۔

وہ ہے لوڈشیڈنگ۔ روشنی تنک سی۔ پنکھے بند۔ اوپر سے قدرتی ہوا بند۔ ارے آج ہی تو ہم نے خبر پڑھی ہے کہ افطار کے اوقات میں قلعہ کے سائے میں آراستہ فوڈاسٹریٹ پر اوس پڑی ہوئی تھی۔ چٹوروں کی گہما گہمی ندارد' مٹھی بھر گاہک' گنتی کے چند خاندان جہاں تہاں بیٹھے نظر آ رہے تھے۔

انھوں نے تو باہر بچھی میزوں پر اس گرمی میں بیٹھ کر پیٹ بھر لیا مگر فوڈاسٹریٹ کا پیٹ نہیں بھرا۔ اگر یہی لیل و نہار رہے' ایسی ہی گرمی رہی اور اس شان سے لوڈشیڈنگ اپنا رنگ دکھاتی رہی تو اس فوڈاسٹریٹ کا مستقبل بہت شاندار نظر نہیں آ رہا۔ چٹوروں کا کیا ہے۔ وہ اس فوڈاسٹریٹ کو فراموش کر کے کسی دوسری فوڈاسٹریٹ پر جہاں وہ آسانی سے پہنچ سکتے ہیں پہنچ کر اپنے چٹور پن کے تقاضے پورے کر لیں گے۔

ویسے تو شہر میں جو دوسری فوڈاسٹریٹ ہیں ان کے لیے بھی افطار و سحری کے موسم کے باوصف یہ موسم کچھ ایسا ساز گار نہیں ہے۔ یہ تو اوپن ائر فوڈاسٹریٹ ہیں۔ افطار و سحری کی کشش اپنی جگہ۔ مگر ظالم موسم کو تو دیکھو۔ پنکھے کی ہوا کفایت کرتی نظر نہیں آتی۔ اس موسم میں طبیعتیں اے سی مانگتی ہیں۔ اور اگر ساون ٹھکانے سے برس جائے تو پھر دوسری مشکل آن پڑے گی۔ فوڈاسٹریٹ میں تو جل تھل ہو جائیں گے۔

اصل میں فوڈاسٹریٹ کو تو نرم گرم موسم ہی راس آتا ہے۔ مگر رمضان اب کے اس موسم کو گزار کر سخت سڑی گرمی میں آئے ہیں۔ فوڈ اسٹریٹ کی قسمت۔ فوڈ اسٹریٹ کے چٹوروں کی قسمت۔ اور ادھر سڑکیں جو کھدی پڑی ہیں ان کی وجہ سے مشکل در مشکل پیدا ہو گئی۔ مگر کہتے ہیں کہ فوڈاسٹریٹ والے مایوس نہیں ہیں۔ وہ کچھ اس طرح سوچ رہے ہیں کہ روزوں کو ذرا زور پکڑنے دو۔ افطاری کے رسیا کب تک اپنے آپ کو روکیں گے۔ غذائوں کے ان کوچوں میں وہ آوے ہی آویں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں